براہین احمدیہ علم وعرفان کے افق پر قطبی ستارے کی طرح چمکتی رہی جس کی روشنی اور نورہزاروں افرادکے رشدوہدایت کاموجب بنتی رہی اور بن رہی ہے اور بنتی رہے گی۔انشاء اللہ گذشتہ سے پیوستہ حضرت اقدس علیہ السلام کے نورِ فراست اور اشارۂ غیبی نے اس کے جواب کے لیے حضرت حکیم نورالدین ؓ کومنتخب فرمایا۔چنانچہ آپؑ نے ایک خط میں جوکہ جولائی ۱۸۸۷ء کولکھااس میں فرمایا: ’’…میں آپ کو ایک ضروری امر سے اطلاع دیتا ہوں کہ حال میں لیکھرام نام ایک شخص نے میری کتاب براہین کے ردّ میں بہت کچھ بکواس کی ہے اور اپنی کتاب کا نام تکذیب براہین احمدیہ رکھا ہے۔ یہ شخص اصل میں غبی اور جاہل مطلق ہے اور بجز گندی زبان کے اور اس کے پاس کچھ نہیں۔ مگر معلوم ہوا ہے کہ اس کتاب کی تالیف میں بعض انگریزی خواں اور دنی استعداد ہندوؤں نے اس کی مدد کی ہے۔ کتاب میں دو رنگ کی عبارتیں پائی جاتی ہیں۔ جو عبارتیں دشنام دہی اور تمسخر اور ہنسی اور ٹھٹھے سے بھری ہوئی ہیں اور لفظ لفظ میں توہین اور ٹوٹی پھوٹی عبارت اور گندی اور بدشکل ہیں۔ وہ عبارتیں تو خاص لیکھرام کی ہیں اور جو عبارت کسی قدر تہذیب رکھتی ہے اور کسی عملی طور سے متعلق ہے وہ کسی دوسرے خواندہ آدمی کی ہے۔ غرض اس شخص نے خواندہ ہندوؤں کی منت سماجت کر کے اور بہت سی کتابوں کا اس نے خیانت آمیز حوالہ لکھ کر یہ کتاب تالیف کی ہے۔ اس کتاب کی تالیف سے ہندوؤں میں بہت جوش ہو رہا ہے۔ یقین ہے کہ کشمیر میں بھی یہ کتاب پہنچی ہوگی۔ کیونکہ میں نے سنا ہے کہ لالہ لچھمن داس صاحب ملازم ریاست کشمیر نے تین سَو روپیہ اس کتاب کے چھپنے کیلئے دیا ہے۔ شاید یہ بات سچ ہو یا جھوٹ ہو لیکن اس پُر افتراء کتاب کا تدارک بہت جلد از بس ضروری ہے اور یہ عاجز ابھی ضروری کام سراج منیر سے، جو مجھے درپیش ہے بالکل عدیم الفرصت ہے اور میں مبالغہ سے نہیں کہتا اور نہ آپ کی تعریف کی رو سے بلکہ قوی یقین سے خدا تعالیٰ نے میرے دل میں یہ جما دیا ہے کہ جس قدر اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت کیلئے آپ کے دل میں جوش ڈالا ہے اور میری ہمدردی پر مستعد کیا ہے۔کوئی دوسرا آدمی ان صفات سے موصوف نظر نہیں آتا۔ اس لئے میں آپ کو یہ بھی تکلیف دیتا ہوں کہ آپ اوّل سے آخر تک اس کتاب کو دیکھیں اور جس قدر اس شخص نے اعتراضات اسلام پر کئے ہیں۔ ان سب کو ایک پرچہ کاغذ پر بیادداشت صفحہ کتاب نقل کریں اور پھر ان کی نسبت معقول جواب سوچیں اور جس قدر اللہ تعالیٰ آپ کو جوابات معقول دل میں ڈالے وہ سب الگ الگ لکھ کر میری طرف روانہ فرماویں اور جو کچھ خاص میرے ذمہ ہوگا، میں فرصت پا کر اس کا جواب لکھوں گا۔ غرض یہ کام نہایت ضروری ہے اور میں بہت تاکید سے آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ آپ بہمہ جدوجہد جانفشانی اور مجاہدہ سے اس طرف متوجہ ہوں اور جس طرح مالی کام میں آپ نے پوری پوری نصرت کی ہے اس سے یہ کم نہیں ہے کہ آپ خداداد طاقتوں کی رُو سے بھی نصرت کریں۔ آج ہمارے مخالف ہمارے مقابلہ پر ایک جان کی طرح ہو رہے ہیں اور اسلام کو صدمہ پہنچانے کے لئے بہت زور لگا رہے ہیں۔ میرے نزدیک آج جو شخص میدان میں آتا ہے اور اعلائے کلمۃ الاسلام کے لئے فکر میں ہے وہ پیغمبروں کا کام کرتا ہے۔ بہت جلد مجھ کو اطلاع بخشیں۔ خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ رہے اور آپ کا مددگار ہو۔ آپ اگر مجھے لکھیں تو میں ایک نسخہ کتاب مذکور کا خرید کر آپ کی خدمت میں بھیج دوں۔ والسلام ۲۶؍ جولائی ۱۸۸۷ء خاکسار غلام احمد از قادیان ‘‘ (مکتوبات احمدجلددوم صفحہ ۴۲،۴۳ مکتوب بنام حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ مکتوب نمبر۲۷) اورابھی قریباً پانچ مہینے ہی ہوئے تھے کہ حضورؑ کی خاص دعاؤں کے طفیل اللہ کے فضل وکرم سےاس کاجواب تیارہوگیا۔ چنانچہ حضورؑ ان کے نام ایک مکتوب میں جو ۴؍جنوری ۱۸۸۸ء کولکھاگیا اس میں تحریرفرماتے ہیں: ’’مجھے یہ بات سن کرنہایت خوشی ہوئی کہ تکذیب براہین کاردّ آپ نے تیارکرلیاہے۔ الحمدللہ والمنۃ۔اس ردکے شائع ہونے کے لئے عام طورپرمسلمانوں کاجوش پایاجاتاہے۔شایدڈیڑھ سو کے قریب ایسے خط آئے ہوں گے جنہوں نے اس کتاب کے خریدنے کاشوق ظاہرکیاہے۔‘‘(مکتوبات احمدجلددوم صفحہ۵۲ مکتوب بنام حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ مکتوب نمبر۳۳) ایک اورجگہ اس کتاب کاتذکرہ کرتے ہوئے حضرت اقدسؑ تحریرفرماتے ہیں : ’’حضرت مولوی صاحب علوم فقہ اور حدیث اور تفسیر میں اعلیٰ درجہ کی معلومات رکھتے ہیں۔ فلسفہ اور طبعی قدیم اور جدید پر نہایت عمدہ نظر ہے… مناظرات دینیہ میں بھی نہایت درجہ نظر وسیع رکھتے ہیں بہت سی عمدہ کتابوں کے مؤلف ہیں۔ حال میں کتاب تصدیق براہین احمدیہ بھی حضرت ممدوح نے ہی تالیف فرمائی ہے جو ہر ایک محققانہ طبیعت کے آدمی کی نگاہ میں جواہرات سے بھی زیادہ بیش قیمت ہے۔‘‘(فتح اسلام،روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ۳۷ حاشیہ) جیساکہ اوپرلکھاگیاکہ کچھ لوگوں نے اس براہین احمدیہ کی مخالفت میں لکھاتھا۔ مخالفت کالفظ خاکسارنے اس لیے استعمال کیاہے کہ براہین احمدیہ کا وہ ردّ نہیں تھا جو کہ مطلوب تھا۔ ہاں بعض لوگوں نے اپنا غصہ نکالا۔ ان کی تحریرات کوپڑھا جائے تو غصہ یہ تھا کہ مؤلف براہین احمدیہ نے جوالہامات اور خداکی طرف سے ملنے والامقام بیان کیاہے وہ سراسر الحاد اور قرآن شریف کی معنوی تحریف ہے۔اور اس پرمکہ مدینہ سے کفرکے فتوے منگوائے گئے۔تو غصہ تو ان مکفرین اور مکذبین کووہی تھا جوکہ قدیم سے جھٹلانے والے کفار کوہواکرتاہے۔جب وہ یہ کہاکرتے ہیں کہ وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ هَذَا الْقُرْآنُ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ (الزخرف:۳۱) کہ خدا کا الہام وکلام بھلا اسی پر اترنا تھا؟ ان دوبستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پراترناچاہیے تھا! ایسے لوگوں کو خدائے رحیم وکریم نے اسی آیت سے اگلی آیت میں جواب دے دیاکہ أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ کہ کیاخداکی رحمتوں کاحساب وکتاب اوراس کی تقسیم بھی وہ خوداپنے ہاتھ میں لیں گے ؟یہ فیصلہ تو ہم نے کرنا ہوتاہے کہ الہام وکلام کاانعام واکرام اور رحمت وعطا کاہُما کس بستی کے کس بندے پربیٹھے گا جوکبھی نینواکی بستی کے ایک غریب یوناہ کواپنی رحمت سے نوازتاہے۔توکبھی ناصرہ کی غریب مریم جوایک بڑھئی سے بیاہی گئی ہوتی ہے اس کے بیٹے پرمہربان ہوتاہے اور کبھی مکہ کے ایک غریب گھرانے کے درّیتیم،آمنہ کے لعل،احمدﷺ کومصطفیٰ بنالیتاہے۔ اور اب قادیان کی ایک کوردیہہ بستی سے اس نے اسی احمدﷺ کے ایک غلام کے عاشق صادق کی محبت کوشرف باریابی بخشا ہے تو تم کون ہوتے ہو۔ لیکن یہ اعتراض کرنے والے تو وہ ہیں کہ جو اناخیرٌ منہ کے گھمنڈمیں مبتلاہوتے ہیں۔جس طرح کفارمکہ نے خداکے الہام وکلام کوکذب وافترا اور ہزلیات قراردیا۔ایساہی آج پھرجب خدانے ایک انتخاب کیااور اس کواپنے الہام وکلام سے نوازا اور براہین نیرہ سے منورکیاتو ان ظالموں نے اس کلام کوہفوات واغلوطات کے ناموں سے پکارا۔اور اس کے کلام کوشیطانی کلام قراردیا…ھیہات ھیہات !!! کیسے ان سب کفارواضلال کے دل ایک ہوگئے اورانہیں کے اظلال بن گئے۔ایسے تشابہ جیسے دوجسم اور دل ایک ہوں۔قرآن کریم نے ایسے لوگوں کاہی نقشہ بیان کیاہے کہ وَقَالَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ لَوۡلَا یُکَلِّمُنَا اللّٰہُ اَوۡ تَاۡتِیۡنَاۤ اٰیَۃٌ ؕ کَذٰلِکَ قَالَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ مِّثۡلَ قَوۡلِہِمۡ ؕ تَشَابَہَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ۔(البقرۃ:۱۱۹)ترجمہ: اوران لوگوں نے جوعلم نہیں رکھتے کہا کہ (خداتم لوگوں سے کلام کرتاہے توبھلا )خداہم سے کیوں کلام نہیں کرتایاہمیں کوئی نشان کیوں نہیں دیتا۔بالکل ان جیسی بات ان سے پہلے لوگوں نے بھی کی تھی۔ان کے دل آپس میں مشابہ ہوگئے ہیں۔ یہاں بھی ایسی ہی باتیں کرتے ہوئے سب سے پہلے تکفیروتکذیب کاطوق جس نے اپنے گلے میں ڈالا وہ غلام دستگیرقصوری تھا۔جس نے براہین احمدیہ کاتیسراحصہ شائع ہوتے ہی۱۸۸۳ء میں ایک کتاب لکھی جس کانام تھا۔ ’’تحقیقات دستگیریہ فی ردِّ ہفوات براہینیہ‘‘ اس کتاب میں براہین احمدیہ کے ان معارف اور حقائق و دقائق کی بابت تو کچھ بن نہیں پڑا۔البتہ جوالہامات اس میں درج ہیں اس پراعتراضات ہیں اور اس کے دفاع میں مولوی محمدحسین بٹالوی صاحب نے جوجواب دیے ہیں اس پراعتراضات کیے گئے ہیں۔ اور صرف انہیں الہامات کی بنا پر ہندوستان سمیت مکہ اور مدینہ سے کفرکے فتاویٰ منگوائے گئے جو بقول مصنف کچھ دیرتک توپوشیدہ رکھے گئے اور کچھ سالوں کے بعد ان کوشائع بھی کردیاگیا۔جیساکہ اسی کتاب تحقیقات دستگیریہ کے صفحہ ۸۰ پرمصنف لکھتے ہیں۔ کفرکے فتاویٰ دینے والوں میں سے حاجی رحمت اللہ کیرانوی سمیت مکہ اور مدینہ کے کئی علماء کے نام لکھے گئے ہیں۔بعض فتاویٰ پرتاریخ بھی درج ہے۔مثال کے طور پر مدینہ کے ایک فتویٰ کے نیچے ۵ ذیقعدہ ۱۳۰۴ھ یعنی جولائی ۱۸۸۷ء درج ہے۔ اسی رسالہ کا ۱۸۸۶ء میں عربی میں ترجمہ’’رجم الشیاطین بردّ اُغلوطات البراہین‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔یہ دونوں کتابیں اب دوبارہ ’’عقیدہ ختم نبوت‘‘ جلداول میں شامل ہیں۔جس کاپہلاایڈیشن ادارہ تحفظ عقائد اسلامیہ کراچی کی طرف سے ۲۰۰۵ء اور دوسراایڈیشن ۲۰۱۲ء میں شائع ہوا۔ اوّل الذکر کتاب تحقیقات دستگیریہ اس جلد کے ۱۴۵ تا ۲۲۶ کل ۸۳صفحات پرمشتمل ہے۔اورعربی رسالہ اسی جلدکے صفحات ۲۲۷تا ۲۸۹کل ۶۳صفحات پرمشتمل ہے۔ بہرحال براہین احمدیہ کی مخالفت کاطوفان جو زبان درازیوں کے گردوغبار کی ایک آندھی کی طرح اٹھا اوربگولے کی طرح بیٹھ گیا۔ لیکن براہین احمدیہ علم وعرفان کے افق پر قطبی ستارے کی طرح چمکتی رہی جس کی روشنی اور نورہزاروں افراد کے رشدوہدایت کاموجب بنتی رہی اور بن رہی ہے اور بنتی رہے گی۔انشاءاللہ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: حضرت مصلح موعودؓ کا پیغام—جماعت کے نام