https://youtu.be/cDk_MHukxtc (خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۶؍اپریل ۲۰۲۴ءبمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے) سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب:فرمایا: غزوۂ حمراء الاسدکا سبب اور اس کا پس منظر گذشتہ خطبہ میں بیان ہوا تھا۔ سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے غزوہ حمراءالاسدکےلیےاسلامی لشکرکی روانگی کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: جب دشمن کے اُحد کی جنگ کے بعد راستہ سے پلٹ کر مدینہ پر حملہ کرنے کی سازش کا علم ہوا تو اس پر رسول اللہﷺ نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو بلایا اور ان کو اس مُزَنِی صحابی کی بات بتائی جنہوں نے یہ اطلاع دی تھی۔ تو ان دونوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! دشمن کی طرف چلیں تاکہ وہ ہمارے بچوں پر حملہ آور نہ ہوں۔ جب رسول اللہﷺ صبح کی نماز سے فارغ ہوئے تو آپﷺ نے لوگوں کو بلوایا اور آپؐ نے حضرت بلالؓ سے فرمایا کہ وہ اعلان کریں کہ رسول اللہ تمہیں حکم دے رہے ہیں کہ دشمن کے لیے نکلو اور ہمارے ساتھ وہی نکلے جو گذشتہ روز لڑائی میں شامل تھا یعنی اُحد کی لڑائی میں جو لوگ شامل تھے صرف وہی ساتھ جائیں گے۔ اسلامی پرچم اور پھر مدینہ کی قائم مقامی کے بارے میں لکھا ہے کہ آنحضورﷺ نے اپنا جھنڈا منگوایا جو کہ گذشتہ روز سے ہی بندھا ہوا تھا، اس کو ابھی تک کھولا نہیں گیا تھا۔ آپؐ نے یہ جھنڈا حضرت علیؓ کو دے دیا اور ایک جگہ یہ بھی بیان ہوا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کو دیا تھا۔ اس موقع پر حضرت ابن ام مکتومؓ کو آنحضرتﷺ نے مدینہ میں اپنا نائب مقرر کیا تھا۔ سیرت نگار لکھتے ہیں کہ آنحضورﷺ کا دشمن کے تعاقب میں نکلنے کا فیصلہ انتہائی دانشمندانہ تھا۔منافقین کے نزدیک جنگِ اُحد میں ستّر افراد کے جانی نقصان کے بعد اگلے ہی روز دشمن کے تعاقب میں بِنا زائد افرادی قوت کے جانا انتہائی خطرناک تھا مگر بعد کے حالات نے ثابت کر دیا کہ حضورﷺ کا فیصلہ انتہائی دانشمندانہ تھا جس سے مسلمانوں کو بےشمار فوائد حاصل ہوئے۔ آپﷺ نے ساری رات جنگ سے پیدا شدہ صورتحال پر غور کرتے گزاری۔ آپؐ کو اندیشہ تھا کہ اگر اُحد سے واپس مکہ جانے والے مشرکین نے سوچا کہ میدانِ جنگ میں اپنا پلہ بھاری ہوتے ہوئے بھی ہم نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا تو یقیناً انہیں ندامت محسوس ہو گی اور وہ راستے سے پلٹ کر مدینہ پر دوبارہ حملہ کریں گے اس لیے آپﷺ نے بہترین جنگی حکمتِ عملی اپناتے ہوئے دشمن کے تعاقب کا فیصلہ فرمایا۔ اس فیصلے نے مجاہدین کے حوصلوں کو مزید بلندیوں تک پہنچا دیا اور منافقین کے دل پر حضور علیہ الصلوٰة والسلام کی قوتِ ارادی اور قوتِ یقین کی ہیبت طاری کر دی۔ تیسری طرف جب دشمن کو خبر ملی کہ اسلامی لشکر ان کے تعاقب میں ہے تو ان کے حوصلوں کے ٹمٹماتے چراغ بجھنے لگے۔ رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبَی نے بھی ساتھ جانے کی اجازت مانگی اور وہ آنحضرتﷺ کے پاس آ کر اس غزوہ میں شامل ہونے کی درخواست کرنے لگا حالانکہ غزوۂ اُحد میں نہ صرف یہ خود واپس گیا تھا بلکہ اپنے ہمراہ تین سو ساتھی بھی لے کر پلٹ گیا تھا۔ ایسی حرکت پر یقیناً وہ شرمندہ بھی ہو گا اور شاید اس ندامت کا داغ مٹانے کے لیے، یا خدا معلوم کسی اَور سازش کے تحت کیونکہ منافقین کا تو پتہ کچھ نہیں ہوتا، یہ نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپﷺ کے ساتھ جانے کی اجازت طلب کی تو آپؐ نے اسے ساتھ جانے سے منع فرما دیا۔ انہوں نے کہا نہیں۔ اُحد کے زخمی صحابہؓ میں سے بعضوں کو جنگ میں کاری زخم لگے تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے آنحضورﷺ کے حکم کی بجاآوری کا کیا نمونہ دکھایا اس بارے میں لکھا ہے کہ آنحضرتﷺ کا یہ اعلان تھا کہ سنتے ہی عشق و وفا کے یہ مخلص جاں نثار اپنے زخموں کو سنبھالتے ہوئے، اپنے اسلحوں کو لیے ہوئے ایک بار پھر نکل پڑے۔ جب آنحضرتﷺ نے یہ اعلان فرمایا تو فوری طور پر وہ نکل پڑے۔ حضرت اُسَید بن حُضَیرؓ کو نو زخم لگے ہوئے تھے انہوں نے ابھی دوا لگانے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ ان کے کانوں میں یہ آواز پڑی تو اپنے زخموں پر دوائی لگانے کے لیے بھی نہیں رکے اور چل پڑے۔بنو سلمہ سے چالیس زخمی نکلے۔ رسول اللہﷺ نے انہیں ایسی حالت میں بھی حکم کی تعمیل کرتے ہوئے دیکھ کر ان کے لیے دعائے مغفرت کی اور فرمایا اَللّٰھُمَّ ارْحَمْ بَنِی سَلَمَہ۔ اے اللہ! بنو سلمہ پر رحم فرما۔ طُفَیل بن نُعمانؓ کو تیرہ زخم لگے تھے۔ خِرَاش بن صِمَّہؓ کو دس زخم لگے تھے۔ کعب بن مالکؓ کو دس سے زائد زخم اور قُطْبَہ بن عَامِرؓ کو نو زخم لگے تھے لیکن اس کے باوجود مسلمان اپنے ہتھیاروں کی طرف دوڑے اور اپنے زخموں پر مرہم لگانے کے لیے نہیں ٹھہرے۔ خدا تعالیٰ نے اصحابِ رسولﷺ کے اسی جذبۂ بے مثل کو اپنے کلام میں مرقوم فرما دیا تا کہ رہتی دنیا تک کے لیے ان پر عقیدتوں کے پھول نچھاور ہوتے رہیں۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَلَّذِیۡنَ اسۡتَجَابُوۡا لِلّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَاۤ اَصَابَہُمُ الۡقَرۡحُ لِلَّذِیۡنَ اَحۡسَنُوۡا مِنۡہُمۡ وَ اتَّقَوۡا اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ (آل عمران : ۱۷۳)وہ لوگ جنہوں نے اللہ اور رسول کو لبیک کہا بعد اس کے کہ انہیں زخم پہنچ چکے تھے ان میں سے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے احسان کیا اور تقویٰ اختیار کیا بہت بڑا اجر ہے۔ سوال نمبر۳:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت جابربن عبداللہؓ کےاسلامی لشکرمیں شامل ہونےکی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: حضرت جابر بن عبداللہؓ کو ساتھ جانے کی اجازت کے بارے میں ذکر ملتا ہے کہ آنحضرتﷺ کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ اس مہم میں صرف وہی ساتھ جائیں گے جو جنگِ اُحد میں شامل ہوئے تھے اور اسی پر سختی سے عمل بھی ہوا۔ لیکن ایک خوش بخت مخلص صحابی ایسے تھے کہ جو جنگِ اُحد میں شامل نہیں ہوئے لیکن اب ان کو ساتھ جانے کی اجازت مرحمت ہوئی تھی اور وہ حضرت جابر بن عبداللہؓ تھے۔ ابنِ اسحاقؒ اور ابنِ عمرؓ نے بیان کیا ہے کہ جابر بن عبداللہ رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! آپؐ کے منادی نے یہ اعلان کیا ہے کہ ہمارے ساتھ وہی نکلے جو گذشتہ روز لڑائی یعنی جنگِ اُحد میں موجود تھا اور مَیں لڑائی میں حاضر ہونے کا خواہش مند تھا لیکن میرے والد نے مجھے میری سات بہنوں کے لیے پیچھے چھوڑ دیا اور ایک قول کے مطابق ان کی بہنوں کی تعداد نو تھی۔ بہرحال کہتے ہیں میرے والد نے کہا کہ اے میرے بیٹے! میرے اور تیرے لیے مناسب نہیں ہے کہ ہم ان عورتوں کو بغیر کسی مرد کے چھوڑ دیں۔ مجھے ان کا ڈر ہے یہ کمزور عورتیں ہیں۔ اور مَیں رسول اللہﷺ کے ساتھ جہاد میں تجھے خود پر ترجیح نہیں دے سکتا۔ یہ بھی ہے کہ ہم عورتوں کو بھی پیچھے اکیلا نہیں چھوڑ سکتے اور جہاد میں مَیں خود بھی جانا چاہتا ہوں اور میری خواہش یہی ہے کہ مَیں جاؤں اور تم نہ جاؤ تو تُو اپنی بہنوں کے پاس پیچھے رہ جا اور مَیں رسول اللہﷺ کے ساتھ جہاد پہ جاتا ہوں۔کہتے ہیں کہ اس لیے مَیں اپنے باپ کے اس حکم کی تعمیل میں کل جہاد میں شامل نہیں ہوسکا وگرنہ میرا بھی پورا ارادہ تھا۔ چنانچہ حضرت جابرؓ کی عشق و محبت میں ڈوبی ہوئی یہ بات سن کر آنحضرتﷺ نے ان کو ساتھ جانے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے غزوہ حمراءالاسدمیں دوانصاری بھائیوں کےاخلاص ووفا کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: حضرت عبداللہ بن سَہْلؓ اور حضرت رافع بن سَہْلؓ دونوں بھائی جو قبیلہ بنو عَبْدُالْاَشْھَلْ میں سے تھے جب وہ دونوں غزوۂ اُحد سے واپس آئے تو وہ شدید زخمی تھے۔ جنگ میں زخمی ہو گئے اور حضرت عبداللہؓ زیادہ زخمی تھے۔ جب ان دونوں بھائیوں نے رسول اللہﷺ کے حمراء الاسدکی طرف جانے اور اس میں شمولیت کی بابت آپؐ کے حکم کے بارے میں سنا تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا ،بخدا! اگر ہم رسول اللہؐ کے ہمراہ غزوہ میں شرکت نہ کر سکے تو یہ ایک بڑی محرومی ہو گی۔ یہ تھا ان کا ایمان۔ پھر کہنے لگے بخدا! ہمارے پاس کوئی سواری بھی نہیں ہے جس پر ہم سوار ہوں اور نہ ہی ہم جانتے ہیں کہ کس طرح یہ کام کریں۔ حضرت عبداللہؓ نے کہا کہ آؤ میرے ساتھ ہم پیدل چلتے ہیں۔ حضرت رافعؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم! مجھے تو زخموں کی وجہ سے چلنے کی سکت بھی نہیں ہے۔ یہ حالت تھی۔ آپؓ کے بھائی نے کہا کہ آؤ ہم آہستہ آہستہ چلتے ہیں اور رسول اللہﷺ کی طرف چلتے ہیں۔ چنانچہ وہ دونوں گرتے پڑتے چلنے لگے۔ حضرت رافعؓ نے کبھی کمزوری محسوس کی تو حضرت عبداللہؓ نے حضرت رافعؓ کو اپنی پیٹھ پر اٹھا لیا، کبھی وہ پیدل چلنے لگے۔ ایسی حالت تھی کہ دونوں ہی زخمی تھے لیکن جو بہتر تھے وہ زیادہ زخمی کو اپنی پیٹھ پر اٹھا لیتے تھے۔ لیکن آنحضرتﷺ کی طرف چلتے رہے۔ کمزوری کی وجہ سے بعض دفعہ ایسی حالت ہوتی تھی کہ وہ حرکت بھی نہیں کر سکتے تھے یہاں تک کہ عشاء کے وقت وہ دونوں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ صحابہ کرامؓ اس وقت آگ جلا رہے تھے۔ یعنی انہوں نے اس وقت ڈیرہ لگا لیا تھا۔ آپ دونوں کو رسول اللہﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ اس رات آنحضرتﷺ کے پہرے پر حضرت عَبَّادْ بن بِشْرؓمتعین تھے۔ جب یہ پہنچے تو آنحضرتﷺ نے ان دونوں سے پوچھا کہ کس چیز نے تمہیں روکے رکھا تھا۔ ان دونوں نے اس کا سبب بتایا کہ کیا وجہ ہو گئی۔ اپنی تفصیل بتا دی۔ اس پر آپؐ نے ان دونوں کو دعائے خیر دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم دونوں کو لمبی عمر نصیب ہوئی تو تم دیکھو گے کہ تم لوگوں کو گھوڑے اور خچر اور اونٹ بطور سواریوں کے نصیب ہوں گے۔ ابھی تو تم گرتے پڑتے پیدل آئے ہو لیکن لمبی زندگی پاؤ گے تو یہ سب کچھ دیکھو گے۔ یہ سب سواریاں تمہیں میسر آجائیں گی لیکن ساتھ یہ بھی فرمایا لیکن وہ تمہارے لیے تم دونوں کے اس سفر سے بہتر نہیں ہوں گی جو اس وقت تم کر کے آئے ہو، جو تم نے پیدل گرتے پڑتے کیا ہے۔ یعنی تمہارے اس سفر کا ثواب تو اتنا ہے کہ اس زمانے کی جو بہترین نعمتیں ہیں ان سے بھی زیادہ ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ واقعہ حضرت انسؓ اور مُونِسؓ، فَضَالَہ کے بیٹوں کے ساتھ پیش آیا تھا۔ اس لیے ممکن ہے کہ یہ واقعہ دونوں کے ساتھ ہی پیش آیا ہو۔ سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے معبد خزاعی کی آنحضرتﷺ سے ملاقات اور ابوسفیان سے مکالمے کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: مَعْبَد بن ابو مَعْبَد خُزَاعِی آنحضرتﷺ سے ملا۔ یہ ابھی تک مشرک تھا۔ بعض سیرت نگاروں نے اس موقع پر اس کے اسلام قبول کرنے کا بھی ذکر کیا ہے لیکن اکثر نے یہ کہا ہے کہ اس وقت اسلام قبول نہیں کیا تھا البتہ بعد میں یہ اسلام لے آئے تھے۔ بَنُو خُزَاعہ کے اہلِ ایمان اور مشرک آپﷺ کے ساتھ اخلاص کا اظہار کرتے تھے۔ اس کے جو دوسرے قبیلے کے لوگ تھے ان میں سے بہت سے ایمان لائے ہوئے تھے۔ اخلاص کا اظہار بھی تھا ان میں۔ ان لوگوں کا آپﷺ کے ساتھ وعدہ تھا کہ وہ آپﷺ سے کچھ نہیں چھپائیں گے۔ معبد نے کہا اے محمدﷺ! آپ کو اور آپ کے صحابہ کرام کو جو تکالیف پہنچی ہیں یہ ہم پر گراں گزرا ہے۔ ہماری تو یہی خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کا مرتبہ بلند کرے اور آپ کو ہر تکلیف سے محفوظ رکھے۔اس اظہارِ ہمدردی پر رسول اللہﷺ نے معبد سے فرمایا کہ ابوسفیان کی حوصلہ شکنی کرو۔ تم جا رہے ہو، آگے سفر میں اس کو ملوتو اس کو ذرا ڈراؤ۔ لیکن کس طرح؟ اپنی یہ حکمت عملی انہوں نے خود بنانی تھی۔ پھر معبد وہاں سے مکہ کی طرف روانہ ہو گیا اور آنحضورﷺ حمراء الاسد میں ہی تشریف فرما تھے۔ وہ رَوحاءکے مقام پر ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں سے ملا۔رَوحاءمدینہ سے تقریباً چالیس میل کی مسافت پر ایک مقام ہے۔ اس وقت لشکر قریش نے رسول اللہﷺ کی طرف واپسی حملہ کرنے پر اتفاق کر لیا تھا اور انہوں نے کہا ہم نے ان کے بہترین اور سردار و قائد لوگوں کو قتل کیا ہے حالانکہ ایسی بھی بات نہیں تھی۔حضرت حمزہؓ سمیت چند ایک نام ہو سکتے ہیں ورنہ نبی کریمﷺ سمیت حضرت ابوبکر ؓ، حضرت عمر ؓ، حضرت عثمان ؓ، حضرت علی ؓ کے ساتھ درجنوں نامور سردار اور قائد خدا کے فضل سے جنگِ اُحد میں محفوظ اور مامون رہے تھے۔ پھر کہنے لگے کہ پھر ہم ان کی بیخ کنی سے پہلے واپس چل پڑے۔ اب ہم ان کے باقی لوگوں پر پلٹ کر انہیں ہلاک کریں گے اور ان سے فارغ ہو جائیں گے۔ جب ابوسفیان نے معبد کو دیکھا تو کہا یہ معبد ہے اس کے پاس کوئی خبر ہو گی۔ اس نے کہا معبد! پیچھے کے حالات کیسے ہیں؟ اس نے ابوسفیان کو ڈرانے کے لیے کہا کہ مَیں نے محمدﷺ اور آپؐ کے ساتھیوں کو اس حالت میں چھوڑا ہے کہ وہ اتنا لشکر جرار لے کر تمہارے تعاقب میں نکل آئے ہیں کہ مَیں نے آج تک اتنا بڑا لشکر نہیں دیکھا۔ اوس اور خزرج کے جو لوگ کل پیچھے رہ گئے تھے وہ بھی ان کے ساتھ آ ملے ہیں۔ اپنے پاس سے اس نے کہانی بھی کچھ بنا دی۔ اور انہوں نے عہد کیا ہے کہ وہ واپس نہیں جائیں گے یہاں تک کہ تمہیں پا لیں اور تم سے بدلہ لے لیں۔ وہ اپنی قوم کی وجہ سے سخت غصہ میں ہیں۔ اپنے اس فعل پر سخت نادم ہیں کہ پہلے یہ شامل نہیں ہوئے۔ ان میں تمہارے خلاف ایسا غصہ ہے کہ مَیں نے اتنا شدید غصہ کبھی نہیں دیکھا۔ ابوسفیان نے کہا تیرے لیے ہلاکت ہو، تُو کیا کہہ رہا ہے! اُس نے کہا لگتا ہے کہ تُو یہاں سے نہیں چلے گا یہاں تک کہ تُو گھوڑوں کی پیشانیاں نہ دیکھ لے۔ یہ بھی ان کا محاورہ ہے کہ ہلاکت نہ ہو جائے۔ ابوسفیان کہنے لگابخدا ! ہم نے تو ان پر غلبہ پا کر ان کو جڑوں سے اکھیڑ دینے پر اتفاق کر لیا ہے۔ معبد نے کہا کہ مَیں پھر تجھے اس فعل سے روکتا ہوں۔ مزید پڑھیں: جماعت احمدیہ برطانیہ، کینیڈا اور بیلجیم کی مجالس شوریٰ سے امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اسلام آباد، ٹلفورڈ سے آن لائن خطاب کا خلاصہ