https://youtu.be/fLoehKkOrww باب نہم: براہین احمدیہ اور بدنصیب مخالفین لیکن ظاہر ہے اورطبعی سی بات ہے کہ اسلام کے مخالفین جو کہ اسلام کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے خواب دیکھ رہے تھے اورصرف خواب ہی نہیں بلکہ اس کی تعبیرکو حقیقت کے روپ میں ہندوستان میں دیکھ بھی رہے تھے۔ان کا ردّعمل کیا ہواہوگا اورکیاہوسکتاتھا وہ تو ایک الگ داستان ہے۔اورمختلف جگہوں میں بیان ہوتا رہے گا۔اوران شاءاللہ ایک الگ حصے میں حضرت اقدس علیہ الصلوٰ ة والسلام اوردیگر مذاہب کے عنوان سے تفاصیل اس میں بیان ہوسکیں گی۔لیکن اسلام کی بےکسی اورکس مپرسی کا عالم کیاہوگا کہ یہاں اپنوں کی مخالفت کا ہی سامنا کرناپڑا۔حفیظ جالندھری نے کیا خوب کہا کہ دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی براہین احمدیہ کے شائع ہونے پر کچھ بدقسمت ایسے بھی تھے جو مولوی کہلاتے تھے،جو عالم بھی سمجھے جاتے ہوں گے،وہ کلمہ تو پڑھتے تھے،اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے بلکہ مسلمانوں کے لیڈرکہلاتے تھے لیکن بجائے اس کے کہ وہ نبی اکرم ﷺ اور اسلام کے دفاع میں لکھی گئی اس کتا ب کو خوش آمدید کہتے انہوں نے اس کی اوراس کے مصنف کی مخالفت میں گویا ایک محاذ کھول لیا۔اور صرف مخالفت پر ہی بس نہیں کی چونکہ ایسے ملانوں کو ذرا ذراسی بات پر کفرکے فتوے دینے کی عادت سی پڑی ہوئی تھی جھٹ حضرت اقدس علیہ السلام کے خلاف اُن مولویوں نے کفر کے فتوے لگا دیے۔ یہ مخالف کون تھے اوران کی مخالفت کے اصل اسباب کیا تھے۔ مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے اپنے ریویومیں اس کی تفصیلات کچھ بیان کی ہیں اوران کا رد بھی کیاہے اورحضرت اقدسؑ کا دفاع کرتے ہوئے جواب بھی دیاہے۔ یہ مخالفین امرتسراور لدھیانہ میں خاص طور پر دو گروہوں کی شکل میں سامنے آئے۔ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ ان بدقسمت ملانوں کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’براہین احمدیہ کے اعلان کے ساتھ عام طور پر مخالف و موافق گروہ میں ایک شور ا ور جوش پیدا ہوا۔ اوّل الذکر گروہ کو خیال تھا کہ ان کے مذہب اور عقیدہ پر ایک حربہ اور حملہ کیا جاوے گا۔ اور آخرالذکر لوگ منتظر تھے کہ جوکتاب ایسے دعاوی اور تحدّی کے ساتھ شائع ہونے والی ہے وہ کوئی غیر معمولی کتاب ہو گی۔مخالفین دو قِسم کے لوگ تھے اندرونی اور بیرونی۔باوجودیکہ یہ کتاب حقیقت اسلام اور صداقت محمدیہ کے اظہار کے لئے لکھی جارہی تھی مگر پھر بھی بدقسمتی سے مسلمانوں کے بعض کوراٹرز میں مخالفت کا ہلکا سا دھواں اٹھتا دکھائی دیا اور جوں جوں کتاب کی جلدیں شائع ہونے لگیں مخالفت کے دائرہ میں بھی وسعت ہوتی گئی۔اندرونی مخالفت کی آگ اس وقت شدت سے بھڑک اٹھی جب…حصہ سوم میں آپ نے یہ دعویٰ کھلے الفاظ میں کردیا تھا کہ جس کو الہام میں شک ہو ہم اس کو مشاہدہ کرا دیتے ہیں …حضرت اقدس علیہ السلام نے یوں تو براہین کے متعلق ہی لکھا تھا کہ ماموراور ملہم ہوکر تالیف کر رہا ہوں لیکن جب اس قِسم کا دعویٰ مشتہر کیا گیا تو مخالفین میں ایک جوش پیدا ہو گیا….. اندرونی مخالفین کی مخالفت کے دو مرکز قائم ہوئے اول امرتسر دوم لودھیانہ۔ یہ مخالفت ابتداءً تو محض تقریروں اور وعظوں میں تھی مگر جوں جوں کتاب براہین احمدیہ کی اشاعت بڑھتی گئی اور لوگوں میں اس کی قبولیت کا اثر ہونے لگا تو مخالفین اور معاندین کے اس گروہ کی سرگرمیاں بھی تقریر کے میدان سے نکل کر تحریر کے دائرے میں آنے لگیں…. مولوی غلام علی صاحب قصوری کی مخالفت امرتسری محاذ کے سپہ سالار مولوی غلام علی قصوری تھے۔ مولوی غلام علی صاحب قصوری سے خاکسار عرفانی کو نیاز حاصل نہیں ہوا لیکن ان کے بھائیوں مولوی غلام الله اور مولوی ولی الله صاحب سے نہ صرف شناسائی حاصل تھی بلکہ گونہ بےتکلفی کی عزت حاصل تھی۔مولوی غلام علی صاحب اپنے علم کے لحاظ سے امرتسر میں ممتاز تھے اور ان کی خدمت میں لوگ حصول تعلیم کے لئے آتے تھے ہمارے سلسلہ کے ایک مخلص عالم باعمل سید قاضی امیر حسین صاحب رضی الله عنہ نے بھی کچھ عرصہ تک مولوی صاحب سے تحصیل علم کی تھی۔بہر حال مولوی غلام علی صاحب ایک ذی علم اور مشارٌ الیہ شخص تھے انہوں نے حضرت اقدسؑ کے دعویٰ الہام کو سن کر وحی اور الہام کے متعلق ایک رسالہ لکھا جس میں اپنے خیال کے موافق ممکن ہے انہوں نے وحی اور الہام کی حقیقت بیان کی ہو مگر سچ یہ ہے کہ انہوں نے برہمو ازم کے اصول پر الہام کا انکار کیا ہے،یا دوسرے الفاظ میں یوں کہو کہ برہمو جس طرح الہام کی حقیقت کو مانتے ہیں وہی تعریف اور اصول مولوی صاحب نے بیان کی۔ اس سے یہی مترشح ہوتا ہے کہ انہوں نے اولیاء الله کے الہام سے انکار کیا ہے۔ خود حضرت اقدس علیہ السلام کے دل پر بھی ان کے رسالہ کو پڑھ کر یہی اثر تھا۔چنانچہ حاشیہ در حاشیہ نمبر۱ صفحہ۲۱۷ (براہین احمدیہ ہر چہار حصص، روحانی خزائن جلد۱صفحہ۲۴۱حاشیہ در حاشیہ نمبر۱) میں حضرت[ اقدسؑ]نے مولوی صاحب کے رسالہ پر بحث کی ہے۔ مولوی غلام علی صاحب نے کھلم کھلا حضرت اقدس علیہ السلام کی مخالفت نہیں کی بلکہ اپنے علم و فکر کے لحاظ سے اصولی طور پر ایک مسئلہ لے کر اس کی تردید کی اور بخیال خویش اس کی توضیح کی اور اس طرح پرضمناً حضرت اقدس علیہ السلامکے دعویٰ الہام کی تغلیط کرنے کی کوشش کی … مولوی غلام علی صاحب قصوری نے اس سے زائد کوئی مخالفت اور کھلم کھلا اعلان جنگ یا اظہار عداوت نہیں کیااور اس کے بعد وہ خاموش ہو کررہ گئے۔اس لئے یہ کہنا حسن ظن کے طور پر صحیح معلوم ہوتا ہے کہ ان کے انکار اور مخالفت کی جڑ شرارت نہ تھی۔میرے اس خیال کی تصدیق مولوی ابو سعید محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعت السنہ لاہور بھی کرتے ہیں۔مولوی صاحب کا رسالہ ان ایام میں ایک بہت بڑی اتھارٹی اور طاقت سمجھا جاتا تھا۔اور ان کے علم و فضل کی ایک دھاک تھی وہ اپنے رسالہ اشاعتہ السنہ جلد ۶نمبر ۶میں امرتسری مخالفین کے متعلق لکھتے ہیں(متن میں) ’’ان کے اس انکار و کفران کا مورد وموجب مؤلّف کتاب کے وہی الہامات ہیں جو اس کتاب کے اخص برکات سے ہیں۔ان الہامات کو بعض مسلمان امرتسری تو صرف غیر صحیح وغیر ممکن و ناقابل تسلیم بتاتے ہیں اور بعضے (لودہانہ والے )ان کو کھلم کھلا کفر قرار دیتے ہیں فریق اول (امرتسری مسلمان ) اپنے انکار کی وجہ یہ پیش کرتے ہیں کہ الہام غیبی (جو ہم رنگ وحی ہے ) بجز انبیاء کسی کو نہیں ہو سکتا اور آج تک کسی کو نہیں ہوا اور اگر طبعی خیالات و خطرات مراد ہیں تو ان کو دل سے خصوصیت ہے۔یہ خطرات تو خود انسان بلکہ حیوان۔مکھی۔وغیرہ کوبھی ہوتے ہیں۔‘‘(اشاعۃ السنۃ جلد ۶نمبر ۷صفحہ ۱۷۱،۱۷۰) اور اس پر حاشیہ میں لکھتے ہیں: ’’امرتسر کے مسلمانوں کے اس انکار کا باعث ان کی نافہمی اور بے ذوقی اور کسی قدرعموماً اہل اللہ واہل باطن سے گوشہ تعصبی ہے ان کو خاص کر مؤلف براہین سے کچھ عداوت نہیں۔‘‘ مولوی غلام علی صاحب کی پوزیشن اس حد تک صاف ہے اور انہوں نے اس کے بعد عملی قدم نہیں اٹھایا۔حضرت علیہ السلام نے براہین میں ان کے رسالے پر بحث کر کے حاشیہ در حاشیہ نمبر ۱ میں اپنے دعوے کے اثبات پر زور دیا۔اس حاشیہ در حاشیہ کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے وحی اور الہام میں کوئی فرق نہیں کیا اور پر شوکت دلائل سے بتایا ہے کہ یہ مترادف ہیں۔مولوی غلا م علی صاحب کے عقیدے کا زہر ان کے بعض شاگردوں میں بھی پھیل گیا تھا۔چنانچہ ایک شخص حافظ نور احمد صاحب (جن کو میں نے خوددیکھا ہے اور حضرت اقدس علیہ اسلام کے متعلق وہ نیک خیالات اورعقیدت رکھتے تھے گو وہ باقاعدہ سلسلہ میں داخل نہ ہو سکے حضرت اقدس علیہ السلام کی مہمان نوازی اور مکارم اخلاق کی بہت تعریف کرتے تھے۔ عرفانی)قادیان آیا۔اور حضرت اقدس اس وقت براہین کی تصنیف میں مصروف تھے وہ حضرت صاحب کا مہمان ہوا۔حضرت علیہ السلام کے حضور اپنے خیالات دربارہ ٴ الہام کا ذکر کیا۔اور حضرت علیہ السلام نے معقول طور پر بہت کچھ سمجھایا مگر اثر نہ ہوا آخر توجہ الی الله تک نوبت پہنچی اور خدا تعالیٰ نے ایک نشان ظاہر کر دیا۔حضرت علیہ السلام نے اس اجمال کی تفصیل براہین احمدیہ کے صفحہ ۴۷۱تا ۴۷۲کے حاشیہ در حاشیہ نمبر ۳ (روحانی خزائن جلد ۱صفحہ ۵۶۲تا ۵۶۵حاشیہ در حاشیہ نمبر ۳) میں کی ہے۔اس کے بعد حافظ نور احمد صاحب نے اس عقیدہ سے توبہ کر لی تھی اور وہ حضرت اقدس کے ساتھ اظہار عقیدت کرتا رہا۔ابتدائی زمانہ دعویٰ مسیح علیہ السلام میں ہم لوگ اسی مسجد میں نماز پڑھا کرتے تھے۔ جہاں حافظ نور احمد صاحب نماز پڑھایا کرتے تھے اور حافظ نور احمد کبھی مخالفت نہیں کیاکرتے تھے مگر بعد میں اہل محلہ کو بعض لوگوں نے بھڑکایا اور حافظ بھی مجبور ہو گیا اور ہم لوگوں نے بھی اس مسجد کو چھوڑ دیا۔‘‘(حیات احمدؑ جلددوم صفحہ ۷۷تا۸۱) حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃوالسلام نے مولوی غلام اللہ صاحب قصوری کابراہین احمدیہ میں جوذکرفرمایاہے۔ وہ یہ ہے : ’’ازانجملہ ایک یہ ہے کہ مولوی ابو عبداللہ غلام علی صاحب قصوری جن کا ذکرِ خیر حاشیہ در حاشیہ نمبر ۲ میں درج ہے الہام اولیاء اللہ کی عظمت شان میں کچھ شک رکھتے تھے اور یہ شک ان کی بالمواجہ تقریر سے نہیں بلکہ ان کے رسالہ کی بعض عبارتوں سے مترشح ہوتا تھا سو کچھ عرصہ ہوا ان کے شاگردوں میں سے ایک صاحب نور احمد نامی جو حافظ اور حاجی بھی ہیں بلکہ شاید کچھ عربی دان بھی ہیں اور واعظِ قرآن ہیں اور خاص امرتسر میں رہتے ہیں اتفاقاً اپنی درویشانہ حالت میں سیر کرتے کرتے یہاں بھی آگئے ان کا خیال الہام کے انکار میں مولوی صاحب کے انکار سے کچھ بڑھ کر معلوم ہوتا تھا۔ اور برہمو سماج والوں کی طرح صرف انسانی خیالات کا نام الہام رکھتے تھے چونکہ وہ ہمارے ہی یہاں ٹھہرے اور اس عاجز پر انہوں نے خود آپ ہی یہ غلط رائے جو الہام کے بارہ میں ان کے دل میں تھی مدعیانہ طور پر ظاہر بھی کردی اس لئے دل میں بہت رنج گزرا ہر چند معقولی طور پر سمجھایا گیا کچھ اثر مترتب نہ ہوا آخر توجہ الی اللہ تک نوبت پہنچی اور ان کو قبل ازظہور پیشگوئی بتلایا گیا کہ خداوند کریم کی حضرت میں دعا کی جائے گی کچھ تعجب نہیں کہ وہ دعا بہ پایہ اجابت پہنچ کر کوئی ایسی پیشگوئی خداوند کریم ظاہر فرماوے جس کو تم بچشم خود دیکھ جاؤ سو اس رات اس مطلب کے لئے قادر مطلق کی جناب میں دعا کی گئی علی الصباح بہ نظر کشفی ایک خط دکھلایا گیا جو ایک شخص نے ڈاک میں بھیجا ہے اس خط پر انگریزی زبان میں لکھا ہوا ہے آئی ایم کورلر اور عربی میں یہ لکھا ہوا ہے ھذا شاھد نَزّاغ اور یہی الہام حکایتاً عن الکاتب القا کیا گیا اور پھر وہ حالت جاتی رہی چونکہ یہ خاکسار انگریزی زبان سے کچھ واقفیت نہیں رکھتا۔ اس جہت سے پہلے علی الصباح میاں نور احمد صاحب کو اس کشف اور الہام کی اطلاع دے کر اور اس آنے والے خط سے مطلع کرکے پھر اسی وقت ایک انگریزی خوان سے اس انگریزی فقرہ کے معنے دریافت کئے گئے تو معلوم ہوا کہ اُس کےیہ معنے ہیں کہ مَیں جھگڑنے والا ہوں سو اس مختصر فقرہ سے یقینًا یہ معلوم ہو گیا کہ کسی جھگڑے کے متعلق کوئی خط آنے والا ہے۔ اور ھٰذا شاھد نَزَّاغٌ کہ جو کاتب کی طرف سے دوسرا فقرہ لکھا ہوا دیکھا تھا اس کے یہ معنے کھلے کہ کاتب خط نے کسی مقدمہ کی شہادت کے بارے میں وہ خط لکھا ہے۔ اُس دن حافظ نور احمد صاحب بباعثِ بارش باران امرتسر جانے سے روکے گئے اور درحقیقت ایک سماوی سبب سے ان کا روکا جانا بھی قبولیتِ دعا کے ایک خبر تھی تا وہ جیسا کہ اُن کے لئے خدائے تعالیٰ سے درخواست کی گئی تھی پیشگوئی کے ظہور کو بچشمِ خود دیکھ لیں۔ غرض اس تمام پیشگوئی کا مضمون اُن کو سنا دیا گیا۔ شام کو اُن کے رو برو پادری رجب علی صاحب مہتمم و مالک مطبع سفیر ہند کا ایک خط رجسٹری شدہ امرت سر سے آیا۔ جس سے معلوم ہوا کہ پادری صاحب نے اپنے کاتب پر جو اِسی کتاب کا کاتب ہے عدالتِ خفیفہ میں نالش کی ہے اور اِس عاجز کو ایک واقعہ کا گواہ ٹھہرایا ہے اور ساتھ اُس کے ایک سرکاری سمن بھی آیا اور اس خط کے آنے کے بعد وہ فقرہ الہامی یعنی ھٰذا شاھد نَزّاغ جس کے یہ معنی ہیں کہ یہ گواہ تباہی ڈالنے والا ہے۔ اِن معنوں پر محمول معلوم ہوا کہ مہتمم مطبع سفیر ہند کے دل میں بہ یقین کامل یہ مرکوز تھا کہ اِس عاجز کی شہادت جو ٹھیک ٹھیک اور مطابق واقعہ ہو گی بباعث وثاقت اور صداقت اور نیز بااعتبار اور قابل قدر ہونے کی وجہ سے فریق ثانی پر تباہی ڈالے گی اور اِسی نیت سے مہتمم مذکور نے اِس عاجز کو ادائے شہادت کے لئے تکلیف بھی دی اور سمن جاری کرایا اور اتفاق ایسا ہوا کہ جس دن یہ پیشگوئی پوری ہوئی اور امرتسر جانے کا سفر پیش آیا وہی دن پہلی پیشگوئی کے پورے ہونے کا دن تھا سو وہ پہلی پیشگوئی بھی میاں نور احمد صاحب کے رُوبرو پوری ہوگئی یعنی اُسی دن جو دس دن کے بعد کا دن تھا روپیہ آگیا اور امرتسر بھی جانا پڑا۔ فالحمدللّٰہ علٰی ذالک۔‘‘ (براہین احمدؐیہ، روحانی خزائن جلد۱ صفحہ۵۶۲تا ۵۶۵حاشیہ در حاشیہ ۳) ٭…٭…٭