(عربوں میں تبلیغ احمدیت کے لئےحضرت اقدس مسیح موعودؑاو رخلفائے مسیح موعودؑ کی بشارات،گرانقدرمساعی اور ان کے شیریں ثمرات کا ایمان افروزتذکرہ) مکر م عبدہ احمد شایع صاحب مکرم عبدہ احمد شایع صاحب لکھتے ہیں: میرا تعلق یمن سے ہے جہاں میری پیدائش 1977ء میں ہوئی اور مجھے اللہ تعالیٰ نے وسط 2013ء میں بیعت کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ جب مَیں نے بیعت کی تو مجھے دوستوں اور رشتہ داروں کی طرف سے طعنے دیئے گئے اوریہ کہا گیا کہ بیچارہ آدمی تو اچھا تھا لیکن راستہ بھٹک گیا۔ میں اس مختصر سی تحریر کے ذریعہ انہیں اورپوری دنیا کو بتاد ینا چاہتا ہوں کہ میں نہ بھٹکا ہوں، نہ ہی گمراہ ہوا ہوں بلکہ مجھے وہ حق مل گیا ہے جس کی مجھے مدت سے تلاش تھی اور میں نے اس حقیقت کو پالیا ہے جس کے لئے ہر سعید فطرت جویاں ہے۔میں خدائے ذوالجلال کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ میں سچ کہہ رہا ہوں اور اگر مجھے اس حق گوئی اورراست روی کے لئے اپنی جان بھی دینی پڑے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے کیونکہ جب انسان اپنے خدا کو پہچان لیتا ہے تو پھر ساری دنیا کی قیمت اس کی نظر میں ایک تنکے کے برابر بھی نہیں رہتی ۔ لہو لہو خزاں پر بہار کا عنوان میری اس کہانی کی حقیقی ابتدا ان ایام میں ہوئی جنہیں ’عرب سپرنگ‘ کا نام دیا گیا۔میں بھی اپنے اہل وطن کی طرح ظلم وزیادتی کے شکار معاشرے کا فرد بن کر ملک کے حاکم طبقے سے شاکی تھالیکن اس کے باوجود میںاس موقف پر قائم تھا کہ اس نظام کو درست کرنے کا خواب مظاہرے کر کے شرمندۂ تعبیر نہیں کیا جاسکتاکیونکہ مجھے نظر آتا تھا کہ اس طریق سے فتنہ وفساد پھیلے گا اور کشت وخون ہوگا۔ مولویوں کی مہم ایک روز اخوان المسلمین تنظیم سے تعلق رکھنے والا میرا ایک دوست آیااورکہنے لگا کہ آؤ ہم بھی مظاہروں کے لئے نکلیں تاکہ مظلوموں کے دفاع کے لئے اپنا حق ادا کریں اور کلمۂ حق کہنے کا فریضہ سرانجام دیں، تاکہ ہمارے حالات بھی تبدیل ہوں اورانصاف کی حکومت قائم ہو۔ابتدا میں تو مَیں نے اسے دو ٹوک وہی جواب دیا جو میری فطرت کی آواز تھی۔میں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ کی لعنت ہو اس شخص پر جس نے سوئے ہوئے فتنہ کو جگادیا۔اس نے مزید بحث کی بجائے مجھے عربی دینی چینلز دیکھنے کا مشورہ دیا۔ جب میں نے یہ چینلز دیکھے تو ہرایک پر ہی بڑے بڑے علماء عوام الناس کو گھروں سے نکلنے اور مظاہروں میں شامل ہونے کے لئے اکسا رہے تھے۔ ان کی باتیں سن کر میری جھوٹی غیرت بھی جاگ اٹھی اور میں بھی اپنے ہموطنوں کی مدد کے نام پر نکل کھڑا ہوا۔ تین چار مرتبہ مظاہروں میں شرکت سے معلوم ہوا کہ ان میں سوائے گالی گلوچ،بکواس اور فساد کے کچھ نہیں پھر بھی میری ہمدردیاں مظاہروں کے ساتھ ہی رہیں۔ قرآن کریم کو غلط سمجھنے والے انہی ایام میں مَیں نے ایک عجیب رؤیادیکھا۔ میں نے دیکھا کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جنازہ میں شامل ہیں اور سب کلمہ شہادت پڑ ھ رہے ہیں۔ ایسے میں ہم دیکھتے ہیں کہ آپؐ اٹھ کر بیٹھ جاتے ہیں اوربہت غصے میں ہیں۔ آپ نے مظاہرہ کرنے والوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ تم قرآن کریم کو غلط پڑھتے ہو اور غلط سمجھتے ہو۔میں آپ کے قریب جاتاہوں تو آپ مجھے فرماتے ہیں پڑھو: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ وہ ایسا دلنشین انداز تھا کہ میں بھی بآواز بلند آپؐ کے پیچھے یہ الفاظ دُہرانے لگتا ہوں۔ ایسی حالت میں ہی میری آنکھ کھل گئی۔مجھے اس رؤیا کی کوئی سمجھ نہ آئی لیکن میں نے خدا کی طرف ہی رجوع کیا اور اس سے صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کی دعا کرتا رہا ۔ جماعت سے تعارف ایک دن نماز مغرب وعشاء اور رات کا کھانا کھانے کے بعد اپنی عادت کے مطابق ٹی وی پر خبریں وغیرہ دیکھنے کے لئے چینلز بدل رہا تھا کہ مجھے ایم ٹی اے العربیہ مل گیا جس پر اس وقت پروگرام الحوار المباشر لگا ہوا تھا اور دجّال کے موضوع پر بات ہورہی تھی۔ میں نے یہ باتیں پہلی مرتبہ سنی تھیں۔ چنانچہ میں مسلسل چھ سات ماہ تک اس چینل کو دیکھتا رہا۔ مجھے جماعت احمدیہ، اس کی تعلیم، اس کے اہداف اوراس کے اصول اور خصوصیات کے بارہ میں جو معلومات حاصل ہوئیں اس کے مطابق میں کہہ سکتا تھاکہ ان صفات وخصوصیات کی حامل دنیا میں کوئی اور جماعت نہیں ہے۔ چونکہ اس جماعت کے بانی کا امام مہدی ہونے کا دعویٰ ہے لہٰذا میں نے اس کے بارہ میں مزید تحقیق کرنے کا فیصلہ کیا۔میرا طریق یہ تھا کہ میں نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ہر دعویٰ کو قرآن وسنت کے مطابق پرکھااور پھر قرآن وسنت نے جو فیصلہ کیا میں نے اسے اخذ کر لیا اور اس کے علاوہ تمام اقوال وفتاویٰ کو ترک کردیا۔ استخارہ اور رؤیا انہی ایام میں مَیں ایک دن ایم ٹی اے دیکھ رہا تھا کہ پروگرام الحوار المباشر میں محمد شریف صاحب نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی دعائے استخارہ سنا کر لوگوں کو آپ کی صداقت کے بارہ میں استخارہ کرنے اورآپ کے بارہ میں خدا سے پوچھنے کی دعوت دی۔ مجھے یہ بات بہت معقول دکھائی دی۔ چنانچہ میں نے استخارہ کر کے شریف صاحب کی بتائی ہوئی دعا پڑھی اور سوگیا۔ رات کوخواب میں دیکھا کہ میں اپنے محلے کی سڑک پرچل رہاہوں لیکن اس پر جیسے سیلاب آگیا ہے اورہر طرف پانی ہی پانی پھیلا ہواہے۔ ایسے میں ایک شخص کو دیکھتا ہوں جو پانی سے ہی بنا دکھائی دیتا ہے اوربآسانی پانی کے اندر ادھر ادھر آجارہا ہے۔ وہاں پر ایک باپردہ عورت کہتی ہے اس شخص کی کہانی غیرمعمولی ہے۔میں عورت کی یہ بات سن کر جب اس پانی کے شخص کی طرف دیکھتا ہوں تو اس کے سینے سے نور نکلتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ میں یہ دیکھ کر ڈر جاتا ہوں اور اس کے ساتھ ہی بیدار ہو جاتاہوں۔ گو میں نے استخارہ کے بعد یہ رؤیا دیکھا تھا لیکن مجھے اس کی کوئی سمجھ نہ آئی۔کچھ عرصہ کے بعد مَیں نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کا یہ الہام پڑھا: أَنْتَ مِنْ مَائِنَا وَہُمْ مِنْ فَشَل۔ (یعنی تو ایمان،استقامت ، وفا، صدق اور حُب اللہ کے پانی سے ہے اور وہ بزدلی سے ہیں)اس الہام کو پڑھتے ہی مجھے میرا رؤیا یاد آگیا اور یقین ہوگیا کہ میرا رؤیا سچا تھا۔ پانی سے بنا ہوا نظر آنے والا شخص اسی الہام کی ایک تصویری جھلک پیش کررہا تھا۔ اور اس کے سینہ سے نور کی کرنوں کا پھوٹنا اس کی صداقت پر دلیل قائم کررہا تھا۔ یہ سوچتے ہی میں نے کہا کہ میرا رؤیا بھی سچا تھا اور یہ شخص بھی سچاہے۔ خروج دجّال اورنزولِ مسیح اس کے بعد تو رؤیائے صالحہ کا ایسا سلسلہ چلا کہ بعض اوقات رات کو خواب دیکھتا اور صبح ہوتے ہی وہ بعینہٖ پوری ہو جاتی۔بہر حال اس کے بعد میں نے دجال کے بارہ میں تحقیق کا فیصلہ کیا۔ میرا احمدیت سے تعارف سے پہلے کا ہی یہ خیال تھا کہ ٹی وی اور سوشل میڈیا کے دیگر وسائل بھی دجّال ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ مَیں نے رؤیا میں دیکھا کہ کوئی مجھے کہہ رہا تھا کہ یہ ٹی وی اور سوشل میڈیا وغیرہ دجال نہیں ہیں بلکہ یہ دجال کا اسلحہ ہیں۔چنانچہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ تعریف کو لے کر موجودہ حالات پر چسپاں کی تو وہ مجھے سو فیصد درست دکھائی دی۔پھر جب میں نے احادیث کا مطالعہ کیا اور بعض رؤیاکی بناء پر اس یقین پر قائم ہو گیا کہ دجال واقعی اسی صورت میں ظاہر ہو چکا ہے جیسے حضرت امام مہدی علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے۔ اب سوال یہ پید ا ہوتا تھا کہ اگر دجال ظاہر ہو چکا ہے تو اس کے قتل کے لئے مسیح کا نزول بھی ضروری ہے۔میں نے دوبارہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کی طرف رجوع کیا توبعثت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت عیسائیت کی یلغار اور اسلام کی دگرگوں حالت اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے میدان میںآنے اور دلائل کے ساتھ ان کا مقابلہ کرنے اور ماربھگانے کے بارہ میں مفصّل طور پر پڑھا توکسر صلیب کے صحیح معنے بھی سمجھ آگئے اور ہر بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی۔ اس کے بعد جماعت کے ساتھ رابطہ کرنا ضروری ہوگیا تھا لہٰذا میں نے عربک ڈیسک کا نمبر لے کر اس پر فون کیا اور خدا تعالیٰ سے بکثرت دعا کرنے لگا۔ حقیقی اسلام انہی ایام میںجبکہ رمضان المبارک کی2 تاریخ تھی کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں کسی ایسی جگہ پر ہوں جہاں لوگ سوئے ہوئے ہیں اور وہاں پر اندھیرا ہے۔ وہاں پر ایک میرا کمرہ بھی ہے۔ میں نے دیکھا کہ اس میں دو پُرنُور چہروں والے اشخاص داخل ہوتے ہیںاور ان میں سے ایک شخص میرے سینے پر ہاتھ مار کرکہتاہے کہ یہی حقیقی اسلام ہے ۔پھر کہتا ہے یہی مسیحی اسلام ہے یعنی وہ جس کی تجدید مسیح موعود نے آکرکی ہے۔ احمدیوں سے رابطہ اور سکینت قلبی میں نے اس کے بعد بھی دعائیں جاری رکھیں حتی کہ تیرہ رمضان المبارک کے روز میرے فون کی گھنٹی بجی اور میں نے فون اٹھایا تو دوسری جانب سے میرے ملک میں احمدی احباب بات کررہے تھے۔ میں تو عربک ڈیسک کو فون کر کے بھول گیا تھا اور میرا خیال تھا کہ میری فون کال کو کوئی اہمیت نہیں دی جائے گی لیکن نہ صرف انہوںنے یاد رکھا بلکہ مجھے اپنے ملک کے احمدیوں کے ساتھ ملانے کا بندوبست بھی کر دیا۔ یہ دیکھ کر میرا دل شکر وامتنان کے جذبات سے پُر ہو گیا۔چنانچہ میں ان سے اگلے ہی روز ملا اور بیعت کرلی۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ بیعت کے خط کا جوا ب ایک قیمتی سرمایہ ہے جسے میں نے سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔بیعت کے بعد مجھے ایسے لگتا تھا جیسے ایک بہت بڑا بوجھ اتر گیا اور سکینت واطمینان دل میں جاگزیں ہو گیا۔ ٭…٭…٭…٭…٭…٭…٭…٭ مکرمہ مریم احمد اسماعیل الشامی مکرمہ مریم صاحبہ لکھتی ہیں: میراتعلق یمن سے ہے ۔ میری عمر 75سا ل ہے ، اور مجھے خدا کے فضل سے 2007ء میں بیعت کرنے کی توفیق ملی۔ بیعت سے قبل میرا تعلق زیدی فرقہ سے تھا۔ میں سادہ ، اَن پڑھ اور دیہاتی عورت ہوں۔ میرے خاوند حافظ قرآن اور امام مسجد تھے ۔ہمارے پانچ بچے ہوئے لیکن ان میں سے تین فوت ہو گئے ۔ بڑی بیٹی بچ گئی لیکن شادی اور اولاد ہونے کے بعد ایک حادثے میں چل بسی۔ اب میری اولاد میں سے میرا صرف ایک بیٹا زندہ ہے جس کا نام عبد الغنی ہے۔جب ابھی یہ پیدا ہونے والا تھا تو مجھے خواب میں کسی نے بآواز بلند کہا کہ تمہارے ہاں بیٹا پیدا ہونے والا ہے اس کا نام عبد الغنی رکھنا۔چنانچہ اس رؤیا کے مطابق اللہ تعالیٰ نے مجھے بیٹا عطا فرمایا اور مَیں نے اس کا نام عبد الغنی ہی رکھا۔ میرے خاوند امام مہدی علیہ السلام کے بارہ میں بہت سی باتیں کیا کرتے تھے بلکہ مسجدمیں اپنے خطبات میں یہاں تک کہتے تھے کہ اب تو فاصلے مٹ گئے ہیں اور ہر امرِ عجیب کا ظہور ہوگیا ہے، اس لئے اب امام مہدی کا زمانہ آگیا ہے اور وہ ضرور اسی زمانے میں ظاہر ہوجائیں گے۔ بلکہ یہ بھی کہتے تھے کہ امام مہدی کے ظہور کی تمام علامتیں ظاہر ہوچکی ہیںاس لئے اب کسی وقت بھی ان کی آمد متوقع ہے۔ امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کا ذکر گھر میں اس کثرت سے ہوتا تھا کہ میرے خاوند کی وفات کے بعد جب ہمیں حضرت امام مہدی علیہ السلام کے دعوے کی خبر ملی تو ہم نے فورًا انہیں قبول کر لیا۔ میں نے بیعت سے قبل رؤیا میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حرم کعبہ میں دیکھا تھا۔لوگ آپ کے ارد گرد بکثرت جمع تھے اور آپ کو یارسول اللہ ! یا رسول اللہ ! کہہ کہہ کر بلا رہے تھے ۔پھر دوسرے رؤیا میں میری ملاقات حضرت فاطمۃ الزہراء ؓ سے ہوئی تھی۔ میرا بیٹا عبد الغنی ایک روز مختلف چینلز بدل بدل کر دیکھ رہا تھا کہ اسے ایم ٹی اے مل گیا ۔ اس وقت میں بھی اس کے ساتھ بیٹھی تھی ۔ اس نے ایم ٹی اے کو کچھ دیر سنا اور پھر اس کی سکرین پر دیئے جانے والے نمبر پر میرے سامنے ہی فون کر کے پوچھا کہ یہ چینل کن کا ہے اور اس کا کیا مقصد ہے۔ اسے بتایاگیا کہ یہ جماعت احمدیہ کا چینل ہے جس کا یہ ایمان ہے کہ امام مہدی علیہ السلام آچکے ہیں اوران کی وفات کے بعد نظام خلافت جاری ہواہے اور ہم اب ان کے پانچویں خلیفہ کے عہدِمبارک میں ہیں۔ہم تو جیسے اس خبر کے سننے کے لئے تیار بیٹھے تھے اس لئے معمولی تحقیق کے بعد ہم نے بیعت کرلی۔ اپنے گاؤں میں ہم اکیلے احمدی ہیں اور خاندان والوں کی طرف سے تکذیب واستہزاء کا بھی سامنا ہے، جبکہ ہم ان کی ہدایت کے لئے دعا گو ہیں۔ (باقی آئندہ)