(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۳؍اگست ۲۰۲۴ءبمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے) سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب:فرمایا: الحمدللہ آج جلسہ سالانہ جرمنی شروع ہورہا ہے۔ اس وقت جرمنی کی جماعت مجھے وہاں جلسہ میں دیکھنا چاہتی تھی لیکن انسان کے ساتھ بشری تقاضے بھی لگے ہوئے ہیں، صحت وغیرہ بھی اس کا ایک حصہ ہے۔ اس وجہ سے ڈاکٹر کے مشورے سے آخری وقت میں جرمنی کے سفر کو ملتوی کرنا پڑا اور یہی تجویز ہوا کہ یہاں سے ایم ٹی اے کے ذریعہ سے ہی جرمنی جلسہ کے پروگراموں میں شامل ہوا جائے اور یہاں سے ہی جرمنی کے جلسہ میں شامل ہونے والے لوگوں سے مخاطب ہوا جائے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہی ہو گا۔ دعا کریں اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔اللہ تعالیٰ جلسہ اور تمام انتظامات ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے اور لوگوں کو تمام پروگراموں سے بھرپور استفادہ کی توفیق عطا فرمائے۔ سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ جرمنی کےنئی جگہ پرمنعقدہونےکی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: اس مرتبہ اس انتظام سے ہٹ کر جلسہ منعقد ہو رہا ہے جس کی جرمنی جماعت کو عادت پڑ چکی ہے۔ ہالوں کے اندر اور بنے بنائے انتظام میں جلسہ ہوتا تھا اور جلسہ کی انتظامیہ کو بھی جلسہ گاہ کے لحاظ سے زیادہ انتظام نہیں کرنا پڑتا تھا۔ اور لوگوں کو بھی عموماً بنی بنائی سہولت مل جاتی تھی لیکن اب کھلی جگہ پر جلسہ کے انتظام کی وجہ سے انتظامیہ کو بھی کچھ دقتیں ہوں گی اور شامل ہونے والوں کو بھی لیکن ان مشکلوں کو برداشت کرنا اور جلسہ کے مقصد کو پورا کرنا دونوں کا، انتظامیہ کا بھی اور شاملین کا بھی مقصد ہونا چاہئے۔اور مشکلات پر پریشانی اور شکوہ نہیں ہونا چاہیے۔ آہستہ آہستہ یہ انتظام بہتر ہو جائے گا۔ برطانیہ میں بھی اسی طرح مشکلات ہوتی تھیں اور اب بھی ہیں لیکن اب انتظام بہت بہتر ہو گئے ہیں۔ پس ان دنوں میں سمجھیں کہ ہم نے ہر مشکل پر ہنسی خوشی اپنے مقصد کو ترجیح دینی ہے۔ ابھی مہینہ نہیں ہوا کہ برطانیہ کاجلسہ منعقد ہوا ہے۔ اس میں بھی جہاں لوگوں نے انتظامات کی تعریف کی ہے وہاں بعض نے کمیوں کی نشاندہی بھی کی ہے۔ تو یہ کمیاں کمزوریاں تو ساتھ لگی ہوئی ہیں انہیں دور کرنے کی کوشش انتظامیہ کرتی ہے اور آئندہ بھی مزید کرے گی ان شاء اللہ۔ اگر سب شاملین تعاون کریں اور کارکنان بھی اپنی مقدور بھر کوشش کریں کہ ہم نے ہر لحاظ سے انتظامات کو اپنی صلاحیتوں اور وسائل کے لحاظ سے بہتر کرنے کی کوشش کرنی ہے تو برکت پڑتی ہے۔ سوال نمبر۳:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے جلسہ سالانہ کی اغراض ومقاصدکی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہم پر اللہ تعالیٰ کے انعاموں میں سے یہ ایک بہت بڑا انعام ہے جو حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمایا ہے کہ سال میں ایک دفعہ ہم جمع ہو کر اپنی روحانی اور اخلاقی ترقی کے سامان بہم پہنچائیں۔ ایسے پروگرام بنائیں جو ہمیں خدا تعالیٰ سے قریب کرنے والے اور تقویٰ میں بڑھانے والے ہوں۔ اس ارادے اور نیت سے دن گزاریں کہ ہم نے اعلیٰ اخلاق اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کے بھی اعلیٰ معیار قائم کرنے ہیں۔ آپس میں محبت پیار اور تعلق کو بڑھانا ہے۔ رنجشوں کو دور کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش کرنی ہے۔ ہر قسم کی لغویات سے اپنے آپ کو بچانا ہے اور یہی وہ چیزیں ہیں جس کی حضرت مسیح موعود ؑنے ہم سے توقع کی ہے اور یہی وہ چیز ہے جو خدا تعالیٰ کو بھی پسند ہے اور جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں انسان بنایا ہے اور اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ پس جلسہ پر آنے والے ہر احمدی کو ہمیشہ یہ باتیں پیش نظر رکھنی چاہئیں۔ اگر خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش نہیں ہو رہی، اگر تقویٰ میں ترقی کرنے کی کوشش نہیں ہو رہی، اگر اخلاق کے اعلیٰ نمونے دکھانے کی کوشش نہیں ہو رہی، اگر بندوں کے حقوق ادا نہیں ہو رہے تو پھر جلسہ پر آنے کا مقصد ہی پورا نہیں ہوتا اور اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ حضرت مسیح موعود ؑکی دعائیں صرف انہی کے حق میں پوری ہوں گی جو اس مقصد کو سمجھ رہے ہوں گے۔ اس غرض کو سمجھ رہے ہوں گے جس کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسہ کا اجرا فرمایا تھا۔ آپؑ فرماتے ہیں: ’’میں ہرگز نہیں چاہتا کہ حال کے بعض پیرزادوں کی طرح صرف ظاہری شوکت دکھانے کے لئے اپنے مبائعین کو اکٹھا کروں بلکہ وہ علّتِ غائی جس کے لئے میں حیلہ نکالتا ہوں اصلاحِ خلق اللہ ہے۔‘‘یعنی وہ بنیادی وجہ اور مقصد جس کے لیے میں نے یہ جلسہ کا انتظام کیا ہے اور اللہ تعالیٰ سے اذن پاکے یہ تدبیر کی ہے، اللہ تعالیٰ کی رضا سے، اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کو حاصل کرنے والا بنوں۔ پس ہر احمدی کو ان باتوں کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ دنیا میں ہر احمدی کو عموماً بھی سامنے رکھنا چاہیے صرف خاص طور پر جلسہ کے لئے نہیں۔ لیکن خصوصاً آپ لوگ جو یہاں جلسہ پر جمع ہوئے ہیں ان کو خاص طور پر اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اگر یہ باتیں آپ کریں گے تو جلسے کے مقصد کو پورا کرنے والے ہوں گے اور تب ہی آپ کو جلسہ پر آنے کا فائدہ ہوگا جب اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کریں گے۔ اگر آپ کا خدا تعالیٰ سے تعلق نہیں پیدا ہوا، اگر آپ کے اخلاقی اور روحانی حالات میں بہتری نہیں ہوئی تو ایسے شامل ہونے والوں سے حضرت مسیح موعود ؑنے بڑی بیزاری کا اظہار فرمایا ہے۔ یہاں نئے انتظامات کے تحت اگر آپ ہزاروں بھی جمع ہو جائیں یا جہاں بھی جلسے ہوتے ہیں اگر وہاں لوگ ہزاروں کی تعداد میں بھی جمع ہو جائیں لیکن اس مقصد کو حاصل نہیں کرتے جو جلسہ کا مقصد ہے کہ تقویٰ پیدا کیا جائے تو پھر جلسہ پر آنے کا کوئی مقصد نہیں اور جلسہ منعقد کرنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’تمام مخلصین داخلین سلسلہ بیعت اس عاجز پر ظاہر ہو کہ بیعت کرنے سے غرض یہ ہے کہ تا دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو اور اپنے مولیٰ کریم اور رسول مقبول ﷺ کی محبت دل پر غالب آجائے اور ایسی حالت انقطاع پیدا ہو جائے جس سے سفر آخرت مکروہ معلوم نہ ہو۔ ‘‘ سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے تقویٰ کےحصول کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: ہر وہ شخص جو حضرت مسیح موعود ؑکی بیعت میں شامل ہوا ہے اس وقت آپ کی بیعت کے مقصد کو پورا کرنے والا ہو گا جب اپنے تقویٰ کے معیار بڑھائے گا۔ اور جب آپ جلسہ میں شامل ہوئے ہیں تو یقیناً اس نیت سے شامل ہوئے ہیں اور ہونا چاہیے کہ آپ نے پہلے سے بڑھ کر اپنے تقویٰ کے معیار کو بڑھانا ہے۔ پس ہر احمدی کو اس لحاظ سے اپنی بھرپور کوشش کرنی چاہیے کہ وہ ان مقاصد کو حاصل کرنے والا ہو۔حضرت مسیح موعود ؑفرماتے ہیں: ’’خدا تعالیٰ نے جو اس جماعت کو بنانا چاہا ہے تو اس سے یہی غرض رکھی ہے کہ وہ حقیقی معرفت جو دنیا میں گم ہو چکی ہے اور وہ حقیقی تقویٰ و طہارت جو اس زمانہ میں پائی نہیں جاتی اسے دوبارہ قائم کرے۔‘‘پھر آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’اے وے تمام لوگو! جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو آسمان پر تم اس وقت میری جماعت شمار کئے جاؤ گے جب سچ مچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے۔‘‘پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’خدا کی عظمت اپنے دلوں میں بٹھاؤ اور اس کی توحید کا اقرار نہ صرف زبان سے بلکہ عملی طور پر کرو تا خدا بھی عملی طور پر اپنا لطف و احسان تم پر ظاہر کرے۔‘‘پس حضرت مسیح موعود ؑکے ان ارشادات کو ہمیشہ سامنے رکھیں اور جیسا کہ مَیں نے کہا یہی مقصد حضرت مسیح موعود ؑنے جلسہ میں آنے کا اور حقیقی احمدی بننے کا بیان فرمایا ہے۔ اس نیت سے ہر احمدی کو جلسہ میں شامل ہونا چاہیے جو حضرت مسیح موعود ؑنے بیان فرمایا کہ یہ چیزیں اپنے اندر پیدا کرنی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو ماحول میسر فرمایا ہے اس سے فائدہ اٹھائیں اور ان دنوں میں ہر قسم کی دنیاوی آلائشوں سے اپنے آپ کو پاک کرنے کی کوشش کریں اور اس نیت سے پاک کرنے کی کوشش کریں کہ آئندہ زندگی میں بھی آپ نے ان دنیاوی آلائشوں سے اپنے آپ کو صاف رکھنا ہے اور دین کو ہمیشہ دنیا پر مقدم رکھنے کی کوشش کرنی ہے اور اس کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں سے کام لینا ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنی جماعت میں شمار ہی اسے کیا ہے جس میں حقیقی تقویٰ اور طہارت پیدا ہو اور اپنی حالتوں کو درست کرتے ہوئے اپنی نیکیوں کے معیار کو بڑھانے کی کوشش کرے اور یہ خواہش کا اظہار کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے حتی المقدور کوشش کرو۔ اپنی زبانوں کو ذکرِالٰہی سے تر رکھو۔ اپنی راتیں اور دن عبادتوں میں گزارو۔ دنیاوی کاموں میں جو ایک انسان کو بشری تقاضوں کے تحت کرنے پڑتے ہیں اور معاشرے میں رہتے ہوئے کرنے پڑتے ہیں ان کو خدا کی یاد سے غافل نہ ہونے دو۔ ان کو خدا کے مقابلے پر کبھی کھڑا نہ کرو۔ ہر عمل سے خدا کی رضا کی تلاش کی جھلک نظر آتی ہو۔ حضرت مسیح موعود ؑنے فرمایا کہ ’’یاد رکھو کہ کامل بندے اللہ تعالیٰ کے وہی ہوتے ہیں جن کی نسبت فرمایا ہے۔ لَا تُلۡہِیۡہِمۡ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَیۡعٌ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ (النور آیت ۳۸)۔ جب دل خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق اور عشق پیدا کر لیتا ہے تو وہ اس سے الگ ہوتا ہی نہیں۔ اس کی ایک کیفیت اس طریق پر سمجھ میں آسکتی ہے کہ جیسے کسی کا بچہ بیمار ہو تو خواہ وہ کہیں جاوے کسی کام میں مصروف ہو مگر اس کا دل اور دھیان اسی بچہ میں رہے گا۔ اسی طرح پر جو لوگ خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق اور محبت پیدا کرتے ہیں وہ کسی حال میں بھی خدا تعالیٰ کو فراموش نہیں کرتے۔‘‘پس اللہ تعالیٰ کی یہ یاد اور اس کا ذکر ہر احمدی کو ہمہ وقت مدنظر ہونا چاہیے۔ ہمیشہ یہ کوشش ہو کہ میں ہر عمل خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق کرنے والا بنوں اور اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اپنی زبان کو بھی تر رکھوں اور ہر اس کام سے بچنے والا بنوں جس سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں روکا ہے۔ سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کےرؤیاکی روشنی میں احباب جماعت کودعاکی کیاتحریک فرمائی؟ جواب: فرمایا: حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کا ایک رؤیا تھا کہ ان کو کسی بزرگ نے کہا کہ اگر جماعت کا ہر فرد، ہر بڑا دو سو ۲۰۰ دفعہ یہ درود شریف پڑھے سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیم اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّد اور پھر آپؒ نے فرمایا کہ جو درمیانی عمر کے ہیں پندرہ سے پچیس سال کے لوگ وہ بھی کم از کم سو۱۰۰ دفعہ پڑھیں۔ بچے بھی کم از کم تینتیس۳۳ دفعہ پڑھیں۔ چھوٹی عمر کے جو بچے ہیں ان کو ان کے ماں باپ تین چاردفعہ یہ پڑھائیں اور ساتھ ہی سو۱۰۰ دفعہ استغفار بھی کریں۔ اسی طرح میں یہ بھی شامل کرتا ہوں کہ سو۱۰۰ دفعہ رَبِّ کُلُّ شَیءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِی وَانْصُرْنِی وَارْحَمْنِی کا ورد بھی ا ن دنوں میں خاص طور پہ اور عموماً ہمیشہ کے لیے کریں۔آپؒ کو رؤیا میں یہی دکھایا گیا تھا کہ اگر یہ کرو گے تو تم ایک محفوظ قلعہ میں محفوظ ہو جاؤ گے جہاں شیطان کبھی داخل نہیں ہو سکتا اور لوہے کی دیواریں ہیں اس قلعہ کی جس کی دیواریں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں۔ پس کوئی سوراخ ایسا نہیں رہے گا جہاں سے شیطان حملہ کر سکے۔ سوال نمبر۶: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی دعااوراس کےوارث بننےکی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: حضرت مسیح موعود ؑ نے کس درد اور تڑپ سے اپنی جماعت کو نصیحت فرمائی ہے اس کا ایک نمونہ میں آپ کو پیش کرتا ہوں۔آپؑ فرماتے ہیں: ’’دعا کرتا ہوں اور جب تک مجھ میں دم زندگی ہے کئے جاؤں گا اور دعا یہی ہے کہ خدا تعالیٰ میری اس جماعت کے دلوں کو پاک کرے اور اپنی رحمت کا ہاتھ لمبا کرکے ان کے دل اپنی طرف پھیر دے اور تمام شرارتیں اور کینے ان کے دلوں سے اٹھا دے اور باہمی سچی محبت عطا کردے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ دعا کسی وقت قبول ہو گی اور خدا میری دعاؤں کو ضائع نہیں کرے گا۔ ہاں میں یہ بھی دعا کرتا ہوں۔‘‘ یہ بڑی تنبیہ کرنے والی انذاری بات آپؑ نے فرمائی ہے۔ کہتے ہیں ’’ہاں میں یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ اگر کوئی شخص میری جماعت میں خدا تعالیٰ کے علم اور ارادہ میں بدبخت ازلی ہے جس کے لئے یہ مقدر ہی نہیں کہ سچی پاکیزگی اور خدا ترسی اس کو حاصل ہو تو اس کو اے قادر خدا میری طرف سے بھی منحرف کردے جیسا کہ وہ تیری طرف سے منحرف ہے اور اس کی جگہ کوئی اور لا جس کا دل نرم اور جس کی جان میں تیری طلب ہو۔‘‘پس یہ بات ہمیں جھنجھوڑنے والی ہونی چاہیے۔ اگر ہم نے حضرت مسیح موعود ؑکی دعاؤں کا حصہ بننا ہے تو اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنی ہوں گی ورنہ آپؑ نے فرمایا اگر یہ نہیں تو پھر میرے سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ میں تو نیک لوگوں سے اور سعید لوگوں سے تعلق رکھنا چاہتا ہوں۔ پس جہاں یہ دعا ہمیں امید اور توجہ دلاتی ہے کہ ہم نیکیاں کرنے والے بنیں وہاں خوف کا مقام بھی ہے کہ ان نیکیوں پر عمل نہ کر کے ہم حضرت مسیح موعود ؑ سے دُور نہ ہو جائیں۔ صرف نام کی بیعت کرنے والے نہ ہوں اور بیعت کر کے پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کی بجائے اس کی ناراضگی کو حاصل کرنے والے نہ بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس چیز سے بچائے۔ مزید پڑھیں: خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 21؍ نومبر2025ء