(خطبہ جمعہ فرمودہ ۹؍اگست ۲۰۲۴ءبمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے) سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب:فرمایا: جلسہ سے پہلے کے خطبات میں جنگِ مریسیع کے حوالے سے ذکر ہو رہا تھا۔ اس بات کا بھی ذکرہوا تھا کہ عبداللہ بن اُبی نے آنحضرتﷺ کے متعلق غلط باتیں کیں اور منافقانہ رویہ اختیار کیا۔ سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مریسیع میں قیام کےدوران عبداللہ بن ابی بن سلول کےمنافقانہ رویہ کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیینؐ میں اس واقعہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’جنگ کے اختتام کے بعد آنحضرتﷺ نے چند دن تک مریسیع میں قیام فرمایا مگر اس قیام کے دوران منافقین کی طرف سے ایک ایسا ناگوار واقعہ پیش آیا جس سے قریب تھا کہ کمزور مسلمانوں میں خانہ جنگی تک نوبت پہنچ جاتی مگر آنحضرتﷺ کی موقع شناسی اور مقناطیسی اثر نے اس فتنہ کے خطرناک نتائج سے مسلمانوں کو بچا لیا۔ واقعہ یوں ہوا کہ حضرت عمرؓ کا ایک نوکر جَہْجَاہْ نامی مریسیع کے مقامی چشمہ پر سے پانی لینے کے لیے گیا۔ اتفاقاً اسی وقت ایک دوسرا شخص سِنَان نامی بھی جو انصار کے حلیفوں میں سے تھا پانی لینے کے لیے وہاں پہنچا۔ یہ دونوں شخص جاہل اور عامی لوگوں میں سے تھے۔ چشمہ پر یہ دونوں شخص آپس میں جھگڑ پڑے اور جہجاہ نے سنان کو ایک ضرب لگا دی۔ بس پھر کیا تھا سِنان نے زور زور سے چِلّانا شروع کر دیا کہ اے انصار کے گروہ! میری مدد کو پہنچو کہ میں پِٹ گیا۔ جب جَہْجَاہ نے دیکھا کہ سِنان نے اپنی قوم کو بلایا ہے تو اُس نے بھی اپنی قوم کے لوگوں کو پکارنا شروع کر دیا کہ اے مہاجرین! بھاگیو دوڑیو۔ جن انصارو مہاجرین کے کانوں میں یہ آواز پہنچی وہ اپنی تلواریں لے کر بے تحاشا اس چشمہ کی طرف لپکے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہاں ایک اچھا خاصہ مجمع ہو گیا اور قریب تھا کہ بعض جاہل نوجوان ایک دوسرے پر حملہ آور ہو جاتے مگر اتنے میں بعض سمجھدار اورمخلص مہاجرین وانصار بھی موقع پر پہنچ گئے۔ اور انہوں نے فوراً لوگوں کو علیحدہ علیحدہ کر کے صلح صفائی کروا دی۔آنحضرتﷺ کو یہ خبر پہنچی توآپؐ نے فرمایا: ’’یہ ایک جاہلیت کا مظاہرہ ہے اور اس پر ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ اور اس طرح معاملہ رفع دفع ہو گیا لیکن جب منافقین کے سردار عبداللہ بن اُبَیّ بن سلول کو جو اس غزوہ میں شامل تھا اس واقعہ کی اطلاع پہنچی تواس بدبخت نے اس فتنہ کو پھر جگانا چاہا اور اپنے ساتھیوں کو آنحضرتﷺ اور مسلمانوں کے خلاف بہت کچھ اکسایا اور کہا یہ سب تمہارا اپنا قصور ہے کہ تم نے ان بے خانماں مسلمانوں کو پناہ دے کر ان کو سر پر چڑھا لیا ہے۔ اب بھی تمہیں چاہیے کہ ان کی اعانت سے دست بردار ہو جاؤ پھر یہ خود بخود چھوڑ چھاڑ کر چلے جائیں گے اور بالآخر اس بدبخت نے یہاں تک کہہ دیا کہ لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ (المنافقون:۹)۔ ‘‘یعنی دیکھو !تو اب مدینہ میں جاکر عزت والا شخص یا گروہ وہ ذلیل شخص یاگروہ کو اپنے شہر سے باہرنکال دیتا ہے یا نہیں ۔ اس وقت ایک مخلص مسلمان بچہ زید بن ارقمؓ بھی وہاں بیٹھا تھا اس نے عبداللہ کے منہ سے آنحضرتﷺ کے متعلق یہ الفاظ سنے تو بے تاب ہو گیا اور فوراً اپنے چچا کے ذریعہ آنحضرتﷺ کو اس واقعہ کی اطلاع دی۔ اس وقت آنحضرتﷺ کے پاس حضرت عمرؓ بھی بیٹھے تھے۔ وہ یہ الفاظ سن کر غصہ وغیرت سے بھر گئے اور آنحضرتﷺ سے عرض کرنے لگے یارسول اللہ آپ مجھے اجازت دیں کہ میں اس منافق فتنہ پرداز کی گردن اڑا دوں۔ آپ نے فرمایا ’’عمر! جانے دو۔ کیا تم اس بات کو پسند کرتے ہوکہ لوگوں میں یہ چرچا ہو کہ محمدؐ اپنے ساتھیوں کو قتل کرواتا پھرتا ہے۔‘‘ پھر آپ نے عبداللہ بن ابی اوراس کے ساتھیوں کو بلوا بھیجا اور ان سے دریافت فرمایا کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ وہ سب قسمیں کھا گئے کہ ہم نے کوئی ایسی بات نہیں کی۔ بعض انصار نے بھی بطریق سفارش عرض کیا کہ زیدبن ارقم کو غلطی لگی ہو گی۔ آپ نے اس وقت عبداللہ بن اُبَیّ اور اس کے ساتھیوں کے بیان کوقبول فرما لیا اور زید کی بات ردّ کردی جس سے زید کو سخت صدمہ ہوا مگر بعد میں قرآنی وحی نے زید کی تصدیق فرمائی اور منافقین کو جھوٹا قرار دیا۔ اِدھر تو آنحضرتﷺ نے عبداللہ بن ابی وغیرہ کو بلا کر اس بات کی تصدیق شروع فرما دی اور ادھر آپؐ نے حضرت عمرؓ سے ارشاد فرمایا کہ اسی وقت لوگوں کو کوچ کاحکم دے دو۔ یہ وقت دوپہر کا تھا جبکہ آنحضرتؐ عموماً کوچ نہیں فرمایا کرتے تھے کیونکہ عرب کے موسم کے لحاظ سے یہ وقت سخت گرمی کا وقت ہوتا ہے اور اس میں سفر کرنا نہایت تکلیف دہ ہوتا ہے مگرآپ نے اس وقت کے حالات کے مطابق یہی مناسب خیال فرمایا کہ ابھی کوچ ہو جاوے۔ چنانچہ آپ کے حکم کے ماتحت فوراً سارا اسلامی لشکر واپسی کے لیے تیار ہو گیا۔ غالباً اسی موقع پر اُسَید بن حُضَیر انصاری جو قبیلہ اوس کے نہایت نامور رئیس تھے آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا۔ یا رسول اللہ! آپ تو عموماً ایسے وقت میں سفر نہیں فرمایا کرتے۔ آج کیا معاملہ ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ’’اُسَید! کیا تم نے نہیں سنا کہ عبداللہ بن ابی نے کیا الفاظ کہے ہیں؟ وہ کہتا ہے کہ ہم مدینہ چل لیں۔ وہاں پہنچ کر عزت والا شخص ذلیل شخص کو باہر نکال دے گا۔‘‘ اُسَید نے بے ساختہ عرض کیا ہاں یارسول اللہ! آپ چاہیں توبے شک عبداللہ کو مدینہ سے باہر نکال سکتے ہیں کیونکہ واللہ عزت والے آپ ہیں اور وہی ذلیل ہے۔‘‘ پھر اُسَید بن حُضَیرؓ نے عرض کیا یارسول اللہ! آپ جانتے ہیں کہ آپ کے تشریف لانے سے قبل عبداللہ بن ابی اپنی قوم میں بہت معزز تھا اور اس کی قوم اس کو اپنا بادشاہ بنانے کی تجویز میں تھی جو آپؐ کے تشریف لانے سے خاک میں مل گئی۔ پس اس وجہ سے اس کے دل میں آپ کے متعلق حسد بیٹھ گیاہوا ہے۔اس لیے آپ اس کی اس بکواس کی کچھ پروا نہ کریں اوراس سے درگزر فرماویں۔‘‘ سوال نمبر۳: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے عبداللہ بن ابی بن سلول کےبیٹےکی آنحضرتﷺکےساتھ محبت کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا:حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس بارے میں اس طرح لکھا ہے کہ ’’عبداللہ بن عبداللہ بن اُبَیّ کواپنے باپ کے خلاف اتنا جوش تھا کہ جب لشکر اسلامی مدینہ کی طرف لوٹا توعبداللہ اپنے باپ کا راستہ روک کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا خدا کی قسم! میں تمہیں واپس نہیں جانے دوں گا جب تک تم اپنے منہ سے یہ اقرار نہ کرو کہ رسول اللہﷺ معزز ہیں اور تم ذلیل ہو اور عبداللہ نے اس اصرار سے اپنے باپ پر زور ڈالا کہ آخر اس نے مجبور ہوکر یہ الفاظ کہہ دیئے جس پر عبداللہ نے اس کا راستہ چھوڑ دیا۔جب واپسی کا کُوچ شروع ہواتواس دن کا بقیہ حصہ اورساری رات اور اگلے دن کا ابتدائی حصہ لشکرِ اسلامی برابر لگاتار چلتا رہا اور جب بالآخر ڈیرہ ڈالا گیا تو لوگ اس قدر تھک کر چُور ہو چکے تھے کہ مقام کرتے ہی ان میں سے اکثر گہری نیند سو گئے۔ اوراس طرح آنحضرتﷺ کی بیدار مغزی سے لوگوں کی توجہ اس ناگوار واقعہ کی طرف سے ہٹ کر ایک لمبے وقفہ تک دوسری طرف لگی رہی اوراللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مسلمانوں کو منافقین کی فتنہ انگیزی سے بچا لیا۔ دراصل منافقین مدینہ کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی تھی کہ جس طرح بھی ہوسکے مسلمانوں میں خانہ جنگی اور باہمی انشقاق کی صورت پیدا کر دیں۔ نیز اگر ممکن ہو تو ان کی نظر میں آنحضرتﷺ کی عزت کو کم کر دیں۔ مگر اسلام اور آنحضرتﷺ کی مقناطیسی شخصیت نے مسلمانوں میں ایسا رشتہ اتحاد پیدا کردیا تھا کہ کوئی سازش اس میں رخنہ انداز نہیں ہو سکتی تھی اور آنحضرتﷺ کی ذات کے متعلق تو مسلمانوں کے دلوں میں عزت واحترام اخلاص وایمان اور محبت وعشق کے وہ جذبات راسخ ہو چکے تھے کہ انہیں متزلزل کرنا کسی بشر کی طاقت میں نہیں تھا۔ چنانچہ اسی موقع پر دیکھ لو کہ عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین نے دو عامی مسلمانوں کے ایک وقتی جھگڑے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کس طرح صحابہ میں اختلاف وانشقاق کا بیج بونے اور آنحضرتﷺ کی محبت ورعب کو صدمہ پہنچانے کی کوشش کی مگر اسے کیسی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور خدا نے اسے خود اس کے بیٹے کے ہاتھوں سے وہ ذلت کاپیالہ پلایا جو اسے غالباً مرتے دم تک نہ بھولا ہو گا۔‘‘ سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے عبداللہ بن ابی بن سلول کےباغیانہ رویہ کی بابت حضرت مصلح موعودؓ کاکیاموقف بیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوۂ بنو مُصْطَلِق اور عبداللہ بن ابی کے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ ’’چونکہ کفارِ مکہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے پر تلے ہوئے تھے اور جو قبائل دوست تھے وہ بھی دشمن بن رہے تھے اس لیے ان منافقین نے بھی جو مسلمانوں کے درمیان موجود تھے اِس موقع پر یہ جرأت کی کہ وہ مسلمانوں کی طرف سے ہو کر جنگ میں حصہ لیں۔ غالباً ان کا خیال تھا کہ اس طرح انہیں مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا موقع مل سکے گا مگر بنو مصطلق کے ساتھ جو لڑائی ہوئی وہ چند گھنٹوں میں ختم ہو گئی اِس لیے اِس لڑائی کے دوران میں منافقین کو کوئی شرارت کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ مگر آنحضرتﷺ نے فیصلہ کیا کہ بنو مصطلق کے قصبہ میں کچھ دن قیام فرمائیں۔ آپؐ کے قیام کے دوران میں ایک مکہ کے رہنے والے مسلمان کا ایک مدینہ کے رہنے والے مسلمان سے کنویں سے پانی نکالنے کے متعلق جھگڑا ہو گیا۔ اتفاق سے یہ مکہ والا آدمی ایک آزاد شدہ غلام تھا اس نے مدینہ والے شخص کو مارا۔ جس پر اس نے اہل مدینہ کو جنہیں انصار کہتے تھے پکارا اور مکہ والے نے مہاجرین کو پکارا۔ اِس طرح جوش پھیل گیا۔ کسی نے یہ دریافت کرنے کی کوشش نہ کی کہ اصل واقعہ کیا ہے۔‘‘بس جوش ہوا اور لڑ پڑے۔ اسی طرح فساد پیدا ہوتے ہیں۔ ’’دونوں طرف کے جوان آدمیوں نے تلواریں نکال لیں۔ عبداللہ بن اُبَیّ بن سَلول سمجھا کہ ایسا موقع خدا نے مہیا کر دیاہے۔‘‘ وہ سمجھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو یہ موقع دے دیا ہے۔’’ اس نے چاہا کہ آگ پر تیل ڈالے اور اہلِ مدینہ کو مخاطب کر کے کہا کہ اِن مہاجرین پر تمہاری مہربانی حد سے بڑھ گئی ہے اور تمہارے نیک سلوک سے ان کے سر پھر گئے ہیں اور یہ دن بدن تمہارے سرپر چڑھتے جاتے ہیں۔ قریب تھا کہ اِس تقریر کا وہی اثر ہوا ہوتا جو عبداللہ چاہتا تھا اور جھگڑا شدت پکڑ جاتا مگر ایسا نہ ہوا۔ عبداللہ نے اپنی شر انگیز تقریر کا اندازہ لگانے میں غلطی کی تھی اور یہ سمجھتے ہوئے کہ انصار پر اس کا اثر ہو گیا ہے اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہم مدینہ میں واپس پہنچ لیں پھر جو معزز ترین انسان ہے وہ ذلیل ترین انسان کو باہر نکال دے گا۔ معزز ترین انسان سے اس کی مراد وہ خود تھا اور ارذل ترین سے آنحضرتﷺ (نعوذ بِاللّٰہِ مِن ذٰلِک)۔ جونہی یہ بات اس کے منہ سے نکلی مومنوں پر اس کی حقیقت کھل گئی اور انہوں نے کہا کہ یہ معمولی بات نہیں بلکہ یہ شیطان کا قول ہے جو ہمیں گمراہ کرنے آیا ہے۔ ایک جوان آدمی اٹھا اور اپنے چچا کے ذریعے اس نے یہ خبر آنحضرتﷺ کو پہنچا دی۔ آپ نے عبداللہ بن ابی بن سلول اور اس کے دوستوں کو بلایا اور پوچھا کیا بات ہوئی ہے؟ عبداللہ نے اور اس کے دوستوں نے بالکل انکار کر دیا اور کہہ دیا کہ یہ واقعہ جو ہمارے ذمہ لگایا گیا ہے ہوا ہی نہیں۔‘‘مکر گئے بالکل۔ ’’آپ نے کچھ نہ کہا لیکن سچی بات پھیلنی شروع ہو گئی۔ کچھ عرصہ کے بعد عبداللہ بن ابی بن سلول کے بیٹے عبداللہ نے بھی یہ بات سنی۔ وہ فوراً آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا۔ اے اللہ کے نبی! میرے باپ نے آپ کی ہتک کی ہے اس کی سزا موت ہے اگر آپ یہی فیصلہ کریں تو میں پسند کرتا ہوں کہ آپ مجھے حکم دیں کہ میں اپنے باپ کو قتل کروں۔ اگر آپؐ کسی اور کو حکم دیں گے اور میرا باپ اس کے ہاتھوں مارا جائے گا تو ہو سکتا ہے کہ میں اس آدمی کو قتل کر کے اپنے باپ کا بدلہ لوں اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لے لوں۔‘‘ کیونکہ اس علاقے کے لوگوں کی طبیعتوں پر بھی کچھ نہ کچھ اثر تو بہرحال تھا۔ انہوں نے کہا کہ بہتر یہی ہے کہ آپ مجھے حکم دیں کہ مَیں اپنے باپ کو قتل کروں۔ ’’مگر آنحضرتﷺ نے فرمایا: میرا ہرگز ارادہ نہیں۔ میں تمہارے والد کے ساتھ نرمی اور مہربانی کا سلوک کروں گا۔ جب عبداللہ نے اپنے باپ کی بیوفائی اور درشت کلامی کا آنحضرتﷺ کی نرمی اور مہربانی سے مقابلہ کیا تو اس کا ایمان اَور بڑھ گیا اور اپنے باپ کے خلاف اس کا غصہ بھی اسی نسبت سے ترقی کر گیا۔ جب لشکرمدینہ کے قریب پہنچا تو اس نے آگے بڑھ کر اپنے باپ کا راستہ روک لیا اور کہا میں تم کو مدینہ کے اندر داخل نہیں ہونے دوں گاتا وقتیکہ تم وہ الفاظ واپس نہ لے لوجو تم نے آنحضرتﷺ کے خلاف استعمال کئے ہیں۔ جس منہ سے یہ بات نکلی ہے کہ خداکا نبی ذلیل ہے اور تم معزز ہو اسی منہ سے تم کو یہ بات کہنی ہو گی کہ خد اکا نبی معزز ہے اور تم ذلیل ہو۔ جب تک تم یہ نہ کہو میں تمہیں ہرگز آگے نہ جانے دوں گا۔عبداللہ بن ابی بن سلول حیران اور خوفزدہ ہو گیا اور کہنے لگا اے میرے بیٹے! میں تمہارے ساتھ اتفاق کرتا ہوں، محمد معزز ہے اور میں ذلیل ہوں۔ نوجوان عبداللہ نے اس پر اپنے باپ کو چھوڑ دیا۔‘‘ مزید پڑھیں: خلافت کے سپاہیوں کی درسگاہ۔ جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا