بر اعظم افریقہ کے تازہ حالات و واقعات کا خلاصہ جنوبی افریقہ میں دنیا کا پہلا ایچ آئی وی سے بچاؤ کا انجیکشن جنوبی افریقہ نے اکتوبر ۲۰۲۵ء میں دنیا کا پہلا ایچ آئی وی سے بچانےوالا انجیکشن Lenacapavir متعارف کرانے کا اعلان کیا۔یہ دوائی ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کو کم کرنے میں ایک تاریخی پیش رفت ہے۔ انجیکشن امریکی کمپنی Gilead Sciences نے تیار کیا ہے اور اسے سال میں صرف دو مرتبہ لگانے کی ضرورت ہوگی۔ جنوبی افریقہ اس پروگرام کے تحت اپریل ۲۰۲۶ء سے اس انجیکشنکو قومی سطح پر متعارف کرائے گا۔ پہلے مرحلے میں تقریباً ساڑھے چارلاکھ افراد کو فراہم کیا جائے گا۔ اس منصوبے کو Global Fund اور مقامی تنظیموں کی مالی معاونت حاصل ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ Lenacapavir نے ایچ آئی وی سے بچاؤ میں تقریباً سو فیصد کامیابی دکھائی ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر اس پروگرام کو بڑے پیمانے پر نافذ کیا گیا تو یہ دنیا بھر میں ایچ آئی وی کے خاتمے کی سمت ایک بڑا قدم ہوگا۔ افریقی طلبہ کے لیے روس میں تعلیم کے مواقع امسال روس نے افریقی طلبہ کے لیے سرکاری فنڈ سے پانچ ہزارسے زائد یونیورسٹی نشستیں مختص کی ہیں، جو پچھلے سال کے مقابلے میں دوگنی درخواستوں کے بعد مختص کی گئی ہیں۔ روس کی بین الاقوامی تعاون اور ثقافتی سفارتکاری کی ایجنسی کے سربراہ نے ماسکو میں بتایا کہ اس سال سب سے زیادہ درخواستیں سوڈان، گنی، گھانا اور چاڈ سے موصول ہوئیں۔ روس اس اقدام کے ساتھ ساتھ مصر، زیمبیا، تنزانیہ، جنوبی افریقہ اور ایتھوپیا میں اپنے تعلیمی منصوبوں کو بھی توسیع دے رہا ہے اور چودہ افریقی ممالک میں ’’رشین ہاؤسز‘‘کے نیٹ ورک کو مضبوط بنا رہا ہے، جہاں روسی زبان اور ثقافت کے پروگرام جاری ہیں۔ ’’Sahel ممالک‘‘افریقہ کا سب سے خطرناک خطہ،چھ سال میں ۷۷؍ہزار ہلاکتیں ڈی ڈبلیو کے مطابق افریقہ کے ساحل خطے میں جہادی گروہوں نے حملوں کا دائرہ دوگنا کر دیا ہے۔القاعدہ سے وابستہ مختلف گروہ، بالخصوص بوکو حرام،JNIM، IS اور ISWAPکے حملے چاڈ کی سرحد سے لے کر نائیجر، برکینا فاسو،مالی،سینیگال کی سرحد اور جنوب میں نائیجیریا تک پھیل چکے ہیں۔ چھ سالوں میں تقریباً ً ۳۰؍ہزار حملے ہوچکے ہیں۔ القاعدہ کا اثر مغربی مالی اور جنوبی برکینا فاسو میں پھیل چکا ہے، جبکہ اسلامک سٹیٹ مغربی نائیجر اور نائیجیریا میں موجود ہے۔ رواں سال میں ۳۸۰۰؍حملے ہو چکے ہیں۔ یہ گروہ متاثرہ خطوں میں نسلی اور سماجی تنازعات کا فائدہ اٹھا کر نئے افراد بھرتی کرتے ہیں۔نیز مالی وسائل حاصل کرنے کے لیے اغوا برائے تاوان، مویشیوں کی چوری اور اسلامی ٹیکس جیسے طریقے بھی استعمال کرتے ہیں۔ ۲۰۱۹ء سے اب تک تقریباً ۷۷؍ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔نائیجیریا میں ۲۰؍ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ خطے کے ۵۶؍فیصد ہلاک ہونے والے افراد کا تعلق مالی اور برکینافاسو سے ہے۔ تازہ صورتحال میں دہشت گرد گروہ مالی اور برکینافاسو کے دارالحکومتوں کےاطراف میں علاقوں پر قبضہ کر کے انہیں تنہا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوران ماہ دہشتگروں نے مالی میں تیل کی فراہمی والے راستوں پر قبضہ کر کے ملک میں فیول کی سپلائی روک دی ہے جس سے ڈیزل اور پٹرول کا بحران پیدا ہو گیاہے۔ مڈگاسکر میں سیاسی کشیدگی، فوج نے حکومت سنبھال لی مڈگاسکر میں ۲۵؍ستمبر کو شروع ہونے والے عوامی احتجاج نے سیاسی بحران کو جنم دیا، جو پھر فوجی اقتدار میں منتج ہوا ہے۔ احتجاج کی شروعات دارالحکومت میں پانی اور بجلی کی مسلسل بندش سے ہوئی۔ بعد ازاں یہ حکومتی بدعنوانی، نااہلی اور عوامی سہولیات کے فقدان کے ردّعمل میں بدل گئے اور متشدد ہوگئے۔ کم از کم بیس افراد ہلاک ہوئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔۱۲؍اکتوبر کواعلیٰ فوجی یونٹ CAPSATبھی مظاہرین سے مل گیااورفوج نے ملک کا کنٹرول سنبھالنے کا اعلان کر دیا۔ صدر Andry Rajoelina نے ہنگاموں کے دوران ملک چھوڑ دیا۔ فوج نےدو سال کے لیے عبوری حکومت کا اعلان کیا اور نئے آئین کے بعد انتخابات کا وعدہ کیا ہے۔ کیمرون اورآئیوری کوسٹ میں انتخابات ۱۲؍اکتوبر کو کیمرون میں صدارتی انتخابات منعقد ہوئے۔جن میں ۹۲؍سالہ صدرPaul Biyaنے آٹھویں بار صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ نتائج کے مطابق Biyaنے تقریباً ۵۵؍فیصد ووٹ حاصل کیے۔ حریف سیاست دان Issa Tchiroma Bakaryکو تقریباً ۳۵؍فیصد ووٹ ملے۔ اپوزیشن نے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے دھاندلی کے الزامات عائد کیے، جس کے نتیجے میں دارالحکومت یاونڈے سمیت کئی شہروں میں احتجاج اور جھڑپیں ہوئیں۔ موصوف ۱۹۸۲ءسے اقتدار میں ہیں اور اب دنیا کے سب سے طویل عرصے تک حکومت کرنے والے سربراہان میں شامل ہیں۔ ۲۵؍اکتوبر کو آئیوری کوسٹ میں صدارتی انتخابات منعقد ہوئے۔ صدرAlassane Ouattara نے مسلسل چوتھی مدت کے لیے اکثریت حاصل کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی۔انتخابات سےقبل اہم اپوزیشن راہنماؤں کو نااہل قرار دیے جانے کے باعث انتخابی میدان یک طرفہ رہا جس نے عوامی سطح پر شدید غصہ اور احتجاج کو جنم دیا۔ دارالحکومت سمیت کئی شہروں میں انتخابی شفافیت، معاشی اصلاحات اور اقتدار کی منتقلی کے مطالبے پر مظاہرے ہوئے۔ بین الاقوامی مبصرین نے انتخابی عمل میں حکومتی اثر و رسوخ اور میڈیا پر کنٹرول پر تشویش ظاہر کی۔ تنزانیہ میں عام انتخابات اوربعد ازاں ہونے والے فسادات ۲۹؍اکتوبر ۲۰۲۵ء کو تنزانیہ میں صدارتی، پارلیمانی اور مقامی انتخابات منعقد ہوئے جن میں حکمران جماعتCCM کی امیدوار اور حالیہ صدر سامیا سولوہ حسن نے تقریباً ۹۷؍فیصد ووٹوں کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ انتخابات سے قبل اہم اپوزیشن پارٹی Chadema کے متعدد راہنماؤں کو پابند سلاسل کر دیا گیا یا نا اہل قرار دیا گیا تھا۔ سیاسی جلسوں، میڈیا کی آزادی اور احتجاج پر حکومتی پابندیاں عائد تھیں۔ بین الاقوامی مبصرین کے مطابق انتخابی عمل میں شفافیت کی کمی اور کمزور انتخابی کمیشن کے باعث یہ انتخابات ’’غیر منصفانہ‘‘ہیں۔ نتائج کے اعلان کے بعد دارالحکومت دارالسلام اور دیگر شہروں میں مظاہرے پھوٹ پڑے جنہیں سیکیورٹی فورسز نے طاقت کے ذریعے منتشر کیا۔ اپوزیشن کے مطابق سینکڑوں مظاہرین ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔ کئی درجن کو گرفتار کیا گیا۔ مقامی میڈیا اداروں کے دفاتر کو بند کر دیا گیا تاکہ احتجاجی مناظر نشر نہ کیے جائیں۔ انٹرنیٹ سروسز کو بھی عارضی طور پر سست یا بند کر دیا گیا۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین اور امریکی محکمہ خارجہ نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومتِ تنزانیہ پر زور دیا کہ وہ سیاسی مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن بند کرے اور انتخابی عمل میں شفافیت یقینی بنائے۔ دوسری جانب سامیا سولوہ حسن نے اپنی کامیابی کو عوامی اعتماد کا اظہار قرار دیا اور کہا کہ حکومت ملک میں استحکام اور اقتصادی ترقی پر توجہ دے گی۔ سوڈان میں خانہ جنگی میں شدت۔RSF نے الفاشر شہر پر قبضہ کر لیا۔ہزاروں شہریوں کو قتل کر دیا اکتوبر کے آخری ہفتہ میں سوڈان کے شمالی دارفور کے شہرالفاشر میں شدید لڑائی ہوئی۔۱۸؍مہینوں کے محاصرہ کے بعدRSFنے دار فور کے مرکزی شہر پر قبضہ کر لیا۔قبضے کے بعد شہری آبادی پر حملے، اجتماعی قتل عام، اغوا اور لوٹ مار کے واقعات سامنے آئے۔ عینی شاہدین کے مطابق سینکڑوں مردوں،عورتوں،بچوں کو قتل کر دیا گیا۔ہسپتالوں اور پناہ گاہوں کو نشانہ بنایا گیا۔ تین دن کے دوران کم از کم دو ہزارافراد ہلاک ہوئے۔ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں نے ان واقعات کو ’’انسانیت سوز مظالم‘‘اور ممکنہ نسل کشی قرار دیا ہے، جبکہ خوراک، پانی اور طبی امداد کی شدید قلت کے باعث ہزاروں لوگ شہر میں پھنسے ہوئے ہیں۔انسانی رسد کی صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے۔ زمبابوے میں گندم کی ریکارڈ پیداوار زمبابوے نے ۲۰۲۵ء میں اپنی تاریخ کی گندم کی سب سے زیادہ پیداوار حاصل کر لی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس سال ملک میں تقریباً چھ لاکھ ٹن گندم پیدا ہوئی، جو پچھلے سال کےمقابلہ میں چالیس ہزار ٹن زیادہ ہے۔ یہ کامیابی زمبابوے کی زرعی پالیسیوں کے لیے ایک اہم سنگِ میل قرار دی جا رہی ہے۔اس اضافی پیداوار کی بنیادی وجوہات میں بہتر آبپاشی کا نظام، حکومتی تعاون اور نجی شعبے کی شمولیت شامل ہیں۔ حکومت نے کسانوں کو سبسڈی والے بیج اور کھاد فراہم کی، جبکہ نجی کمپنیوں اور فلور ملوں نے کنٹریکٹ فارمنگ کے ذریعے کسانوں کی مالی معاونت کی۔ ملک کے اہم زرعی صوبے، مثلاً ماشونالینڈ ویسٹ، سینٹرل اور ایسٹ اس کامیابی میں مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔زمبابوے کے وزیر زراعت کے مطابق یہ پیداوار ملک کی سالانہ ضرورت سے بھی زیادہ ہے، جس کا مطلب ہے کہ زمبابوے اب نہ صرف خودکفیل ہے بلکہ گندم برآمد کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ انہوں نے اسے ’’ایک تاریخی کامیابی‘‘قرار دیا۔ مراکش میں فسادات اکتوبر ۲۰۲۵ میں مراکش میں نوجوانوں کی قیادت میں بڑے پیمانے پر مظاہرے پھوٹ پڑے جنہیں “Gen Z 212” تحریک کہا جا رہا ہے۔ احتجاج کی ابتدا تعلیم، صحت اور روزگار کے بحران سے ہوئی، لیکن جلد ہی یہ حکومتی ترجیحات اور وسائل کے غلط استعمال کے خلاف عوامی غصے کی علامت بن گئے۔ مظاہرین نے الزام لگایا کہ حکومت عوامی فلاح کی بجائے ۲۰۳۰ءفیفا ورلڈ کپ جیسے منصوبوں پر اربوں ڈالر خرچ کر رہی ہے۔جبکہ بنیادی سہولیات بدستور ناکافی ہیں۔بڑے شہروں میں پُر تشدد مظاہروں سے سرکاری املاک کو نقصان پہنچنے کے واقعات رو نما ہوئے۔ بعد ازاں سیکیورٹی فورسز نے آنسو گیس اور فائرنگ کا استعمال کیا۔چند لوگ ہلاک بھی ہوئے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۱۵۰۰ سے زائد مظاہرین کے خلاف مقدمات درج کیے گئے۔ حکومت نے اصلاحات اور بجٹ میں صحت و تعلیم کے لیے اضافی فنڈز مختص کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ ملاوی میں برآمدات پر پابندی ملاوی کے صدر پیٹر متھاریکا نے اعلان کیا ہے کہ unprocessedمعدنی وسائل برآمد نہیں کیے جائیں گے۔ یہ اقدام حکومتی حکمت عملی کا حصہ ہے تاکہ ملکی صنعت کو فروغ دےکر قدرتی وسائل سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کیا جائے۔ ملاوی معدنی دولت سے مالامال ہے، جہاں باکسائیٹ، یورینیم، گریفائٹ اور دیگر قیمتی معدنیات کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ اندازہ ہے کہ اگر ان معدنیات کو مقامی طور پر پروسیس کر کے برآمد کیا جائے تو ملک کو سالانہ تقریباً ۵۰۰ ملین ڈالر کی آمدنی ہو سکتی ہے۔ اسی سلسلے میں حکومت نے مختلف کان کنی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری شروع کر دی ہے، جن میں Kasiyaکے علاقے میں rutile کے ذخائر اور Balaka کے علاقے Kangakonde میں Rare Earth Elements نکالنے کے منصوبے شامل ہیں۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: کونگو کنشاسا کے ریجن Kikwit میں Mangai میں مسجد بیت الکریم کا افتتاح