٭…کیا عالم برزخ اس دنیا میں ہے یا کسی اور جگہ، کیونکہ حدیث کے مطابق جنت و دوزخ تواس دنیا میں ہیں؟ ٭…جو بچے چھوٹی عمر میں فوت ہو جاتے ہیں کیا وہ جنت میں بچے ہی رہتے ہیں۔ اور جو والدین اپنا بچہ کھو دیتے ہیں کیا ان کے لیے جنت کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے؟ ٭…کیا جنت میں تمام بچے حضرت ابراہیم ؑکی کفالت میں ہوں گے؟ ٭…جب ہم کسی کی قبر پر جاتے ہیں تو کیا اس وفات یافتہ کو بتا دیا جاتا ہے کہ کوئی اس کی قبر پر آیا ہے؟ ٭…بھتیجے کی وفات کے ذکر میں سوال کیا گیا کہ اس صدمہ کے لیے کوئی دعا بتا دیں؟ ٭…حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے لکھا ہے کہ رکوع اور سجدہ میں سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللّٰهُمَّ اغْفِرْلِيْ بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ کیا ایسا کرنا درست ہے؟ سوال: سری لنکا سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ میں نے کشف میں عالم برزخ کا نظارہ دیکھا جس میں کچھ چہرے سیاہ تھے اور کچھ روشن تھے۔ میرا سوال ہے کہ کیا عالم برزخ اس دنیا میں ہے یا کسی اور جگہ، کیونکہ حدیث کے مطابق جنت و دوزخ تواس دنیا میں ہیں؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۵؍نومبر۲۰۲۳ء میں اس سوال کے بارہ میں درج ذیل راہنمائی فرمائی۔ حضور انور نے فرمایا: جواب: جنت،دوزخ اور عالم برزخ یہ سب ایسی چیزیں ہیں، جنہیں ظاہر پر محمول نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ یہ خدا تعالیٰ کی تخلیق اور اس کی کائنات کا ہی حصہ ہیں لیکن انہیں ہم اس دنیاوی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتےبلکہ جیسا کہ آپ نے اپنے سوال میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ نے عالم کشف میں برزخ کو دیکھاہے، اسی طرح ان چیزوں کی ماہیت جاننے کے لیے کشفی اور روحانی آنکھ کا ہونا ضروری ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ قرآن کریم اور احادیث میں جنت و دوزخ وغیرہ کے بارہ میں بیان امور کو نہ سمجھنے اور انہیں ظاہر پر محمول کر دینے کی وجہ سے لوگوں نے ان چیزوں کے بارے میں غلط قسم کے خیالات اپنے ذہنوں میں پیدا کرلیے ہیں۔ حالانکہ قرآن و حدیث نے انسان کو سمجھانے کے لیے جنت و دوزخ کے بارے میں استعارہ اور تمثیل کے طور پر یہ ظاہری الفاظ استعمال کیے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان تمثیلی الفاظ کے ساتھ قرآن کریم نے جنت کے متعلق یہ بھی فرمایا ہے کہ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ أُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَآءًم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ۔ (السجدۃ:۱۸) یعنی کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لیے ان کے اعمال کے بدلہ کے طور پر کیا کیا آنکھیں ٹھنڈی کرنے والی چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں۔اسی طرح حدیث میں بھی آیا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جنت کی نعماء ایسی ہیں مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ۔(صحیح بخاری، کتاب تفسیر القرآن بَاب قَوْلِهِ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ أُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ)کہ انہیں نہ کبھی کسی انسانی آنکھ نے دیکھا، نہ کبھی کسی انسانی کان نے ان کا حال سنا اور نہ کبھی کسی انسان کے دل میں ان کے بارے میں کوئی تصور گزرا۔ پس جنت،دوزخ اور عالم برزخ یہ سب اشیاء ایسی ہیں کہ انہیں ہم نہ تو اپنی ظاہری آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی صرف عقل کے ذریعہ انہیں جان سکتے ہیں، بلکہ انہیں دیکھنے کے لیے کشفی اور روحانی آنکھ درکار ہے نیز ان کے بارے میں خداتعالیٰ نے خود یا اس کے رسول ﷺ نے ہمیں جو باتیں بتائی ہیں انہی پر ہماری معلوما ت کا انحصار ہے۔ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام جنت و دوزخ کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’قرآن شریف کی رو سے دوزخ اور بہشت دونوں اصل میں انسان کی زندگی کے اظلال اور آثار ہیں۔ کوئی ایسی نئی جسمانی چیز نہیں ہے کہ جو دوسری جگہ سے آوے۔ یہ سچ ہے کہ وہ دونوں جسمانی طور سے متمثل ہوں گے مگر وہ اصل روحانی حالتوں کے اظلال و آثار ہوں گے۔ ہم لوگ ایسی بہشت کے قائل نہیں کہ صرف جسمانی طور پر ایک زمین پر درخت لگائے گئے ہوں اور نہ ایسی دوزخ کے ہم قائل ہیں جس میں درحقیقت گندھک کے پتھر ہیں بلکہ اسلامی عقیدہ کے موافق بہشت دوزخ انہی اعمال کے انعکاسات ہیں جو دنیا میں انسان کرتا ہے۔‘‘(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحہ ۴۱۳) عالم برزخ کی حقیقت بیان کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:’’دوسرے عالم کا نام برزخ ہے۔اصل میں لفظ برزخ لغت عرب میں اس چیز کو کہتے ہیں کہ جو دوچیزوں کے درمیان واقع ہو۔ سو چونکہ یہ زمانہ عالم بعث اور عالم نشاء اولیٰ میں واقع ہے۔ اس لئے اس کا نام برزخ ہے لیکن یہ لفظ قدیم سے اور جب سے کہ دنیا کی بناء پڑی عالم درمیانی پر بولا گیا ہے۔…روح کے افعال کاملہ صادرہونے کے لیے اسلامی اصول کے رو سے جسم کی رفاقت روح کے ساتھ دائمی ہے۔ گو موت کے بعد یہ فانی جسم روح سے الگ ہوجاتا ہے مگر عالم برزخ میں مستعار طور پر ہر ایک روح کو کسی قدر اپنے اعمال کا مزہ چکھنے کے لیے جسم ملتا ہے۔ وہ جسم اس جسم کی قسم میں سے نہیں ہوتا بلکہ ایک نور سے یا ایک تاریکی سے جیسا کہ اعمال کی صورت ہو جسم طیار ہوتا ہے۔ گویا کہ اس عالم میں انسان کی عملی حالتیں جسم کا کام دیتی ہیں۔ ایسا ہی خدا کے کلام میں بار بار ذکر آیا ہے اور بعض جسم نورانی اور بعض ظلمانی قرار دئیے ہیں جو اعمال کی روشنی یا اعمال کی ظلمت سے طیار ہوتے ہیں۔ اگرچہ یہ راز ایک نہایت دقیق راز ہے مگر غیر معقول نہیں۔ انسان کامل اسی زندگی میں ایک نورانی وجود اس کیفیت جسم کے علاوہ پا سکتاہے اور عالم مکاشفات میں اس کی بہت مثالیں ہیں۔ اگرچہ ایسے شخص کو سمجھانا مشکل ہوتا ہے جو صرف ایک موٹی عقل کی حد تک ٹھہرا ہوا ہے لیکن جن کو عالم مکاشفات میں سے کچھ حصہ ہے وہ اس قسم کے جسم کو جو اعمال سے طیار ہوتا ہے تعجب اور استبعاد کی نگہ سے نہیں دیکھیں گے بلکہ اس مضمون سے لذت اٹھائیں گے۔ غرض یہ جسم جو اعمال کی کیفیت سے ملتا ہے یہی عالم برزخ میں نیک و بد کی جزاء کا موجب ہو جاتا ہے۔ میں اس میں صاحب تجربہ ہوں۔مجھے کشفی طور پر عین بیداری میں بارہا بعض مُردوں کی ملاقات کا اتفاق ہوا ہے اور میں نے بعض فاسقوں اورگمراہی اختیار کرنے والوں کا جسم ایسا سیاہ دیکھا ہے کہ گویا وہ دھویں سے بنایا گیا ہے۔ غرض میں اس کوچہ سے ذاتی واقفیت رکھتا ہوں اور مَیں زور سے کہتا ہوں کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایاہے ایسا ہی ضرور مرنے کے بعد ہر ایک کو ایک جسم ملتا ہے خواہ نورانی خواہ ظلمانی۔ انسان کی یہ غلطی ہوگی اگر وہ ان نہایت باریک معارف کو صرف عقل کے ذریعہ سے ثابت کرنا چاہے بلکہ جاننا چاہیے کہ جیسا کہ آنکھ شیریں چیز کا مزہ نہیں بتلاسکتی اور نہ زبان کسی چیز کو دیکھ سکتی ہے ایسا ہی وہ علوم معاد جو پاک مکاشفات سے حاصل ہو سکتے ہیں صرف عقل کے ذریعہ سے ان کا عقدہ حل نہیں ہو سکتا۔ خدا نے اس دنیا میں مجہولات کے جاننے کے لیے علیحدہ علیحدہ وسائل رکھے ہیں۔ پس ہر ایک چیز کو اس کے وسیلہ کے ذریعہ سے ڈھونڈو تب اسے پالو گے۔(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحہ ۴۰۳ تا ۴۰۶) علاوہ ازیں عالم برزخ کے بارے میں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ یہ صرف ایک ویٹنگ روم نہیں ہے، بلکہ اسی عالم میں ہی جزا اور سزا کا عمل شروع ہو جائے گا اور یوم بعث میں حساب کتاب ہونے کے بعد نیکوں اور بدوں کو ان کےاصل مقامات میں بھیج دیا جائے گا۔ یعنی نیکوں کو ان کی نیکیوں کے اعتبار سے جنت میں بلند مقامات ملیں گے اور گناہگاروں نے عالم برزخ میں جو سزا بھگت لی ہو گی، اگر وہیں پر ان کی سزا پوری ہو گئی ہوئی تو انہیں بھی جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔ حضرتمسیح موعود علیہ السلام اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اس جگہ ایک اور سوال ناواقفوں کی طرف سے ہو سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جس حالت میں تیسرا عالم جو عالم بعث ہے مدت دراز کے بعد آئے گا تو اس صورت میں ہر ایک نیک وبد کے لیے عالم برزخ صرف بطور حوالات کے ہواجو ایک امر عبث معلوم ہوتا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا سمجھنا سراسر غلطی ہے جو محض ناواقفی سے پیدا ہوتی ہے بلکہ خدا کی کتاب میں نیک و بد کی جزا کے لیے دو مقام پائے جاتے ہیں۔ ایک عالم برزخ جس میں مخفی طور پر ہر ایک شخص اپنی جزا پائے گا۔ بُرے لوگ مرنے کے بعد ہی جہنم میں داخل ہوں گے۔ نیک لوگ مرنے کے بعد ہی جنت میں آرام پائیں گے چنانچہ اس قسم کی آیتیں قرآن شریف میں بکثرت ہیں کہ بمجرد موت کے ہر ایک انسان اپنے اعمال کی جزا دیکھ لیتا ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ ایک بہشتی کے بارے میں خبر دیتا ہے اور فرماتا ہے۔قِيْلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ۔( یٰسٓ:۲۷)یعنی اس کو کہا گیا کہ تو بہشت میں داخل ہو اور ایسا ہی ایک دوزخی کی خبر دے کرفرماتا ہے۔فَرَاٰهُ فِيْ سَوَاءِ الْجَحِيْمِ۔(الصافات:۵۶)یعنی ایک بہشتی کا ایک دوست دوزخی تھا۔ جب وہ دونوں مر گئے تو بہشتی حیران تھا کہ میرا دوست کہاں ہے۔ پس اس کو دکھلایا گیا کہ وہ جہنم کے درمیان ہے۔ سو جزا سزا کی کارروائی تو بلاتوقف شروع ہو جاتی ہے اور دوزخی دوزخ میں اور بہشتی بہشت میں جاتے ہیں۔ مگر اس کے بعد ایک اور تجلی اعلیٰ کا دن ہے جو خدا کی بڑی حکمت نے اس دن کے ظاہر کرنے کا تقاضا کیا ہے کیونکہ اس نے انسان کو پیدا کیا تا وہ اپنی خالقیت کے ساتھ شناخت کیا جائے اور پھر وہ سب کو ہلاک کرے گا تاکہ وہ اپنی قہاریت کے ساتھ شناخت کیاجائے اور پھر ایک دن سب کو کامل زندگی بخش کر ایک میدان میں جمع کرے گا تا کہ وہ اپنی قادریت کے ساتھ پہچانا جائے۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحہ ۴۰۷، ۴۰۸) سوال:۔سوئٹزرلینڈ سے ایک خاتون نے اپنے بھتیجے کی وفات کا ذکر کر کے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے دریافت کیا کہ ۱۔ جو بچے چھوٹی عمر میں فوت ہو جاتے ہیں کیا وہ جنت میں بچے ہی رہتے ہیں۔ اور جو والدین اپنا بچہ کھو دیتے ہیں کیا ان کے لیے جنت کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے؟ ۲۔ کیا جنت میں تمام بچے حضرت ابراہیم ؑکی کفالت میں ہوں گے؟ ۳۔ جب ہم کسی کی قبر پر جاتے ہیں تو کیا اس وفات یافتہ کو بتا دیا جاتا ہے کہ کوئی اس کی قبر پر آیا ہے؟ ۴۔ اس صدمہ کے لیے کوئی دعا بتا دیں؟ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۹؍نومبر۲۰۲۳ء میں ان سوالات کے درج ذیل جواب عطا فرمائے۔ حضور انور نے فرمایا: جواب: چھوٹی عمر میں وفات پا جانے والے بچوں کے بارے میں احادیث میں مختلف باتیں بیان ہوئی ہیں، جو دراصل والدین کے لیے اس صدمہ پر صبر اور اطمینان کا باعث ہیں۔ چنانچہ ابو حسان بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہؓ سے کہا کہ میرے دو بیٹے فوت ہوگئے ہیں، آپ مجھے رسول اللہﷺ کی کوئی حدیث سنائیں، جس سے آپ ہمارے فوت شدگان کے بارے میں ہمارے دلوں کو خوش کردیں۔ ابو حسان کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہؓ نے کہاہاں، مسلمانوں کے چھوٹے بچے جنت کی دعامیص ( چھوٹی مچھلیاں) ہیں، جب ان میں سے کوئی اپنے والد یا والدین سے ملے گا تو وہ اس کے کپڑے یا ہاتھ کو پکڑے گا جیسے میں نے تمہارے کپڑے کے پلو کو پکڑا ہوا ہے۔ پھر وہ اس وقت تک اسے نہیں چھوڑے گا جب تک کہ اللہ تعالیٰ اسے اور اس کے والد/ والدین کو جنت میں داخل نہ کر دے۔ (صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ والآداب باب فَضْلِ مَنْ يَمُوتُ لَهُ وَلَدٌ فَيَحْتَسِبَهُ) ان بچوں کو جو دعامیص یعنی چھوٹی مچھلیاں کہا گیا تو اس کا بھی یہ مطلب ہے کہ جس طرح دعموص جس کی جمع دعامیص ہے،کسی بھی جگہ گھس جانے والے کو کہتے ہیں، یہ بچے جنت میں بلا روک ٹوک گھومتے پھرتے رہیں گےاور ان کے لیے کہیں پر جانا منع نہیں ہوگا۔ جیسے دنیا میں بھی بچوں کو غیر محرم عورتوں کے پاس جانے سے کوئی نہیں روکتا اور نہ ہی کوئی ان سے پردہ کرواتا ہے۔ ۲۔ بچوں کے حضرت ابراہیم ؑکی کفالت میں ہونے کے بارے میں حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ مسلمانوں کے بچے جو بلوغت سے پہلے فوت ہوجائیں وہ جنت میں ہوں گے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کی کفالت فرمائیں گے۔ (مسند احمد بن حنبل مسند المکثرین من الصحابۃ مسند ابی ھریرۃ، حدیث نمبر۷۹۷۴) اسی طرح حضرت سمرہ بن جندبؓ سے ایک لمبی روایت آئی ہے، جس میں حضورﷺنے اپنا ایک خواب بیان فرمایا ہے، جس میں حضرت جبرئیل اور حضرت میکائیل نے آپؐ کو دوزخ اور جنت کی سیر کروائی۔ اس میں حضورﷺفرماتے ہیں کہ ہم ایک سرسبز وشاداب باغیچہ کے قریب پہنچے جس میں بڑے بڑے درخت تھے اور اس کی جڑ میں ایک بوڑھا شخص اور چند بچے موجود تھے۔ جن کے بارہ میں مجھے بتایا گیا کہ یہ بوڑھے شخص حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں اور ان کے اردگرد جو بچے ہیں وہ لوگوں کے بچے ہیں۔(صحیح بخاری کتاب الجنائز بَاب مَا قِيلَ فِي أَوْلَادِ الْمُشْرِكِیْنَ) ۳۔ آپ کے تیسرے سوال کا جواب ہے کہ اپنے پیاروں کی قبروں پر جانے اور ان کے لیے دعا کرنے کے بارہ میں حدیث میں آیا ہےکہ جب کوئی شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی قبر کے پاس سے گزرتا ہے جسے وہ اس دنیا میں جانتا تھا اور اس پر سلامتی بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس مردہ کی روح کووہ سلامتی کا پیغام پہنچا دیتا ہے اور وہ روح بھی اس پر جواباً سلامتی بھیجتی ہے۔نیز یہ کہ جو شخص اپنے بھائی کی قبر کی زیارت کرتا ہے، اور اس کے پاس بیٹھتا ہے تو صاحب قبر اس سے مانوس ہوجاتا ہے اور اس کی دعا کا جواب دیتا ہے یہاں تک کہ وہ وہاں سے اٹھ جائے۔ (تفسیر ابن کثیر زیر آیت سورۃ الروم نمبر ۵۳) اسی لیے حضورﷺ جب قبرستان تشریف لے جاتے تو وہاں کے مکینوں کے لیے ان الفاظ میں دعا کرتےالسَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللّٰهُ بِكُمْ لَاحِقُوْنَ أَنْتُمْ لَنَا فَرَطٌ وَنَحْنُ لَكُمْ تَبَعٌ أَسْأَلُ اللّٰهَ الْعَافِيَةَ لَنَا وَلَكُمْ۔ (سنن نسائی کتاب الجنائز باب الْأَمْرُ بِالِاسْتِغْفَارِ لِلْمُؤْمِنِينَ) یعنی مومنوں اور مسلمانوں میں سے اس گھر کے باسیو تم پر سلامتی ہو۔ اور اگر اللہ نے چاہا تو ہم بھی تمہارے ساتھ آ ملیں گے۔ تم ہمارے پیشرو ہو اور ہم تمہارے پیچھے آنے والے ہیں۔ میں اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے اور تمہارے لیے عافیت مانگتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس مضمون کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں: اصل بات یہ ہے کہ جو کچھ ارواح کے تعلق قبور کے متعلق احادیث رسول اللہﷺمیں آیا ہے وہ بالکل سچ اور درست ہے۔ ہاں یہ دوسرا امر ہے کہ اس تعلق کی کیفیت اور کُنہ کیا ہے؟ جس کے معلوم کرنے کی ہم کو ضرورت نہیں۔…پس جب روح جسم سے مفارقت کرتا ہے یا تعلق پکڑتا ہے تو ان باتوں کا فیصلہ عقل سے نہیں ہو سکتا۔ اگر ایسا ہوتا تو فلسفی اور حکماء ضلالت میں مبتلا نہ ہوتے۔ اس طرح پر قبور کے ساتھ جو تعلق ارواح کا ہوتا ہے یہ ایک صداقت تو ہے مگر اس کا پتہ دینا اس آنکھ کا کام نہیں یہ کشفی آنکھ کا کام ہے کہ وہ دکھلاتی ہے۔…پس جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ روح کے متعلق علوم چشمۂ نبوت سے ملتے ہیں تو یہ امر کہ ارواح کا قبور کے ساتھ تعلق ہوتا ہے اسی چشم سے دیکھنا چاہئے اور کشفی آنکھ نے بتلایا ہے کہ اس تودۂ خاک سے روح کا ایک تعلق ہوتا ہے اور السَّلَامُ عَلَيْكُمْ یَا أَهْلَ الْقَبُوْر کہنے سے جواب ملتا ہے۔ پس جو آدمی ان قویٰ سے کام لے جن سے کشف قبور ہو سکتا ہے وہ ان تعلقات کو دیکھ سکتا ہے۔…قبور کے ساتھ تعلق ارواح کے دیکھنے کے لئے کشفی قوت اور حس کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی کہے کہ یہ ٹھیک نہیں ہے تو وہ غلط کہتا ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی ایک کثیر تعداد کروڑ ہا اولیاء و صلحاء کا سلسلہ دنیا میں گزرا ہے اور مجاہدات کرنے والے بیشمار لوگ ہو گزرے ہیں اور وہ سب اس امر کی زندہ شہادت ہیں۔ گو اس کی سمت اور تعلقات کی وجہ عقلی طور پر ہم معلوم کر سکیں یا نہ، مگر نفس تعلق سے انکار نہیں ہوسکتا۔ غرض کشفی دلائل ان ساری باتوں کا فیصلہ کئے دیتے ہیں۔ کان اگر دیکھ نہ سکیں تو ان کا کیا قصور؟ وہ اور قوت کا کام ہے۔ ہم اپنے ذاتی تجربہ سے گواہ ہیں کہ روح کا تعلق قبر کے ساتھ ضرورت ہوتا ہے۔ انسان میّت سے کلام کر سکتا ہے۔ روح کا تعلق آسمان سے بھی ہوتا ہے جہاں اس کے لیے ایک مقام ملتا ہے۔ میں پھر کہتا ہوں کہ یہ ایک ثابت شدہ صداقت ہے۔ ہندوؤں کی کتابوں میں بھی اس کی گواہی موجود ہے۔(الحکم نمبر ۳جلد ۳ مورخہ ۲۳؍جنوری ۱۸۹۹ء صفحہ ۳،۲) ۴۔ باقی آپ نےاس صدمہ کے لیے جو دعا کا پوچھا ہے تو اس کے لیے تو قرآن کریم نے بھی اور آنحضرت ﷺنے بھی ہمیں یہی دعا سکھائی ہے کہ ہر قسم کی آزمائش، تکلیف اور مصیبت کے وقت إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (البقرہ:۱۵۷) پڑھا جائے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے اس صدمہ پر صبر سے کام لیا جائے۔اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس صدمہ پر صبر جمیل عطا فرمائے اور بچہ کے والدین کو نعم البدل سے نوازے۔ آمین سوال: جرمنی سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے استفسار کیا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے لکھا ہے کہ رکوع اور سجدہ میں سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِيْ بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ کیا ایسا کرنا درست ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۹؍نومبر۲۰۲۳ء میں ان سوالات کے درج ذیل جواب عطا فرمائے۔ حضور انور نے فرمایا: جواب: حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے رکوع اور سجود کے لیے صرف یہ تسبیح بیان نہیں فرمائی بلکہ آپ نےرکوع کے لیے پہلے سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيْمِ اور سجدہ کے لیے پہلے سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى کی تسبیحات درج کرنے کے بعد سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِي کی تسبیح درج کی ہے اور ساتھ ہی حاشیہ میں یہ نوٹ بھی دیا ہے کہ جب سورۃإِذَا جَاءَ نَصْرُ اللّٰهِ نازل ہوئی تھی تو اس کے بعد آپؐ یہ دوسری تسبیح پڑھا کرتے تھے۔ (دینیات کا پہلا رسالہ صفحہ ۳ حاشیہ) احادیث سے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی اس بات کی تائید ہوتی ہے۔ چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہؓ کی روایت ہےکہ حضورﷺ قرآنی حکم( فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ۔سورۃ النصر:۴)کی تعمیل میں اپنے رکوع اور سجود میں کثرت سے سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللّٰهُمَّ اغْفِرْلِیْپڑھا کرتے تھے۔ (صحیح بخاری کتاب الاذان بَاب التَّسْبِيحِ وَالدُّعَاءِ فِي السُّجُودِ) علاوہ ازیں احادیث میں یہ بھی مروی ہے کہ حضور ﷺ رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ اور سجدہ میں سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَىکی تسبیحات بھی پڑھا کرتے تھے۔ (صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا بَاب اسْتِحْبَابِ تَطْوِيلِ الْقِرَاءَةِ فِي صَلَاةِ اللَّيْلِ) پس دونوں طرح کی تسبیحات رکوع و سجود میں پڑھی جاسکتی ہیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ مزید پڑھیں: بنیادی مسائل کے جوابات(قسط۱۰۳)