مسرور سبھی تیرے، انداز ہیں شاہانہمسکینی طبیعت میں، فطرت ہے مسیحانہ ہر لفظ ترے لب پر، ہے گوہرِ یک دانہکرتا ہے دلوں پر اک تاثیر جداگانہ صحبت میں تری رہ کر دل پاک ہوں ویسے بھیہے تیری نصیحت کا انداز جداگانہ دل تیری محبّت میں دیوانے ہوئے ایسےدیکھے ہیں جو آنکھوں سے اخلاق کریمانہ یہ حسن کا جلوہ ہے یا کوئی کرامت ہےہر اک تری چاہت میں کیسا ہوا دیوانہ ہے سر پہ ترے جب سے دستار خلافت کیتُو شمع ہے ہر دل کی، ہر دل ترا پروانہ رہتا ہے کھلا تیرا مے خانہ، پیئیں سب ہیبھر دے مرا کاسہ بھی، ہے عرض فقیرانہ اے ساقی! سرِ محفل مَیں کیسے تجھے کہہ دوںڈرتا ہوں، نہ رہ جائے خالی مرا پیمانہ ہم تیری اطاعت میں زینے سبھی طے کر لیںایسے نہ چلیں رستہ، منزل سے ہوں بیگانہ بیعت میں تری آئے، سر آنکھوں پہ رکھتے ہیںہم تک جو پہنچتے ہیں ارشاد مسیحانہ تو نبض شناس ایسا نائب ہے مسیحا کاپائی ہے شفا اس نے جس نے تجھے پہچانا ہو عمرِ خضر ایسی فعّال عطا تجھ کوہو جائیں سبھی حاصل مقصد ترے تابانہ آئیں وہ نظر آنکھیں جو اشک بہاتی ہیںمشکل ہے محبّت کے آثار بتا پانا مجھ پر بھی نظر کر دے، ہو جائے سپھل جیوناک تیری محبّت میں طارؔق بھی ہے مستانہ (ڈاکٹر طارق انور باجوہ-لندن)