مکتوب شمالی امریکہ (نومبر ۲۰۲۵ء)
شمالی امریکہ کے تازہ حالات و واقعات کا خلاصہ
امریکہ کی وفاقی حکومت کے طویل ترین تعطل کا اختتام
امریکہ کی وفاقی حکومت جو یکم اکتوبر ۲۰۲۵ء سے جزوی طور پر بند تھی، بالآخر ۱۲؍ نومبر ۲۰۲۵ء کو ایک معاہدے کے ذریعے بحال ہو گئی۔ اس طرح یہ تینتالیس دن لمبا تعطل امریکی تاریخ کا طویل ترین تعطل ثابت ہوا۔ تعطل نے نہ صرف واشنگٹن کی شدید سیاسی دراڑوں کو نمایاں کیا بلکہ یہ بھی ظاہر کر دیا کہ وفاقی حکومت کی کارکردگی اور کروڑوں شہریوں کے بنیادی امور کس قدر سیاسی کشمکش کی لپیٹ میں آ گئے ہیں۔
اس بحران کی بنیادی وجہ اخراجاتی بِل اور علاج و معالجہ کی رعایتی سہولتوں (جسے Affordable Care Act اور زبانِ عام میں Obamacare کہا جاتا ہے) سے متعلق سبسڈیز(subsidies) پر ڈیموکریٹ اور ریپبلکن پارٹیوں کے مابین اختلاف تھا۔ ڈیموکریٹ اس بات پر زور دے رہے تھے کہ نئے اخراجاتی بِل میں صحت کی ان سبسڈیز کو برقرار رکھا جائے، جبکہ ریپبلکن پارٹی کے سرکردہ رہنماؤں اور وائٹ ہاؤس کا مؤقف تھا کہ پہلے حکومت کو کھولا جائے، بعد میں ان امور پر بات ہو گی۔
اس تعطل کے نتیجے میں تقریباً نو لاکھ وفاقی ملازموں کو جبری رخصت (furlough)پر بھیج دیا گیا اور قریباً بیس لاکھ ملازمین بغیر تنخواہ کے کام کرنے پر مجبور کیے گئے۔ کئی وفاقی محکموں نے اپنی خدمات کو محدود کر دیا۔ چنانچہ خوراک کی امدادی اسکیموں، تحقیقاتی اداروں، عدالتوں اور ہوائی سفر (aviation) کے شعبے میں نمایاں رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔
غذائی امدادی پروگرام، جن پر کم آمدنی والے گھرانے انحصار کرتے ہیں، تاخیر کا شکار ہوئی اور کئی علاقوں میں ان کا سلسلہ کچھ عرصے کے لیے رک گیا۔ بڑے ہوائی اڈوں پر سیکیورٹی عملے کی کمی کے باعث لمبی قطاریں اور تاخیر معمول بن گیا، جس سے عوام کی حفاظت کے بارے میں سوالات اٹھنے لگے۔
اقتصادی ماہرین کے مطابق اس طویل شٹ ڈاؤن یا تعطل نے قومی معیشت پر منفی اثر ڈالا اور وفاقی اداروں کی منصوبہ بندی کو شدید متاثر کیا۔ وفاقی ملازمین کی تنظیموں، کاروباری حلقوں اور ریاستی گورنرز نے واشنگٹن پر دباؤ بڑھایا کہ بحران کا حل نکالا جائے۔ بالآخر ایک درمیانی راستہ نکالا گیاجس کے نتیجے میں حکومت کی بندش ختم ہوئی اور صحت کی سبسڈیز کچھ عرصے کے لیے بڑھا دی گئیں اور مستقل حل کو بعد کے مذاکرات پر چھوڑ دیا گیا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ بحران نہ صرف آئندہ انتخابات تک سیاسی بحث کا حصہ رہے گا بلکہ وفاقی حکومت کی ساکھ پر بھی منفی اثر ڈالے گا۔
واشنگٹن میں نیشنل گارڈ اہلکار کا قتل اور اس کے وسیع تر اثرات
نومبر ۲۰۲۵ء کے وسط میں امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہاؤس کے قریب ایک نیشنل گارڈ اہلکار کو قتل کر دیا گیا۔ اس واقعے نے پورے ملک میں صدمے اور بے چینی کی لہر دوڑا دی۔ پولیس کی تحقیقات کے مطابق اس واقعے میں ملوث ہونے کے شبہ میں ایک افغان نژاد شخص کو گرفتار کیا گیا ہے جو چند برس قبل امریکی ری سیٹلمنٹ پروگرام کے ذریعے ملک میں داخل ہوا تھا۔ ابتدائی معلومات کے مطابق حملہ آور اور متاثرہ اہلکار کے درمیان کوئی ذاتی تنازع نہیں تھا۔ اس وجہ سے یہ واقعہ امن و امان اور قومی سلامتی کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔
اس افسوسناک واقعہ نے نہ صرف واشنگٹن ڈی سی میں سیکیورٹی اداروں کو چوبند کر دیا بلکہ ملک بھر میں سیاسی ہلچل بھی پیدا کر دی۔ واقعہ کے چند گھنٹوں کے بعد صدر ٹرمپ نے ایک سخت بیان جاری کیا، جس میں انہوں نے اس حملے کو امیگریشن نظام کی ناکامی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ پالیسیوں کے تحت ایسے مہاجر افراد کی جانچ پڑتال ناکافی ہے، اور یہی کمزوری اس طرح کے سانحات کا سبب بنتی ہے۔ چنانچہ اس واقعہ کو بنیاد بنا کر انہوں نے کم ترقی یافتہ ممالک سے امیگریشن پر مستقل وقفے کا اعلان کیا۔
اس اعلان نے امیگریشن کے موضوع کو ایک بار پھر قومی بحث کا مرکز بنا دیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں، سِوَل سوسائٹی اور متعدد سیاسی راہنماؤں نے حکومت کے اس ردعمل کو ضرورت سے زیادہ سخت قرار دیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ کسی ایک واقعے کی بنیاد پر پورے امیگریشن نظام کو روک دینا اصولی طور پر مناسب ہے اور نہ ہی عملی طور پر درست طریقہ ہے۔ اس کے برعکس صدر کے حامی حلقے اس اقدام کو قومی امن کے تحفظ کے لیے ضروری قدم قرار دے رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ حکومت ری سیٹلمنٹ اور مہاجرین کے پروگراموں پر نظرثانی کرے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات روکے جا سکیں۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر کے اعلان سے متعدد آئینی اور انتظامی سوالات پیدا ہو گئے ہیں۔ امیگریشن پالیسی میں اس نوعیت کی اچانک تبدیلی کے خلاف عدالتوں میں چیلنج دائر ہونا تقریباً یقینی ہے۔ بعض وکلا نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ ’’مستقل وقفہ‘‘ کا تصور امریکی امیگریشن قوانین اور بین الاقوامی معاہدات سے مطابقت نہیں رکھتا۔
نیز کانگریس کے بعض اراکین نے مطالبہ کیا ہے کہ واقعے کی مفصل اور شفاف تحقیق کی جائے اور امیگریشن پالیسی میں اصلاحات کا فیصلہ ٹھوس شواہد کی بنیاد پر کیا جائے، نہ کہ عوامی جذبات یا سیاسی دباؤ کے زیرِ اثر۔ اس واقعے کا اثر صرف سیاست تک محدود نہیں رہا۔ افغان نژاد امریکی کمیونٹی اور دیگر مہاجر گروہوں نے فکر مندی کا اظہار کیا ہے کہ اس واقعے کے بعد اُن کے خلاف نفرت یا بداعتمادی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
حملے کے محرکات کے بارے میں تحقیقات جاری ہیں۔
کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی کے دَور کا پہلا بجٹ
۴؍نومبر ۲۰۲۵ء کو کینیڈا کی وفاقی حکومت نے وزیراعظم مارک کارنی کی قیادت میں اپنا پہلا مکمل سالانہ بجٹ پیش کیا جسے Canada Strong Budget ۲۰۲۵ کا نام دیا گیا۔ اس بجٹ میں اگلے پانچ سال کے لیے تقریباً ۲۸۰ ارب کینیڈین ڈالر خرچ کرنے کا منصوبہ ہے، جو رہائش، معیشت کی پیداواری صلاحیت، دفاع، انفراسٹرکچر اور گرین اکانومی جیسے اہم شعبوں پر خرچ ہوں گے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ اس بجٹ کا مقصد کینیڈا کی معیشت کو طویل مدت کے لیے درست سمت دینا اور عالمی مقابلے کے ماحول میں ملک کو زیادہ مضبوط بنانا ہے۔ منصوبے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ آنے والے سالوں میں وفاقی سرکاری ملازمین کی تعداد کم کی جائے اور اندازہ ہے کہ ۲۰۲۹ء تک تقریباً چالیس ہزار عہدے مرحلہ وار ختم یا یکجا ہو سکتے ہیں۔
کارنی کی حکومت اس بجٹ کو ایک نسل در نسل اثرات رکھنے والی اقتصادی حکمتِ عملی قرار دیتی ہے جو کینیڈا کی کمزور پیداواری کارکردگی، مہنگی رہائش، پرانے انفراسٹرکچر اور سپلائی چین کے مسائل کو دور کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔
کاروباری حلقوں اور متعدد اقتصادی ماہرین نے اس بجٹ کے بعض پہلوؤں، خصوصاً صنعتی سرمایہ کاری اور دفاعی و گرین منصوبوں کی توسیع کو مثبت قرار دیا ہے۔ تاہم سماجی شعبوں اور مزدور تنظیموں کی طرف سے خدشات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ سرکاری سَروِسز میں کمی اور کفایت شعاری کی پالیسی کہیں عوامی خدمات کے معیار کو متاثر نہ کرے۔
سیاسی طور پر یہ بجٹ اس لیے بھی اہم تھا کہ مارک کارنی کی حکومت ایک اقلیتی (minority)حکومت ہے اور بجٹ کا ہر بڑا مرحلہ دراصل اعتماد کے ووٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔
۱۸؍ نومبر کو ایک اہم پارلیمانی ووٹنگ میں حکومت انتہائی معمولی فرق، یعنی ۱۶۸ کے مقابل پر ۱۷۰ ووٹوں سے کامیاب ہوئی اور یوں بجٹ کو مزید مراحل کے لیے آگے بڑھنے کی اجازت مل گئی۔ اگر حکومت اس ووٹنگ میں ناکام ہو جاتی تو ممکن تھا کہ کینیڈا کو ایک سال کے اندر اندر دوبارہ وفاقی انتخابات کا سامنا کرنا پڑتا۔ اب بجٹ کمیٹیوں اور سینیٹ کے مراحل سے گزرے گا، جس میں اس کی تفصیلات پر مزید بحث متوقع ہے۔ مبصرین کے نزدیک یہ بجٹ کینیڈا کی اقتصادی سمت کے تعین میں ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر یہ منصوبے مؤثر طور پر نافذ ہو گئے تو ملک کی پیداواری صلاحیت، رہائش کے بحران اور دفاعی تیاری میں نمایاں تبدیلی کی امید کی جا سکتی ہے، لیکن اگر عملدرآمد سست یا متنازع ہوا تو یہ بجٹ خود حکومت کے لیے سیاسی بوجھ بھی بن سکتا ہے۔
کینیڈا کے نیشن بلڈنگ منصوبوں کی دوسری قسط
بجٹ کے اعلان کے چند ہی دن بعد، ۱۳؍ نومبر ۲۰۲۵ء کو کارنی حکومت نے ’’نیشن بلڈنگ‘‘ (قومی تعمیر) کے نام سے بڑے ترقیاتی منصوبوں کی دوسری قسط (second tranche) کا اعلان کیا، جس کی مجموعی مالیت ۵۶؍ ارب کینیڈین ڈالر سے زائد بتائی جا رہی ہے۔ ان منصوبوں کا مقصد کینیڈا کے توانائی، معدنیات اور انفراسٹرکچر کے شعبوں کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنا اور عالمی معیشت میں ملک کے کردار کو مضبوط کرنا ہے۔
ان منصوبوں میں سرفہرست کینیڈا کے مغربی ترین صوبہ برٹش کولمبیا میں قائم ہونے والا Ksi Lisims LNG منصوبہ ہے، جو قدرتی گیس کو تیار کر کے برآمد کرنے کا ایک بڑا صنعتی پلانٹ ہے۔ یہ منصوبہ کینیڈا کی مقامی نِسگا (Nisga’a)قوم کے اشتراک سے مکمل کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ اونٹاریو، کیوبک اور نیو برنسوک کے صوبوں میں ایسی نئی کانیں قائم کی جارہی ہیں جہاں بیٹریوں اور جدید ٹیکنالوجی میں استعمال ہونے والی اہم معدنیات حاصل کی جائیں گی۔ ملک بھر میں بجلی کی ترسیل بہتر بنانے کے لیے نئی ہائی وولٹیج لائنیں بچھائی جائیں گی، جبکہ موجودہ ہائیڈرو الیکٹرک (hydroelectric) نظام کو مزید وسعت دی جائے گی تاکہ کینیڈا میں صاف اور سستی بجلی کی پیداوار بڑھائی جا سکے۔ حکومت کے اندازوں کے مطابق ان منصوبوں سے تقریباً ۶۸؍ ہزار نئی ملازمتیں پیدا ہو سکتی ہیں۔
حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ منصوبے کینیڈا کو توانائی اور معدنی وسائل کے شعبے میں زیادہ خود کفیل بنائیں گے اور ملک کو گرین ٹیکنالوجی، بیٹریوں کی تیاری اور صاف توانائی (clean energy) کی عالمی سپلائی چین میں اہم مقام دلانے میں مدد دیں گے۔
اس کے ساتھ ساتھ بعض منصوبوں میں مقامی اور مقبوضہ اراضی پر حق رکھنے والی مقامی باشندوں کی اقوام کی شراکت داری کو بھی اجاگر کیا جا رہا ہے۔ اس بات کو حکومت ایک مثبت مثال کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ حامیوں کے نزدیک یہ پروگرام اُن تاریخی ادوار کی یاد دلاتا ہے جب کینیڈا نے بڑے ہائیڈرو، ریل اور شاہراہوں کے منصوبوں کے ذریعے اپنے معاشی ڈھانچے کی بنیاد رکھی تھی۔
اگر چہ عام طور پر ان منصوبوں کے ذریعے دیر پا مثبت نتائج متوقع ہیں، بعض ماحولیاتی اور سماجی تنظیموں کا کہنا ہے کہ بڑے صنعتی منصوبوں کے ساتھ ساتھ رہائش، صاف پانی، صحت اور موسمیاتی موافقت جیسے بنیادی مسائل پر بھی برابر توجہ دینا ضروری ہے۔ تاہم آئندہ چند سالوں میں ان منصوبوں کے عملی نتائج یہ بات طے کریں گے کہ آیا یہ پروگرام واقعی کینیڈا کے لیے معاشی استحکام اور صنعتی احیاء کا ذریعہ بنتے ہیں یا پھر سیاسی اور ماحولیاتی اختلافات کی نئی بحثوں کو جنم دیتے ہیں۔
مزید پڑھیں: گنی بساؤ میںمعلمین و مربیان کا دس روزہ ریفریشر کورس نومبر ۲۰۲۵ء




