ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب(قسط نمبر۲۰۴)
خانہ کعبہ کی تجلّیات اور انوار و برکات ظاہری آنکھ سے نظر نہیں آتے
’’اسی طرح پر بعض لوگ حج کو جاتے ہیں۔ اس وقت ان کے دل میں بڑا جوش اور اخلاص ہوتاہے۔ لیکن جس جوش اور تپاک سے جاتے ہیں اکثر دیکھا گیا ہے کہ وہی جوش اور اخلاص لے کر واپس نہیں آتے ۔بلکہ واپس آنے پر بسااوقات پہلےسے بھی گئے گذرے ہو جاتے ہیں۔
سہل است رفتن بارادت
مشکل است آمدن بارادت
واپس آکر ان کے اخلاق میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں ہوتی بلکہ وہ تبدیلی کچھ اُلٹی تبدیلی ہو جاتی ہے۔ وہ جانے سے پہلے سمجھتے ہیں کہ خانہ کعبہ میں ایک عظیم الشان تجلی نور کی ہوگی۔ اور وہاں سے انوار و برکات نکلتے ہوں گے اور وہاں فرشتوں کی آبادی ہوگی لیکن جب وہاں جاتے ہیں۔ تو کیا دیکھتے ہیں کہ خانہ کعبہ جس کی تصویر انہوں نے اپنے خیال اور ذہن سے کچھ اور ہی قسم کی تجویز کی تھی وہ محض ایک کوٹھہ ہے اور اس کے ہمسایہ میں جو لوگ رہتے ہیں ان میں بعض جرائم پیشہ بھی ہیں وہ دنگا فساد بھی کر لیتے ہیں اور اکثر ان میں ایسے مفسد طبع دیکھے جاتے ہیں کہ بعض خام طبیعت کے آدمی انہیں دیکھ کر متردّد ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو دیکھ کر وہ نتیجہ نکال لیتے ہیں کہ یہاں کی ساری آبادی کا یہی حال ہے۔ اور کُل عرب ایسے ہی ہیں اور اس طرح پر ان کے دل میں کئی قسم کے شبہات پیدا ہو جاتے ہیں کیونکہ نہ وہاں وہ تجلّی انوار و برکات کی دیکھتے ہیں۔ جو انہوں نے بطور خود تجویز کر لی تھی اور نہ ملائک کی بستی پاتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اس قسم کے لوگ خود خام طبع ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ ٹھوکر کھاتے ہیں۔ یہ ان کی اپنی غلطی ہے جو وہ ایسا سمجھ لیتے ہیں ۔اس میں خانہ کعبہ کا کیا قصور؟ یہ کوئی ضروری امر نہیں ہے کہ خانہ کعبہ میں سارے قطب اور ابدال اور اولیاءاﷲ ہی رہتے ہوں۔ خانہ کعبہ نے اس وقت بھی تو گذارہ کر ہی لیا تھا جب اس کے چاروں طرف بت پرست ہی بُت پرست رہتے تھے اور خود خانہ کعبہ بتوں سے بھرا ہوا تھا۔
اس میں کچھ شک نہیں کہ خانہ کعبہ انوار وبرکات کی تجلّی گاہ ہے اور اس کی بزرگی میں کوئی کلام اور شبہ نہیں۔ پہلی کتابوں میں بھی اس کی بزرگی کا ذکر ہے مگر یہ تجلیات اور انوار وبرکات اس ظاہری آنکھ سے نظر نہیں آسکتے۔ اس کے لیے دوسری آنکھ کی حاجت ہے۔ اگر وہ آنکھ کھلی ہو تو یقیناً انسان دیکھ لے گا کہ خانہ کعبہ میں کس قسم کے برکات نازل ہو رہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ وہ بتوں سے بھرا ہوا تھا اور اس کے زائرین میں ابو جہل جیسے شریر تھے۔ پھر ان سے مقابلہ کر کے اگرایسے خام طبع لوگ کوئی بات کہتے تو انہیں شرمندہ ہونا پڑتا کیونکہ اگر غور سے دیکھا جاوے تو وہ لوگ جو بیت اﷲ کے جوار میں رہتے ہیں۔ عوام سے ہزارہا درجہ اچھے ہیں اور یہ امر مقابلہ سے معلوم ہوتا ہے۔ حقیقت میں کثرت کے ساتھ ان میں نیک اور اچھے لوگ ہیں اور ان کو دیکھ کر آدمی سمجھ سکتا ہے کہ خانہ کعبہ کی مجاورت نے ان کو بہت بڑا فائدہ پہنچایا ہے۔
یہ تو قانون قدرت ہی نہیں کہ دنیا میں آکر فرشتے آباد ہوں۔ پھر ایسا خیال کرنا کیسی غلطی اور نادانی ہے۔ انسانیت کے لازم حال زلات تو ضرور ہیں۔ پس مکہ میں جب انسان آباد ہیں تو ان کی کمزوریوں پر نظر کرکے مکہ کو بدنام کرنا یا اس کی بزرگی اور عظمت کی نسبت شک کرنا بڑی غلطی ہے۔ سچ یہی ہے کہ کعبہ کی بزرگی اور نورانیت دوسری آنکھوں سے نظر آتی ہے جیساکہ سعدیؒ نے فرمایا ہے۔؎
چو بیت المقدس دروں پر ز تاب
رہا کردہ دیوار بیروں خراب‘‘
(ملفوظات جلد ہشتم صفحہ ۷۳-۷۵ مطبوعہ ۱۹۸۴ء )
تفصیل: اس حصہ ملفوظات میں فارسی کے دواشعار آئے ہیں جن کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
شعر نمبر۱۔ مع اعراب اور اردو ترجمہ
سَہْل اَسْت رَفْتَنْ بِاِرَادَتْ
مُشْکِلْ اَسْت آمَدَنْ بِاِرَادَتْ
ترجمہ: عقیدت کے ساتھ جانا آسان ہے لیکن عقیدت کے ساتھ واپس آنا مشکل ہے ۔
لغوی بحث: سَہْل اَسْت (آسان ہے)رَفْتَنْ(جانا)مصدر۔ بِاِرَادَتْ(عقیدت کےساتھ) مُشْکِلْ اَسْت(مشکل ہے) آمَدَنْ(واپس آنا) مصدر۔ بِاِرَادَتْ(عقیدت کےساتھ)
شعرنمبر۲۔ یہ شیخ سعدی کا شعر ہے جو کہ مع اعراب اور اردو ترجمہ پیش ہے۔
چُوْبَیْتُ الْمُقَدَّس دَرُوْں پُرْزِتَابْ
رَہَا کَرْدِہْ دِیْوَار ِبِیْرُوْں خَرَاب
ترجمہ: بیت المقدس کی طرح ان کا اندرونہ روشن ہے مگر باہر کی دیوار خراب ہے ۔
لغوی بحث:چُو(طرح) بَیْتُ الْمُقَدَّس (بیت المقدس) دَرُوْں(اندرونہ) پُرْزِتَابْ(روشن) رَہَاکَرْدِہْ (چھوڑ رکھا ہے) دِیْوَارِبِیْرُوْں(بیرونی دیوار) خَرَاب(خراب)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: جماعتی پروگرامز میں شمولیت کے فوائد




