متفرق مضامین

رمضان المبارک ۔ تزکیہ نفس کا مہینہ

(ڈاکٹر سر افتخار احمد ایاز)

اللہ تعالیٰ نے ماہ رمضان کو بڑی رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ قرار دیا ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جب قرآن کریم کے نزول کا آغاز ہوا جس پر دین حق کی بنیاد ہے اور جو اپنے کمال اور جامعیت کے اعتبار سے کوئی مثال نہیں رکھتا۔ رمضان کے پاکیزہ ماحول میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور آگ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیطان قید کر دیئے جاتے ہیں۔ اور انسان کو تزکیہ نفس کے لئے ایک بے نظیر موقع میسر آتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِی اُنْزَلَ فِیْہٖ الْقُرْاٰنُ سے ماہ رمضان کی عظمت معلوم ہوتی ہے۔ صوفیاء نے لکھا ہے کہ یہ ماہ تنویر قلب کے لئے عمدہ مہینہ ہے کثرت ست اس میں مکاشفات ہوتے ہیں۔ صلٰوۃ تزکیہ نفس کرتی ہے اور صوم تجلیٔ قلب کرتا ہے۔ تزکیہ نفس سے مراد یہ ہے کہ نفس امارہ کی شہوات سے بُعد حاصل ہو جائے اور تجلیٔ قلب سے مراد یہ ہے کہ کشف کا دروازہ اس پر کھلے کہ خدا کو دیکھ لے۔

(ملفوظات جلد 4صفحہ256تا257۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

حضور علیہ السلام کے اس فرمان سے ماہ رمضان کی فضیلت پوری شان سے ظاہر ہوتی ہے۔ اس ماہ کے اوّل و آخر بلکہ ہر لمحہ پر عبادات، صدقہ و خیرات، ذکر الٰہی اور دیگر نیک امور سر انجام دینے کے مواقع میسر آتے ہیں اور یہ تمام مواقع تزکیہ نفس کا موجب بنتے ہیں اور بدیوں اور گناہوں سے محفوظ رہنے اور نفس امارہ کی مخفی تحریکوں کے راستے مسدود ہونے سے اللہ کے بندے اس مہینہ میں دنیا میں ہی جنت کا منظر پا لیتے ہیں۔

قرآن کریم نے تاکیدًا فرمایا ہے کہ: اے مومنو! تم پر پہلے لوگوں کی طرح روزے فرض کئے گئے ہیں تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو (البقرہ184:)تزکیہ نفس اللہ تعالیٰ کی محبت اور رضا کی راہوں پر چلنے سے حاصل ہوتا ہے۔ روزہ نفس امارہ کی ان تمام اخلاقی، معاشرتی اور روحانی کمزوریوں سے بچاتے ہوئے اللہ کی خوشنودی کی راہ دکھاتا ہے۔ گو یا روزہ تزکیہ نفس جیسے بلند مقام تک لے جانے اور تقویٰ حاصل کرنے کا منبع اور سر چشمہ ہے۔

نفس کی پاکیزگی کے بغیر اللہ تعالیٰ کا پیار اور محبت حاصل کر سکنا ممکن نہیں اور نہ ہی انسان پاک و صاف نفس کے بغیر دین و دنیا میں کوئی حقیقی کامیابی اور خوشی حاصل کر سکتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’پس جو شخص خدا کو خوش کرنا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کی دنیا ٹھیک ہو جاوے خود پاک ہو جا وے نیک بن جاوے اور اس کی تمام مشکلات حل اور دُکھ دُور ہو جاویں اور اس کی ہر طرح کی کامیابی اور فتح و نصرت عطا ہو تو اس کے واسطے اللہ تعالیٰ نے ایک اصول بتایا ہے اور وہ یہ ہے کہ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا (الشمس10:) کامیاب ہو گیا ، با مراد ہو گیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کو پاک کر لیا۔ تزکیہ نفس میں ہی تمام برکات اور فیوض اور کامیابیوں کا راز پنہاں ہے۔ فلاح صرف امور دینی ہی میں نہیں بلکہ دنیا و دین میں کامیابی ہو گی۔ نفس کی نا پاکی سے بچنے والا انسان کبھی نہیں ہو سکتا کہ وہ دنیا میں ذلیل ہو۔ ‘‘

(ملفوظات جلد 10صفحہ391تا392۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی سورۃ الاعلیٰ کی اس آیت کی تفسیر میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’فرماتا ہے کہ یقینًا وہ شخص با مراد ہوا جو نفسانی خواہشات سے اجتناب اختیار کر کے پاک ہوا۔تَزَکّٰی کے معنی پاک ہونے کے ہوتے ہیں۔ پس اس آیت کے یہ معنی ہیں کہ وہ شخص کامیاب ہوا جس نے تقدس کا جامہ پہن لیا ۔ اللہ تعالیٰ چونکہ خودقدوس ہے اس لئے وہی شخص اس کا قرب حاصل کر سکتا ہےجو تقدس اور پاکیزگی اپنے اندر پیدا کرتا ہے۔ گناہ آلود زندگی بسر کرنے والے خدا تعالیٰ کے احکام کو پس پُشت ڈالنے والے شیطانی راہوں کو اختیار کرنے والےاور نفسانی خواہشات کے پیچھے چلنے والے دنیا میں ہی ذلیل ہوتے ہیں اور آخرت میں بھی ذلیل ہوں گے۔ تمام کامیابیوں کی جڑ پا کیزگی اختیار کرنا ہے‘‘۔

(تفسیر کبیر جلد 8صفحہ 438تا439)

بعض لوگ اپنے نفس کی اندھا دھند پیروی کرتے چلے جاتے ہیں اور نقصان اٹھاتے ہیں۔ نفس کو ٹٹولتے رہنا چاہئے اور اس کی پاکیزگی اور صفائی کی طرف ہمیشہ توجہ رہنی چاہئے۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اُن ذرائع کو اختیار کیا جائے جن سے تزکیہ نفس حاصل ہوتا ہے۔ ان میں سے اوّلین دعا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’حقیقی پاکیزگی کے حاصل کرنے اور خاتمہ با الخیر کے لئے جو خدا تعالیٰ نے سکھایا ہے وہ دعا ہے۔ اس لئے جس قدر ہو سکے دعا کرو۔ یہ طریق بھی اعلیٰ درجہ کا مجرّب اور مفید ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے خود فرمایا ہے ادْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْلَکُمْ (المومن 61:)تم مجھ سے دعا کرو مَیں تمہارے لئے قبول کرو ں گا۔ دعا میں ایک ایسی چیز ہے جس کے ساتھ مسلمانوں کو فخر کرنا چاہئے۔ اصل بات یہ ہے کہ لوگ دعا کی حققت سے بے خبر ہیں اور مسلمانوں نے بھی اس میں سخت ٹھوکر کھائی ہے کہ دعا جیسی شے کو ہاتھ سے چھوڑ بیٹھے ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد 4صفحہ 202۔ایڈیشن 2003ءمطبوعہ ربوہ)

رمضان خاص دعاؤں اور دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے قریبًا ہر احمدی دعاؤں کا مجسمہ ہے۔ حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس نے بھی پہلے دن سے دعاؤں کی طرف بہت توجہ دلائی ہے۔ دعاؤں کی قبولیت کے لئے نفس کی پاکیزگی ضروری ہے۔ صرف ضروری نہیں بلکہ ایک بنیادی ضرورت ہے۔ انسان کا ضمیر اُسے نفس کی حالت سے آگاہ کرتا رہتا ہے۔ اس لئے نفس کی پاکیزگی کے لئے خاص طور پر رمضان میں توجہ سے دعا کرنی چاہئے کیونکہ اس پاکیزگی کے بغیر انسان کچھ بھی حقیقی معنوں میں حاصل نہیں کر سکتا۔ نہ اِ س دنیا میں اور نہ آخرت میں۔ اور ہر ایک عزم کے ساتھ اس کی پا کیزگی کی حاصل کرنے کے ذرائع بھی اختیار کرنے چاہئیں۔

دوسرا ذریعہ تزکیہ نفس کا ذکر الٰہی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’قرآن کریم سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ایسی شے ہے جو قلوب کو اطمینان عطا کرتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا اَلَا بِذِکْرِ اللہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ۔ پس جہاں تک ممکن ہو ذکر الٰہی کرتا رہے اسی سےاطمینان حاصل ہو گا۔ ہاں اس کے واسطے صبر اور محنت در کار ہے۔ اگر گھبرا جاتا ہے اور تھک جاتا ہے تو پھر یہ اطمینان نصیب نہیں ہو سکتا۔ دیکھو ایک کسان کس طرح پر محنت کرتا ہے اور پھر کس صبر اور حوصلہ کے ساتھ باہر اپنا غلّہ بکھیرتا ہے۔ بظاہر دیکھنے والے یہی کہتے ہیں کہ اس نے دانےضائع کرد یئے لیکن ایک وقت آ جا تا ہے کہ وہ ان بکھرے ہوئے دانوں میںسے ایک خِر من جمع کرتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ پر حسن ظن رکھتاہے اور صبرکا نمونہ دکھاتاہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس پر مہربانی کرتا ہے اور اسے وہ ذوق شوق اور معرفت عطا کرتا ہے جس کا وہ طالب ہوتا ہے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد 7 صفحہ 311تا312۔ ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان)

پھر فرماتے ہیں:

’’قرآن شریف میں ہے اذْکُرُوْنِیْ اَذْکُرْکُمْ وَ اشْکُرُوْلِیْ وَلَا تَکْفُرُوْنِ۔ یعنی اے میرے بندو!تم مجھے یاد کیا کرو اور میری یاد میں مصروف رہا کرو مَیں بھی تم کو نہ بھولوں گا۔ تمہارا خیال رکھوں گا۔ اور میرا شکر کرو اور میرے انعامات کی قدر کیا کرو اور کفر نہ کرو۔ اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ذکر الٰہی کے ترک اور اس سے غفلت کا نام کفر ہے۔ پس جو دم غافل وہ دم کافر والی بات صاف ہے۔ یہ پانچ وقت تو خدا تعالیٰ نے بطور نمونہ کے مقرر فرمائے ہیں۔ ورنہ خدا کی یاد میں توہر وقت دل کو لگا رہنا چاہئے۔ اور کبھی کسی وقت بھی غافل نہ ہونا چاہئے۔ اُٹھتے بیٹھے چلتے پھرتے ہر وقت اسی کی یاد میں غرق ہونابھی ایک ایسی صفت ہے کہ انسان اس سے انسان کہلانے کا مستحق ہو سکتا ہے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد 5صفحہ 254۔ایڈیشن1985ءمطبوعہ انگلستان)

رمضان تو ہر دم ذکر الٰہی کا مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہوئے ذہن میں یہ بھی رکھ لینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نفس کو کلیۃً پاک اور صاف کر دے۔ نفس کی پا کیزگی کے بھی درجات ہیں اور جیسے انسان نفس کی پا کیزگی میں ترقی کرتا ہے ویسے ہی اس کے لئے تقویٰ میں ترقی کے راستے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ تقویٰ ہر ایک نیکی کی جڑ ہے اور پاک و صاف نفس کے بغیر نیک عمل ممکن نہیں۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ذکر الٰہی کرنے والوں پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے۔ اور یہ تزکیہ نفس کا یقینی ذریعہ ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے یَاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ لَا تُلْھِکُمْ اَمْوِالُکُمْ وَلَااَوْلَادُکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللہِ (المنٰفقون آیت 10) کہ اے مومنو تم کو مال اور اولاد اللہ کا ذکر کرنے سے روک نہ دے۔ تم اللہ کا ذکر کرنے میں کسی روکاوٹ کی پروا نہ کرو۔ اور کوئی تمہارا ایسا کام نہ ہو جس کو کرتے ہوئےتم اللہ کا ذکر کرنے میں سستی کرو۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص کی مثال جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے اور جو نہیں کرتا ایسی ہے جیسے زندہ اور مردہ کی۔ یعنی جو اللہ کا ذکر کرتا رہتا ہے وہ زندہ ہے اور جو نہیں کرتا وہ مردہ ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اصحاب کیا مَیں تمہیںایک ایسی بات نہ بتاؤں جو سب سے بہتر اور سب سے پسندیدہ ہو۔ اور سونے اور چاندی کے خرچ سے بھی بہتر ہو۔ اور اس سے بھی بہتر ہو کہ کوئی جہاد کے لئے جائے اور دشمنوں کو قتل کرے اور خود بھی شہید ہو جائے۔ صحابہ نے عرض کیا فرمایئے۔ آپ نے فرمایا وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔ ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ ذکر الٰہی کا درجہ سب سے بلند ہے۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا جہاد سے بھی اس کا درجہ بلند ہے۔ آپ نے فرمایا ہاں اس سے بھی بڑھ کر ہے۔

ذکر الٰہی کی قبولیت کے لئے ضروری ہے کہ پنجوقتہ نمازوں کو خلوص اور صدق کے ساتھ ادا کیا جائے۔ صلٰوۃ تزکیہ نفس کا بہترین ذیعہ ہے۔ جب نماز میں ایک قسم کی رقّت اور گداز پیدا ہو جائے تب فلاح یعنی دین و دنیا میں حقیقی کامیامیوں کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ اور دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’ جب انسان کو نمازوں میں خشوع اور خضوع حاصل ہونے لگ جا تا ہے تو پھر اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دنیا کی محبت اس کے دل سے ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ پھر وہ کا شتکاری ،تجارت نوکری وغیرہ چھوڑ دیتا ہے بلکہ وہ دنیا کے ایسے کاموں سے جو دھوکہ دینے والے ہوتے ہیں اور جو خدا سے غافل کر دیتے ہیں اعراض کرنے لگ جاتا ہے اور یسے لوگوں کی گریہ و زاری اور تضّرع اور ابتہال اور خدا کے حضور عاجزی کرنے کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ ایسا شخص دین کی محبت کو دنیا کی محبت ، حرص، لالچ اور عیش و عشرت سب پر مقدم کر لیتا ہے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد 10صفحہ63تا64۔ایڈیشن1985ءمطبوعہ انگلستان)

یہی وہ طریق ہے جس کے اختیار کرنےسے انسان تزکیہ نفس حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر تزکیہ نفس حاصل نہیں ہوتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’درحقیقت یہ گند جو نفس کے جذبات کا ہے اور بد اخلاقی کِبر اور ریا وغیرہ صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے اس پر موت نہیں آتی جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہو۔ اور یہ مواد ردّیہ جل نہیں سکتے جب تک معرفت کی آگ ان کو نہ جلائے۔ جس میں معرفت کی آگ پیدا ہو جاتی ہے وہ ان اخلاقی کمزوریوں سے پاک ہونے لگتا ہے اور بڑا ہو کر ہی اپنے آپ کو چھوٹا سمجھتا ہے اور اپنی ہستی کی کچھ حقیقت نہیں پاتا وہ اس نور اور روشنی کو جو انوارِ معرفت سے اسے ملتی ہے انہیں کسی قابلیت اور خوبی کا نتیجہ نہیں مانتا اور نہ اسے اپنے نفس کی طرف منسوب کرتا ہے بلکہ خدا تعالیٰ کا ہی فضل اور رحم یقین کرتا ہے جیسے ایک دیوار پر آفتاب کی روشنی اور دھوپ پڑ کر اسے منور کر دیتی ہے۔ لیکن دیوار اپنا کوئی فخر نہیں کر سکتی کہ یہ روشنی میری قابلیت کی وجہ سے ہے۔ یہ ایک دوسری بات ہے کہ جس قدر وہ دیوار صاف ہو گی اس قدر روشنی زیادہ صاف ہو گی۔۔۔پس میرے نزدیک پاک ہونے کا یہ عمدہ طریق ہے اور ممکن نہیں کہ اس سے بہتر کوئی اور طریق مل سکے کہ انسان کسی قسم کا تکبر اور فخر نہ کرے نہ علمی نہ خاندانی نہ مالی۔۔۔پس سچی معرفت اس کا نام ہے کہ انسان اپنے نفس کو مسلوب اور لا شئی محض سمجھے اور آستانۂ الوہیت پر گِر کر عجز اور انکسار کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فضل کو طلب کرے۔ اور اس نورِ معرفت کو مانگے جو جذبات نفس کو جلا دیتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 4صفحہ 211تا213ایڈیشن 2003ءمطبوعہ ربوہ)

اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کر نے کے لئے درود اور استغفار تریاق ہیں۔ ایک شخص نے بیعت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور مجھے کوئی وظیفہ بتائیں۔ اس پر حضور نے فرمایا کہ ’’نمازوں کو سنوار کر پڑھا کرو کیونکہ ساری مشکلات کی یہی کنجی ہے اور اس میں ساری لذت اور خزانے بھر ہوئے ہیں۔ صدق دل سے روزے رکھو۔ صدقہ و خیرات کرو ۔ درور شریف و استغفار پڑھا کرو۔‘‘

(الحکم جلد 7مؤرخہ28فروری 1903ء)

باطنی پاکیزگی روحانی ترقی اور اعلیٰ کمالات و اعلیٰ تزکیہ نفس کے لئے درود کا کثرت سے پڑھنا اکسیر کا حکم رکھتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہٖ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیمًا۔ کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجا کرو۔ پھر قرآن کریم میں ارشاد ہوا ھُوَ الَّذِی یُصَلِّیْ عَلَیْکُمْ وَ مَلٰئِکَتُہٗ لِیُخْرِجَکُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ وَ کَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا(الاحزاب آیت 44) یعنی وہی ہے جو تم پر اپنی رحمتیں بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی تمہارے لئے دعائیں کرتے ہیں تا کہ (اس کا نتیجہ یہ نکلے کہ) وہ تم کو اندھیروں سے نور کی طرف لے جائے اور وہ مومنوں پر بار بار رحم کرنے والا ہے۔

اندھیروں سے نور کی طرف لے جانا ہی تزکیہ نفس ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ درود شریف کے پڑھنے میں یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے میں ایک زمانہ تک مجھے بہت استغراق رہا۔ کیونکہ میرا یقین تھا کہ خدا تعالیٰ کی راہیں نہایت دقیق راہیں ہیں۔ وہ بجز وسیلۂ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مل نہیں  سکتیں ۔ جیسا کہ خدا ہی فرماتا ہے ا بْتَغُوْا اِلَیْہِ الوَسِیْلَہ یعنی اس تک پہنچنے کے لئے وسیلہ اختیار کرو۔ تب ایک مدت کے بعد کشفی حالت میں مَیں نے دیکھا کی دو سقّے یعنی ماشکی آئے اور ایک اندرونی راستے سے اور ایک بیرونی راستے سے میرے گھر میں داخل ہوئے ہیں اور ان کے کاندھوں پر نور کی مشکیں ہیں اور کہتے ہیں ھَذَا بِمَا صَلَّیْتَ عَلٰی مَحَمَّدٍ۔ یعنی یہ اس بات کی وجہ ہے کہ تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا ہے۔‘‘

(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22صفحہ 131 حاشیہ)

پس رمضان المبارک میں خاص طور پر بہت کثرت سے درود شریف پڑھیں اور اس التجا کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ ہمارے نفس کے سارے اندھیروں کو دور کر دے اور اپنے نور کی شعاؤں سے اسے منور کر دے اور اس کو اپنے پیار سے ہمیشہ بھر دے۔

تزکیہ نفس کے لئے صحبت صالحین کا بھی تاکیدی حکم ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’تیسرا پہلو حصول نجات اور تقویٰ کا صادقوں کی معیت ہے۔ جس کا حکم قرآن شریف میں ہے کہ کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ یعنی اکیلے نہ رہو کہ اس حالت میں شیطان کا داؤ انسان پر ہوتا ہے بلکہ صادقوں کی معیت اختیار کرو اور ان کی جمعیت میں رہو تا کہ ان کے انوار و برکات کا پر تَو تم پر پڑتا رہے۔ اور خانۂ قلب کے ہر ایک خس و خاشاک کو محبت الٰہی کی آگ سے جلا کر نور الٰہی سے بھر دے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد 4صفحہ207ایڈیشن 2003ءمطبوعہ ربوہ)

پھر فرمایا:’’تزکیہ نفس کے واسطے صحبت صالحین اور نیکوں کے ساتھ تعلق پیدا کرنا بہت مفید ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 1صفحہ 463۔ایڈیشن1985ءمطبوعہ انگلستان)

مزید فرمایا:’’اصلاح ِ نفس کی ایک راہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی ہے کہ کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ یعنی جو لوگ قولی، فعلی، علمی اور حالی رنگ میں سچائی پر قائم ہیں اُن کے ساتھ رہو۔ اس سے پہلے فرمایا یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللہَ۔ یعنی ایمان والو تقوی اللہ اختیار کرو۔ اس سے یہ مراد ہے کہ پہلے ایمان ہو پھر سنت کے طور پر بدی کی جگہ کو چھوڑ دے اور صادقوں کی صحبت میں رہے۔ صحبت کا بہت بڑا اثر ہوتا ہے جو اندر ہی اندر ہوتا چلا جاتا ہے۔ پس اس سے کبھی بے خبر نہیں رہنا چاہئے کہ صحبت میں بہت بڑی تاثیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اصلاح نفس کے لئے کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ کا حکم دیا ہے۔ جو شخص نیک صحبت میں جاتا ہے خواہ وہ مخالفت ہی کے رنگ میں ہو لیکن وہ صحبت اپنا اثر کئے بغیر نہ رہے گی اور ایک نہ ایک دن وہ اس مخالفت سے باز آ جائے گا۔‘‘

فرمایا:’’حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو دنیا میں بھیجا ہے وہ پاک لوگوں کی مجلس میں آتے ہیں اور جب واپس جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اُن سے پوچھتا ہے کہ تم نے کیا دیکھا؟ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے ایک مجلس دیکھی ہے جس میں وہ لوگ تیرا ذکر کر رہے تھے مگر ایک شخص اُن میں سے نہیں تھا۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نہیں وہ بھی اُن میں ہی سے ہے کیونکہ اِنَّھُمْ قَوْمٌ لَا یَشْقَا جَلِیْسُھُمْ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ صادقوں کی صحبت کے کس قدر فائدے ہیں۔ سخت بد نصیب ہے وہ شخص جو صحبت سے دور رہے۔

(ملفوظات جلد 6صفحہ249۔ایڈیشن1985ءمطبوعہ انگلستان)

صحبت صالحین کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے نماز با جماعت کا حکم فرمایا ہے تا ہم روزانہ پانچ مرتبہ صالحین کی صحبت کی برکتوں سے مستفید ہو سکیں۔ پھر ضروری ہے کہ ہم جماعت کی تقاریب اور مجالس میں کثرت سے شامل ہوں او ر اس نیت کے ساتھ شامل ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نفس کی کمزوریوں کو دور کردے اور ہمیں ہر لحاظ سے پاک و طیب بنا وے۔ تزکیہ نفس کےلئے سب سے بڑی نعمت خلیفۂ وقت کا قرب ہے۔ خلیفۂ وقت اپنے زمانہ کا سب سے بڑا صادق ہوتا ہے۔ حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس کی مجالس میں شامل ہونا آپ کے پیچھے نمازیں ادا کرنا آپ کے ارشادات کو توجہ سے سننا اور اُ ن پر صدق سے عمل کرنا حضور کے ساتھ خطوط کے ذریعہ ایک والہانہ تعلق رکھنا تزکیہ نفس کے لئے عظیم نعمتیں ہیں۔
حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنا بھی تزکیہ نفس کا ذریعہ ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتےہیں: ’’اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا جس کا مطلب یہ ہے کہ نجات پا گیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کر لیا اور خائب و خاسر ہو گیا وہ شخص جو اس سے محروم رہا۔ اس لئے اب تم لوگوں کو سمجھنا چاہئے کہ تزکیہ نفس کس کو کہاجاتا ہے۔ سو یاد رکھو کہ ایک مسلمان کو حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پورا کرنے کے واسطے ہمہ تن تیار رہنا چاہئے اور جیسے زبان سے خدا تعالیٰ کو اس کی ذات اور صفات میں حدہ لا شریک سمجھتا ہے ایسے ہی عملی طور پر اس کو دکھانا چاہئے۔ اور اس کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی اور ملائمت سے پیش آنا چاہئے اوراپنے بھائیوں سے کسی قسم کا بھی بُغض حسد اور کینہ نہیں رکھنا چاہئے۔ اور دوسروں کی غیبت کرنے سے بالکل الگ ہونا چاہئے۔۔۔لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم آپس میں ایک وجود کی طرح بن جاؤ۔ اور جب تم ایک وجود کی طرح ہو جاؤ گے اس وقت کہہ سکیں گے کہ اب تم نے اپنے نفسوں کا تزکیہ کر لیا۔ کیونکہ جب تک تمہار آپس میں معاملہ صاف نہیں ہو گا اس وقت تک خدا تعالیٰ سے بھی معاملہ صاف نہیں ہو سکتا۔ گو ان دونوں قسم کے حقوق میں بڑا حق خدا تعالیٰ کا ہے مگر اس کی مخلوق کے ساتھ معاملہ کرنا یہ بطور آئینہ کے ہے۔ جو شخص اپنے بھائیوں سے صاف صاف معاملہ نہیں کرتا وہ خدا تعالیٰ کے حقوق بھی ادا نہیں کر سکتا۔ ‘‘

’’تزکیہ نفس اسے کہتے ہیں کہ خالق اور مخلوق دونوں طرف کے حقوق کی رعایت کر نے والا ہو۔‘‘

(ملفوظات جلد 10صفحہ 72تا73۔ایڈیشن1985ءمطبوعہ انگلستان)

تزکیہ نفس کے لئے ظاہری صفائی بھی بہت اہم ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’پھر تزکیہ سے ظاہری صفائی بھی مراد ہے جیسا کی حدیثوں میں آیا ہے کہ راستہ میں کوئی گند نہ پھینگا جائے۔۔۔اسی طرح وضو کرنا، جمعہ کے دن نہانا بدن اور لباس کی مَیل دور کرنا ، ناک کان اور بالوں کی صفائی کرنا اورناخنوں کے اندر میل نہ جمنے دینا یہ تمام امور یُزَکِّیْھِمْ میں شامل ہیں۔ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کوئی شخص بُو دار چیز کھا کر مسجد میں نہ آئے کیونکہ اس سے دوسروں کو تکلیف پہنچتی ہے۔ پھر قلبی صفائی ہے اس کے متعلق بھی اسلام اعلیٰ درجہ کی تعلیم کا حامل ہے۔ اخلاقی تعلیم ہے اس کے متعلق بھی اسلام نے بڑا زور دیا ہے اور کہا ہے کہ غیبت نہ کرو چغلی نہ کرو دوسروں پر ظلم نہ کرو تجارتی بد دیانتی نہ کرو۔ حساب کتاب صاف رکھو لین دین کے معاملات تحریر میں لے آیا کرو۔سود نہ لو قرض دو تو لکھ لیا کرو قرض لو تو مقررہ وقت کے اندر ادا کرو۔ غرض تزکیہ نفوس کے لئے تمام ضروری احکام اور ان کی تفصیلات قرآن کریم نے بیان کر دی ہیں۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد 2صفحہ194تا195 )

تزکیہ نفس کے لئے خیالات کی پاکیزگی بھی ضروری ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’اصل بات یہ ہے کہ۔۔۔ تزکیہ نفس کے لئے خیالات کی پاکیزگی بھی ضروری قرار دی گئی ہے۔ بے شک خیالات کو کلّی طور پر پاک کرنا تو ہر انسان کے لئے نا ممکن ہے لیکن اگر کوئی بُرا خیال پیداہو تو اُسے اپنے دل سے نکال دینا تو ہر انسان کے لئے ممکن ہے۔۔۔تزکیہ نفس کی بنیادانسانی قلب کی صفائی پر ہے اور اس کی اہمیت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور بھی بیان فرمائی ہے۔آپ فرماتے ہیں۔۔۔ انسان کے بدن میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جب وہ تندرست ہوتا ہے تو سارا جسم تندرست ہوتا ہے اور جب وہ بگڑجاتا ہے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے۔ پھر آپ نے فرمایا غور سے سنوکہ وہ گوشت کا ٹکڑا دل ہے۔

پس اسلام میں پاکیزگی اس کا نام نہیں کہ صرف زبان پر اچھی باتیں ہوں یا اعمال تو اچھے ہوں اور دل میں برائی ہو بلکہ اسلام میں اصل پاکیزگی دل کی سمجھی جاتی ہےجو انسان اپنے دل کے لحاظ سے پاکیزہ نہیں وہ خدا تعالیٰ کے نزیک ہر گز پاک نہیں۔ ایک شخص اگر قطعًا کوئی گناہ نہ کرے مگر اس کے دل میں گناہ اور برائی سے اُلفت ہو اور گناہ کے ذکر میں اسے لذّت محسوس ہو تو وہ نیک اور پاک نہیں کہلا ئے گا۔ جب تک کہ اس کے دل میں بھی یہ بات نہ ہو کہ اسے گناہوں میں ملوّث نہیں ہونا چاہئے۔ ‘‘

(تفسیر کبیر جلد 2صفحہ652تا653 )

حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’1899ءکا ذکر ہے۔ عاجز ان دونوں لاہور میں ملازم تھاکہ رخصت کی تقریب پر حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ فرمایا’’ قرآن شریف میں آیا ہے قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا اس نے نجات پائی جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا ۔ تزکیہ نفس کے واسطے صحبت صالحین اور نیکوں کے ساتھ تعلق پیدا کرنا بہت مفید ہے۔ جھوٹ وغیرہ اخلاق رذیلہ دُور کرنے چاہئیں اور جو راہ پر چل رہا ہے اُس سے راستہ پوچھنا چاہیے ۔اپنی غلطیوں کو ساتھ ساتھ درست کرنا چاہئے۔جیسا کہ غلطیاں نکالنے کے بغیر املاء درست نہیں ہوتا ویسای ہی غلطیاں نکالنے کے بغیر اخلاق بھی درست نہیں ہو تے۔ آدمی ایسا جانور ہے کہ اس کا تزکیہ ساتھ ساتھ ہوتا رہے تو سیدہی راہ پر چلتا ہے۔ ورنہ بہک جاتا ہے۔‘‘ (ذکر حبیب صفحہ 187)

رمضان المبارک خصوصی دعاؤں کا مہینہ ہے اور اس کے ساتھ اپنے ذاتی محاسبہ کا مہینہ بھی اور اپنے نفس کی درستی اور پا کیزگی کے لئے جہاد کا مہینہ بھی۔ اپنی دعاؤں کےساتھ اُن دعاؤں کو بھی ضرور شامل کر لینا چاہئے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دکھلائی ہیں۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’تزکیۂ نفس کے لئے اللہ تعالیٰ مومنوں کو خاص دعائیں سکھلاتا ہے کیونکہ دعا ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے انسان اللہ تعالیٰ کا چہرہ دیکھتا ہے اور دعا ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے اس کی قدرتوں پر زندہ ایمان پیدا ہوتا ہے۔ اور پھر وہ دعا جو اللہ تعالیٰ خود سکھائے اس کی قبولیت میں تو کسی شبہ کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہمارے مومن بندے ہمیشہ یہ دعا کرتے رہتے ہیں رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِیْنَا اَوْ اَخْطَأنَا اے ہمارے رب! اگر ہم کبھی بھول جائیں یا کوئی خطا ہم سے سرزد ہو جائے تو ہمیں سزا نہ دیجیو بلکہ ہم سے رحم اور عفو کا سلوک کیجیو۔ بھول جانے کے معنی یہ ہیں کہ کوئی کام کرنا ضروری ہو مگر نہ کیا جائے اور خطا کےیہ معنی ہیں کہ کام تو کیا جائے مگر غلط کیا جائے۔ ۔۔۔پھر فرماتا ہےرَبَّنَا وَ لَا تَحْمِلْ عَلَیْنَا اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلیٰ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا یعنی مومن یہ بھی دعا کرتے ہیں کہ اے خدا ہم پر اس طرح ذمہ دار نہ ڈالیو جس طرح تو نے ان لوگوں پر جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں ڈالی تھی۔ اِصْرًا ایک ایک معنی چونکہ گناہ کے ہیں اس لئے اس دعا کا ایک مفہوم یہ ہے کہ اے خدا تو ہم پر اس طرح گناہ نہ ڈال جس طرح تو نے پہلے قوموں پر ڈالا۔ یعنی ہمیں ان اعمال سے اپنے فضل سے محفوظ رکھ جن کے نتیجہ میں ہماری طرف گناہ منسوب ہوں۔۔۔ پھر فرمایا وَاعْفُ عَنَّا اے خدا ہم سے عفو کر۔۔۔ وَاغْفِرْ لَنَا اور جو غلط کام ہم کر چکے ہیں اُن کے خمیازہ سے ہمیں بچالے۔۔۔ وَ ارْحَمْنَآ پھراس کام کے نتیجہ میں ہم سے جو اور غلطیاں ہوئی ہیں اور جن ترقیات کے حصول میں روک واقع ہو گئی ہےاُن غلطیوں کے متعلق بھی ہم پر رحم فرما۔۔۔ اَنْتَ مَوْلٰنَا تُو ہمارا مولیٰ ہمارا آقا اور ہمارا مالک ہے۔۔۔تُو آقا ہو نے کے لحاظ سے ہم پر رحم کر دے۔ ‘‘

(تفسیر کبیر جلد 2صفحہ656تا659)

خوش قسمت ہیں وہ جو رمضان کا مہینہ پاتے ہیں اور قابل رشک ہیں وہ جو اس کی برکتوں سے جھولیاں بھرتے چلے جاتے ہیں اور پھر رمضان کے انعامات کے وارث بنتے ہیں اور ان انعامات میں سے سب سے بڑا انعام تزکیہ نفس ہے۔ جس نے یہ پا لیا اُس نے سب کچھ پا لیا۔ اللہ تعالیٰ اس رمضان کی برکت سے ہمارے دلوں کے سب اندھیرے دور کردے ہمیشہ کے لئے اور ہمیں اُس نور کی طرف لے جائے جس کی طرف جانا ہی تزکیہ نفس ہے۔ آمین۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button