آباد رہے ساقی دائم ترا مے خانہسیراب رہے یونہی مجھ جیسا یہ مستانہ ہے عقل کی دلدل سے یہ دشتِ جنوں اچھاہوں عاشقِ صادق مَیں ہرگز نہیں فرزانہ کعبے کو رواں ہو پر دیدار سے مستغنیہو گھر کے تمنائی گھر والے سے بیگانہ ڈالو تو نظر اس پر دیکھو تو رخِ روشنپروانے سے مت پوچھو وہ کیوں ہوا پروانہ اک عمر ہوئی ہم کو ہے ہجر ترا لاحقاب تو دلِ ناداں کو مشکل ہوا بہلانا ہوں جان بلب پیارے آ جا کہ رہوں زندہمیں ہی نہ رہا گر تو کس کام کا پھر آنا طوفان ہے اشکوں کا؟ آنے دو مری جانبطوفانوں سے ٹکرانا ہے شیوۂ مردانہ درکار ہے جاں میری؟ یہ لیجیے بسم اللہسو جان بھی حاضر ہے سر آنکھوں پہ فرمانا سچ لکھنے کے مجرم ہیں قدغن ہے لگی جن پراخبار و رسائل سب روزانہ و ماہانہ دشنام ہو پتھر ہو یا زہر کا ہو پیالہکھا لینا تو ہنس دینا پی لینا تو مسکانا اعزاز اسی میں ہے اس یار کی خاطر سےمٹی میں بھی مل جانا سولی سے نہ گھبرانا ہیں عشق و محبت کے انداز جداگانہیا یار کو پا لینا یا راہ میں مر جانا (طارق محمود طاہر۔ جامعہ احمدیہ نائیجیریا)