https://youtu.be/YmWYAekYJM8 ’’اگر شریعت کا یہی مطلب ہوتا کہ ہاتھ پیر دھونے سے گناہ دور ہوجاتے ہیں تو یہ پاک شریعت ان تمام پلید قوموں کو جو اسلام سے سرکش ہیں ہاتھ منہ دھونے کے وقت گناہ سے پاک جانتے کیونکہ وضو سے گناہ دور ہوجاتے ہیں۔مگر شارع علیہ السلام کا یہ مطلب نہیں بلکہ یہ مطلب ہے کہ خدا تعالیٰ کے چھوٹے چھوٹے حکم بھی ضائع نہیں جاتے اور ان کے بجالانے سے بھی گناہ دور ہوتے ہیں‘‘(حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام) ہمارے آقا ومولا نبی کریم ﷺ ایک ایسی قوم کی طرف مبعوث فرمائے گئے جو تمدن کے نہایت ادنیٰ درجہ میں زندگی بسر کر رہی تھی۔ قرآن کریم نے اُن کی حالت کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرمایاہے:اَمۡ تَحۡسَبُ اَنَّ اَکۡثَرَہُمۡ یَسۡمَعُوۡنَ اَوۡ یَعۡقِلُوۡنَ ؕ اِنۡ ہُمۡ اِلَّا کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ سَبِیۡلًا۔ (الفرقان:۴۵) کیا تُو گمان کرتا ہے کہ ان میں سے اکثر سنتے ہیں یا عقل رکھتے ہیں؟ وہ نہیں ہیں مگر مویشیوں کی طرح بلکہ وہ (اُن سے بھی) زیادہ راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے حیوانوں کے لیے جو طریق مقرر کیا ہے وہ تو اُس پر چل رہے ہیں لیکن یہ لوگ اپنی طبعی اور فطری راہ سے بہت دُور جا پڑے ہیں۔ نبی کریمﷺنےتشریف لاکر نہ صرف اُن کی ابتدائی حالتوں کی اصلاح فرمائی بلکہ اپنے عملی نمونے سے انہیں زندگی کے تمام آداب سکھلائے۔آپؐ نے اُن کی طبیعتوں میں موجودکج رَوی دُورکی اورانہیں اعلیٰ اخلاق پر فائز کردیا۔ یہاں تک کہ وہ باخدا انسان بن گئے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایاہے: اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ وَیُحِبُّ الۡمُتَطَہِّرِیۡنَ۔(البقرہ:۲۲۳) یقیناً اللہ کثرت سے توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور پاک صاف رہنے والوں سے (بھی) محبت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وضو کی برکت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ مَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیَجۡعَلَ عَلَیۡکُمۡ مِّنۡ حَرَجٍ وَّلٰکِنۡ یُّرِیۡدُ لِیُطَہِّرَکُمۡ وَلِیُتِمَّ نِعۡمَتَہٗ عَلَیۡکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ۔(المائدہ:۷) اللہ نہیں چاہتا کہ تم پر کوئی تنگی ڈالے لیکن چاہتا ہے کہ تمہیں بہت پاک کرے اور تم پر اپنی نعمت تمام کرے تاکہ تم شکر کیا کرو۔ وضو میں یہ حکمت پنہاں ہے کہ اسلام کے ماننے والے اس ظاہری عمل سے سبق سیکھیں اور اپنا ظاہر وباطن ہر قسم کی آلائشوں سے پاک رکھنے کی کوشش کرتے رہیں۔ وہ اپنے جسم و لباس کے علاوہ اپنے قلب و روح کی پاکیزگی کے لیے اپنے ارادوں اورخیالات کو بھی پاک رکھیں تا اُنہیں خدائے قدوس کی لقاء نصیب ہو۔ یہی وہ اعلیٰ مقصد ہے جس کے حصول کے لیے آنحضرت ﷺ کو اس دنیا میں بھیجا گیا۔ پس طہارت و پاکیزگی اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہے،جسے ایمان کا حصہ قرار دیا گیاہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:الطُّھُورُ شَطْرُ الْاِیمَانِ(صحیح مسلم کِتَابُ الطَّھَارَۃ بَاب فَضْلِ الْوُضُوءِ حدیث:۳۲۰) صفائی (وپاکیزگی) نصف ایمان ہے۔آنحضرت ﷺ نے یہ بھی فرمایا: مِفْتَاحُ الصَّلَاۃِ الطَّھُوْرُ وَ تَحْرِیْمُھَا التَّکْبِیْرُ، وَتَحْلِیْلُھَا التَّسْلِیْمُ (الجامع الکبیر للتزمذی أبواب الطھارۃ باب مَا جَاءَ أَنْ مِفْتَاحَ الصَّلَاۃِالطُھُوْرُ حدیث:۳) نماز کی چابی وضو ہے، اس کی تحریم تکبیر ہے اور اس کی تحلیل سلام ہے۔ایک اَور روایت میں ہے: مِفْتَاحُ الْجَنَّۃِ الصَّلَاۃُ، وَمِفْتَاحُ الصَّلَاۃِ الطَّھُوْرُ (الجامع الکبیر للتزمذی أبواب الطھارۃ باب مَا جَاءَ أَنْ مِفْتَاحَ الصَّلَاۃِالطُھُوْرُ حدیث:۴) جنت کی چابی نماز ہے اور نماز کی چابی وضو ہے۔ ہماراخدا قدوس ہے جو تمام محامد کا منبع، تمام رذائل سے منزہ اور تمام عیوب سے پاک بزرگ وبرتر ہستی ہے۔مسلمانوں کے رسولﷺ طاہر ومطہر، مکارم اخلاق کی تکمیل کرنے والے اور دنیا کو ہر گنداور تمام نجاستوں سے پاک کرنے کے لیے مبعوث ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کی کتاب قرآن کریم صحیفہ مکرمہ مطہرہ ہے جس کے اعلیٰ درجہ کے مضامین تک رسائی کے لیے جسمانی او رروحانی پاکیزگی لازمی شرط ہے۔اسلام نے ہمیں حلال اور طیب کھانوں کی تلقین کی ہے تاکہ اُن کی پاکیزہ تاثیرات سے ہماری سوچیں اور ہماری روح پاک ہو۔ ہماری اہم ترین عبادت کا آغاز طہارت اور وضو سے ہوتا ہے تاکہ ہم پاک جسم، پاک سوچوں اور پاک ارادوں کے ساتھ اپنے ربّ کے حضور حاضر ہوں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام پاکیزگی کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’پاکیزگی سے یہ مراد ہے کہ انسان کو جو اس کے جذباتِ نفسانیہ خدا تعالیٰ سے رُو گرداں کرکے اپنی خواہشات میں محو کرنا چاہتے ہیں ان کا مغلوب نہ ہو۔ اور کوشش کرے کہ خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق اس کی رفتار ہو۔ یہاں تک کہ اس کا کوئی قول فعل خدا تعالیٰ کی رضا مندی کے بغیر سرزد نہ ہو۔ خدا تعالیٰ قدّوس اور پاک ہے وہ اپنی صفات کے مطابق ہی انسان کو بھی چلانا چاہتا ہے۔ ‘‘(ملفوظات جلد ۱۰ صفحہ ۳۷۹، ۳۸۰۔ ایڈیشن ۲۰۲۲ء) سو جاننا چاہیے کہ انسان کی ظاہری حالتیں اُس کی اخلاقی اور روحانی حالتوں کے ساتھ خاص تعلق رکھتی ہیں اور وہ اُس کی باطنی حالتوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ہر طرح کی طہارت او رپاکیزگی پر بہت زور دیا ہے۔ نمازاوّل وآخر روحانی عبادت ہےجو سب عبادتوں سے بڑھ کر ہے۔ اس کی ادائیگی سے پہلے طہارت اوروضو کا حکم اس لیے دیا گیاہے تاکہ نماز پڑھنے والا جسمانی اور ذہنی آلائشوں سے پاک ہوکر خدائے بزرگ وبرتر کے حضور حاضرہو۔پس اس ظاہری پاکیزگی کے ذریعہ اُس کی طبیعت میں انبساط اور تازگی برقراررہےگی اور وہ پوری توجہ اور انہماک کے ساتھ یہ اہم عبادت اداکرسکےگا۔ اور خدا تعالیٰ ہی اُس کی سوچوں کا مرکزومحور بنا رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے: یٰۤاَیُّہَا الۡمُدَّثِّرُ۔ قُمۡ فَاَنۡذِرۡ۔ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ۔ وَثِیَابَکَ فَطَہِّرۡ۔ وَالرُّجۡزَ فَاہۡجُرۡ۔ (المدثر:۲تا۶) اے کپڑا اوڑھنے والے!اُٹھ کھڑا ہو اور انتباہ کر۔اور اپنے ربّ ہی کی بڑائی بیان کر۔اور جہاں تک تیرے کپڑوں (یعنی قریبی ساتھیوں ) کا تعلق ہے تُو (انہیں ) بہت پاک کر۔ اور جہاں تک ناپاکی کا تعلق ہے تو اس سے کلیّۃً الگ رہ۔ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں: ’’قرآن کریم میں جو آیاہے وَالرُّجۡزَ فَاہۡجُرۡ (المدّثر:۶) کہ ہرایک قسم کی پلیدی سے پرہیز کرو۔ ہجر دُور چلے جانے کو کہتے ہیں۔ جس سے یہ معلوم ہوا کہ روحانی پاکیزگی چاہنے والوں کے لیے ظاہری پاکیزگی اور صفائی بھی ضروری ہے۔ کیونکہ ایک قوت کا اثر دوسری پر اور ایک پہلو کا اثر دوسرے پر ہوتا ہے۔ انسان کی دو حالتیں ہوتی ہیں۔ جو شخص باطنی طہارت پر قائم ہونا چاہتا ہے وہ ظاہری پاکیزگی کا بھی لحاظ رکھے۔ پھر ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہےاِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْنَ۔ (البقرۃ:۲۲۳) یعنی جو لوگ باطنی اور ظاہری پاکیزگی کے طالب ہیں۔ میں اُن کو دوست رکھتا ہوں۔ظاہری پاکیزگی باطنی طہارت کی ممدّ اور معاون ہے۔…پس یاد رکھو کہ ظاہری پاکیزگی اندرونی پاکیزگی کو مُستلزم ہے۔‘‘(ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۲۳۰، ۲۳۱۔ ایڈیشن ۲۰۲۲ء) حقیقت یہ ہے کہ اگر انسان کی اندرونی غلاظتیں اُس کے جسم سے خارج ہوتی رہیں تو اُس کا جسم صحت مند اور توانا رہتا ہے۔ بالکل اسی طرح اُس کی نفسانی کمزوریاں اورروحانی بیماریاں اُس سے دُور ہوتی رہیں تو وہ روحانیت کے مدارج طے کرتا رہتاہے۔پس جب تک اُس کی نفسانی کمزوریاں اور اندورنی غلاظتیں مکمل طور پر دُور نہیں ہوں گی، اُس وقت تک وہ روحانیت سے کا اعلیٰ مقام حاصل نہیں کرسکتا۔چونکہ نماز کا تعلق عالم روحانیت ہے اور اس کے ذریعہ روحانیت کے اعلیٰ مدارج تک رسائی ممکن ہے۔اس لیے نماز کی قبولیت کے لیے طہارت ضروری شرط رکھی گئی ہے گویا وضو روحانیت کے سفر کی چابی ہے جس سے اس سفر کا آغاز ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں وضو کی پسندیدگی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اہل جنت بھی وضو کے ذریعہ پاکیزگی اختیار کرتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار ہم نبیﷺ کے پاس تھے۔ آپؐ نے فرمایا: میں سویا ہوا تھا کہ میں نے اپنے آپ کو جنت میں دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک عورت ایک محل کے پاس وضو کررہی ہے۔ میں نے پوچھا: یہ محل کس کا ہے ؟ لوگوں نے کہا:عمر بن خطابؓ کا۔ ان کی غیرت کا مجھے خیال آیا تو میں پیٹھ موڑ کر واپس چلا آیا۔ یہ سن کر حضرت عمر ؓ روئے اور کہا: یارسول اللہ ! کیا میں آپؐ سے غیرت کروں گا۔ (صحیح البخاری کتاب بدء الخلق بَاب مَا جَاءَ فِی صِفَۃِ الْجَنَّۃِ وَأَنَّھَا مَخْلُوْقَۃٌ حدیث:۳۲۴۲) وضو کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ جبریل علیہ السلام نے رسولِ امینﷺ کو اس کا طریق سکھایا ہے۔ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:عَلَّمَنِی جِبْرَائِیلُ الْوُضُوءَ (سنن ابن ماجہ کتاب الطھارۃ وسننھا بَاب مَاجَاءَ فِی النَّضْحِ بَعْدَ الْوُضُوعِ حدیث:۴۶۲) مجھے جبریلؑ نے وضو سکھایا۔ سیرت ابن ہشام میں لکھا ہے کہ ابتدائی وحی کے نزول کے بعد جبریل علیہ السلام نے نبی کریم ﷺ کو وضو کرکے دکھایا اور اس کا طریق سکھاکر آپ کو نماز پڑھائی۔ آنحضرتﷺ نے حضرت خدیجہؓ کو وضو کا طریق سکھایا اور نماز پڑھائی جس طرح جبریلؑ نے آپ کو سکھایا تھا۔ (سیرت ابن ہشام جلد ۱صفحہ ۲۶۰ ،۲۶۱مطبوعہ مصر) وضو کے لیے پانی تلاش کرنا: حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا اور اس وقت عصر کی نماز کا وقت ہوچکا تھا اور لوگ وضو کا پانی تلاش کرنے لگے مگر نہ پایا۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ پانی لایا گیا۔ رسول اللہﷺ نے اس برتن میں اپنا ہاتھ ڈالا اور لوگوں سے فرمایا کہ اس سے وضو کریں۔ (حضرت انسؓ) کہتے تھے کہ میں نے پانی کو دیکھا کہ وہ آپ کی انگلیوں کے نیچے سے پھوٹ رہا ہے۔ یہاں تک کہ سب نے وضو کرلیا۔ (صحیح البخاری کِتَابُ الْوُضُوءِ بَاب اِلْتِمَاسُ الْوَضُوْءِ اِذَا حَانَتِ الصَّلَاۃُ حدیث:۱۶۹) اس حدیث میں بھی وضو کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ محض پانی کے پاس نہ ہونے پر تیمّم جائز نہیں ہوجاتا بلکہ پہلے پانی تلاش کرنا چاہیے۔ اگر باوجود تلاش کےپانی نہ ملے تو پھر تیمّم جائز ہوگا۔گویا اصل مقصد جسم کا دھونا اور اس کا صاف کرنا ہے۔ اگر کسی وجہ سے پانی نہ ملے تو تیمّم کی اجازت مجبوری کی حالت ہے۔ مومن وضو کی حفاظت کرتا ہے: حضرت ثوبانؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ مبارک ہے:وَاعْلَمُوْا اَنَّ خَیْرَ دِیْنِکُمُ الصَّلٰوۃُ، وَلَا یُحَافِظُ عَلٰی الْوُضُوءِ اِلَّا مُؤْمِنٌ (المستدرک علی الصحیحین کِتَابُ الطَّھَارَۃِ حدیث:۴۴۶) تمہارے دین میں سب سے بہترین عمل نماز ہے اور وضو کی حفاظت صرف مومن ہی کرتا ہے۔ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا، واعْلَمُوا أَنَّ خَیْرَ أَعْمَالِکُمُ الصَّلَاۃُ، وَلَا یُحَافِظُ عَلَی الْوُضُوْءِ اِلَّا مُؤْمِنٌ (صَحِیْحُ ابْن حَبَّان کِتَابُ الطَّھَارَۃِ، ذِکْرُ اِثْبَاتِ الْاِیْمَانِ لِلْمُحَافِظِ عَلَی الْوُضُوْءِ حدیث:۱۰۳۷) رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے: تم میری پیروی کرو اور میانہ روی اختیار کرو۔ اور جان لو کہ تمہارے اعمال میں سب سے بہتر نماز ہے اور وضو کی حفاظت صرف مومن ہی کرتا ہے۔آنحضرت ﷺ کا ایک اور ارشادِ مبارک ہے: لَا یقبلُ اللّٰہُ صَلَاۃً بِغَیْرِ طُہورٍ، وَلَا صَدَقَۃً مِنْ غُلول، وَاَبدأ بمن تعولُ (کَنْزُالْعُمّال کتاب الطہارۃ باب فی فضل الطھارۃ مطلقًا حدیث:۲۶۰۱۱) اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر نماز قبول نہیں کرتا، خیانت سے حاصل ہونے والے مال سے صدقہ قبول نہیں کرتا،اس کی ابتدااپنے عیال سے کرو۔ وضو کی برکات روشن پیشانیوں والے: حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میری اُمت کی پیشانیاں وضو کے آثار سے چمکتی ہوں گی اور ہاتھ پاؤں روشن ہوں گے جبکہ لوگ قیامت کے دن بلائے جائیں گے۔ پس تم میں سے جو بھی اپنی روشنی بڑھا سکے تو چاہیے کہ وہ بڑھائے۔ (صحیح البخاری کِتَابُ الْوُضُوءِ بَاب فَضْلُ الْوُضُوْءِ حدیث:۱۳۶) یعنی قیامت کے روز وضو کی برکت سے اُن میں ایک نور پیدا ہوگا جوانہیں دوسری تمام اُمتوں سے ممتاز کردے گا۔پس جو انسان جتنا باوضو رہے گا قیامت کے روز اُسے اسی قدر اس نور سے حصہ ملے گا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یقیناً میرا حوض ایلہ سے عدن کے فاصلہ سے بھی زیادہ بڑا ہے۔ وہ برف سے زیادہ سفید اور شہد سے جو دودھ میں ہو زیادہ میٹھا ہے اور اس کے برتن ستاروں کی تعداد سے زیادہ ہیں اور میں لوگوں کو اس سے اس طرح روکوں گا جس طرح کوئی شخص (دوسرے ) لوگوں کے اونٹوں کو اپنے حوض سے روکتا ہے۔انہوں نے عرض کیا یارسول اللہؐ! کیا اس روز آپؐ ہمیں پہچان لیں گے ؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں تمہاری ایک نشانی ہوگی جو کسی اور امت کی نہیں ہوگی تم میرے پاس اس حال میں آؤ گے کہ وضو کے اثر سے چہرہ اور ہاتھ پاؤں چمک رہے ہوں گے۔ (صحیح مسلم کِتَابُ الطَّھَارَۃ بَاب اسْتِحْبَابِ اِطَالَۃِ الْغُرَّۃِ وَالتَّحْجِیْلِ فِی الْوُضُوءِ حدیث:۳۵۶) گناہوں سے نجات کا ذریعہ: حضرت عثمان ؓ کے آزاد کردہ غلام حُمران سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عثمانؓ کو دیکھا انہوں نے ایک برتن منگوایا پھر اپنے دونوں ہاتھوں پر تین بار پانی ڈالا اور انہیں دھویا پھر اپنا دایاں ہاتھ برتن میں ڈالا اور کلی کی، ناک میں پانی ڈال کر صاف کیا پھر اپنا چہرہ تین بار دھویا اور اپنے دونوں ہاتھ کہنیوں تک تین بار دھوئے پھر اپنے سر کا مسح کیا پھر اپنے دونوں پاؤں تین بار دھوئے پھر انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے میرے اس وضو کی طرح وضو کیا پھر دو رکعتیں ادا کیں اور ان میں اپنے آپ سے کوئی بات نہ کی۔ اس کے پہلے تمام گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ (صحیح مسلم کِتَابُ الطَّھَارَۃ بَاب صِفَۃِ الْوُضُوءِ وَکَمَالِہِ حدیث:۳۲۴) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتاؤں جس کے ذریعہ اللہ گناہ مٹاتااور درجات بلند کرتا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کیوں نہیں یارسول اللہؐ! آپؐ نے فرمایا: تمام قسم کی ناپسندیدگیوں کے باوجود پورا وضو کرنا اور مساجد کی طرف زیادہ قدم اٹھانا اور نماز کے بعد نماز کا انتظار کرنا۔ پس یہی رباط ہے۔ (صحیح مسلم کِتَابُ الطَّھَارَۃ بَاب فَضْلِ اِسْبَاغِ الْوُضُوءِعَلَی الْمَکَارِہِ حدیث:۳۶۱) رباط سے یہ مراد ہے کہ مومنوں کا ایک دوسرے سے، امام سے اور اللہ تعالیٰ سے گہرا رابطہ ہے۔ حُمران سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ جب حضرت عثمان ؓنے وضو کیا تو فرمایا: اللہ کی قسم میں تمہیں ایک حدیث سنانے لگا ہوں بخدا! اگر اللہ کی کتاب میں ایک آیت نہ ہوتی تو میں یہ تمہیں کبھی نہ سناتا۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو آدمی وضو کرتا ہے اور اچھی طرح وضو کرتا ہے پھر نماز پڑھتا ہے تو اس نماز اور اس سے بعد کی نماز کے درمیان والے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔(صحیح مسلم کِتَابُ الطَّھَارَۃ بَاب فَضْلِ الْوُضُوءِ وَالصَّلَاۃِ عَقِبَہُ حدیث:۳۲۶) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی مسلمان یا مومن بندہ وضو کرتا ہے اور اپنا چہرہ دھوتا ہے تو اس کے چہرہ سے ہر وہ خطا پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرہ کے ساتھ نکل جاتی ہے جو اس نے اپنی آنکھوں سے کی ہوتی ہے اور جب وہ اپنے ہاتھ دھوتا ہے تو وہ ساری خطائیں جو اس نے اپنے ہاتھوں سے کی تھیں پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرہ کے ساتھ نکل جاتی ہیں اور جب وہ اپنے پاؤں دھوتا ہے تو پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرہ کے ساتھ وہ ساری خطائیں نکل جاتی ہیں جن کی طرف اس کے پاؤں چل کر گئے تھے یہاں تک کہ وہ گناہوں سے پاک صاف ہوکر نکلتا ہے۔ (صحیح مسلم کِتَابُ الطَّھَارَۃ بَاب خُرُوجِ الْخَطَایَا مَعَ مَاءِ الْوُضُوءِ حدیث:۳۵۲) ہر قدم پر ثواب: حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: باجماعت نماز پچیس درجے بڑھ کر ہے اس کی اُس نماز سے جو وہ اپنے گھر میں پڑھے اور اُس نماز سے جو بازار میں پڑھے۔ کیونکہ تم میں سے اگر کوئی جب وضو کرے اور اچھی طرح کرے اور مسجد میں آئے صرف نماز کا ہی ارادہ رکھتا ہوتو جو قدم بھی وہ اُٹھائے گا اللہ اس کی وجہ سے اس کا ایک ایک درجہ بلند کرتا اور اس کا ایک ایک گناہ اُتارتاجائے گا۔یہاں تک کہ وہ مسجد میں داخل ہو اور جب مسجد کے اندر آجائے تو وہ نماز میں ہوگا جب تک کہ نماز اُسے روکے رکھے اور جب تک وہ اپنی اس بیٹھنے کی جگہ میں رہے جس میں کہ وہ نماز پڑھتا ہے تو ملائکہ اُس کے لیے دعائیں کرتے ہیں کہ اے اللہ ! اسے بخش دے۔ اے اللہ ! اس پر رحم کر۔ بشرطیکہ وہ مسجد میں تکلیف نہ دے (یعنی) بے وضو نہ ہوجائے۔ (صحیح البخاری کتاب الصلوٰۃ بَاب اَلصَّلَاۃُ فِی مَسْجِدِ السُّوْقِ حدیث:۴۷۷) باوضو ہوتے ہوئے وضو کرنا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: مَنْ تَوَضَّأَ عَلَی طُھْرٍ کَتَبَ اللّٰہُ لَہُ عَشْرُ حَسَنَاتٍ (ابوداؤد کتاب الطھارۃ باب الرَّجُلِ یُجَدِّدُ الْوُضُوءَ مِنْ غَیْرِ حَدَثٍ) جس شخص نے باوضو ہوتے ہوئے بھی وضو کیا اُس کے لیے دس نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں۔ حضرت ابومالک اشعریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اِسْبَاغُ الوُضُوءِ شَطْرُ الْاِیْمَانِ (ابن ماجہ کتاب الطھارۃ وسنتھا بَاب الْوُضُوءُ شَطْرُ الْاِیْمَانِ) وضو پورے طور پر کرنا نصف ایمان ہے۔ خداتعالیٰ کے چھوٹے چھوٹے حکم بھی ضائع نہیں ہوتے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ایک عیسائی کے اعتراض کے جواب میں فرماتے ہیں: ’’اور آپ کا یہ کہنا کہ وضو کرنے سے گناہ کیونکر دور ہوسکتے ہیں۔ اے نادان !الہٰی نوشتوں پر کیوں غور نہیں کرتا۔…اگر شریعت کا یہی مطلب ہوتا کہ ہاتھ پیر دھونے سے گناہ دُور ہوجاتے ہیں تو یہ پاک شریعت ان تمام پلید قوموں کو جو اسلام سے سرکش ہیں ہاتھ منہ دھونے کے وقت گناہ سے پاک جانتے کیونکہ وضو سے گناہ دور ہوجاتے ہیں۔مگر شارع علیہ السلام کا یہ مطلب نہیں بلکہ یہ مطلب ہے کہ خدا تعالیٰ کے چھوٹے چھوٹے حکم بھی ضائع نہیں جاتے اور ان کے بجالانے سے بھی گناہ دور ہوتے ہیں۔‘‘(نورالقرآن نمبر۲۔ روحانی خزائن جلد ۹صفحہ ۴۲۰) با وضو سونے کی فضیلت اور بابرکت دعا: نبی ﷺ نے فرمایا ہے: جب تم اپنے بستر پر آؤ تو تم اسی طرح وضو کرو جس طرح کہ تم اپنی نماز کے لیے وضو کرتے ہو۔ پھر اپنے داہنے کروٹ پر لیٹو اور پھر یوں دعا کرو۔ اللّٰھُمَّ أَسْلَمْتُ وَجْھِی اِلَیْکَ وَفَوَّضْتُ أَمْرِیْ اِلَیْکَ وَأَلْجَأْتُ ظَھْرِیْ اِلَیْکَ رَغْبَۃً وَّ رَھْبَۃً اِلَیْکَ لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَا مِنْکَ اِلَّا اِلَیْکَ اللّٰھُمَّ آمَنْتُ بِکِتَابِکَ الَّذِی أَنْزَلْتَ وَبِنَیِّکَ الَّذِی أَرْسَلْتَ ۔ اے اللہ !میں نے اپنے تئیں کلیۃً تیرے حوالے کردیا ہے اور اپنا معاملہ تجھے سونپ دیا ہے اور تیرے آسرے پر اپنی پیٹھ رکھ دی ہے، امید رکھتے ہوئے، ڈرتے ہوئے۔ تیرے ہی حضور آنا ہے نہ کوئی جائے پناہ ہے اور نہ تجھ سے بچ کر کوئی بھاگنے کی صورت اور نہ نجات کی جگہ، مگر تیرے ہی پاس۔ اے اللہ ! میں تیری اس کتاب پر جس کو تُونے اُتارا ہے اور تیرے اس نبی پر جس کو تونے بھیجا ہے، ایمان لایا۔ پس اگر تم اس رات مرگئے تو تم فطرت پر ہی ہوگے اور یہ کلمات سب سے آخری بات ہو جو تم کہو۔ (حضرت براءؓ) کہتے تھے: میں نے یہ کلمات نبی ﷺ کے پاس دہرائے۔ جب میں یہاں تک پہنچا۔ اے اللہ ! میں تیری اس کتاب پر ایمان لایا جو تونے اتاری ہے تو میں نے کہا: اور تیرے رسول پر۔ آپؐ نے فرمایا: نہیں (بلکہ یہ کہو) اور تیرے اس نبی پر جو تُونے بھیجا ہے۔ (صحیح البخاری کِتَابُ الْوُضُوءِ بَاب فَضْلُ مَنْ بَاتَ عَلَی الْوُضُوْءِ حدیث:۲۴۷) ایک اور روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا ہے: الطَّاھِرُ النَّائِمُ کَالصَّائمِ الْقَائمِ (کَنْزُالْعُمّال کتاب الطہارۃ باب فی فضل الطھارۃ مطلقاً حدیث:۲۵۹۹۹) باوضو سونے والا روزہ رکھ کر عبادت کرنے والے کی طرح ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ وضو کا اصل مقصد یہ ہے کہ انسان کی توجہ ظاہر ی او رباطنی پاکیزگی کی طرف مبذول رہے۔تا اس ذریعہ سے وہ اپنے ظاہر کے ساتھ اپنے باطن کو پاک رکھنے کی سعی اور کوشش کرتا رہے۔جب وہ ایسا کرے گا تو اس ظاہری پاکیزگی کے نتیجہ میں نہ صرف اُس کی روح کی کثافتیں دُور ہوں گی بلکہ خدا تعالیٰ کے ساتھ پیوند مضبوط ہوگا۔ آنحضرتﷺ کاپاکیزہ نمونہ ہمارے سامنے موجود ہے۔آپؐ ظاہری صفائی کا خاص اہتمام فرماتے، یہاں تک کہ سونے سے پہلے وضو کرتے تاکہ طبیعت میں طہارت وپاکیزگی کا مفہوم جاگزیں رہے۔غرض اسلام میں وضو کا فلسفہ اور اُس کی غرض و غایت یہی ہے کہ اُس کے ماننے والے ظاہر ی وباطنی پاکیزگی اختیار کرلیں۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: نرم اور پاک زبان کا استعمال