جنگ تبوک میں پیچھے رہ جانے والوں پر اللہ تعالیٰ نے اپنی سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ ان لوگوں کو فاسق قرار دیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی نماز جنازہ پڑھنے اور قبر پر دعا کرنے سے منع فرما دیا اور یہ پابندی بھی لگا دی کہ آئندہ وہ کسی تحریک میں حصہ نہ لیں گے اور نہ ہی کسی جنگ میں شامل ہوں گے کعب بن مالکؓ کہتے ہیں اللہ کی قسم !اس کے بعد کہ اللہ نے مجھے اسلام کی ہدایت دی میرے نزدیک کبھی بھی اس نے کوئی انعام اس سے بڑھ کر نہیں کیا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچ سچ بیان کردیا۔ شکر ہے کہ میں نے آپؐ سے جھوٹ نہیں بولا ورنہ میں ہلاک ہوجاتا جیسا کہ وہ لوگ ہلاک ہوگئے جنہوں نے جھوٹ بولا تھا حضرت کعبؓ کہتے تھے کہ جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور آپ کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا کہ تمہیں نہایت ہی اچھے دن کی بشارت ہو ان دنوں میں سے جب سے تمہاری ماں نے تمہیں جنا ہے تم پر گزرے ہیں۔ کہتے تھے میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !کیا یہ بشارت آپؐ کی طرف سے ہے یا اللہ کی طرف سے؟ آپؐ نے فرمایا نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خوش ہوتے تو آپ کا چہرہ ایسا روشن ہوجاتا کہ گویا وہ چاند کا ٹکڑا ہے اور ہم اس سے آپ کی خوشی پہچان لیا کرتے تھے غزوۂ تبوک میں پیش آمدہ واقعات کے تناظر میں سیرتِ نبویؐ کا پاکیزہ بیان مکرم حافظ محمد ابراہیم عابد صاحب مربی سلسلہ، مکرم شیخ ابوبکر جارج صاحب معلم سلسلہ لائبیریا اور مکرمہ ثمینہ بھنوں صاحبہ کی وفات پر ان کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 28؍ نومبر2025ء بمطابق 28؍نبوت 1404 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾ اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾ تبوک کے سفرکی مزید تفصیلات جو ملتی ہیں وہ آج بیان کروں گا۔ گذشتہ خطبات میں بھی وہی بیان ہورہی تھیں۔ جیسا کہ بیان ہوچکا ہے کہ بعض منافقین نے غزوہ پر جانے سے انکار کیا تھا اور مختلف عذر بیان کیے تھے لیکن مدینہ تشریف آوری کے بعد بھی منافقین کے ساتھ نہ جانے پر عذر اور بہانوں کا ذکر ملتا ہے بلکہ قرآن شریف میں بھی اس کا ذکر ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت تھی کہ جب سفر سے مدینہ واپس تشریف لاتے تو پہلے مسجد میں پہنچ کر دو رکعت نماز ادا کرتے۔ چنانچہ آپؐ تبوک سے واپس تشریف لائے تو مدینہ میں چاشت کے وقت داخل ہوئے اور پہلے مسجد میں دو رکعت نماز ادا کی۔ آپؐ جب بھی سفر سے واپس آتے تو اسی طرح کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے۔ نوافل سے فارغ ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں ہی تشریف فرما ہوگئے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات اور زیارت کے لیے حاضر ہونے لگے۔ اسی طرح وہ لوگ جو اپنی کمزوریٔ ایمان اور نفاق کی وجہ سے ساتھ نہیں گئے تھے وہ بھی آنے لگے۔ خاص طور پر منافقین جن کی امیدیں تو خاک میں مل چکی تھیں وہ اب مزید شرمندگی اور ندامت سے بچنے کے لیے قسمیں کھانے لگے اور مختلف بہانے اور عذر پیش کرنے لگے۔ سیرت نگار لکھتے ہیں کہ یہ لوگ تقریباً اسّی تھے لیکن بعض روایات کے مطابق اس سے بھی زیادہ لوگ تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ان کے ظاہری عذر مان لیے اور ان سے بیعت لی اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کی اور ان کا اندرونہ اللہ کے سپرد کیا ۔ (صحیح البخاری کتاب المغازی باب حدیث کعب بن مالک، حدیث 4418، مترجم جلد 9 صفحہ 308) (مسند احمدبن حنبل جلد5صفحہ414، مسند کعب بن مالک،حدیث 15865، عالم الکتب بیروت 1998ء) (اللؤلؤ المکنون سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد9صفحہ561-562مکتبہ دارالسلام) لیکن ان منافقین کا یہ جرم ناقابل معافی تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی فرما دیا تھا کہ یہ ایسے ناپاک لوگ ہیں کہ خدا ان سے اب راضی نہیں ہوگا۔ چنانچہ ان لوگوں کی نسبت سورہ توبہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:یَعۡتَذِرُوۡنَ اِلَیۡکُمۡ اِذَا رَجَعۡتُمۡ اِلَیۡہِمۡ ؕ قُلۡ لَّا تَعۡتَذِرُوۡا لَنۡ نُّؤۡمِنَ لَکُمۡ قَدۡ نَبَّاَنَا اللّٰہُ مِنۡ اَخۡبَارِکُمۡ ؕ وَسَیَرَی اللّٰہُ عَمَلَکُمۡ وَرَسُوۡلُہٗ ثُمَّ تُرَدُّوۡنَ اِلٰی عٰلِمِ الۡغَیۡبِ وَالشَّہَادَۃِ فَیُنَبِّئُکُمۡ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۹۴﴾ سَیَحۡلِفُوۡنَ بِاللّٰہِ لَکُمۡ اِذَا انۡقَلَبۡتُمۡ اِلَیۡہِمۡ لِتُعۡرِضُوۡا عَنۡہُمۡ ؕ فَاَعۡرِضُوۡا عَنۡہُمۡ ؕ اِنَّہُمۡ رِجۡسٌ ۫ وَّمَاۡوٰٮہُمۡ جَہَنَّمُ ۚ جَزَآءًۢ بِمَا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ ﴿۹۵﴾ یَحۡلِفُوۡنَ لَکُمۡ لِتَرۡضَوۡا عَنۡہُمۡ ۚ فَاِنۡ تَرۡضَوۡا عَنۡہُمۡ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یَرۡضٰی عَنِ الۡقَوۡمِ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿۹۶﴾ (التوبۃ:94-96) وہ تم سے معذرتیں کریں گے جب تم ان کی طرف واپس آؤ گے۔ تُو کہہ دے کوئی عذر پیش نہ کرو۔ ہم ہرگز تم پر اعتبار نہیں کریں گے۔ اللہ نے ہمیں تمہارے حالات سے باخبر کردیا ہے اور اللہ یقینا تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے اسی طرح اس کا رسول بھی۔ پھر ایسا ہوگا کہ تم غیب اور حاضر کا علم رکھنے والے کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ پس وہ تمہیں اس کی خبر دے گا جو تم کیا کرتے تھے۔ وہ یقیناً تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھائیں گے جب ان کی طرف لوٹو گے تا کہ تم ان سے اِعراض کرو۔ پس بے شک ان سے اِعراض کرو۔ وہ بہرحال ناپاک ہیں اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے اس کی جزا کے طور پر جو وہ کسب کرتے تھے۔ وہ تمہارے سامنے قسمیں کھائیں گے تا کہ تم ان سے راضی ہوجاؤ۔ پس اگر تم ان سے راضی بھی ہوجاؤ تو اللہ بدکردار لوگوں سے ہرگز راضی نہیں ہوتا۔ جنگ تبوک میں پیچھے رہ جانے والوں پر اللہ تعالیٰ نے اپنی سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا جیسا کہ اس سے ظاہر ہے۔ ان لوگوں کو فاسق قرار دیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی نماز جنازہ پڑھنے اور قبر پر دعا کرنے سے منع فرما دیا اور یہ پابندی بھی لگا دی کہ آئندہ وہ کسی تحریک میں حصہ نہ لیں گے اور نہ ہی کسی جنگ میں شامل ہوں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَرِحَ الۡمُخَلَّفُوۡنَ بِمَقۡعَدِہِمۡ خِلٰفَ رَسُوۡلِ اللّٰہِ وَکَرِہُوۡۤا اَنۡ یُّجَاہِدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَاَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَقَالُوۡا لَا تَنۡفِرُوۡا فِی الۡحَرِّ ؕ قُلۡ نَارُ جَہَنَّمَ اَشَدُّ حَرًّا ؕ لَوۡ کَانُوۡا یَفۡقَہُوۡنَ ﴿۸۱﴾ فَلۡیَضۡحَکُوۡا قَلِیۡلًا وَّلۡیَبۡکُوۡا کَثِیۡرًا ۚ جَزَآءًۢ بِمَا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ ﴿۸۲﴾ فَاِنۡ رَّجَعَکَ اللّٰہُ اِلٰی طَآئِفَۃٍ مِّنۡہُمۡ فَاسۡتَاۡذَنُوۡکَ لِلۡخُرُوۡجِ فَقُلۡ لَّنۡ تَخۡرُجُوۡا مَعِیَ اَبَدًا وَّلَنۡ تُقَاتِلُوۡا مَعِیَ عَدُوًّا ؕ اِنَّکُمۡ رَضِیۡتُمۡ بِالۡقُعُوۡدِ اَوَّلَ مَرَّۃٍ فَاقۡعُدُوۡا مَعَ الۡخٰلِفِیۡنَ ﴿۸۳﴾ وَلَا تُصَلِّ عَلٰۤی اَحَدٍ مِّنۡہُمۡ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمۡ عَلٰی قَبۡرِہٖ ؕ اِنَّہُمۡ کَفَرُوۡا بِاللّٰہِ وَرَسُوۡلِہٖ وَمَاتُوۡا وَہُمۡ فٰسِقُوۡنَ ﴿۸۴﴾ وَلَا تُعۡجِبۡکَ اَمۡوَالُہُمۡ وَاَوۡلَادُہُمۡ ؕ اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ اَنۡ یُّعَذِّبَہُمۡ بِہَا فِی الدُّنۡیَا وَتَزۡہَقَ اَنۡفُسُہُمۡ وَہُمۡ کٰفِرُوۡنَ ﴿۸۵﴾ (التوبۃ:81-85) پیچھے چھوڑ دیئے جانے والے رسول اللہ کے برخلاف اپنے بیٹھ رہنے پر خوش ہورہے ہیں اور انہوں نے ناپسند کیا کہ اللہ کی راہ میں اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کریں اور وہ کہتے تھے کہ سخت گرمی میں سفر پر نہ نکلو۔ تُو کہہ دے کہ جہنم کی آ گ جلن کے لحاظ سے زیادہ سخت ہے۔ کاش وہ سمجھ سکتے۔ پس چاہیے کہ وہ تھوڑا ہنسیں اور زیادہ روئیں، اس کی جزا کے طور پر جو وہ کسب کیا کرتے تھے۔ پس اگر اللہ تجھے ان میں سے کسی گروہ کی طرف دوبارہ لے جائے اور وہ تجھ سے ساتھ نکلنے کی اجازت مانگیں تو تُو انہیں کہہ دے کہ ہرگز تم آئندہ کبھی میرے ساتھ جہاد کے لیے نہیں نکلو گے اور ہرگز کبھی میرے ساتھ ہوکر دشمن سے لڑائی نہیں کرو گے۔ تم یقیناً پہلی مرتبہ گھر بیٹھ رہنے پر راضی ہوگئے تھے۔ پس اب پیچھے رہنے والوں کے ساتھ ہی بیٹھے رہو۔ اور تُو ان میں سے کسی مرنے والے پر کبھی جنازہ کی نماز نہ پڑھ اور کبھی ان کی قبر پر دعا کے لیے کھڑا نہ ہو۔ یقیناً انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کردیا ہے اور وہ اس حالت میں مرے کہ وہ بدکردار تھے۔ اور ان کے اموال اور ان کی اولادیں تیرے لیے کوئی کشش پیدا نہ کریں۔ اللہ محض یہ چاہتا ہے کہ ان ہی کے ذریعہ سے انہیں اس دنیا میں ہی عذاب دے۔ اور ان کی جانیں اس حال میں نکلیں کہ وہ کافر ہوں۔ یہ بھی سورۂ توبہ کی آیات ہیں۔ جنگِ تبوک سے پیچھے رہ جانے والے چار طرح کے لوگ تھے۔ وہ خوش نصیب افراد جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر کسی فرض کی ادائیگی کے لیے پیچھے رہے جیسے حضرت علی اور اِبْنِ اُمِّ مَکْتُوْم اور مُحَمَّدْ بِن مَسْلَمَہ وغیرہ۔ یہ نمبر ایک قسم ہے۔ دوسری طرح کے وہ لوگ ہیں جو معذور اور بیمار تھے کمزور تھے۔ یہ بہت ہی نادار اور غریب تھے اور سواری وغیرہ کی استطاعت نہ رکھتے تھے۔ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ یہ حقیقی عذر رکھتے ہیں اس کے لیے اللہ نے ان کو معاف کررکھا ہے۔ بلکہ جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا کہ وہ ہر جگہ ہمارے ساتھ ساتھ ہی تھے۔ یعنی اللہ نے ان کو ہمارے اجرو ثواب میں بھی شامل فرمایا تھا۔ (صحیح البخاری، کتاب المغازی،باب: حدیث نمبر4423مترجم جلد 9 صفحہ 320) تیسرے منافق جن کے کردار کی سخت مذمت کی گئی ہے اور قرآن کریم میں ہمیشہ ہمیش کے لیے ان سے ناراضگی اور سخت سزا اور وعید کا حکم نازل ہوا۔ چوتھے وہ لوگ تھے جو محض سستی کی وجہ سے شامل نہ ہوئے تھے اور پیچھے رہ گئے تھے۔ ان میں سے تین اصحاب خاص طور پر قابل ذکر ہیں اور وہ ہیں حضرت کَعْبْ بِن مَالِک حضرت مُرَارَہْ بِن رَبِیْع اور حضرت ھِلَال بِن اُمَیَّہ۔ ان تین صحابہ کے بارے میں قرآن کریم میں یہ آیت نازل ہوئی کہ وَّعَلَی الثَّلٰثَۃِ الَّذِیۡنَ خُلِّفُوۡا ؕ حَتّٰۤی اِذَا ضَاقَتۡ عَلَیۡہِمُ الۡاَرۡضُ بِمَا رَحُبَتۡ وَضَاقَتۡ عَلَیۡہِمۡ اَنۡفُسُہُمۡ وَظَنُّوۡۤا اَنۡ لَّا مَلۡجَاَ مِنَ اللّٰہِ اِلَّاۤ اِلَیۡہِ ؕ ثُمَّ تَابَ عَلَیۡہِمۡ لِیَتُوۡبُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ ﴿۱۱۸﴾٪(التوبۃ:118) اور ان تینوں پر بھی اللہ توبہ قبول کرتے ہوئے جھکا جو پیچھے چھوڑ دئیے گئے تھے۔ یہاں تک کہ جب زمین ان پر باوجود فراخی کے تنگ ہوگئی اور ان کی جانیں تنگی محسوس کرنے لگیں اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اللہ سے پناہ کی کوئی جگہ نہیں مگر اسی کی طرف۔ پھر وہ ان پر قبولیت کی طرف مائل ہوتے ہوئے جھک گیا تاکہ وہ توبہ کرسکیں۔ یقیناً اللہ ہی بار بار توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ اَلثَّلٰثَۃِ الَّذِيْنَ خُلِّفُوْا یعنی وہ تین جو پیچھے چھوڑ دئیے گئے ان کے واقعہ کی تفصیل یوں بیان ہوئی ہے۔ بخاری کی ایک روایت ہے جس میں حضرت کَعْبْ بِن مَالِک نے خود یہ سارا واقعہ بیان کیا ہے۔ چنانچہ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی غزوہ میں بھی پیچھے نہیں رہا جو آپؐ نے کیا ہوسوائے غزوہ تبوک کے۔ ہاں غزوۂ بدر میں بھی پیچھے رہ گیا تھا اور آپؐ نے کسی پر بھی ناراضگی کا اظہار نہیں کیا تھا جو اس جنگ سے پیچھے رہ گیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف قریش کے قافلے کو روکنے کے ارادے سے نکلے تھے مگر نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے بغیر اس کے کہ جنگ کی ٹھانی ہو ان کو دشمن سے ٹکرا دیا اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عَقبَہ کی رات میں بھی موجود تھا جب ہم نے اسلام پر قائم رہنے کا پختہ عہد و پیمان کیا تھا۔اور میں نہیں چاہتا کہ اس رات کے عوض مجھے بدر میں شریک ہونے کی توفیق ملتی۔ اگرچہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ عَقبَہ کا جو وعدہ ہے، جو بیعت تھی وہ اس سے بڑی تھی۔ اگرچہ بدر لوگوں میں اس سے زیادہ مشہور ہے اور میری حالت یہ تھی کہ میں کبھی بھی اتنا تنو مند اور خوشحال نہیں تھا۔ اب یہ تبوک کے واقعہ کا ذکر کررہے ہیں۔ اس وقت جو میری حالت تھی کہ بڑا خوشحال تھا، تنومند تھا جتنا کہ اِس وقت جبکہ میں آپؐ سے اس غزوہ میں پیچھے رہ گیا۔ اللہ کی قسم !اس سے پہلے کبھی بھی میرے پاس اونٹ اکٹھے نہیں ہوئے تھے اور اس غزوہ کے اثناء میں دو اونٹ اکٹھے کرلیے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس غزوہ کا بھی ارادہ کرتے تھے، پھر آگے تفصیل بیان کررہے ہیں ،تو آپؐ اس کو مخفی رکھ کر کسی اَور طرف جانے کا اظہار کرتے تھے ۔ یہ عام طور پہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگ کی پالیسی ہوتی تھی۔ لیکن جب یہ غزوہ ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس غزوہ میں سخت گرمی کے وقت نکلے اور آپؐ کے سامنے دُور دراز کا سفر اور غیرآباد بیابان اور دشمن تھا جو بہت بڑی تعداد میں تھا۔ آپؐ نے مسلمانوں کو ان کی حالت کھول کر بیان کردی۔ یہاں آپؐ نے چھپایا نہیں بلکہ بیان کردیا کہ اس غزوہ میں ہم جا رہے ہیں تا کہ وہ اپنے اس حملے کے لیے جو تیاری کرنے کا حق ہے تیاری کریں۔ آپؐ نے ان کو اس جہت کا بھی بتا دیا جس طرف آپ جانا چاہتے تھے اور مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بکثرت تھے۔ اور محفوظ رکھنے والی کوئی کتاب نہ تھی جو ان کی تعداد کو ضبط میں رکھتی۔ حضرت کَعب کی مراد اس سے رجسٹر تھا کہ کسی میں درج نہیں تھا کہ کون ساتھ گیا ،کون نہیں۔ حضرت کَعب کہتے تھے کہ اور کوئی شخص بھی ایسا نہ تھا جو غیر حاضر رہنا چاہتا ہو مگر وہ خیال کرتا کہ اس کا غیر حاضر رہنا آپ سے پوشیدہ رہے گا۔ باوجود اس کے کہیں لکھا نہیں گیا تھا پھر بھی یہ خیال نہیں آتا تھا کہ وہ غیر حاضر ہوکے آپ سے پوشیدہ ہوجائے گا جب تک کہ اس سے متعلق اللہ تعالیٰ کی وحی نازل نہ ہو۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ غزوہ اس وقت کیا کہ جب پھل پک چکے تھے اور سائے اچھے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کی تیاری شروع کردی۔ اور آپؐ کے ساتھ مسلمانوں نے بھی۔ اور مَیں صبح کو جاتا، اب اپنا حال بیان کررہے ہیں کہ مَیں صبح جاتا تا میں بھی ان کے ساتھ سامان سفر کی تیاری کروں۔ ارادہ پکا تھا جانے کا۔میں واپس لوٹتا اور کچھ بھی نہ کیا ہوتا۔ یعنی سستی تھی تیاری نہیں ہوتی تھی۔ میں اپنے دل میں کہتا کہ میں تیاری کرسکتا ہوں۔ کل کرلوں گا۔ یہ خیال مجھے لیت و لعل میں رکھتا رہا یہاں تک کہ وہ وقت آ گیا کہ لوگوں کو سفر کی جلدی پڑی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک صبح روانہ ہوگئے اور مسلمان بھی آپ کے ساتھ روانہ ہوئے اور میں نے اپنے سامان سفر کی تیاری میں سے کچھ بھی نہ نپٹایا تھا۔ میں نے سوچا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانے کے ایک دن یا دو دن بعد تیاری کرلوں گا اور پھر ان سے جا ملوں گا۔ ان کے چلے جانے کے بعد دوسری صبح باہرگیا کہ سامان تیار کرلوں مگر پھر واپس آ گیا اور کچھ بھی نہ کیا۔ پھر میں اگلے دن گیا اور واپس لوٹ آیا اور کچھ بھی نہ نپٹایا اور یہی حال رہا یہاں تک کہ تیزی سے سفر کرتے ہوئے لشکر بہت آگے نکل گیا۔ میں نے بھی ارادہ کرلیا کہ کوچ کروں اور ان کو پا لوں اور کاش کہ میں ایسا کرتا مگر مجھ سے یہ بھی مقدر نہ ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانے کے بعد جب بھی میں ان لوگوں میں نکلتا اور ان میں چکر لگاتا تو مجھے یہ بات غمگین کردیتی کہ میں ایسے ہی شخص کو دیکھتا جن پر نفاق کا عیب دھرا جاتا تھا یا کمزوروں میں سے ایسا شخص جس کو اللہ نے معذور ٹھہرایا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مجھے اس وقت یاد کیا جب آپؐ تبوک میں پہنچے۔ آپؐ نے فرمایا اور اس وقت آپؐ تبوک میں لوگوں کے ساتھ بیٹھے تھے کہ کعب کہاں ہے؟ بنو سَلِمَہ میں سے ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !اس کو اس کی دو چادروں نے اور اس کےاپنے دائیں بائیں مڑ کر دیکھنے نے روک رکھا ہے۔ یعنی شاید تکبر یا فخر کی وجہ سے نہیں آیا۔ حضرت معاذ بن جَبَلؓ نے اس صحابی کی اس بات کو سن کر کہا کہ کیا ہی بری بات ہے جو تم نے کعب کے متعلق کہی ہے۔ اللہ کی قسم !یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !اس کے متعلق ہمیں اچھا ہی تجربہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر خاموش ہوگئے۔ حضرت کَعْبْ بِن مَالِک ؓ کہتے تھے کہ جب مجھے یہ خبر پہنچی کہ آپؐ واپس آ رہے ہیں تو مجھے فکر ہوئی اور میں جھوٹی باتیں سوچنے لگا کہ کس بات سے کل آپؐ کی ناراضگی سے بچ جاؤں۔ بہانہ بناؤں اور اپنے گھر والوں میں ہر ایک اہلِ رائے سے میں نے اس بارے میں مشورہ لیا۔ جب یہ کہا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آن پہنچے تو میرے دل سے سارے جھوٹے خیالات کافور ہوگئے اور میں نے سمجھ لیا کہ میں کبھی بھی ایسی بات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غصہ سے بچنے کا نہیں جس میں جھوٹ ہو۔ اس لیے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچ سچ بیان کرنے کی ٹھان لی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے۔ جب آپؐ کسی سفر سے آتے تو پہلے مسجد میں جاتے۔ اس میں دو رکعتیں پڑھتے پھر لوگوں سے ملنے کے لیے بیٹھ جاتے۔ جب آپؐ نے یہ کیا تو پیچھے رہے ہوئے لوگ آپ کے پاس آ گئے اور آپ سے معذرتیں کرنے اور قَسمیں کھانے لگے اور ایسے لوگ اسّی سے کچھ اوپر تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ان کے ظاہری عذر مان لیے اور ان سے بیعت لی اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کی اور ان کا اندرونہ اللہ کے سپرد کیا۔ پھر میں آپﷺ کے پاس آیا جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تو آپ ناراض شخص کی طرح مسکرائے۔ مسکراہٹ تھی لیکن ناراضگی والی۔ پھر آپؐ نے فرمایا آگے آؤ۔ میں چل کر آیا اور آپؐ کے سامنے بیٹھ گیا۔ آپؐ نے مجھے پوچھا کس بات نے تمہیں پیچھے رکھا ہے؟ کیا تم نے سواری نہیں خریدی تھی۔ میں نے کہا جی ہاں !اللہ کی قسم !میں ایسا ہوں کہ اگر آپ کے سوا دنیا کے لوگوں میں سے کسی اور کے پاس بیٹھا ہوتا تو میں سمجھتا ہوں کہ میں ضرور ہی اس کی ناراضگی سے عذر کرکے بچ جاتا۔ مجھے خوش بیانی دی گئی ہے مگر اللہ کی قَسم !میں خوب سمجھ چکا ہوں۔ اگر میں نے آج آپ سے کوئی ایسی جھوٹی بات بیان کی جس سے آپ مجھ پر راضی ہوجائیں تو اللہ عنقریب مجھ پر آپ کو ناراض کردے گا۔ اور اگر آپ سے سچی بات بیان کروں گا جس کی وجہ سے آپ مجھ پر ناراض ہوں تو میں اس میں اللہ کے عفو کی امید رکھتا ہوں۔ کہنے لگے کہ نہیں اللہ کی قسم !میرے لیے کوئی عذر نہیں تھا۔ اللہ کی قسم !میں کبھی بھی ایسا تنومند اور آسودہ حال نہیں ہوا جتنا کہ اس وقت تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ گیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا اس نے تو سچ بیان کردیا ہے۔ اٹھو جاؤ یہاں تک کہ اللہ تمہارے متعلق کوئی فیصلہ کرے۔ آپؐ نے فرمایا سچ تو تم نے بول دیا لیکن اب یہاں سے جاؤ۔ اب اللہ تمہارے متعلق فیصلہ کرے گا کہ تمہارے سے کیا سلوک کرنا ہے۔ میں اٹھ کر چلا گیا اوربنو سَلِمَہ میں سے بعض لوگ بھی اٹھ کر میرے پیچھے ہولیے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ اللہ کی قسم !ہمیں علم نہیں کہ تم نے اس سے پہلے کوئی قصور کیا ہو اور تم یہ بھی نہ کرسکے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی بہانہ ہی بناتے جبکہ ان پیچھے رہنے والوں نے آپ کے سامنے بنائے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تمہارے لیے مغفرت کی دعا کردینا ہی تمہارے اس گناہ کو بخشانے کے لیے کافی تھا۔ اللہ کی قسم !یہ لوگ مجھے ملامت ہی کرتے رہے یہانتک کہ میں نے بھی ارادہ کرلیا۔ کہتے ہیں میری نیت پھر بدل گئی کہ لوٹ جاؤں اور اپنے آپ کو جھٹلا دوں۔ کہ پہلے جو میں نے بات کی تھی غلط کی تھی۔ کوئی بہانہ بنا لوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے۔ پھر میں نے ان ساتھیوں سے پوچھا جو مجھے کہہ رہے تھے کہ جاؤ معافی مانگو۔ کوئی اور عذر پیش کردو۔ کہتے ہیں میں نے پھر ان سے پوچھا کہ کیا کوئی میرے ساتھ اور بھی ہے جس نے آپؐ سے اس قسم کا اقرار کیا ہو یا سچی بات بیان کی ہو۔ انہوں نے کہا ہاں دو اَور شخص ہیں۔ انہوں نے بھی وہی کہا ہے جو تم نے کہا ہے اور ان کو بھی وہی جواب ملا ہے جو تمہیں دیا گیا ہے۔ میں نے کہا وہ کون ہیں۔ کہنے لگامُرَارَہْ بن رَبِیْعْ عَمْرِی اور ہِلَالْ بن اُمَیَّہْ وَاقِفِی۔ انہوں نے مجھ سے ایسے دو نیک آدمیوں کا ذکر کیا جو بدر میں شریک ہوچکے تھے۔ ان دونوں میں میرے لیے نمونہ تھا۔ جب لوگوں نے ان دونوں کا مجھ سے ذکر کیا تو میں چلا گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ہم سے بات چیت کرنے سے منع کردیا۔یعنی پھر میں بہانہ بنانے کے لیے واپس نہیں گیا بلکہ میں گھر چلا گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے ہمارا مقاطعہ کروا دیا۔ یعنی ان میں سے ان لوگوں سے جو آپ سے پیچھے رہ گئے تھے لوگ کترانے لگے گویا کہ ہم سے بالکل ناآشنا ہیں یہانتک کہ یہ زمین بھی مجھے اوپری نظر آنے لگی۔ وہ نہ تھی جس کو میں جانتا تھا۔ ہم اس حالت میں پچاس راتیں رہے۔ میرے جو ساتھی تھے وہ تو غمزدہ ہوہوکر گھروں میں رہ گئے اور اپنے گھروں میں بیٹھ کر رونے لگے اور میں ان لوگوںمیں سے زیادہ جوان تھا اور ان لوگوں سے مصیبت کو زیادہ برداشت کرنے والا تھا۔ میں باہر نکلتا اور مسلمانوں کے ساتھ نمازوں میں شریک ہوتا اور بازاروں میں پھرتا مگر مجھ سے کوئی بات نہ کرتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی جاتا۔ آپ کو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہتا جبکہ آپؐ نماز کے بعد اپنی جگہ پہ بیٹھے ہوتے۔ اپنے دل میں کہتا کہ کیا آپؐ نے مجھے سلام کا جواب دینے میں اپنے ہونٹ ہلائے یا نہیں۔ کنکھیوں سے دیکھتے اور آپ کے قریب ہوکر نماز پڑھتا اور نظر چرا کر آپ کو دیکھتا اور جب میں نماز پڑھنے لگتا آپؐ میری طرف دیکھتے اور جب میں آپؐ کی طرف توجہ کرتا تو آپؐ مجھ سے منہ پھیر لیتے۔ یہاں تک کہ لوگوں کی یہ درشتی دیر تک رہنے سے مجھ پر دوبھر ہوگئی تو میں چلا گیا اور ابوقَتَادَہ کے باغ کی دیوار پر چڑھ گیا۔ یہ میرے چچا کے بیٹے تھے۔ یعنی کہ اس کے باغ میں چلا گیا اور وہ مجھے تمام لوگوں سے زیادہ پیارے تھے۔ چھپ کے گیا بجائے ظاہری دروازے سے جانے کے۔ کہتے ہیں میں نے ان کو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہا۔ اللہ کی قسم !انہوں نے سلام کا جواب تک نہ دیا۔ میں نے کہا ابو قَتَادَہ! میں تم سے اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہوں، وہ خاموش رہے۔ پھر ان سے پوچھا اور ان کو قسم دی مگر وہ پھر خاموش رہے۔ پھر ان سے پوچھا اور ان کو قسم دی تو انہوں نے کہا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ یہ سن کر میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ میں نے پیٹھ موڑ کر دیوار پھاندی اور وہاں سے چلا آیا۔ حضرت کعب کہتے تھے کہ اس اثناء میں کہ میں مدینہ کے بازار میں چلا جا رہا تھا کیا دیکھتا ہوں کہ اہل شام کےنَبَطِیُوں سے ایک نَبَطِی جو مدینہ میں غلہ لے کر بیچنے کے لیے آئے تھے کہہ رہا تھا کہ کَعْبْ بِن مَالِک کا کون بتائے گا۔ یہ سن کر لوگ اس کو اشارے سے بتانے لگے۔ جب وہ میرے پاس آیا تو اس نے غسّان کے بادشاہ کی طرف سے ایک خط مجھے دیا۔ اس میں یہ مضمون تھا کہ اَمّا بعد مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ تمہارے ساتھی نے تمہارے ساتھ سختی کا معاملہ کرکے تمہیں الگ تھلگ چھوڑ دیا ہے اور تمہیں تو اللہ نے کسی ایسے گھر میں پیدا نہیں کیا تھا جہاں ذلّت ہو اور تمہیں ضائع کردیا جائے۔ تم ہم سے آ کر ملو ہم تمہاری خاطر مدارت کریں گے۔ جب میں نے یہ خط پڑھا تو میں نے کہا یہ خط ایک اَور آزمائش ہے۔ پہلے ایک آزمائش سے گزر رہا ہوں تو یہ خط جو لالچ کے طور پر بادشاہ کی طرف سے مجھے دیا گیا ہے یہ ایک اور آزمائش آ گئی۔ کہتے ہیں میں وہ خط لے کر ایک تنور کی طرف گیا۔ اس میں آگ جل رہی تھی اور اس میں اس خط کو پھینک دیا۔ جب پچاس راتوں میں سے چالیس راتیں گزریں تو کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام لانے والا میرے پاس آ رہا ہے۔ اس نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم سے فرماتے ہیں کہ اپنی بیوی سے الگ ہوجاؤ۔ میں نے پوچھا کیا مَیں اسے طلاق دے دوں یا کیا کروں؟ اس نے کہا اس سے الگ رہو اور اس کے قریب نہ جاؤ۔ آپؐ نے میرے دونوں ساتھیوں کو بھی ایسا ہی کہلا بھیجا۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ اور اس وقت تک انہی کے پاس رہنا کہ اللہ اس معاملے میں کوئی فیصلہ کرے۔ حضرت کعبؓ کہتے تھے پھر ہِلَال بِن اُمَیَّہ کی بیوی کو بھی یہی حکم تھا تو ان کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی۔ کہنے لگی یا رسول اللہ! ہِلَال بِن اُمَیَّہ بہت بوڑھا ہے اور اس کا کوئی نوکر نہیں ہے۔ کیا آپؐ ناپسند فرمائیں گے اگر میں اس کی خدمت کروں۔ کھانا پکا دیا کروں۔ کپڑے کُپڑےدھو دیا کروں۔ آپؐ نے فرمایا: نہیں لیکن وہ تمہارے قریب نہ آئے۔ بس اتنی خدمت ہی کرسکتی ہو۔ کہنے لگی اللہ کی قسم !اس کو تو کسی بات کی تحریک نہیں ہوتی۔ اللہ کی قَسم! وہ اس دن سے آج تک رو رہا ہے جب سے اس کے ساتھ یہ معاملہ ہوا ہے۔ کہتے ہیں کہ میرے بعض رشتہ داروں نے مجھ سے کہا کہ اگر تم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی بیوی کے متعلق ایسی ہی اجازت لے لو کہ وہ تمہاری خدمت کردیا کرے جیسا کہ آپؐ نے ہِلَال بِن اُمَیَّہ کی بیوی کو اس کی خدمت کرنے کی اجازت دی ہے۔ میں نے کہا اللہ کی قسم !میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی اس بارے میں اجازت نہ لوں گااور مجھے کیا معلوم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اس کے بارے میں کیا جواب دیں اور میں تو جوان آدمی ہوں۔ وہ بوڑھے تھے۔ میں تو جوان ہوں۔ اس کے بعد میں دس راتیں اَور ٹھہرا رہا یہانتک کہ ہمارے لیے پچاس راتیں اس وقت سے پوری ہوئیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ساتھ بات چیت کرنے سے منع کیا تھا۔ جب مقاطعہ کو پچاس دن گزر گئے۔ جب پچاسویں رات کی صبح کو نماز فجر پڑھ چکا اور میں اس وقت اپنے گھروں میں سے ایک گھر کی چھت پر تھا اور میں اسی حالت میں بیٹھا ہوا تھا جس کا اللہ نے ذکر کیا ہے یعنی مجھ پر میری جان تنگ ہوچکی تھی اور مجھ پر زمین بھی باوجود کشادہ ہونے کے تنگ ہوگئی تھی اس اثناء میں میں نے ایک پکارنے والے کی آواز سنی جو سَلَع پہاڑ پر چڑھ کر بلند آواز سے پکار رہا تھا۔ اے کَعْبْ بِن مَالِک تمہیں بشارت ہو! میں یہ سن کر سجدے میں گر پڑا اور سمجھ گیا کہ مصیبت دُور ہوگئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب آپؐ فجر کی نماز پڑھ چکے اعلان فرمایا کہ اللہ نے مہربانی کرکے ہماری غلطی کو معاف کردیا ہے۔ یہ سن کر سب لوگ ہمیں خوشخبری دینے لگے اور میرے دونوں ساتھیوں کی طرف بھی خوشخبری دینے والے گئے۔ اور ایک شخص میرے پاس گھوڑا بھگاتےہوئے آیا اور أَسْلَمْ قبیلہ کا ایک شخص دوڑا آیا اور پہاڑ پر چڑھ گیا اوراس کی آواز گھوڑے سے زیادہ جلدی پہنچنے والی تھی۔ یعنی انہوں نے کہا کہ ایک تو گھوڑے پر آیا تھا اور پھر اس نےیہ طریقہ اختیار کیا کہ پہاڑی پر چڑھ کے اونچی آواز میں اعلان کردیا۔ جب وہ شخص میرے پاس بشارت دینے آیا جس کی آواز میں نے سنی تھی تو میں نے اس کے لیے اپنے دونوں کپڑے اتارے اور اس کو پہنائے اس لیے کہ اس نے مجھے بشارت دی تھی۔ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم !اس وقت ان کے سوا میرے پاس اور کچھ بھی نہیں تھا اور میں نے دو اَور کپڑے عاریتاً کسی سے لیے اور انہیں پہنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلا گیا اور لوگ مجھے فوج در فوج ملتے اور توبہ کی قبولیت کی وجہ سے مجھے مبارکباد دیتے تھے۔ کہتے تھے کہ تمہیں مبارک ہو جو اللہ نے تم پر رحم کرکے توبہ قبول کی ہے۔ حضرت کعبؓ کہتے تھے آخر میں مسجد میں پہنچا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہیں آپ کے اردگرد لوگ ہیں۔ حضرت طَلْحَہ بن عُبَیْدُاللّٰہؓ مجھے دیکھ کر میرے پاس دوڑے آئے اور مجھ سے مصافحہ کیا اور مبارک دی۔ مہاجرین میں سے اس کے سوا بخدا کوئی شخص بھی میرے پاس اٹھ کر نہیں آیا اور طلحہ کی یہ بات میں کبھی بھی نہیں بھولوں گا اور حضرت کعب کہتے تھے کہ جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور آپ کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا کہ تمہیں نہایت ہی اچھے دن کی بشارت ہو ان دنوں میں سے جب سے تمہاری ماں نے تمہیں جنا ہے تم پر گزرے ہیں۔ کہتے تھے میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !کیا یہ بشارت آپؐ کی طرف سے ہے یا اللہ کی طرف سے؟ آپؐ نے فرمایا نہیں! بلکہ اللہ کی طرف سے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خوش ہوتے تو آپ کا چہرہ ایسا روشن ہوجاتا کہ گویا وہ چاند کا ٹکڑا ہے اور ہم اس سے آپ کی خوشی پہچان لیا کرتے تھے۔ جب میں آپ کے سامنے بیٹھ گیا تو مَیں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !مَیں اس توبہ کے قبول ہونے کے عوض اپنی جائیداد سے دستبردار ہوتا ہوں جو اللہ اور اس کے رسول کی خاطر صدقہ ہوگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی جائیداد میں سے کچھ اپنے لیے بھی رکھو کیونکہ یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ مَیں نے کہا اپنا وہ حصہ رکھ لیتا ہوں جو خیبر میں ہے۔ میں نے کہا یارسول اللہ !اللہ نے مجھے صدق کی وجہ سے نجات دی اور میری توبہ میں سے یہ بھی ہے کہ میں ہمیشہ سچ ہی بولا کروں گا جب تک کہ میں زندہ رہوں گا کیونکہ اللہ کی قسم !میں مسلمانوں میں سے کسی کو نہیں جانتا کہ اللہ نے اس کو سچی بات کہنے کی وجہ سے اس خوبی کے ساتھ آزمایا ہو جس خوبی سے میری آزمائش کی ہے۔ اس وقت سے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اصل واقعہ بیان کیا، میں نے جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات بیان کی کہ میں نے آج تک عمداً جھوٹ نہیں بولا اور میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ آئندہ بھی جب تک زندہ ہوں مجھے محفوظ رکھے گا، اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ وحی نازل کی کہ اللہ نبی پر اور مہاجرین اور انصار پر توبہ قبول کرتے ہوئے جھکا جنہوں نے تنگی کے وقت اس کی پیروی کی تھی بعد اس کے کہ قریب تھا کہ ان میں سے ہر ایک فریق کے دل ٹیڑھے ہوجاتے پھر بھی اس نے ان کی توبہ قبول کی یقینا ًوہ ان کے لیے بہت مہربان اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ کہتے ہیں اللہ کی قسم !اس کے بعد کہ اللہ نے مجھے اسلام کی ہدایت دی کبھی بھی اس نے کوئی انعام میرے نزدیک اس سے بڑھ کر نہیں کیا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچ سچ بیان کردیا۔ شکر ہے کہ میں نے آپ سے جھوٹ نہیں بولا ورنہ میں ہلاک ہوجاتا جیسا کہ وہ لوگ ہلاک ہوگئے جنہوں نے جھوٹ بولا تھا۔ اور حضرت کعب کہتے تھے اور ہم تینوں کا فیصلہ ان لوگوں کے فیصلہ سے زیادہ مؤخّر رکھا گیا جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عذر قبول کیا تھا جب انہوں نے آپ کے سامنے قسمیں کھائیں اور آپ نے ان سے بیعت لی اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے فیصلے کو ملتوی کردیا یہاں تک کہ اللہ نے اس کے متعلق فیصلہ فرمایا سو وہ یہی بات ہے کہ اللہ نے فرمایا ہے۔ اسی طرح ان تینوں پر بھی اس نے فضل کیا جو کہ پیچھے چھوڑے گئے تھے اور جو پیچھے رکھے جانے کا اللہ نے اس میں ذکر کیا ہے وہ غزوہ سے ہمارا پیچھے رہنا نہیں بلکہ اللہ کے فیصلے میں ہمیں ان لوگوں سے پیچھے رکھنا مراد ہے کہ جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قسمیں کھائی تھیں اور آپ کے پاس معذرتیں کی تھیں اور آپ نے ان کی معذرت قبول کرلی تھی لیکن ہم نے سچ بولا تھا۔ (صحیح البخاری کتاب المغازی باب حدیث کعب بن مالک، حدیث 4418، مترجم جلد9 صفحہ 304 تا 317) اس وقت میں کیونکہ ابھی تین مرحومین کا ذکر بھی کروں گا جن کا جنازہ پڑھانا ہے اس لیے اس کا باقی حصہ جو حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے انداز میں بیان فرمایا ہے وہ ان شاءاللہ آئندہ بیان کردوں گا۔ مرحومین کےذکر میں پہلا ذکر حافظ محمد ابراہیم عابد صاحب کا ہے۔ وہ مربی سلسلہ تھے جو گذشتہ دنوں بہتّر سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ چکوال کے ایک علاقے میں یہ پیدا ہوئے تھے۔ 1967ء میں حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ پر بیعت کرکے جماعت میں داخل ہوئے۔ مرحوم پیدائشی نابینا تھے۔ گاؤں میں ہی قرآن کریم حفظ کیا۔ 1967ء میں جامعہ احمدیہ میں داخل ہوئے اور 1977ء میں جامعہ سے شاہد کی ڈگری کے ساتھ عربی فاضل کا امتحان بھی پاس کیا۔ بطور مربی سلسلہ آپ کو اصلاح و ارشاد مقامی میں اور پھر استاد مدرسة الحفظ میں خدمت کی توفیق ملی۔ پھر فیصل آباد کے ایک گاؤں میں بھی رہے۔ پھر انڈونیشیا دو سال مبلغ کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔ اصلاح و ارشاد مرکزیہ میں بھی رہے۔ پھر دارالضیافت میں ان کو مربی کے طور پر لگایا گیا اور جو مجلس نابینا بنائی تھی اس کے 2000ء میں سیکرٹری بھی بنے۔ خلافت لائبریری میں بھی خدمات انجام دینے کی ان کو توفیق ملی۔ بریل زبان بھی انہوں نے سیکھی۔ ان کے ایک ہم جماعت، کلاس فیلو امداد الرحمٰن صدیقی صاحب مربی سلسلہ بنگلہ دیش میں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم ربوہ میں جامعہ احمدیہ میں اکٹھے پڑھتے تھے۔ حافظ صاحب بہت ذہین و فطین تھے۔ حافظہ بہت اچھا تھا۔ کسی آیت کا تھوڑا سا حصہ پڑھ کر حافظ صاحب سے پوچھتے کہ یہ آیت قرآن کریم کے کس مقام پر آتی ہے تو حافظ صاحب ایک منٹ میں سوچ کر بتا دیتے کہ یہ آیت فلاں سورت کے شروع میں یا درمیان میں آتی ہے اور جو بھی جامعہ میں پڑھایا جاتا، استاد پڑھاتے حافظ صاحب کو بڑی اچھی طرح یاد ہوتا۔ حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی ان پر خاص شفقت تھی اور اس کی وجہ سے ہی ان کو جامعہ میں داخلہ ملا تھا۔ انہوں نے کوئی سکول کی تعلیم حاصل نہیں کی تھی لیکن پھر بھی جامعہ میں بڑی اچھی تعلیم حاصل کی۔ جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہوتا یہ فوراً حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کے پاس پہنچ جاتے اور ان سے راہنمائی لیتے اور حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کی بھی حافظ صاحب پر بہت شفقتیں تھیں۔ اسی طرح حنیف محمود صاحب نے بھی ان کے بارے میں کافی کچھ لکھا ہے۔ کچھ بیان کرتا ہوں۔ کہتے ہیں کہ میں ساڑھے سات سال بعد افریقہ سے واپس آیا تو ایک مرتبہ میں نے ان کا ہاتھ پکڑ کر زور سے دبایا مگر میں نےکچھ بولا نہیں۔ حافظ صاحب نے فوراً پہچان لیا اور میرا نام لے کر کہا کہ کب آئے ہو؟ گویا ساڑھے سات سال بعد بھی صرف میرے ہاتھ کے لمس سے مجھے پہچان لیا۔ یہ بھی حافظ صاحب کو بڑا مان تھا کہ قرآن کریم سنانے میں کبھی کوئی غلطی نہیں کروں گا اور یہ واقعةً درست بھی تھا۔ پھر حنیف صاحب یہ واقعہ لکھتے ہیں کہ یہاں جلسہ پہ آئے، مجھے ملے تو انہوں نے مجھے کہا کہ میں نے آپ کو دیکھ لیا ہے۔ اس وقت میں نے ان سے کہا کہ دیکھا کس طرح؟ آپ کی نظر تو ہے نہیں۔ انہوں نے کہا میں نے دل کی آنکھ سے جو دیکھا ہے وہ ظاہری آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔ ان میں بڑا اخلاص اور وفا تھی۔ اور اسی طرح ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے حوالے بھی بہت یاد تھے۔ اس کے بارے میں بھی بعض لوگوں نے لکھا ہے۔ تقریباً سینتالیس سال تک ان کو خدمت سلسلہ کی توفیق ملی۔ خلافت سے بڑا گہرا عقیدت کا تعلق تھا۔ اللہ کے فضل سے موصی تھے۔ ان کے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹے اور چار بیٹیاں بھی شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے رحمت اور مغفرت کا سلوک فرمائے اور ان کے بچوں کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔ دوسرا ذکر شیخ ابوبکر جارج صاحب (معلم سلسلہ لائبیریا) کا ہے۔ ان کی بھی گذشتہ دنوں ستّر سال کی عمر میں مختصر علالت کے بعد وفات ہوگئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ کچھ عرصہ سے پھیپھڑوں کے عارضہ میں مبتلا تھے۔ 1980ء میں سیرالیون میں بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئے تھے۔ دنیاوی لحاظ سے بڑے آسودہ حال تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں خدمت دین کا غیر معمولی جذبہ پیدا کیا۔ پہلے قرآن شریف پڑھتے تھے لیکن اتنا نہیں لیکن اس کے بعد تو خاص طور پر انہوں نے توجہ دی اور ساٹھ برس کی عمر میں انہوں نے بہت صحت کے ساتھ قرآن کریم پڑھنا سیکھا اور پھر تہیہ کیا کہ باقی زندگی دین کی خدمت میں صرف کروں گا۔ اگرچہ واقفِ زندگی نہیں تھے لیکن عملاً آپ نے وہ رنگ دکھایا جو واقفین زندگی سے بھی بڑھ کر تھا۔ جماعت کی خدمت اور تبلیغ میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے اور ایک سال کی بنیادی تعلیم جماعت کی طر ف سے ملی۔ ان کو کنڈینسڈ کورس ملا اور پھر ان کو معلم لگا دیا گیا۔ 2012ء میں اپنے شہر میں ہی ان کو معلم لگایا اور گانٹا (Ganta) شہر میں ان کا اپنا مکان بھی تھا۔ یہ بطور سینٹر انہوں نے وقف کردیا۔ اسی مکان کے احاطے میں آپ نے چھوٹی سی مسجد بھی تعمیر کروائی اور خدمت دین کا کام کرتے تھے۔ اس طرح آپ کو نمبا (Nimba) کاؤنٹی کے پہلے مبلغ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا اور وفات تک یہاں ہی خدمت کی توفیق پاتے رہے۔ گانٹا (Ganta) میں اپنا ذاتی پلاٹ مسجد اور مشن ہاؤس کے لیے دے دیا جس پر آج مرکزی مسجد اور ریجنل مشن ہاؤس قائم ہے۔ اسی طرح منروویا کے مضافات میں اپناایک پلاٹ اور چھوٹا سا گھر بھی جماعت کو ہبہ کردیا۔ مرحوم نے جماعت کے ساتھ ہمیشہ اخلاص و وفا کا تعلق رکھا۔ باوجود بڑھاپے اور کمزوری کے اپنی کاؤنٹی کے دور دراز علاقوں کا مسلسل دورہ کرتے حالانکہ راستے کچے اور نہایت دشوار گزار ہوتے تھے۔ آپ کی تبلیغی مساعی کے نتیجہ میں چند قصبے بھی احمدیت کی آغوش میں آگئے۔ آپ صوم و صلوٰة اور تلاوت قرآن کریم کے پابند تھے۔ چندہ جات میں باقاعدہ تھے۔ غرباء کا خیال رکھنے والے تھے۔ مالی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے۔ نیک اور مخلص انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ وفات پر وصیت کا حساب کیا گیا تو تقریباً چار لاکھ لائبیرین ڈالر کی رقم فاضلہ تھی۔ خلافت سے بڑا گہرا تعلق تھا۔ پسماندگان میں دو اہلیہ کے علاوہ تین بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کی نسلوں میں بھی جماعت سے وفا کا تعلق قائم رکھے۔ تیسرا ذکر ثمینہ بھنوں صاحبہ کا ہے جو ڈاکٹر فضل محمود بھنوں صاحب لائبیریا کی اہلیہ تھیں۔ گذشتہ دنوں ان کی بھی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت مولانا عبدالرحیم درد صاحبؓ کی نواسی تھیں۔ درد صاحب یہاں یوکے میں بھی مبلغ رہے ہیں۔ مرحومہ نے بی اے کی تعلیم ربوہ سے حاصل کی۔ پھر پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے عربی کیا۔ تقریباً پینتیس سال کا عرصہ افریقہ میں اپنے واقف زندگی شوہر کے ساتھ ہر قسم کے چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہوئے نہایت بہادری سے گزارا اور ہر حال میں ثابت قدم رہیں۔ زندگی کے ہر مرحلے میں آپ نے وقف کے تقاضے خوشدلی اور پوری بشاشت کے ساتھ پورے کیے اور ازدواجی زندگی میں پیار اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ان کے قریبی رشتہ دار، ان کی بھابھی بھی ان کے بارے میں لکھتی ہیں کہ ہمیشہ ہمارے رشتوں کو آپس میں جوڑنے میں، خاندان کے رشتوں کو جوڑنے میں انہوں نے بہت کردار اداکیا۔ بڑا محبت اور پیار کا سلوک ہر ایک کے ساتھ کیا۔ عبدالغنی جہانگیر صاحب انچارج فرنچ ڈیسک لکھتے ہیں کیونکہ ثمینہ صاحبہ کے خاوند ماریشس سے تھے اور ان کا تعلق جہانگیر صاحب سے تھا اس وجہ سے ان سے بھی تعلق تھا، ان کی والدہ سے ثمینہ صاحبہ کا تعلق تھا۔ کہتے ہیں کہ میں نے ایک بار مرحومہ سے پوچھا کہ کیا ڈاکٹر صاحب کی ریٹائرمنٹ کے بعد آپ پاکستان واپس جانا پسند کریں گی یا ماریشس کیونکہ سسرال تو ماریشس کا ہے۔ انہوں نے کہا نہیں میں افریقی بن گئی ہوں، نہ پاکستان نہ ماریشس مجھے افریقہ پسند ہے اور میں ہمیشہ کے لیے یہاں رہنا چاہتی ہوں۔ فرانسیسی بولنے والے ممالک میں رہنے کی وجہ سے مرحومہ کو فرانسیسی زبان پر عبور ہوگیا تھا۔ کہتے ہیں کہ ایک بار مرحومہ کی ساس صاحبہ نے مجھے بتایا کہ ثمینہ میری سب سے پسندیدہ بہو ہے اس لیے کہ وہ قناعت کرتی ہے اور کبھی شکوہ نہیں کیا حالانکہ ڈاکٹر کچھ بہتر حالات میں بھی ہوتے ہیں اس کے باوجود بعض جگہ جب ڈاکٹروں کی ابتدا ہوتی ہے تو وہاں ان کی آمد بہت کم ہوتی ہے اور معمولی رقم میں گزارہ کرنا پڑتا ہے لیکن بڑے صبر سے، حوصلے سے انہوں نے خاوند کا ساتھ دیا اور گزارہ کیا۔ ان کے خاوند نے بھی بڑی وفا سے وقف نبھایا۔ تو ساس نےیہ واقعہ بیان کیا ۔کہتی ہیں کہ سکول سے بیٹی آئی اور وہ بیٹی بھی ڈاکٹر بن چکی ہے اور وقف ہے اور ہسپتال میں خدمت انجام دے رہی ہے۔ انیلہ نام ہے ان کا۔ تو بہرحال جب وہ سکول سے آئی تو سکول کا بیگ جو تھا وہ پھٹا ہوا تھا۔ بجائے اس کے کہ نیا بیگ خرید کے دیں۔ مرحومہ نے اپنی بیٹی کو کہا کہ تمہیں میں ٹھیک کردیتی ہوں اور خود اپنے ہاتھ سے سلائی کرکے اسے ٹھیک کیا۔ مرحومہ انتہائی سادہ، پنجوقتہ نمازوں کی پابند، ملنسار، بہت ہمدرد، شفیق ہر ایک کا خیال رکھنے والی، دعا گو، صابرہ شاکرہ، مہمان نواز، نہایت باکردار اور غریب پرور خاتون تھیں۔ شروع میں جو مربیان وہاں برکینافاسو جاتے رہے ہیں انہوں نے بھی مجھے لکھا کہ ہم جاتے تھے تو ہمارا بڑا خیال رکھتی تھیں اور ہم اکیلے ہوتے تھے تو کھانے پینے کا بھی ہمیشہ خیال رکھتیں۔ خلافت کے ساتھ عشق کی حد تک پیار تھا۔ مرحومہ اللہ کے فضل سے موصیہ تھیں۔ پسماندگان میں خاوند کے علاوہ ایک بیٹی شامل ہیں۔ ان کے بھائی ڈاکٹر محمود عاطف صاحب فضل عمر ہسپتال ربوہ میں ہیں اور ایک بھائی حامد مقصود عاطف صاحب مربی سلسلہ تھے۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند کرے۔ ان سب کے جیسا کہ میں نے کہا نماز کے بعد جنازہ غائب پڑھاؤں گا۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 21؍ نومبر2025ء