خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 05؍ دسمبر2025ء
اللہ کے نام کے ساتھ اس کی راہ میں جہاد کرو اور اس سے جنگ کرو جس نے اللہ کا انکار کیا اور دھوکانہ دو۔ بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کرو اور دشمن سے مقابلے کی تمنا نہ کرو۔ بیشک تمہیں معلوم نہیں شاید تم اس کی وجہ سے آزمائے جاؤ لیکن تم یہ کہو کہ اے اللہ !تُو ہمیں ان کے مقابلے میں کافی ہو جیسا تُو چاہے اور ان کی جنگ کو ہم سے دور کر دے۔ پس اگر ان کی تمہارے ساتھ مڈھ بھیڑ ہو جائے اور وہ اکٹھے ہو کر شور کریں تو تمہارے اوپر وقار اور خاموشی لازم ہے۔ اور تم آپس میں نہ جھگڑو ورنہ تم بزدل ہوجاؤ گے اور تمہارا رعب اور دبدبہ جاتا رہے گا۔ اور تم کہو اے اللہ !ہم تیرے بندے ہیں اور وہ بھی تیرے بندے ہیں۔ ہماری پیشانیاں اور ان کی پیشانیاں تیرے قبضہ قدرت میں ہیں اور تُو ہی ان سے کافی ہو سکتا ہے اور تم جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے کے نیچے ہے(ارشاد نبویﷺ)
’’کعب بن مالکؓ کا واقعہ کیسا سبق آموز ہے۔ … یاد رکھنا چاہیے کہ انتظام الگ چیز ہے اور کام کرنا الگ چیز۔ اور انتظام قائم رکھنے کے لیے جو غلطی کرتا ہے اس سے پوچھا جاتا ہے خواہ وہ کوئی ہو۔پس خدا کے حکم کے ماتحت دین کے لیے ایسی کوششیں کرو کہ شیطان کو بھگا دو مگر اس لیے ہرگز نہ کرو کہ تمہاری تعریف کی جائے اور کام کر کے یہ مت خیال کرو کہ ہماری غلطیوں پر ہم سے بازپُرس نہ کی جائے گی۔ پھر خدا پر احسان مت جتاؤ۔
مَنُّ و اَذٰی سے کام نہ لو۔ تمام ذرائع سے اسلام کی خدمت کرو۔‘‘(حضرت مصلح موعودؓ)
غزوۂ تبوک کا سفر ایسا پُرحکمت اور بابرکت سفر ثابت ہوا کہ سارے خطہ ٔعرب میں مسلمانوں کی دھاک بیٹھ گئی اور تھوڑی ہی دیر میں سارے عرب پر اسلام کا جھنڈا لہرانے لگا
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری غزوہ غزوۂ تبوک تھا اور آخری لشکر یا سریہ جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا وہ لشکر اسامہ تھا
اے لوگو !تم میں سے بعض کی گفتگو اسامہ کو امیر بنانے کے متعلق مجھے پہنچی ہے۔ اگر میرے اسامہ کو امیر بنانے پر تم نے اعتراض کیا ہےتو اس سے پہلے اس کے باپ کو میرے امیر مقرر کرنے پر بھی تم اعتراض کر چکے ہو۔ خدا کی قسم !وہ بھی امارت کے لائق تھا اور اس کے بعد اس کا بیٹا بھی امارت کے لائق ہے۔ وہ ان لوگوں میں سے تھا جو مجھے سب سے زیادہ محبوب تھے اور یقینا ًیہ دونوں ایسے ہیں کہ ان کے بارے میں ہر قسم کی نیکی اور بھلائی کا خیال کیا جا سکتا ہے۔ پس اس یعنی اسامہ کے لیے خیر کی نصیحت پکڑو کیونکہ یہ تم میں سے بہترین لوگوں میں سے ہے(ارشاد نبویﷺ)
’’(حضرت)ابوبکر ؓنے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! اگر مجھے اس بات کا یقین بھی ہو جائے کہ درندے مجھے اچک لیں گے تب بھی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق اسامہ کے لشکر کو ضرور بھیجوں گا۔ جو فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ٍمیں اسے منسوخ نہیں کرسکتا۔ ‘‘(حضرت مسیح موعودؑ)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سےحضرت ابوبکرؓ کی محبت تھی کہ اسامہؓ کے جس جھنڈے کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے ہاتھ سے گرہ لگائی تھی اور حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا تھاکہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ابن ابو قحافہ اس جھنڈے کی گرہ کھول دے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے ہاتھ سے لگائی ہے
مکرم عزیز الرحمٰن خالد صاحب مربی سلسلہ آف امریکہ اورمکرم ایدی حمایدی صاحب آف انڈونیشیاکی وفات پر ان کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب
غزوۂ تبوک اور بعض سرایا کے تناظر میں سیرتِ نبویؐ کا پاکیزہ بیان
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 05؍ دسمبر2025ء بمطابق 05؍فتح 1404 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
گذشتہ خطبہ میں
حضرت کعب بن مالکؓ اور بعض دوسرے صحابہؓ کے غزوۂ تبوک میں پیچھے رہ جانے اور اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کا ذکر ہوا تھا۔
اس بارے میں حضرت مصلح موعودؓ نے بھی ذکر فرمایاہے اور اس حوالے سے جماعت کو نصیحت بھی کی ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ
’’احادیث میں آتاہے کہ تین مومن بھی اس جنگ میں شامل نہ ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک کا طویل بیان احادیث میں آتاہے۔ وہ فرماتے ہیں‘‘ یعنی وہ صحابی ’’کہ جب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی واپسی کے بعد آپؐ کے پاس پہنچا تو میں نے لوگوں سے دریافت کیا کہ سناؤ پیچھے رہنے والے اور بھی کوئی آئے ہیں یانہیں اور انہوں نے کیا کیا طریق معذرت کااختیار کیا ہے اور ان سے کیا سلوک ہوا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ لوگ آتے ہی عذر معذرت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یارسول اللہؐ ! ہماری معافی کےلیے دعاکردیں تو آپؐ ان کےلیے دعا کردیتے ہیں۔ وہ ’’یعنی یہ صحابی حضرت کعبؓ ‘‘کہتے ہیں مجھے خیال آیا کہ مَیں بھی کوئی عذر کردوں اور سرزنش سے چھوٹ جاؤں مگر پھر مجھے کچھ خیال آگیا اور میں نے صحابہ ؓسے پوچھا کہ کون کون لوگ آچکے ہیں؟ انہوں نے نا م لیے تو سب منافق تھے۔ صرف دومؤمنوں کا نام انہوں نے لیا اور بتایا کہ انہوں نے کوئی عذر نہیں کیا بلکہ اپنی غلطی کا اقرار کیا ہے۔ تب میں نے دل میں کہا کہ میں منافقوں کے ساتھ کیوں شامل ہوں۔ بہتر ہے کہ ایسے عذر پیش کرنے کی بجائے جو حقیقتاً عذر نہیں کہلاسکتے صاف کہہ دوں کہ غلطی ہوگئی ہے، آپ جو چاہیں مجھ سے معاملہ کریں۔ چنانچہ یہ خیال آنے پر میں نے اقرار جرم کا فیصلہ کرلیا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے منافقوں کے ساتھ شامل ہونے سے بچالیا۔ چنانچہ میں گیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صاف طور پر کہہ دیا کہ میری سستی اور غفلت تھی کہ میں غزوہ میں شامل نہ ہوا ورنہ کوئی حقیقی عذر نہیں تھا۔ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تک اللہ تعالیٰ کا حکم تمہارے متعلق نہ آئے تم سے قطع تعلق کیا جائے گا۔ اِس صحابی کا نام کعب بن مالکؓ تھا ۔وہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں اس حکم سے سخت تکلیف پہنچی کیونکہ مدینہ میں سب مسلمان ہی تھے اورجو منافق تھے ان میں سے بھی کسی کو جرأت نہ تھی کہ ان سے بات چیت کرے۔‘‘
یہ ساری بات مَیں نےمختصر ہی بیان کی ہے۔ تفصیل پچھلے خطبہ میں بیان کر چکا ہوں۔ آپؓ نے خطبہ میں یہ بیان فرمایا تھا اور پھر اس حوالے سے جیسا کہ میں نے کہا جماعت کو نصیحت بھی کی تھی۔ حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں کہ ’’یہاں تومیں نے دیکھا ہے‘‘ یعنی قادیان میں۔ یہ 1936ء کی بات ہے۔ ’’کہ جن لوگوں سے بات چیت منع ہے‘‘ یعنی جن کو سزا ملتی ہے ’’ وہ محلوں میں احمدیوں کے مکانوں پر بھی چلے جاتے ہیں۔ محلے والے معلوم نہیں سوئے رہتے ہیں کہ ان کو پتہ ہی نہیں لگتا۔ یہاں کے بعض احمدی سانپوں کوپالتے ہیں مگر وہ یاد رکھیں کہ یہ سانپ نہ خدا کو ڈس سکتے ہیں، نہ اس کے رسول کو اورنہ خلیفہ کو۔ یہ انہی کو ڈسیں گے جو اِن کو پالتے ہیں۔ ہم تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے محفوظ ہیں کیونکہ جسے اللہ تعالیٰ اپنی حفاظت میں لے لے اسے کون ڈس سکتا ہے ۔یہ انہیں کو ڈسیں گے جنہیں وہ ڈس سکتے ہیں اور افسوس کہ وہ دیکھتے ہوئے ان سانپوں کی حرکات پر اغماض سے کام لیتے ہیں۔‘‘
اس زمانے میں بعض فتنے اٹھے تھے جس کی وجہ سے آپؓ کو یہ کہنا پڑا تھا۔ آپؓ آگے فرماتے ہیں کہ ’’غرض مدینہ میں کوئی منافق بھی ان سے بات چیت نہ کرسکتا تھا۔ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس حکم کے چند دن کے بعد معلوم ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیوی بچے بھی ان لوگوں سے جدا ہوجائیں۔ ہم تینوں میں سے ایک صحابی بوڑھے تھے۔ ان کی بیوی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی اور عرض کیا کہ یارسول اللہؐ!میرا خاوند تو پہلے ہی مرچکاہے۔ نہ کھانا کھاتا ہے، نہ سوتا ہے۔ پھر بوجہ ضعیف العمر ہونے کے ہر وقت مدد کا محتاج ہے۔ میاں بیوی کے تعلقات کے قابل تو وہ پہلے ہی نہ تھا اگر آپؐ اجازت دیں تو میں کھانے پینے میں اس کی مدد کر وں۔ آپؐ نے فرمایا اچھا اتنی اجازت ہے۔ اس پر ’’حضرت کعبؓ کہتے ہیں ‘‘مجھے خیال آیا کہ میں بھی کیوں نہ اپنے لیے ایسی اجازت حاصل کرنے کا انتظام کروں مگر پھر خیال آیا کہ وہ بوڑھا ہے میں جوان ہوں میرے لیے ایسا کرنا مناسب نہیں۔ اس پر میں نے بیوی سے کہاکہ تُو میکے چلی جا ایسا نہ ہو کہ میں تجھے بلاؤں اور تُو جواب دے دے۔ مجھے کسی اَور کے متعلق تو خیال ہی نہ تھا کہ مجھ سے بات چیت کرے۔ ہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور شفقت کی وجہ سے خیال تھا کہ میرے درد کو دیکھ کر آپؐ کو ضرور رحم آئے گا۔ اس لیے میں آپؐ کی مجلس میں جاتا اور زور سے السلام علیکم کہتا او رپھر دیکھتا کہ آپؐ کے ہونٹ حرکت کرتے ہیں یا نہیں مگر آپؐ جواب نہ دیتے اور میں گھبراہٹ میں اٹھ آتا اور خیال کرتا کہ آپؐ کے ہونٹ ہلے ہوں گے مگر میں دیکھ نہیں سکا اس لیے’’اس وقت تو‘‘مجلس سے اٹھ کر چلا جاتا اور پھر لوٹ کر آکر زور سے السلام علیکم کہہ کر پھر ہونٹوں کی طرف دیکھتا۔اور پھر اٹھ آتا اورپھر جاتا مگر آپؐ جواب نہ دیتے ہاں کنکھیوں سے کبھی کبھی میری طرف دیکھ لیتے۔ وہ کہتے ہیں جب بہت دن گزرگئے تو میں اپنے چچیرے بھائی کے پاس جن کے ساتھ میں ہمیشہ کھاتا پیتا اور رہتا سہتا تھا گیا وہ اپنے باغ میں کام کررہا تھا۔ میں نے اسے کہا کہ اے بھائی !تُو میرا محرم رازہے۔ ہم دونوں ہمیشہ اکٹھے رہے ہیں اور ہماری کوئی بات ایک دوسرے سے پوشیدہ نہیں ۔ تجھے خوب معلوم ہے کہ میں مخلص مسلمان ہوں اور نفاق کی کوئی رگ مجھ میں نہیں۔ میں آج گھبراہٹ میں تجھ سے پوچھنے آیا ہوں کہ بتاؤ کیا میں منافق ہوں؟ مگر ا س نے کوئی جواب نہ دیا اور صرف آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا جس سے اس کا مطلب یہ تھا کہ خدا اور اس کا رسولؐ ہی بہتر جانتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب ایسے بھائی نے جو میرا محرم راز تھا مجھے یہ جواب دیاتو میں نے محسوس کیا کہ زمین مجھ پر تنگ ہوگئی ہے اور میں گھبراکر باغ کی دیوار پھاند کرباہر آگیا اور دیوانہ وار شہر کی طرف چل پڑا۔ جب شہر کے پاس پہنچا تو ایک شخص میرے قریب آیا اور پوچھا کہ کیا تُو فلاں شخص ہے؟ میں نے کہاں ہاں تو اس نے مجھے ایک خط دیا کہ یہ فلاں بادشاہ نے بھیجا ہے یہ ایک عرب کا عیسائی بادشاہ تھا جو رومی حکومت کے ماتحت تھا۔ میں نے کھول کر پڑھا تو اس میں لکھا تھا کہ ہم جانتے ہیں کہ تم عرب کے رئیس ہو اور تمہیں محمدﷺ نے ذلیل کیا ہے حالانکہ تمہاری قدر کرنی چاہیے تھی۔ اگر تم میرے پاس آجاؤ تو میں تمہارے شایانِ شان تم سے سلوک کروں گا۔ (کعب بن) مالکؓ کہتے ہیں کہ میرے بھائی نے مجھے جو جواب دیا تھا ’’یعنی کہ چچا زاد بھائی کے باغ میں جب گئے تھے ‘‘اس سے میرا دل الٹ رہا تھا ’’اس سے اس وقت بھی بے چینی تھی۔‘‘ وہ خط دیکھ کر مجھ پر سکتہ کی حالت طاری ہوگئی اور میں نے سوچا کہ یہ شیطان کا آخری حملہ ہے ایسا نہ ہو کہ میرے قدم لڑکھڑا جائیں اور میں نے اس قاصد سے کہا کہ میرے پیچھے آؤ۔ ایک جگہ ایک آدمی بھٹی جلا رہا تھا۔ مَیں نے اس خط کو پرزے کرکے اس میں ڈال دیا’’ آگ میں’’ اور اس سے کہا کہ اپنے بادشاہ سے کہہ دینا کہ اِس کا جواب یہ ہے۔ یہ ان کے ابتلاء اورمصیبت کی آخری گھڑیاں تھیں۔ آخر اللہ تعالیٰ نے رحم کیااور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا کہ ان کی غلطی معاف کردی جائے۔ ‘‘
(خطبات محمود جلد 17 صفحہ 655تا658 بیان فرمودہ 9 اکتوبر 1936ء)
حضرت مصلح موعودؓ ایک اَور جگہ فرماتے ہیں کہ
’’کعب بن مالکؓ کا واقعہ کیسا سبق آموز ہے۔
وہ تمام غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے مکہ کی فتح میں بھی ساتھ تھے مگر غزوۂ تبوک میں سستی سے پیچھے رہ گئے۔ نبی کریم ؐنے انہیں ایسی سخت سزا دی کہ ان کے سلام کاجواب تک نہ دیتے تھے۔ تمام مسلمانوں کو کلام کرنے سے روک دیا حتیٰ کہ بیوی کو بھی الگ کر دیا۔ اسی حالت میں غسان کے بادشاہ کا ایلچی ان کے پاس خط لایا جس میں لکھا تھا کہ تیرے صاحب نے تیری قدر نہیں کی۔ تُو میرے پاس آجا۔ انہوں نے یہ کہہ کر کہ یہ شیطان کا آخری حملہ ہے خط کو تنور میں ڈال دیا اور ایلچی کو کہا کہ اپنے بادشاہ کو یہ پیغام پہنچا دینا مگر‘‘ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ’’ آجکل کے لوگ ہیں‘‘۔ جماعت میں اس وقت جو حالت تھی ’’ کہ ان سے اگر کچھ بازپُرس کی جائے ‘‘جواب طلبی کی جائے ’’تو وہ کہتے ہیں کہ ہماری خدمات کا لحاظ نہیں رکھا گیا۔ ہماری قدر نہیں کی گئی۔
یاد رکھنا چاہیے کہ انتظام الگ چیز ہے اور کام کرنا الگ چیز۔ اور انتظام قائم رکھنے کے لیے جو غلطی کرتا ہے اس سے پوچھا جاتا ہے خواہ وہ کوئی ہو۔پس خدا کے حکم کے ماتحت دین کے لیے ایسی کوششیں کرو کہ شیطان کو بھگا دو مگر اس لیے ہرگز نہ کرو کہ تمہاری تعریف کی جائے اور کام کر کے یہ مت خیال کرو کہ ہماری غلطیوں پر ہم سے بازپُرس نہ کی جائے گی۔ پھر خدا پر احسان مت جتاؤ۔ مَنُّ واَذٰی سے کام نہ لو۔ تمام ذرائع سے اسلام کی خدمت کرو۔‘‘
(خطبات محمود جلد 5 صفحہ 527-528 فرمودہ 27 جولائی 1917ء)
احسان نہ جتاؤبلکہ خدمت کرو۔ یہی جذبہ ہونا چاہیے اللہ کو راضی کرنے کا۔
یہ شروع خلافت کے خطبات میں سے۔ اور پہلا جو ایک اقتباس تھا وہ 1936ء کا تھا۔
غزوۂ تبوک کا سفر ایسا پُرحکمت اور بابرکت سفر ثابت ہوا کہ سارے خطہ ٔعرب میں مسلمانوں کی دھاک بیٹھ گئی اور تھوڑی ہی دیر میں سارے عرب پر اسلام کا جھنڈا لہرانے لگا۔
چنانچہ اس بارے میں بھی حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمایا ہے فرماتے ہیں کہ
’’تبوک سے واپسی کے بعد طائف کے لوگوں نے بھی آ کر اطاعت قبول کر لی۔ پہلے وہ لڑائی کر رہےتھے۔ پھر انہوں نے اطاعت قبول کر لی اور اس کے بعد عرب کے متفرق قبائل نے باری باری آ کر اسلامی حکومت میں داخلے کی اجازت چاہی اور تھوڑے ہی عرصے میں سارے عرب پر اسلامی جھنڈا لہرانے لگا۔ ‘‘
(دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 363)
واپسی کے بعد ایک سریہ بھی ہوا تھا جسے
سریہ حضرت خالد بن ولید ؓکہا جاتا ہے جو نجران میں بَنُو عَبْدُالْمَدَانجو بَنُوحَارِث بن کعب میں سے تھے ان کی طرف تھا۔
عَبْدُالْمَدَان جس کی طرف قبیلے کی نسبت کی گئی ہے بنو حارث کا جدّ امجد تھا اور اس کا نام عَمْرو بن یزید تھا۔ ابن سعد کی روایت کے مطابق یہ سریہ ربیع الاوّل دس ہجری کو پیش آیا جبکہ ابن ہشام کے مطابق یہ سریہ ربیع الآخر یا جمادی الاولیٰ دس ہجری کو ہوا۔ سیرت النبی خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بعث خالد بن ولیدبطرف نجران کی تاریخ ربیع الاوّل دس ہجری بیان کی ہے۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 2 صفحہ 128 دارالکتب العلمیۃ1990ء)
( السیرۃ النبویہ لابن ہشام صفحہ861 دارالکتب العلمیۃ2001ء)
( السيرة النبوية وأخبار الخلفاء۔ابن حبان صفحہ 385-386 الكتب الثقافيہ بيروت 1987ء)
(سیرت خاتم النبیین صفحہ 833از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے )
بہرحال
اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے
کہ آپ نے حضرت خالد ؓکو حکم دیا کہ لڑنے سے پہلے تین بار ان کو دعوت اسلام دینا۔ جن کی طرف سریہ بھیجا گیا تھا۔ اگر وہ قبول کریں تو بہتر ہے ورنہ پھر جنگ کرنا۔ یعنی اگر جنگ کی کوشش کریں تو تم پھر بھی تین دفعہ ان کو اسلام کی تعلیم کی دعوت دینا۔ اگر پھر بھی جنگ کرنا چاہیں تو پھر ٹھیک ہے ان سے جنگ کرو۔ چنانچہ حضرت خالدؓ نے ایسا ہی کیا اور یہ سب لوگ مسلمان ہو گئے۔ چنانچہ حضرت خالدؓ نے ان میں قیام کر لیا یعنی صرف تبلیغ کی، جنگ نہیں ہوئی اور وہ مسلمان ہو گئے۔ حضرت خالدؓ نے ان میں قیام کر لیا اور ان کو اسلام، کتاب اللہ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی تعلیم دینی شروع کی اور یہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد ؓکو حکم دیا تھا۔ اس کے بعد حضرت خالدؓ نے ایک خط حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں روانہ کیا۔ اور یہ لکھا کہ
حضرت محمد رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں خالد بن ولید کی طرف سےالسلام علیک یا رسولَ اللّٰہ ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ۔ مَیں اس خدا کی حمد کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اما بعد یا رسول اللہ !اللہ تعالیٰ آپ پر رحمت نازل فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بنو حارث کی طرف بھیجا تھا اور مجھے حکم دیا تھا کہ میں تین روز تک ان کو اسلام کی طرف دعوت دوں۔ پھر اگر وہ اسلام قبول کریں تو میں ان میں رہ کر ان کو احکام اسلام،قرآن کریم اور سنت رسول سکھاؤں اور اگر وہ اسلام قبول نہ کریں تو میں ان سے جنگ کروں۔
بعض باتیں تفصیل میں بیان نہیں ہوتیں یا دوسری جگہ بعض باتوں سے مل جاتی ہیں لیکن اسلام کی تعلیم یہ نہیں ہے کہ زبردستی اسلام قبول کروایا جائے۔ یہی مطلب تھاکہ کوئی معاہدہ نہ کریں یا اگر پھر بھی جنگ کریں تو پھر ان سے جنگ کرو ۔تمہیں اجازت ہے۔ پس کہتے ہیں کہ ان کے پاس آیا اور آپؐ کے ارشاد کے مطابق تین روز تک ان کو دعوتِ اسلام کی اور سواروں کو ان کے پاس بھیجا کہ اےبنوحارث! اسلام قبول کر لو سلامت رہو گے۔ پس لوگوں نے اسلام قبول کر لیا اور جنگ سے باز رہے۔ تبلیغ کی تو انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ اس فقرے سے بھی یہ بڑا واضح ہو جاتا ہے کہ وہ جنگ سے باز رہے۔ انہوں نے جنگ میں پہل نہیں کی۔ جب مخالف نے پہل نہیں کی تو یہ بھی جنگ کرنے نہیں گئے تھے ۔تبلیغ کرنے گئے تھے تو وہ کی۔ پھر لکھتے ہیں کہ اب میں ان میں مقیم ہوں اور دین کے اوامر و نواہی اور احکامات ان کو بتلا رہا ہوں۔ آئندہ جو حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے صادر ہو گا اس کے موافق عمل کروں گا۔ والسلام علیک یا رسول اللّٰہ ورحمۃ وبرکاتہ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالدؓ کے اس خط کے جواب میں فرمایا :بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ محمد رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے خالد بن ولید کو سلام۔ میں اُس خدا کی تعریف کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ امَّا بعد تمہارا خط مع قاصد ہمارے پاس پہنچا اور معلوم ہوا کہ بنو حارث نے اسلام قبول کر لیا ہے اور جنگ سے پہلے لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی دی اور یہ خدا کی ہدایت ہے جو اس نے ان کے شامل حال فرمائی۔ پس تم ان کو ثواب الٰہی کی خوشخبری پہنچاؤ اور عذاب الٰہی سے خوف دلاؤ اور خود ان کے چند لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر ہمارے پاس حاضر ہو جاؤ۔ والسلام علیک ورحمة اللہ وبرکاتہ
حضرت خالدؓ اس فرمان کو دیکھ کر بنو حارث کے چند افراد کو ساتھ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
جن کو لے کر آئے تھے ان کے نام یہ ہیں :قیس بن حُصَیْن، یزید بن عَبْدُالْمَدَان، یزید بن مُحَجَّل، عبداللّٰہ بن قُرَاد، شَدَّاد بن عبداللّٰہ ، عَمْرو بن عبداللّٰہ۔جب یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے توآپؐ نے ان کو دیکھ کر فرمایا :یہ کون لوگ ہیں؟ ایسامعلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ ہندی ہیں۔ عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !یہ لوگ بنو حارث میں سے ہیں۔ ان لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اور کہا :ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ کے سوا کوئی معبودنہیں ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں بھی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بیشک میں اس کا رسول ہوں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم وہی لوگ ہو کہ جب کبھی اپنے دشمن سے لڑتے ہو تو اس کو بھگا دیتے ہو؟ لوگ خاموش رہے۔ ان میں سے کوئی بھی آگے نہ بڑھا۔ یعنی بولا نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دوسری مرتبہ دہرایا تو پھر بھی یہ لوگ خاموش رہے۔ ان میں سے کوئی بھی آگے نہیں بڑھا۔ کسی نے جواب نہیں دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تیسری مرتبہ بھی دہرایا۔ ان میں سے کوئی بھی آگے نہیں بڑھا یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چوتھی مرتبہ پھر دہرایا کہ جب کبھی دشمن سے لڑتے ہو تو اسے بھگا دیتے ہو۔ یعنی یہ تم لوگوں کا حال تھا کہ اپنے آپ کو بڑے طاقتور سمجھتے تھے۔ اس وقت یزید بن عَبْدُالمَدَاننے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !ہاں ہم وہی لوگ ہیں کہ جب کسی سے لڑتے ہیں اس کو بھگا دیتے ہیں اور چار دفعہ اس نے بھی یہی عرض کیا۔ کہ ہم بڑے جنگجو اور بہادر لوگ تھے لیکن یہاں یہ الٹ بات ہو گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اگر خالد مجھ کو نہ لکھتے کہ تم لوگوں نے اسلام قبول کر لیا ہے تو میں تمہارے سروں کو تمہارے پیروں تلے ڈلوا دیتا۔یزید بن عَبْدُالمَدَاننے عرض کیا کہ ہم آپؐ کے یا خالد کے شکرگزار نہیں ہیں۔ نیا نیا اسلام قبول کیا تھا تو کہتا ہے ہم آپؐ کے شکرگزار نہیں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھرکس کے شکرگزار ہو ۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ !ہم خدا کے شکرگزار ہیں جس نے ہم کو آپؐ کے ذریعہ ہدایت دی۔ بڑا اچھا جواب دیا اس نے بھی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سچ کہتے ہو۔ پھر فرمایا:یہ بتاؤ کہ تم لوگ کس سبب سے زمانہ جاہلیت میں اپنے مخالف پر غالب ہوتے تھے؟ تب انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!ہم اکٹھے ہو کر دشمنوںسے لڑتے تھے۔ یہ سمجھتےتھے کہ ہم ایک ہو کر لڑیں گے اس لیے ہمیں بہرحال فتح ہو گی اور ہم پر کوئی فتح نہیں پا سکتا۔ جب اسلام آیا اور اسلام نے سب قبائل کو ایک کر دیا اور مختلف قبائل بھی ایک جان ہو گئے تو اب ان کو سمجھ آئی کہ یہ لوگ بھی اکٹھے ہیں اور بہتری اسی میں ہے کہ ہم ان سے جنگ نہ کریں بلکہ نہ صرف جنگ نہ کریں بلکہ اسلام بھی قبول کر لیں کیونکہ یہی سچا مذہب ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قیس بن حُصَیْنکو بنو حارث کا امیر مقرر فرمایا اور شوّال کے آخر یا ذوالقعدہ کے شروع میں ان لوگوں کو رخصت فرمایا۔ ان لوگوں کے اپنی قوم میں پہنچنے کے چار مہینے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا۔
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 861 تا 863 دارالکتب العلمیۃ بیروت،لبنان2001ء)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری غزوہ غزوۂ تبوک تھا اور آخری لشکر یا سریہ جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا وہ لشکر اسامہ تھا۔
لشکر اسامہ کی تفصیل ان کے ذکر میں اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذکر میں پہلے بیان ہو چکی ہے تاہم
مختصراً کچھ پس منظر کے ساتھ یہاں بیان کر دیتا ہوں۔
بخاری کی روایت ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو حضرت زیدؓ اور حضرت جعفر ؓاور حضرت عبداللہ بن رَوَاحہؓ کی موت کی خبر دی پیشتر اس کے کہ لوگوں کے پاس ان سے متعلق کوئی خبر آئی۔ اس سے پہلے، اسامہ کے لشکر سے پہلے ایک لشکر گیا تھا۔ آپؐ نے فرمایا :زید نے جھنڈا لیا اور وہ شہید ہوئے ۔پھر جعفر نے پکڑا اور وہ بھی شہید ہو گئے۔ پھر ابن رَوَاحہ نے جھنڈے کو پکڑا اور وہ بھی شہید ہوگئے۔ اور آپؐ کی آنکھیں آنسو بہا رہی تھیں۔ آخر اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار خالد بن ولید نے جھنڈا لیا یہاں تک کہ اللہ نے اسے ان مخالفین پر فتح دی۔
(صحیح البخاری کتاب المناقب باب مناقب خالد بن الولیدؓ حدیث 3757 مترجم جلد 7 صفحہ243)
حجة الوداع سے واپسی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ واپس پہنچے تو اس وقت جنوب کی طرف سے اہل مدینہ کو کسی دشمن کا خطرہ باقی نہیں رہا تھا لیکن شمال سے اہل روم کی طرف سے اب بھی خطرہ باقی تھا کیونکہ ان عیسائیوں کو ابھی تک اپنی قوّت پر بڑا ناز تھا۔ اس لیے کسی وقت بھی ان کی طرف سے حملہ ہو سکتا تھا اور ویسے بھی جنگ موتہ کے شہداء کا قصاص بھی باقی تھا کیونکہ اس جنگ میں حضرت خالد بن ولیدؓ کی مہارت کی بناپر مسلمانوں کا لشکر واپس مدینہ آنے میں کامیاب ہوا تھا۔
حج سے فراغت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ تشریف لائے ہوئے زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ چند دن بعد حضرت اسامہ بن زید ؓکی قیادت میں ایک لشکر کو شام پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔
(حیات محمدﷺ از محمد حسین ہیکل مترجم ابو افضال محمد خان صفحہ597)
لشکر اسامہ کی تیاری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے دو روز قبل بروز ہفتہ مکمل ہوئی اور اس کا آغاز آپؐ کی بیماری سے قبل ہو چکا تھا۔ آپؐ نے ماہ صفر کے آخر میں رومیوں سے جنگ کی تیاری کا حکم دیا۔ حضرت اسامہ ؓکو بلایا اور فرمایا :اپنے والد کی شہادت گاہ کی طرف روانہ ہو جاؤ۔ حضرت زیدؓ کو پہلی جنگ میں جہاں شہید کیا گیا تھا آپؐ نے فرمایا کہ وہاں جاؤ اور انہیں گھوڑوں یعنی دشمنوں کو گھوڑوں سے روند ڈالو۔ میں نے تم کو اس لشکر کا امیر مقرر کیا ہے۔
(فتح الباری لابن حجر جلد8صفحہ192 قدیمی کتب خانہ مقابل آرام باغ کراچی)
ایک اَور روایت میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بَلْقَاءاور دَارُوْمکو گھوڑوں کے ذریعہ روند ڈالو۔ بَلْقَاء ملک شام میں واقع ایک علاقہ ہے جو دمشق اور وادی القریٰ کے درمیان میں ہے۔ دَارُوْم مصر جاتے ہوئے فلسطین میں غزہ کے بعد ایک مقام ہے ۔اور ملک شام کے لیے روانگی کا ارشاد کرتے ہوئے فرمایا: پھر صبح ہوتے ہی اہل اُبْنٰی پر حملہ کرو۔ اُبْنٰی ملک شام میں بَلْقَاء کی جانب ایک جگہ کا نام ہے اور فرمایا کہ تیزی کے ساتھ سفر کرو تا ان تک اطلاع پہنچنے سے پہلے پہنچ جاؤ۔ پس اگر اللہ تعالیٰ تمہیں کامیابی عطا کرے تو وہاں قیام مختصر رکھنا اور اپنے ساتھ راستہ دکھانے والے لے جانا اور مخبروں اور جاسوسوں کو اپنے آگے روانہ کر دو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہؓ کے لیے اپنے ہاتھ سے ایک جھنڈا باندھا پھر کہا :
اللہ کے نام کے ساتھ اس کی راہ میں جہاد کرو اور اس سے جنگ کرو جس نے اللہ کا انکار کیا۔ اور دھوکانہ دو۔ بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کرو اور دشمن سے مقابلے کی تمنا نہ کرو۔
یہ فقرہ بھی دشمن کے خطرے کے مقابلے کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ دشمن اگر حملہ کرے تو کرنا ہے لیکن تم نے دشمن سے مقابلے کی تمنانہیں کرنی۔ پس فرمایا کہ
بیشک تمہیں معلوم نہیں شاید تم اس کی وجہ سے آزمائے جاؤ لیکن تم یہ کہو کہ اے اللہ !تُو ہمیں ان کے مقابلے میں کافی ہو جیسا تُو چاہے اور ان کی جنگ کو ہم سے دور کر دے۔
یہ دعا بھی سکھائی کہ جنگ ضروری نہیں ہے، جنگ ٹل سکتی ہے تو ٹالو۔
پس اگر ان کی تمہارے ساتھ مڈھ بھیڑ ہو جائے اور وہ اکٹھے ہو کر شور کریں تو تمہارے اوپر وقار اور خاموشی لازم ہے۔ لیکن پھر بھی اگر جنگ ہو جائے تو پھر خاموشی سے اور وقار سے جنگ کرو اور تم آپس میں نہ جھگڑو ورنہ تم بزدل ہو جاؤ گے اور تمہارا رعب اور دبدبہ جاتا رہے گا۔ اکائی پیدا کرو اپنے اندر اور تم کہو اے اللہ !ہم تیرے بندے ہیں اور وہ بھی تیرے بندے ہیں۔ ہماری پیشانیاں اور ان کی پیشانیاں تیرے قبضہ قدرت میں ہیں اور تُو ہی ان سے کافی ہو سکتا ہے اور تم جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے کے نیچے ہے۔
حضرت اسامہ ؓآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے بندھا ہوا جھنڈا لے کر نکلے اور اسے حضرت بُرَیْدَہ بن حُصَیْب کے سپرد کیا اور جُرُف مقام پر لشکر کو جمع کیا۔ جُرُف مدینہ سے تین میل شمال کی جانب ایک جگہ ہے۔ مہاجرین اور انصار کے معززین میں سے کوئی ایسا شخص بھی باقی نہ بچا مگر اس کو اس جنگ کے لیے بلا لیا گیا۔ ان میں حضرت ابوبکر ؓ، حضرت عمر ؓ، حضرت ابوعُبَیْدَہ بن جَرَّاحؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت سعید بن زیدؓ، حضرت قَتَادة بن نعمانؓ، حضرت سَلَمَہ بن اَسْلَمؓ شامل تھے۔ سب کو حضرت اسامہؓ کے ماتحت کیا۔ کچھ لوگوں نے باتیں شروع کر دیں اور کہا کہ یہ لڑکا اوّلین مہاجرین پر امیر بنایا جا رہا ہے۔ ان میں تو بڑے بڑے صحابہؓ ہیں ان پر لڑکے کو امیر بنا دیا۔ آپؐ تک بات پہنچی تو اس بات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض ہوئے۔ آپؐ نے اپنے سر کو ایک رومال سے باندھا ہوا تھا اور آپؐ ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے۔ آپؐ منبرپر چڑھے اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کی۔ پھر فرمایا:
اے لوگو !تم میں سے بعض کی گفتگو اسامہ کو امیر بنانے کے متعلق مجھے پہنچی ہے۔ اگر میرے اسامہ کو امیر بنانے پر تم نے اعتراض کیا ہے تو اس سے پہلے اس کے باپ کو میرے امیر مقرر کرنے پر بھی تم اعتراض کر چکے ہو۔ خدا کی قسم !وہ بھی امارت کے لائق تھا اور اس کے بعد اس کا بیٹا بھی امارت کے لائق ہے۔ وہ ان لوگوں میں سے تھا جو مجھے سب سے زیادہ محبوب تھے اور یقینا ًیہ دونوں ایسے ہیں کہ ان کے بارے میں ہر قسم کی نیکی اور بھلائی کا خیال کیا جا سکتا ہے۔ پس اس یعنی اسامہ کے لیے خیر کی نصیحت پکڑو کیونکہ یہ تم میں سے بہترین لوگوں میں سے ہے۔
وہ مسلمان جو حضرت اسامہؓ کے ساتھ روانہ ہو رہے تھے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو الوداع کر کےجُرُفکے مقام پر لشکر میں شامل ہونے کے لیے چلے جاتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری بڑھ گئی لیکن آپؐ تاکید فرماتے رہے کہ لشکر اسامہ کو بھجواؤ ،یہ بہرحال جائے گا۔ اتوار کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا درد اَور زیادہ ہو گیا۔ حضرت اسامہ ؓلشکر میں سے واپس آئے تو آپؐ بے ہوشی کی حالت میں تھے۔ جب تکلیف زیادہ بڑھ گئی اور آپؓ کو اطلاع ہوئی تو آپؓ واپس آگئے۔ اس روز لوگوں نے آپؐ کو دوا پلائی تھی یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دوا پلائی تھی۔ حضرت اسامہؓ نے سر جھکا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بوسہ دیا۔ آپؐ بول نہیں سکتے تھے لیکن آپؐ اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتے اور حضرت اسامہؓ کے سر پر رکھ دیتے تھے۔ حضرت اسامہؓ کہتے ہیں کہ میں نے سمجھ لیا کہ آپؐ میرے لیے دعا کر رہے ہیں۔ حضرت اسامہ ؓلشکر کی طرف واپس آ گئے۔ حضرت اسامہؓ سوموار کو دوبارہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپؐ کو افاقہ ہو گیا تھا۔ آپؐ نے اسامہ سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی برکت سے روانہ ہو جاؤ۔ حضرت اسامہؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے رخصت ہو کر اپنے لشکر کی طرف روانہ ہوئے اور لوگوں کو چلنے کا حکم دیا۔ آپ نے ابھی کوچ کا ارادہ ہی کیا تھا کہ حضرت اسامہؓ کی والدہ حضرت اُمّ اَیْمَنکی طرف سے ایک شخص پیغام لے کر آیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری وقت دکھائی دے رہا ہے۔ اس پر حضرت اسامہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور حضرت عمرؓ اور حضرت ابوعُبَیْدَہؓ بھی ان کے ساتھ تھے اور آپؐ پر نزع کی حالت تھی۔ کچھ ہی دیر بعد آپؐ نے وفات پائی جس کی وجہ سے مسلمانوں کا لشکر جُرُف مقام سے مدینہ واپس آ گیا اور حضرت بُرَیْدَہ بن حُصَیْبؓحضرت اسامہؓ کا جھنڈا لے کر آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر گاڑھ دیا۔ ایک روایت کے مطابق جب حضرت اسامہؓ کا لشکر ذُوْخُشُبمیں تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تھی۔ ذُوْخُشُب بھی مدینہ سے ایک رات کی مسافت پر واقع ہے۔ شام کے راستے پر یہ وادی ہے۔لیکن بہرحال یہ لوگ واپس آئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد جب حضرت ابوبکر ؓکی بیعت کر لی گئی تو حضرت ابوبکر نے حضرت بُرَیْدَہ بن حُصَیْب ؓکو حکم دیا کہ جھنڈا لے کر اسامہؓ کے گھر جاؤ کہ وہ اپنے مقصد کے لیے روانہ ہوں۔ حضرت بُرَیْدَہ جھنڈے کو لشکر کی پہلی جگہ پر لے آئے۔
(تاریخ الطبری جلد 2صفحہ 224دارالکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)
( الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 2 صفحہ 146-147 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)
( سبل الھدیٰ والرشاد جلد06صفحہ 248 دارالکتب العلمیۃ1993ء)
(البدایۃ والنھایۃ جلد 3 جزء 6 صفحہ 302دارالکتب العلمیۃ بیروت2001ء)
( معجم البلدان جلد 1 صفحہ101 ،579تا580دارالکتب العلمیۃ)
(فرہنگ سیرت صفحہ 87 ،114 ،119زوار اکیڈمی پبلی کیشنز کراچی 2003ء)
اس لشکر کی تعداد تین ہزار بیان کی جاتی ہے جس میں سے ایک ہزار گھڑ سوار تھے اور ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت اسامہ بن زید ؓکو سات سو آدمیوں کے ساتھ شام کی طرف بھیجا گیا تھا۔
( شرح العلامۃ الزرقانی علی المواھب اللدنیہ جلد4 صفحہ 155 دارالکتب العلمیۃ1996ء)
( سبل الھدیٰ والرشاد جلد06صفحہ 250 دارالکتب العلمیۃ1993ء)
(البدایۃ والنھایۃ جلد 3 جزء 6 صفحہ 302 سنہ 11 ہجری دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے دوسرے روز حضرت ابوبکرؓ نے منادی کرا دی کہ اسامہ کی مہم پایہ ٔتکمیل کو پہنچے گی۔ اسامہؓ کے لشکر میں سے کوئی شخص بھی مدینہ میں باقی نہ رہے مگر یہ کہ وہ سب جُرُفمیں ان کے لشکر سےجا ملیں۔
(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ244، دارالکتب العلمیۃ بیروت، 2012ء)
حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے تو سارا عرب مرتد ہو گیا اور حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ جیسے بہادر انسان بھی اِس فتنہ کو دیکھ کر گھبرا گئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے قریب ایک لشکر رومی علا قہ پر حملہ کرنے کے لیے تیا ر کیا تھا اور حضرت اسامہؓ کو اس کا افسر مقرر کیا تھا۔ یہ لشکر ابھی روانہ نہیں ہوا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے اور آپ کی وفات پر جب عرب مرتد ہوگیا تو صحابہؓ نے سوچا کہ اگر ایسی بغاوت کے وقت اسامہ ؓکا لشکر ابھی رومی علاقہ پر حملہ کرنے کے لیے بھیج دیا گیا تو (مدینہ میں) پیچھے صرف بوڑھے مرد او ر بچے اور عورتیں رہ جا ئیں گی اور مدینہ کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں رہے گا ۔چنانچہ انہوں نے تجویز کی کہ اکابر صحابہؓ کا ایک وفد حضرت ابو بکر ؓکی خدمت میں جا ئے اوران سے درخواست کرے کہ وہ اس لشکر کو بغاوت کے فرو ہونے تک روک لیں۔ چنانچہ حضرت عمرؓ اور دوسرے بڑے بڑے صحابہؓ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے یہ درخواست پیش کی ‘‘کہ بغاوت کے ختم ہونے تک اس کو روکا جائے۔ ’’حضرت ابوبکر ؓنے جب یہ بات سنی تو انہوں نے نہایت غصہ سے اس وفد کو یہ جواب دیا کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابوقحافہ کا بیٹا ’’یعنی حضرت ابوبکرؓ ‘‘سب سے پہلا کا م یہ کرے کہ جس لشکر کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ کرنے کا حکم دیا تھا اسے روک لے؟ پھر آپؓ نے فرمایا
خدا کی قسم! اگر دشمن کی فوجیں مدینہ میں گھس آئیں او رکتے مسلمان عورتوں کی لاشیں گھسیٹتے پِھریں تب بھی میں اس لشکر کو نہیں روکوں گا جس کو روانہ کرنے کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا تھا ۔
یہ جرأت اور دلیری حضرت ابو بکرؓ میں اِسی وجہ سے پیدا ہو ئی کہ خدا نے یہ فرمایا کہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ۔ جس طرح بجلی کے ساتھ معمولی تار بھی مل جا ئے تو اس میں عظیم الشان طاقت پیدا ہو جاتی ہے اسی طرح محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق کے نتیجہ میں آپؐ کے ماننے والے بھی اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِکے مصداق بن گئے۔‘‘
(سیر روحانی (6)، انوارالعلوم جلد22 صفحہ593-594)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃو السلام جیش اسامہ کی روانگی کی بابت
اپنی تصنیفِ لطیف سر الخلافہ میں بیان فرماتے ہیں کہ ’’ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ ‘‘جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا اور آپ کی وفات کی خبر مکہ اور وہاں کے گورنر عَتَّاب بن اَسِیْد کو پہنچی تو عَتَّاب چھپ گیا اور مکہ لرز اٹھا اور قریب تھا کہ اس کے باشندے مرتد ہو جاتے…اور مزید لکھا ہے کہ’’عرب مرتد ہو گئے۔ہر قبیلے میں سے عوام یا خواص‘‘ مرتد ہو گئے ’’اور نفاق ظاہر ہو گیا اور یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنی گردنیں اٹھا اٹھا کر دیکھنا شروع کر دیا‘‘یعنی یہ دیکھ رہے تھے کہ اب مسلمان کمزور ہو گئے ہیں اب حملہ کر سکتے ہیں۔ ’’اور مسلمانوں کی اپنے نبیؐ کی وفات کی وجہ سے ،نیز اپنی قلت اور دشمنوں کی کثرت کےباعث ایسی حالت ہو گئی تھی جیسی بارش والی رات میں بھیڑ بکریوں کی ہوتی ہے۔‘‘ یعنی بھیگی ہوئی ہوتی ہیں۔ ہلنے جلنے کے قابل نہیں ہوتیں۔’’اس پر لوگوں نے ابوبکرؓسے کہا کہ یہ لوگ صرف اسامہ کے لشکر کو ہی مسلمانوں کا لشکر سمجھتے ہیں اور جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں عربوں نے آپ سے بغاوت کر دی ہے۔ پس مناسب نہیں کہ آپ مسلمانوں کی اس جماعت کو اپنے سے الگ کرلیں۔ اس پر (حضرت)ابوبکر ؓنے فرمایا:
اس ذات کی قَسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! اگر مجھے اس بات کا یقین بھی ہو جائے کہ درندے مجھے اچک لیں گے تب بھی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق اسامہ کے لشکر کو ضرور بھیجوں گا۔ جو فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے میں اسے منسوخ نہیں کرسکتا۔ ‘‘
(سرالخلافۃ روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 394 حاشیہ، اردو ترجمہ ازسرالخلافۃ صفحہ 188-189شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ)
الغرض
آپؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو کما حقہ قائم رکھا اور نافذ فرمایا اور جو صحابہؓ حضرت اسامہؓ کے لشکر میں شامل تھے انہیں واپس لشکر میں شامل ہونے کا ارشاد فرمایا۔ آپؓ نے فرمایا کہ ہر وہ شخص جو پہلے اسامہؓ کے لشکر میں شامل تھا اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں شامل ہونے کا ارشاد فرمایا تھا وہ ہرگز پیچھے نہ رہے اور نہ ہی میں اسے پیچھے رہنے کی اجازت دوں گا۔ اسے خواہ پیدل بھی جانا پڑے وہ ضرور ساتھ جائے گا تو کوئی ایک بھی اس سے پیچھے نہ رہا۔ یعنی سب چل پڑے۔
(شرح العلامۃ الزرقانی علی المواھب اللدنیہ جلد4 صفحہ 155 دارالکتب العلمیۃ بیروت 1996ء )
بہرحال حضرت ابوبکر ؓکے اس لشکر کو روانہ کرنے کے بارے میں لکھا ہے کہ جب حضرت ابوبکرؓ کے حکم کے مطابق جیش اُسَامہ جُرُف کے مقام پر اکٹھا ہو گیا تو حضرت ابوبکرؓ وہاں خود تشریف لے گئے اور آپؓ نے وہاں جاکر لشکر کا جائزہ لیا اور اس کو ترتیب دی۔
اس بارے میں یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت اسامہؓ سے کہا کہ اگر آپ مناسب سمجھیں تو حضرت عمر ؓکو میرے کاموں میں معاونت کے لیے چھوڑ دیں۔ کیونکہ اس لشکر میں حضرت عمر ؓبھی شامل تھے تو حضرت اسامہؓ نے اجازت دے دی۔
( تاریخ الطبری جلد2 صفحہ246، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، 2012ء)
اس واقعہ کے بعد حضرت عمرؓ جب بھی حضرت اسامہؓ سے ملتے یہاں تک کہ خلیفہ منتخب ہونے کے بعد بھی تو آپ کو مخاطب ہو کر کہتے تھے: السلام علیک ایھا الامیر۔کہ اے امیر !السلام علیکم اور اس کے جواب میں اسامہ بھی کہتے: غَفَرَ اللّٰہُ لَکَ۔
حضرت ابوبکرؓ نے حضرت اسامہ ؓکو اپنی ہدایت کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تمہیں کرنے کا حکم دیا ہے وہ سب کچھ کرنا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی بجاآوری میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرنا۔
(الکامل فی التاریخ جلد2 صفحہ 199-200دارالکتب العلمیۃ بیروت 2006ء)
(السیرۃ الحلبیۃ جلد3 صفحہ 294 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ246، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، 2012ء)
جنگ کی تفصیل تو پہلے بیان ہو چکی ہے اسے میں چھوڑتا ہوں۔ یہ لشکر جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کامیاب ہو کر واپس آیا۔ دشمن یا تو قتل ہوا یا قیدی بن گیا۔ اس جنگ میں کسی مسلمان کا بھی کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ روایات کے مطابق یہ لشکر چالیس سے لے کر ستّر روز تک باہر رہنے کے بعد مدینہ واپس پہنچا تھا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سےحضرت ابوبکر کی محبت تھی کہ اسامہؓ کے جس جھنڈے کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے ہاتھ سے گرہ لگائی تھی اور حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا تھاکہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ابنِ ابو قحافہ اس جھنڈے کی گرہ کھول دے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے ہاتھ سے لگائی ہے ۔
چنانچہ لشکر اسامہ کی واپسی پر اس جھنڈے کی گرہ نہ کھولی گئی اور وہ جھنڈا بعد میں بھی حضرت اسامہؓ کے گھر میں ہی رہا یہاں تک کہ حضرت اسامہ ؓکی وفات ہو گئی۔
(الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 200 مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ 2006ء)
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 2 صفحہ 147 سریہ اسامہ بن زیدؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)
(المسیرۃ الاسلامیہ لجیل الخلافۃ الراشدۃ المجلد الاول ابوبکرالصدیق،تالیف منیرمحمد الغضبان، صفحہ34-35دارالسلام2015ء)
اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَاٰلِ مُحَمَّد
غزوات کا یہ بیان ختم ہوا۔ آئندہ سیرت کے کچھ اَور پہلو ان شاء اللہ دیکھوں گا۔
اس وقت میں
دو مرحومین کا ذکر بھی کرنا چاہتا ہوں اور بعد میں جنازہ پڑھاؤں گا ان شاء اللہ۔
مکرم عزیز الرحمٰن خالد صاحب مربی سلسلہ
یہ گذشتہ دنوں اناسی 79 سال کی عمر میں امریکہ میں وفات پا گئے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔مرحوم کے نانا حضرت میاں رنگ علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام تھے۔ عزیز الرحمٰن خالد صاحب کے جامعہ میں داخل ہونے کا واقعہ بھی کچھ اس طرح ہے۔ کہتے ہیں کہ جب میں ساتویں کلاس میں تھا تو ایک روز تعلیم الاسلام ہائی سکول میں اسمبلی میں حضرت مولانا قاضی محمد نذیر صاحبؓ تشریف لائے اور وقف زندگی کی ضرورت اور اہمیت پر لیکچر دیا۔ اس پر بہت سے طلبہ پر اس لیکچر کا بہت اثر ہوا۔ جب لیکچر ختم ہوا تو مرحوم کو زندگی وقف کرنے کا جذبہ ابھرا اوروہ سیدھے جامعہ میں گئے۔ وہاں مختصر انٹرویو کے بعد 1960ء میں جامعہ میں ان کو داخلہ مل گیا اور 1969ء میں جامعہ سے شاہد کی ڈگری انہوں نے حاصل کی۔ اس دوران جامعہ میں نو سال کا عرصہ اس لیے بھی لگا کہ ان کا ٹرین کا ایک ایکسیڈنٹ ہو گیا جس کی وجہ سے انہیں بڑی چوٹیں آئی تھیں تو دو سال ضائع ہو گئے لیکن بہرحال انہوں نے ہمّت نہیں ہاری اور زندگی بھی بچ گئی۔ اور یہ کہا کرتے تھے کہ خلیفةالمسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی دعاؤں سے میری زندگی بچی ہے۔ جامعہ پاس کرنے اور مبلغ بننے کے بعد یہ سیرالیون، نائیجیریا، گھانا، تنزانیہ، زنجبار بیرونی ملکوں میں رہے اور پاکستان میں مختلف جگہوں پہ مربی کے طور پر بھی خدمات انجام دیتے رہے۔ واپس آنے کے بعد یہ تحریک جدید میں وکالت اشاعت ربوہ میں خدمت کی توفیق پاتے رہے۔
ان کے نواسے حمزہ عبیداللہ مربی ہیں۔ جامعہ سے فارغ ہوئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ عزیز الرحمٰن صاحب بتایا کرتے تھے کہ افریقہ میں ایسا وقت بھی آتا تھا کہ چاول ابال کر اس پر نمک چھڑک کر کھا لیا کرتا تھا اور کوئی سالن وغیرہ کھانے کی چیز نہیں ہوتی تھی اور بعض دفعہ ایسے دن بھی ہوتے تھے جو معمولی غذا بھی میسر نہیں ہوتی تھی۔ ابلے ہوئے چاول بھی میسر نہیں ہوتے تھے اور بعض دفعہ کئی دن بھوکا رہنا پڑتا تھا ۔
تو یہ ابتدائی مربیان مبلغین کے کام تھے جو آجکل کے مربیان اور مبلغین کو اپنے سامنے رکھنے چاہئیں۔
انیس الرحمٰن انس ان کے بیٹے ہیں۔ کہتے ہیں کہ کبھی بھی کھانے کو ضائع نہیں ہونے دیتے تھے۔ جلسہ کے موقع پر بھی بہت دفعہ ایسا ہوا کہ کھانا پلیٹ میں ڈلوانے کے بجائے میزوں پر روٹی کے جو بچے ہوئے ٹکڑے ہوتےتھے وہی کھا لیتے۔ کہتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اگر یہ روٹی کے ٹکڑے کھا سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں کھا سکتے۔ جوانی سے ہی تہجد گزار تھے۔ خوش اخلاق ،ملنسار ،ہمدرد ،نیک ،محنتی اور باوفا انسان تھے ۔ خلافت سے گہرا عقیدت کا تعلق تھا۔ مرحوم موصی بھی تھے ۔
یہ میرے ساتھ گھانا میں بھی رہے ہیں جب میں وہاں رہا ہوں۔ بڑی وفا سے، بڑی محنت سے ،بڑی سادگی سے انہوں نے کام کیا۔ بے نفس ہو کے کام کیا ہے۔
ان کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔کثیر تعداد میں پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند کرے۔
دوسرا ذکر ہے
مکرم ایدی حمایدی (Eddi Humaedi) صاحب۔ یہ انڈونیشیا کے ہیں۔
یہ 22؍نومبر کو عمرہ کی سعادت کے بعد اچانک بیمار ہو گئے اور پھر اسی بیماری سے ستتر سال کی عمر میں مدینہ منورہ میں وفات پا گئے ۔انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ ان کے خاندان میں احمدیت 1930ء کی دہائی میں آئی جب ان کے ماموں محمد رؤوف صاحب نے حضرت مولانا رحمت علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعہ بیعت کی۔ اس کے بعد ان کے نانا اور والدہ نے بھی بیعت کر لی۔ ان کے داماد باسوکی احمد صاحب مربی سلسلہ ہیں۔ کہتے ہیں دن رات ان کو تبلیغ کا شوق تھا اور یہی آرزو رکھتے تھے کہ تبلیغ کی راہ میں جان دوں اور کہتے ہیں: جب بھی ہماری ملاقات ہوتی تو ہمیشہ تبلیغ ہی آپ کا موضوع ہوتا اور تبلیغ کا انداز بھی بہت سے مبلغین کے لیے باعث تحریک ہوتا۔ ان کی بیٹیاں بھی لکھتی ہیں کہ اذان سے پہلے مسجد چلے جاتے اور ذکر الٰہی میں بیٹھے وقت گزارتے۔ روزانہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے ،ترجمہ اور تفسیر پڑھتے ،تبلیغ کے لیے ضروری آیات پر نشان لگاتے۔ کبھی تہجد کی نماز ترک نہیں کی۔ چھہتر سال کی عمر میں بھی تبلیغ کے لیے موٹر سائیکل پر سفر کرتے اور بچوں سے کہا کرتے تھے کہ مال کی قربانی میں کمی نہ کرو۔ یہ اللہ کا حق ہے۔ حتی المقدور زیادہ سے زیادہ قربانی کرو اور خبردار جماعت کے مال میں سے ایک پیسہ بھی استعمال نہ کرو اس کا حساب دینا پڑے گا۔
عمرہ کے دوران ان کی جو گروپ لیڈر تھیں انہوں نے لکھا ہے کہ عمرہ کے دوران سارا وقت یہی کہتے تھے کہ یہاں سے واپس جا کر میں تبلیغ کروں گا اور لوگوں کو بتاؤں گا کہ جماعت احمدیہ کے افراد مکہ میں حج کی عبادت کرتے ہیں۔ جب بیمار ہوئے ہیں تو ڈاکٹر نے وہاں ان کو دیکھا اور پھر وفات بھی ہوئی تو، کہتے ہیں کہ وہ ڈاکٹر ان کو کہنے لگاکہ خدا تعالیٰ کو ان کی نیکیاں پسند آ گئی ہیں جو جنت البقیع میں تدفین کی سعادت ملی۔ وہاں وفات ہوئی تو ان کی تدفین بھی وہیں جنت البقیع میں ہوئی۔
اب یہ ہمارے پاکستان میں احمدیوں کو اپنے قبرستان میں دفنانے نہیں دیتے اور جو قریب کسی دوسرے مسلمان کی قبر ہو تو کہتے ہیں اس کے قریب نہیں آنا اور ان کو اللہ تعالیٰ نے موقع دیا کہ جنت البقیع میں دفن ہوئے۔ اب جا کےوہاں سے بھی ان کی قبر اکھڑوائیں لیکن ان میں اتنی طاقت کہاں!۔ خود یہ مولوی اب اپنے انجام کو پہنچنے والے ہیں ان شاءاللہ۔
سیکرٹری تبلیغ انڈونیشیا گناون وردی صاحب کہتے ہیں ایک کامیاب اور نہایت پُرجوش داعی تھے جنہوں نے حقیقتاً اس نعرے کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا کہ کوئی دن تبلیغ کے بغیر نہ گزرے۔ ان کے پاس ایک پرانی موٹرسائیکل تھی اسی پر بیٹھ کر دور دراز دیہاتوں میں سفر کرتے اور ایسے علاقے جہاں جماعتوں کے لیے مخالفت تھی وہاں بھی جاتے اور سینکڑوں افراد کو تبلیغ کے نتیجہ میں انہوں نے ان میں سے بیعتیں بھی کروائیں۔ خلافت سے کہتے ہیں بہت زیادہ تعلق تھا، محبت تھی۔ پیار تھا۔ اللہ کے فضل سے موصی تھے۔ پسماندگان میں چار بیٹیاں اور دس نواسے شامل ہیں۔ جیسا کہ بتایا ان کے ایک داماد مربی ہیں۔ اللہ تعالیٰ مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند کرے۔
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 28؍ نومبر2025ء




