روحانیت اور تربیت دو ایسے نورانی حقائق ہیں جن کےبغیر نہ فرد کی تکمیل ممکن ہے نہ قوم کی بقا۔ انسان اگر اپنی تخلیق کے مقصد کو پانےکاخواہاں ہو تو اسے اپنے ظاہر کے ساتھ باطن کی اصلاح بھی کرنی پڑتی ہے اور یہی وہ نکتہ ہے جس پر جماعتِ احمدیہ کا سارا نظام قائم ہے۔ خلافتِ احمدیہ کے زیرِ سایہ جماعت احمدیہ نہ صرف ایمانوں کی حفاظت کرتی ہے بلکہ انہیں علم، عمل اور اخلاق کی روشنی میں ترقی دینے کا فریضہ بھی انجام دیتی ہے۔ تربیت محض معلومات کا نام نہیں بلکہ یہ دلوں میں نورِ یقین پیدا کرنے کا نام ہے ۔ ارشادِ ربانی ہے:قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا ( الشمس : ۱۰ ) یقیناًوہ کامیاب ہوگیا جس نے اُس (تقویٰ) کو پروان چڑھایا۔یہ تزکیہ ہی وہ جوہر ہے جو جماعتِ احمدیہ اپنے ہر فرد کے اندر زندہ رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ تربیت دراصل انسان کے ظاہر و باطن کو ہم آہنگ کرتی ہے۔ اُس کے کردار میں صداقت، دل میں خوفِ خدا اور اس کے عمل میں اخلاص پیدا کرتی ہے۔ دورِ حاضر کے فتنہ انگیز ماحول میں جب انسان کی فکری و روحانی بنیادیں متزلزل ہو چکی ہیں اس وقت جماعتی تربیت وہ چراغ ہے جو ظلمت کے اس سمندر میں روشنی پھیلا رہا ہے۔ تربیتی پروگرام محض ظاہری سرگرمیاں نہیں بلکہ روحانی تزکیہ کی منازل ہیں۔ ان کا مقصد اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط کرنا، خلافت سے وفاداری کا عہد تازہ رکھنا اور خدمتِ انسانیت کے جذبے کو فروغ دینا ہے۔ ایک تربیت یافتہ شخص جہاں جاتا ہے وہاں روشنی پھیلاتا ہے۔ اس کی زبان میں نرمی، کردار میں صداقت اور عمل میں وقار جھلکتا ہے۔ یوں وہ جماعت کے عملی چہرے کا مظہر بن جاتا ہے۔ جماعتی پروگرام جماعتِ احمدیہ کی روحانی زندگی کے رواں دریا ہیں۔ ان سے ایمان تازہ ہوتا ہے۔ دلوں میں دعا کا ذوق پیدا ہوتا ہے اور خدمتِ دین کے لیے ایک ولولہ جنم لیتا ہے۔ ان پروگراموں کے ذریعے احمدی مرد و زن اپنے مقصدِ حیات سے نزدیک تر ہوجاتے ہیں۔دین و دنیا کی ترقی میں یہی تربیت کلیدِ کامیابی ہے۔ ایک ایسا احمدی جو علم و ایمان، روحانیت و عمل ، فکر و کردار کے توازن سے مزیّن ہو وہ ہی خلافتِ احمدیہ کےحقیقی مشن کاسفیر ہے۔ جو افرادمسلسل اورشوق ووارفتگی کے ساتھ جماعتی پروگراموں میں شرکت کرتے ہیں ان کے دلوں پر گویا نورِ یقین کی بارش برستی ہے۔ ایسے نفوس کے وجود میں ایک نیا روحانی توازن پیدا ہوتا ہے۔ ان کی آنکھوں میں معرفت کی روشنی، زبان پر صدق و وفا کی چمک اور دل میں عشق الٰہی کا سوز جاگزیں ہوتا ہے۔ان مجالسِ تربیت میں شرکت دراصل روح کی تطہیر اور باطن کی تعمیر کا ذریعہ ہے۔ یہاں انسان اپنی غفلت کے پردے چاک کرتا ہے ۔ اپنے عہدِ ایمان کو تازہ کرتا اور خلافت کی برکات کے زیرِ سایہ اپنی زندگی کو ایک نئی سمت عطا کرتا ہے ۔ جو دل ان تربیتی محفلوں میں بیٹھتا ہے وہ گناہوں کے غبار سے دُھل جاتا ہے۔ جو ذہن ان درس و اجتماعات میں حاضر ہوتا ہے وہ فکری تنگی سے نکل کر وسعتِ بصیرت پاتا ہے۔ ایسے شاملین کی زندگیاں نہ صرف انوارِ روحانیت سے منور ہوجاتی ہیں بلکہ ان کا وجود جماعت کے لیے برکت، معاشرے کے لیے امن اور انسانیت کے لیے خیر کا سرچشمہ بن جاتا ہے۔ وہ لوگ گویا چلتی پھرتی دعائیں، بولتی ہوئی روشنی اور خاموش تبلیغ کے نمونے بن جاتے ہیں۔ ان کی ہر سانس میں اِخلاص کی خوشبو اور ہر عمل میں اطاعت کا جمال جھلکتا ہے۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے قدموں کے نشان زمانہ سنبھالتا ہے۔ کیونکہ ان کی حیات تربیت کے نور سے معمور ہو چکی ہوتی ہے۔حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا :” اجتماع کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ آپ کو مل بیٹھنے کا موقع میسر آئے۔ تاکہ لجنہ اماءِاللہ میں باہم اتفاق اور اتحاد کا جذبہ پروان چڑھے۔ یہاں ایسے پروگرامز کروائے جائیں جو آپ سب کی روحانی اور اخلاقی ترقی کے ساتھ ساتھ مقابلوں میں حصہ لینے والیوں کے دینی علم میں اضافہ کا بھی موجب ہوں۔ “(خطاب فرمودہ مورخہ ۳۰/ ستمبر ۲۰۱۸ء بر موقع اجتماع لجنہ اماءاللہ یو کے، الفضل انٹرنیشنل ۸/ فروری ۲۰۱۹ء)الغرض جماعتی پروگرامزمحض ایک انتظامی ڈھانچہ نہیں بلکہ ایک روحانی تحریک ہے۔ اس کے اجتماعات، مجالس، کلاسیں اور پروگرام اصل میں دلوں کی زمین کو نرم کرتے ہیں تاکہ ایمان کا بیج مضبوطی سے جم سکے۔ یہ نظام ہمیں یاد دلاتا ہے کہ تربیت کبھی مکمل نہیں ہوتی یہ ایک مسلسل سفر ہے خدا کی تلاش کا، اخلاقی رفعت کا اور انسانیت کی خدمت کا۔ جب تک ہم اس نظام سے جڑے رہیں گے ہماری نسلیں نورِ ایمان میں پروان چڑھتی رہیں گی۔پس ہمیں چاہیے کہ پروگرامز میں محض حاضری دینے والے نہ بنیں بلکہ ان کے مضامین کو اپنی روح میں جذب کرنے والے بنیں۔ یہی راستہ ہے قربِ الٰہی، وفائے خلافت اور خدمتِ دین کے اُس سفر کا جو قیامت تک جاری رہے گا۔ ان شاءاللہ۔ مزید پڑھیں: جماعت احمدیہ مالی کے بعض پروگرامز