متفرق مضامین

تزکیہ نفس کی ضرورت و اہمیت

(ظہیر احمد طاہر ابن مکرم نذیر احمد خادم مرحوم ومغفور۔جرمنی)


جسم کو مل مل کے دھونا یہ تو کچھ مشکل نہی
دل کو جو دھووے وہی ہے پاک نزدِ کردگار
(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱صفحہ ۱۳۵ )


تزکیہ نفس یا اصلاح نفس سے مراد انسان کے اندر پائی جانے والی خیر کی قوت ہے جس کا صحیح استعمال اُسے بھلائی کا موجب اور نفع رساں وجود بنا دیتا ہے لیکن اگر اسی قوت کو برے رنگ میں استعمال میں لایا جائے تو وہ شراورتکلیف کا باعث بن جاتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے نیکیوں کی یہ تعریف بیان فرمائی ہے کہ وہ کم ہونے کی بجائے ہمیشہ بڑھتی اور ترقی کرتی ہیں۔ جو انسان اپنے اعمال اور اخلاق میں سچا ہو اور اُس کے اندر خدا تعالیٰ کی محبت کا بیج جاگزیں ہوجائے تو ایسا انسان ایک مقام پر ٹھہرنے کی بجائے اپنے اخلاق اور اعمال کو سنوارنے اور اُنہیں نکھارنے میں لگا رہتاہے۔وہ نیکیوں کی دوڑ میں سبقت لے جانے کی کوشش کرتاہے کیونکہ وہ جان لیتا ہے کہ باقی رہنے والی نیکیاں ہی اصل سرمایہ حیات ہیں: اَلۡمَالُ وَالۡبَنُوۡنَ زِیۡنَۃُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَالۡبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیۡرٌ عِنۡدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَّخَیۡرٌ اَمَلًا(الکھف:۴۷)
مال اور اولاد دنیا کی زندگی کی زینت ہیں اور باقی رہنے والی نیکیاں تیرے ربّ کے نزدیک ثواب کے طور پر بہتر اور امنگ کے لحاظ سے بہت اچھی ہیں۔
محاسبہ کے لغوی معنی حساب لینایا حساب کرنا بیان ہوئے ہیں یعنی انسان جو اعمال بجالاتا ہے اُن کی جانچ پڑتال کا نام محاسبہ نفس یا تزکیہ نفس ہے۔اگر انسان اپنے نفس کا محاسبہ کرتا رہے تو اُسے معلوم ہوگا کہ اُس کے کون سے اعمال اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ہیں اور اُس سے ایسی کونسی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں جو اللہ تعالیٰ سے دُوری کاموجب بن سکتی ہیں۔ جب وہ ایسا کرے گا تو اُسے اپنی اصلاح کا موقع ملے گا اور اُس کے اعمال میں بہتری آئے گی۔ قرآن کریم سے پتاچلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہرانسان میں یہ طاقت ودیعت کی ہے کہ وہ اپنے اعمال کا جائزہ لے کر اپنے نفس کا محاسبہ کرسکے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے:قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا۔ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا (الشمس:۱۰-۱۱)یقیناً وہ کامیاب ہوگیا جس نے اُس (تقویٰ) کو پروان چڑھایا۔ اور نامراد ہوگیا جس نے اُسے مٹی میں گاڑ دیا۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ” پس جو شخص خدا کو خوش کرنا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کی دنیا ٹھیک ہوجاوے،خود پاک دل ہوجاوے۔ نیک بن جاوے اور اس کی تمام مشکلات حل اور دکھ دُور ہوجاویں اور اس کو ہر طرح کی کامیابی اور فتح ونصرت عطا ہو تو اس کے واسطے اللہ تعالیٰ نے ایک اصول بتایا ہے اور وہ یہ ہے کہ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا(الشمس:۱۰)کامیاب ہوگیا، بامراد ہوگیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کو پاک کرلیا۔ تزکیہ نفس میں ہی تمام برکات اور فیوض اور کامیابیوں کا راز نہاں ہے۔ فلاح صرف امور دینی ہی میں نہیں بلکہ دنیا ودین میں کامیابی ہوگی۔ نفس کی ناپاکی سے بچنے والا انسان کبھی نہیں ہوسکتا کہ وہ دنیا میں ذلیل ہو۔“ (ملفوظات جلد۱۰صفحہ ۳۳۹-۳۳۸،ایڈیشن ۲۰۲۲ء)
پس دلوں کی پاکیزگی اور نیتوں کی درستی سے انسان کو نیکیوں میں ترقی کے مواقع میسر آتے ہیں اور اصلاح کا عمل جاری رہتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: أَلَا وَاِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَۃً اِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ کُلُّہُ وَاِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہُ أَلَا وَھِیَ الْقَلْبُ (صحیح البخاری کتاب الایمان،بَاب:فَضْلُ مَنِ اسْتَبْرَأَ لِدِیْنِہِ حدیث:۵۲) خبردار! اور جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے۔ اگر وہ ٹھیک ہے تو سارا جسم ٹھیک رہتا ہے اور اگر وہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے اور تمہیں معلوم ہے کہ وہ دل ہے۔ حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اَلْمُجَاھِدُ مَنْ جَاھَدَ نَفْسَہُ لِلّٰہِ (مسند احمد بن حنبل مسند الأنصار،حدیث مُسْنَدِ فَضَالَۃَ بن عُبَیْدٍ الأَنْصَاری رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ حدیث:۲۴۶۷۸، ناشر دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲۰۰۸ء)مجاہد وہ شخص ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرتاہے۔ نبی کریم ﷺ کاایک اور ارشادِ مبارک ہے:الکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہُ وَعَمِلَ لَمَا بَعْدَ الْمَوْتِ، وَالْعَاجِزُ مَنْ أتْبَعَ نَفْسَہُ ھَوَاھَا وَتَمَنَّی عَلَی اللّٰہِ (الجامع الکبیر للترمذی أبواب صفۃ القیامۃ باب:۹۰ حدیث:۲۴۵۹، ناشر دَارالغَرب الاسلامی بیروت:۱۹۹۶ ء)عقل مند وہ ہے جو اپنے نفس کامحاسبہ کرتا رہے اور موت کے بعد والی زندگی کی خاطر عمل کرے جبکہ بے وقوف وہ ہے جو اپنے نفس کی پیروی کرے اور اللہ تعالیٰ سے امید رکھے۔حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:”میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں ہر انسان کے اندر کوئی وقت سُستی کا آجاتا ہے اور کوئی وقت چُستی کا آجاتا ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کا نام باسط بھی ہے اور قابض بھی ہے اس لیے وہ کبھی انسان کی فطرت میں قبض پیدا کر دیتا ہے اور کبھی بسط پیدا کردیتا ہے۔ اس حالت کا علاج یہی ہوا کرتا ہے کہ انسان اپنے نفس کا محاسبہ کرتا رہے اور اپنے گردوپیش کے حالات کا بھی محاسبہ کرتا رہے۔اس لیے صوفیاء نے محاسبہ نفس کو ضروری قرار دیا ہے۔ میرے دل میں خیال گزرا ہے کہ اگر ہم اپنے تمام وقت کا جائزہ لیتے رہتے تو شاید ہم بہت سی سستیوں سے محفوظ رہتے۔ کسی شاعر نے کہاہے :


غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی


یعنی گھڑیال سے وقت کو دیکھ کر لوگ سمجھتے ہیں کہ فلاں کی عمر زیادہ ہوگئی۔ لیکن دراصل اُس کی عمر کم ہوجاتی ہے۔ فرض کرو کسی کی 60سال عمر مقدر تھی۔ وہ جب پیدا ہوا تو اُس کی عمر کے ساٹھ سال باقی تھے۔ لیکن جب وہ ایک سال کا ہوگیا تو اس کی ایک سال عمر گھٹ گئی۔ جب وہ دو سال کا ہوگیا تو ا س کی دو سال عمر گھٹ گئی۔ جب وہ دس سال کا ہوگیا تو اس کی دس سال عمر گھٹ گئی۔ جب وہ بیس سال کا ہوگیا تو اس کی بیس سال عمر گھٹ گئی۔ غرض ہر وقت جو اس پر گزرتا ہے وہ اس کی عمر کو گھٹاتا ہے۔ اسی طرح ہماری زندگی ہے۔ ہمارے بہت اوقات یونہی گزرجاتے ہیں اور ہم خیال تک نہیں کرتے کہ ہمارا وقت ضائع ہورہا ہے …پس ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہیں۔ ہر سال جو ہم پر آئے بجائے پچھلے سال کے ہم آئندہ سال پر نظر رکھیں۔ ہر دن ہم سوچیں کہ کام کے365دنوں میں سے ایک دن گزرگیا ہے ہم نے کس قدر کام کرنا تھا۔ اس میں سے کس قدر کام ہم نے کرلیا ہے اور کس قدر کام کرنا باقی ہے۔ اگر ہم اس طرح غور کرنا شروع کردیں تو ہم اپنے وقت کو پوری طرح استعمال کرسکتے ہیں۔ بشرطیکہ ہم سنجیدگی کے ساتھ غور کریں۔“ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۱/جنوری۱۹۵۲ء۔ خطبات محمود جلد ۳۳صفحہ۹-۱۰)
اسی لیے ہرمومن کو یہ فکر دامن گیر رہتی ہے کہ اُس کی زندگی کا ہرلمحہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق گزرے اور اُس کا ہر قدم نیکی اور تقویٰ کے حصول کے لیے اُٹھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بار بار اپنے نفس کو ملامت کرتا ہے اور اُس کے پیچھے چلنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی رضا کی راہوں کو تلاش میں لگا رہتاہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اُخروی زندگی میں اُس کے یہی اعمال اوراس دنیا میں جمع کیا جانے والا زادِ راہ اُس کے کام آئے گا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں اپنے چنیدہ بندوں کی یہ نشانی بیان فرمائی ہے کہ ثُمَّ اَوۡرَثۡنَا الۡکِتٰبَ الَّذِیۡنَ اصۡطَفَیۡنَا مِنۡ عِبَادِنَاۚ فَمِنۡہُمۡ ظَالِمٌ لِّنَفۡسِہٖۚ وَمِنۡہُمۡ مُّقۡتَصِدٌۚ وَمِنۡہُمۡ سَابِقٌۢ بِالۡخَیۡرٰتِ بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَضۡلُ الۡکَبِیۡرُ(فاطر:۳۳)پھر ہم نے اپنے بندوں میں سے جنہیں چن لیا انہیں کتاب کا وارث بنا دیا۔ پس ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے نفس کے حق میں ظالم ہیں اور ایسے بھی ہیں جو میانہ رَو ہیں اور ان میں ایسے بھی ہیں جو نیکیوں میں اللہ کے حکم سے آگے بڑھ جانے والے ہیں۔ یہی ہے جو بہت بڑا فضل ہے۔
حضرت اقد س مسیح موعود علیہ السلام اس آیت کے ضمن میں فرماتے ہیں:”سابق بالخیرات بننا چاہئے۔ ایک ہی مقام پر ٹھہرجانا کوئی اچھی صفت نہیں ہے۔ دیکھو ٹھہرا ہوا پانی آخر گندہ ہوجاتا ہے۔ کیچڑ کی صحبت کی وجہ سے بدبودار اور بدمزا ہوجاتا ہے۔ چلتا پانی ہمیشہ ستھرا اور مزیدار ہوتا ہے اگرچہ اس میں بھی نیچے کیچڑ ہومگر کیچڑ اس پر کچھ اثر نہیں کرسکتا۔ یہی حال انسان کا ہے کہ ایک ہی مقام پر ٹھہر نہیں جانا چاہئے۔ یہ حالت خطرناک ہے۔ ہر وقت قدم آگے ہی رکھنا چاہئے۔ نیکی میں ترقی کرنی چاہئے ورنہ خدا تعالیٰ انسان کی مدد نہیں کرتااور اس طرح سے انسان بے نُور ہوجاتا ہے۔“(ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۴۵۶۔ ایڈیشن ۲۰۰۳ء)اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ایک اور مقام پر فرمایا ہے: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَلۡتَنۡظُرۡ نَفۡسٌ مَّا قَدَّمَتۡ لِغَدٍۚ وَاتَّقُوا اللّٰہَؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ وَلَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنۡسٰہُمۡ اَنۡفُسَہُمۡ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ(الحشر:۲۰-۱۹)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور ہر جان یہ نظر رکھے کہ وہ کل کے لئے کیا آگے بھیج رہی ہے۔ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ یقیناً اللہ اس سے جو تم کرتے ہو ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انہیں خود اپنے آپ سے غافل کردیا۔ یہی بدکردار لوگ ہیں۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے:”نفس انسان کو مجبور کرتا ہے کہ اس کے خلاف کوئی امر نہ ہو اور اس طرح پر وہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تخت پر بیٹھ جاوے اس لئے اس سے بچتے رہو۔ مَیں سچ کہتا ہوں کہ بندوں سے پورا خُلق کرنا بھی ایک موت ہے۔ مَیں اس کو نا پسند کرتا ہوں کہ اگر کوئی ذرا بھی کسی کو تُوں تاں کرے تو وہ اس کے پیچھے پڑ جاوے۔ مَیں تو اس کو پسند کرتا ہوں کہ اگر کوئی سامنے بھی گالی دے دے تو صبر کرکے خاموش ہو رہے۔“(ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۶۹۔ایڈیشن ۲۰۰۳ء۔ نظارت نشرواشاعت قادیان )


نفس کو مارو کہ اس جیسا کوئی دشمن نہیں
چپکے چپکے کرتا ہے پیدا وہ سامانِ دمار
جس نے نفسِ دُوں کو ہمت کرکے زیرِ پا کیا
چیز کیا ہیں اُس کے آگے رستم و اسفند یار
(براہین احمدیہ حصہ پنجم،روحانی خزائن جلد ۲۱صفحہ ۱۴۴)


پس انسان کا مفاد اسی میں ہے کہ وہ اپنے نفس کی اصلاح کی طرف متوجہ رہے اور اُسے سیدھے راستے پر چلانے کے لیے تگ ودَو کرتا رہے کیونکہ جو نیکی اور پاکیزگی کی راہ اختیار کرتا ہے اُس کا فائدہ اُسی کی ذات کو پہنچے گا۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:اِنَّمَا تُنْذِرُالَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَیْبِ وَاَقَامُواالصَّلٰوۃَ وَمَنْ تَزَکّٰی فَاِنَّمَا یَتَزَکّٰی لِنَفْسِہٖ وَاِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُ (فاطر:۱۹)تُو صرف ان لوگوں کو ڈرا سکتا ہے جو اپنے ربّ سے اس کے غیب میں ہونے کے باوجود ترساں رہتے ہیں اور نماز کو قائم کرتے ہیں۔اور جو بھی پاکیزگی اختیار کرے تو اپنے ہی نفس کی خاطر پاکیزگی اختیار کرتا ہے اور اللہ کی طرف ہی آخری ٹھکانا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ کی خاطر پاکیزگی اختیار کرنے والے اور نیک اعمال بجالانے والے جب اُس کے حضور حاضر ہوں گے تواُن کے لیے اُس نے جزا کے طور پر ایسی جنتیں تیار کر رکھی ہیں جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں ان جنتوں میں وہ ہمیشہ ہمیش کے لیے ٹھہرائے جائیں گے۔ وَمَنْ یَّاْتِہٖ مُؤْمِنًا قَدْ عَمِلَ الصّٰلِحٰتِ فَاُولٰٓئِکَ لَھُمُ الدَّرَجٰتُ الْعُلٰی۔ جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا وَذٰلِکَ جَزٰٓؤُا مَنْ تَزَکّٰی(طٰہٰ:۷۶-۷۷) اور جو مومن ہوتے ہوئے اس کے پاس آئے گا اس حال میں کہ وہ نیک اعمال بجالایا ہو تو یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے بہت بلند درجات ہیں۔ (وہ) ہمیشگی کی جنتیں جن کے دامن میں نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے۔ اور یہ جزا ہے اس کی جس نے پاکیزگی اختیار کی۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:”ہمارا فرض یہ ہونا چاہیے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے جویا اور طالب رہیں اور اسی کو اپنا اصل مقصود قرار دیں۔ ہماری ساری کوشش اور تگ و دَو اللہ تعالیٰ کے رضا کے حاصل کرنے میں ہونی چاہیے۔ خواہ وہ شدائد اور مصائب ہی سے حاصل ہو۔ یہ رضائے الٰہی دنیا اور اس کی تمام لذات سے افضل اور بالا تر ہے۔“ (ملفوظات جلد ہفتم صفحہ ۲۹۵۔ ایڈیشن ۲۰۲۲ء)
خلاصہ کلام یہ کہ اگر انسانی نفس کو بے لگام اور کھلا چھوڑ دیا جائے تو اس سے بڑھ کر اُس کا کوئی دشمن نہیں۔جو انسان اصلاح نفس کی فکر سے غافل ہوجاتا ہے اُس کا نفس سرکشی کی راہ اختیار لیتاہے اور اُسے کسی نہ کسی معصیت میں گرفتار کرا دیتاہے۔ اس کے بالمقابل جو انسان اپنے نفس کو قابو کرنا جان لیتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں سرخرو ہوکر کامیابی کا تاج پہنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری مدد اور راہنمائی فرمائے تاکہ ہم اُس کی توفیق سے اپنے نفس کی اصلاح کرسکیں۔ آمین یارب العالمین


اے خدا کمزور ہیں ہم اپنے ہاتھوں سے اُٹھا
ناتواں ہم ہیں ہمارا خود اُٹھا لے سارا بار
(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱صفحہ ۱۴۳)

مزید پڑھیں:  رمضان المبارک ۔ تزکیہ نفس کا مہینہ

Related Articles

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button