برّ اعظم ایشیا کےچند اہم واقعات و تازہ حالات کا خلاصہ فلسطین اسرائیلی جارحیت اور تباہ کُن غذائی قحط کا شکار ہے ا کتوبر ۲۰۲۳ءسے جاری غزہ پر اسرائیلی جارحیت اور ظلم و ستم میں ۲۲م؍ماہ گزرنے کے باوجود کسی طور کمی نظر نہیں آرہی بلکہ عالمی طاقتوں کی حمایت کے باعث صیہونی سفاکیت بڑھتی جارہی ہے۔ صیہونی افواج ہر روز درجنوں نہتےفلسطینیوں کابے دریغ قتل عام کررہی ہیں۔بتایا گیا ہے کہ ۲۸؍اگست کو غزہ میں جہاں ایک طرف اسرائیلی فوج کے حملوں میں مزید ۷۵؍فلسطینی شہید ہوگئے وہیں اہل غزہ پر اسرائیل کی جانب سےجبراًمسلط کی گئی بھوک نے مزید ۱۰؍افراد کو لقمہ اجل بنا دیا۔ اس طرح صرف بھوک سے ہونے والی شہادتوں کی کُل تعداد ۳۱۳؍ہو گئی۔اب تک اسرائیل کی غزہ میں جارحیت سے شہادتوں کی مجموعی تعداد ۶۲؍ہزار ۸۹۵؍تک پہنچ گئی ہے، جبکہ ایک لاکھ ۵۸؍ہزار ۸۹۵؍فلسطینی زخمی ہوئےہیں۔ غزہ کےسرکاری میڈیا آفس نےاسرائیل کی جانب سے بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے فلسطینیوں کو بھوکا مارنے کی سفاک پالیسی اپنانے کی مذمت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ محصور علاقے میں اسرائیل اہم ترین غذائی اشیاء مثلاً انڈے، سرخ اور سفید گوشت، مچھلی، پنیر، دودھ کی مصنوعات، پھل، سبزیاںوغیرہ داخل ہونے سے روکتا ہے۔ واضح رہے کہ اقوام متحدہ نے بھی غزہ کو قحط زدہ قرار دے دیا ہے اس وقت ۵؍لاکھ سے زائد فلسطینی تباہ کُن غذائی قحط کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ اعلان اس منظرنا مےمیں سامنے آیا کہ مہینوں سے غزہ کو ایک طرف بھاری گولہ باری کا نشانہ بناکرمقامی آبادی کی نسل کشی جاری ہے،دوسری طرف بھوک کوہتھیاربناکر فلسطینی عوام کو دانستہ موت کے منہ میں دھکیلنے کے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ حد یہ ہے کہ دوسرے ملکوں اورانسانی خدمت کے اداروں کی طرف سے بھیجی جانے والی وافر خوراک کی غزہ ترسیل میں منظم رکاوٹ ڈالی گئی، ایک طرف درمیانی وقفوں کے دوران جو انتہائی ناکافی غذا فراہم ہوئی اس کی تقسیم کے مقام پر پہنچنے والے بھوک سے بے حال بچوںاور ماؤں کے ساتھ اقوام متحدہ کے امدادی عملے اور رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو بھی وحشیانہ حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ دوسری طرف اسرائیلی وزراء سمیت نیتن یاہو حکومت کے اعلانات و اقدامات سے ظاہر ہو رہا ہے کہ فلسطینیوں کو بےدخل کرنے اور دوسرے ملکوں میں دھکیلنے کے منصوبے پر منظم کام ہورہا ہے۔ صیہونی حملے بھی جاری ہیں جن میں مزید ۷۱؍فلسطینی شہید اور ۲۵۱؍زخمی ہوگئے۔ اقوام متحدہ کے بیان کے مطابق قحط اور بھوک سے مرنے والوں کی تعداد ۲۷۳؍ہوگئی ہے جبکہ فی الوقت غزہ میں پانچ لاکھ سے زائد افراد قحط، بھوک اور بیماری کی تباہ کن صورت حال سے دوچار ہیں۔ جبکہ قحط آئندہ ہفتوں میں کئی دیگرشہروں تک پھیلنے کا خدشہ ہے۔اسرائیل نے ہٹ دھرمی سے اقوام متحدہ کی رپورٹ مسترد اور اخذ کردہ نتائج جھوٹ قرار دیے ہیں۔ اس منظر نامے میں یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی تعاون تنظیم (اوآئی سی) فوری طور پر حرکت میں آئے اور اقوام متحدہ کے متعلقہ اداروں کے ساتھ مل کر غزہ میں لوگوں کی زندگیاں بچانے کے اقدامات یقینی بنائے۔ درپیش صورتحال مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل کی ضرورت زیادہ شدّت سے اجاگر کر رہی ہے جس کے لیے سفارتی کوششیں تیزتر کی جانی چاہئیں۔ اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی UNRWA کے مطابق ۲۵؍اگست کو اسرائیل نے صرف ۹۵؍ امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہونے دیے، حالانکہ کم از کم ۶۰۰؍ٹرک روزانہ درکار ہیں تاکہ لوگوں کی بنیادی ضروریات پوری کی جا سکیں۔فی الحال امدادی سامان کی یومیہ اوسط رسد ۸۵؍ٹرکوں تک رہ گئی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں بارہا قحط، بیماریوں اور اموات کے پھیلنے کے خطرے سے خبردار کر چکی ہیں اور مطالبہ کر رہی ہیں کہ ایک مستقل اور محفوظ امدادی راہداری قائم کی جائے تاکہ متاثرہ آبادی تک رسائی ممکن ہو۔دوسری طرف اسرائیلی جارحیت کے خلا ف دنیا بھر میں مظاہرے اور احتجاج ہورہے ہیں، عالمی عدالت نے بھی صیہونی ریاست کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیاہے۔ اس سب کے باوجود اسرائیلی ہٹ دھرمی اپنی جگہ قائم ہے اوروہ گریٹر اسرائیل کے ناپاک منصوبے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے غزہ پر مکمل قبضے کا اعلان کررہاہے۔ اس وقت اسرائیلی رویے نے پورے عالمی امن کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ضروری ہوگیا ہے کہ عالمی طاقتیں اس کی حمایت سے کنارہ کشی کرتے ہوئے مسئلہ فلسطین کا منصفانہ حل نکالیں اور مسلم دنیا بھی مذمتی بیانات سے آگے بڑھ کر ٹھوس حکمت عملی اپنائے۔ امریکہ کی طرف سےبھارت کے لیے نیا ٹیرف بم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ۶؍اگست کو جاری ہونے والےبیان اور ایگزیکٹو آرڈرنے،جسے مبصرین بھارت کے لیے نئے ‘‘ٹیرف بم’’ کے طور پر دیکھ رہے ہیں، بھارتی معیشت میں بے یقینی کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ واشنگٹن نے روس سے تیل خریدنے پر بطور سزا بھارت کے لیے مزید ۲۵؍فیصد ٹیرف لگا کر اس کی مصنوعات پر امریکی ٹیرف ۵۰؍فیصد کر دیا ہے۔ صدر ٹرمپ ۳؍اگست کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اپنے پیغام میں بھارت کو متنبہّ کرچکے ہیں کہ اسے ٹیرف میں اضافے کا سامنا کرناپڑ سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نئی دہلی نہ صرف بڑی مقدار میں روسی تیل خرید رہا ہے بلکہ وہ اس خریدے ہوئے تیل کو کھلی مارکیٹ میں بڑے منافع پر فروخت بھی کررہا ہے۔ امریکی صدر کے بیان کے مطابق بھارت اچھا تجارتی پارٹنر نہیں، وہ روس سے تیل خرید کر یوکرین میں جنگی مشین کو ایندھن فراہم کر رہا ہے۔یہی باتیں الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ وائٹ ہاؤس کی جانب سے نئے ٹیرف کے جواز میں دہرائی گئی ہیں۔ دوسری طرف بھارتی وزارت خارجہ کے بیان میں نئی دہلی پر مزید ٹیرف عائد کرنے کو غیرمنصفانہ، بلاجوازاور غیرضروری قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انڈیا اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات اُٹھائے گا۔ بھارت پر ۲۵؍فیصد ٹیرف کا نفاذ جمعرات ۷؍اگست ۲۰۲۵ء سے کیا گیا جبکہ محصولات میں مزید ۲۵؍فیصد اضافے کے اعلان پر اگست کے آخری ہفتے میں عملدرآمد ہوگیا ہے۔ معاشی ماہرین کا اندازہ ہے کہ امریکی ٹیرف میں اضافے سے بھارت کی ۵۵؍فیصد برآمدات متاثر ہوسکتی ہیں۔ ٹیکسٹائل، زیورات، چمڑے اور مشینری کی صنعتوں کو نقصان کا خدشہ ہے۔ دواؤں، گاڑیوں کے پرزہ جات، زراعت، چھوٹی صنعتوں اور کاروبار پر اثرات مرتب ہوں گے، سال ۲۰۲۵ء میں بھارت کی جی ڈی پی شرح ترقی ۶فیصد سے کم ہوسکتی ہے۔ جبکہ بعض سیاستدانوں اور معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ نئی صورتحال میں بھارت کو نئی منصوبہ بندی کرنے اور نئے میدانوں میں کاوشیں کرنے کا موقع ملے گا۔ سعودی عرب کا یمن کو اضافی اقتصادی امداد فراہم کرنے کا اعلان خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کے مطابق سعودی حکومت کی طرف سے ایک بیان میں کہا گیاہے کہ یہ گرانٹ سعودی پروگرام برائے ترقی اور تعمیر نو یمن کے ذریعے دی جائے گی۔ بیان میں مزیدکہا گیا کہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے یمنی عوام کی امداد کے لیے سفارش کو منظور کر لیا ہے۔ یمنی صدارتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر رشاد محمد العلیمی نے یمنی عوام کو درپیش شدید مالی مشکلات کے حوالے سے امداد کی درخواست کی تھی۔ایوان شاہی سےجاری ہونے والے احکامات میں کہا گیا کہ اضافی امداد ایک اعشاریہ ۳۶۸؍ملین ڈالر یمن کی تعمیر نو پروگرام کے لیے منظور کی گئی ہے۔یہ امداد حکومتی بجٹ میں معاونت، پٹرولیم مصنوعات میں تعاون اور عدن میں شہزادہ محمد بن سلمان ہسپتال کے آپریشنل بجٹ کو پورا کرے گی تاکہ یمنی حکومت کی اقتصادی اصلاحات کو تقویت ملے۔ چین میں روزگار اور سماجی تحفظ کی ترقی چین کی ریاستی کونسل کےدفتر اطلاعات کے زیر اہتمام پریس کانفرنس میں چین کے ‘‘چودھویں پانچ سالہ منصوبہ ’’ کی مدت کے دوران روزگار اور سماجی تحفظ کی اعلیٰ معیار کی ترقی میں حاصل کردہ کامیابیوں کا تعارف کرایا گیا۔اس مدت کے دوران، چین میں روزگار کی صورتحال مجموعی طور پر مستحکم رہی، روزگار کا ڈھانچہ بہتر ہورہا ہے اور روزگار کے معیار میں مسلسل بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔رواں سال اگست کے آخر تک، نئی شہری ملازمتوں کی کُل تعداد ۵۹.۲۱ ملین تک پہنچ گئی، جو کہ ۵۵؍ملین کے مقررہ ہدف سے زیادہ ہے۔ اب تک ملک بھر میں بنیادی پنشن انشورنس میں حصہ لینے والے افراد کی تعداد ایک اعشاریہ ۰۷۲؍ارب تک پہنچ گئی ہے، جو “تیرھویں پانچ سالہ منصوبہ” کے اختتام کے مقابلے میں ۷۳؍ملین سے زیادہ کا اضافہ ہے۔ قومی محکمہ شماریات کے ترجمان فو لین ہوئی نے بتایا کہ اگست میں قومی معیشت مجموعی طور پر بہتری کی جانب گامزن رہی ہے۔ صنعتی پیداوار میں ترقی جاری ہے، ساز و سامان کی صنعت اور ہائی ٹیک مینوفیکچرنگ میں بہتری نظر آرہی ہے۔ اگست میں، ملک بھر میں نامزدمعیار سے بالا اداروں کی صنعتی اضافی قیمت میں سالانہ ۵.۲؍فیصد اضافہ ہوا، جو پچھلے ماہ سے ۰.۳۷؍ فیصد اضافہ ہے۔ خدمات کے شعبے میں تیز نمو، اور جدید خدمات کی صنعت میں بہتری دیکھی گئی ہے۔ اگست میں، چین بھر میں خدمات کی پیداوار کا انڈیکس پچھلے سال کی اسی مدت کے مقابلے میں ۵.۶ فیصد بڑھا۔ مارکیٹ کی فروخت میں مستحکم نمو، خدمات کی ریٹیل میں تیز ی سے اضافہ ہوا۔ اگست میں، معاشرتی صارفین کی ریٹیل کی کل مالیت ۳.۹۶۶۸؍ٹریلین یوان رہی، جو سال بہ سال ۳.۴؍فیصد کا اضافہ ہوا۔ مستقل اثاثوں میں سرمایہ کاری میں اضافہ برقرار رہا، مینوفیکچرنگ کے شعبے میں سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اشیا ء کی درآمد اور برآمد میں مسلسل اضافہ، اور تجارت کے ڈھانچے میں مزید بہتری آ رہی ہے۔ اگست میں، اشیا ء کی درآمد اور برآمد کی کل مالیت ۳.۸۷۴۴؍ٹریلین یوان رہی، جو پچھلے سال کی اسی مدت کے مقابلے میں ساڑھے تین فیصد زیادہ ہے۔ روزگار کی صورتحال عمومی طور پر مستحکم رہی ، کنزیومر پرائس انڈیکس میں بہتری کا سلسلہ جاری رہا اور صنعتی پیداوار کی قیمتوں کی شرح میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ افغانستان میں یومِ فتح کابل سمیت افغانستان کے تمام صوبوں میں ۱۵؍اگست “یومِ فتح” کے طور پر شاندار اور پُرجوش انداز میں منایا گیا۔ یہ دن افغانستان کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، کیوںکہ ۴ سال قبل اسی دن امارتِ اسلامیہ افغانستان کے مجاہدین نے ۲۰؍سالہ مسلسل جدوجہد اور بے شمار قربانیوں کے بعد ملک میں خودمختار اور اسلامی نظام کی بنیاد رکھی تھی۔اسی روز دو دہائیوں پر محیط غیر ملکی قبضے کا خاتمہ ہوا، ملک میں امن و سکون کی فضا قائم ہوئی اور برسوں سے جاری بدامنی و مشکلات کا سلسلہ تھم گیا۔ افغان عوام نے ظلم اور جبر سے نجات پانے کے بعد سکھ کا سانس لیا اور تمام طبقات ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر متحد ہو گئے۔ ہر سال یہ دن افغان عوام کے لیے فخر، عزت اور قومی وقار کی علامت کے طور پر منایا جاتا ہے۔اس سال بھی پورے ملک میں اس موقع پر خصوصی تقریبات، جلسے اور عوامی اجتماعات کا انعقاد ہوا۔ بنگلہ دیش کی تازہ سیاسی و سفارتی صورتحال بنگلہ دیش میں گذشتہ سال اگست کے دوران طلبہ کے احتجاجی مظاہروں کے نتیجے میں عوامی لیگ کی حکومت گرنے کے بعد ایک سال میں ملک کی سفارت کاری کے انداز اور مؤقف میں واضح تبدیلی آئی ہے۔شیخ حسینہ کی حکومت جانے کے بعد بنگلہ دیش کا اپنے دیرینہ اتحادی ملک انڈیا کے ساتھ تعلقات میں تناؤ پیدا ہوا ہے۔گذشتہ ایک برس میں بنگلہ دیش کی خارجہ پالیسی کو انڈیا سے دُور اور چین کے قریب دیکھا گیا ہے۔ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی کوششیں بھی دیکھنے میں آئی ہیں۔انڈیا کے بنگلہ دیش کے ساتھ اقتصادی اور تجارتی تعلقات بھی خراب ہوئے اور سرحد پر تصادم کی صورتحال بھی پیدا ہوئی۔بنگلہ دیش نے الزام لگایا کہ انڈیا میں پکڑے جانے والے نام نہاد غیر قانونی بنگلہ دیشی شہریوں کو بنگلہ دیش کی سرحد میں دھکیلا جا رہا ہے۔ طویل عرصے کے بعد بنگلہ دیش اور پاکستان نے براہ راست تجارت دوبارہ شروع کر دی۔ ڈھاکہ نے فروری میں پاکستان سے پچاس ہزار ٹن چاول درآمد کیے۔ براہ راست فضائی پروازیں دوبارہ شروع ہو گئی ہیں اور دونوں ممالک نے لوگوں کے درمیان تبادلے کی سہولت کے لیے ویزا طریق کار آسان بنا دیا ہے۔ نومبر اور دسمبر ۲۰۲۴ء کے درمیان پاکستانی بحری جہازوں نے چٹاگانگ کی بندرگاہ پر سامان کے ایک ہزار سے زائد کنٹینر اتارے۔ دونوں ممالک کے مابین میل جول ابتدائی دور میں ہے مگر بنگلہ دیش اور چین کے تعلقات میں گہرائی آئی تو یہ ایک ابھرتی ہوئی علاقائی مثلث بن جائے گا۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت چین کے علاقائی اہداف سے ہم آہنگ ہے۔ اس کے جنوبی ایشیائی شراکت داروں کے مابین مضبوط روابط علاقائی رابطوں کو فروغ دیں گے۔ ساتھ ساتھ اگر بنگلہ دیشی بندرگاہوں تک چینی رسائی کو وسعت دے کر اور بذریعہ چین پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان سمندری تجارتی روابط کو آسان بنا کر تجارت ہو سکتی ہے تو یہ مستقبل میں بھارت کا اسٹریٹجک اثر کم کر سکتا ہے۔ چین مسلسل جنوبی ایشیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: مکتوب افریقہ(اگست۲۰۲۵ء)