https://youtu.be/GY55mSvHAuw (خطبہ جمعہ فرمودہ ۵؍جولائی۲۰۲۴ء بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے) سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب:فرمایا: آج دو غزوات کا ذکر کروں گا۔ سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے غزوہ بدرالموعدکےمختلف ناموں کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب:فرمایا: غزوۂ بدرالموعد جو چار ہجری میں ہوا۔ یہ غزوہ بدرالموعد، بدر الثانیہ ، بدر الاٰخِرہ اور بدر الصُّغریٰ کے ناموں سے معروف ہے۔ سوال نمبر۳:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے غزوہ بدرالموعدکےاسباب کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: اس غزوہ کا سبب یہ ہے کہ ابوسفیان بن حَرْب جب غزوۂ احد سے واپس پلٹا تو اُس نے بآواز بلند کہا تھا کہ آئندہ سال ہماری اور تمہاری ملاقات بدر الصَّفْرَاء کے مقام پر ہو گی۔ بدر کو بدرالصّفراءبھی کہا جاتا ہے۔ ہم وہاں جنگ کریں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر ؓکو فرمایا کہ اسے کہو کہ ہاں۔ ان شاءاللہ۔ علامہ بیضاوی نے لکھا ہے کہ نبی ﷺ نے خود جواب دیا تھا۔ اِن شاءاللہ۔ بدر مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مشہور کنواں ہے جو وادی صفرا اور جَارْ مقام کے درمیان واقع ہے۔ بدر مدینہ کے جنوب مغرب میں ایک سو پچاس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ اس جگہ کی لوکیشن ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں اس جگہ ہر سال یکم ذی قعدہ سے آٹھ روز تک ایک بڑا میلہ لگا کرتا تھا۔ کہنے کو تو ابو سفیان نے غرور میں آ کر یہ اعلان کر دیا تھا لیکن اب جوں جوں وعدے کا وقت قریب آ رہا تھا ابوسفیان مقابلے سے کترانے لگا تھا لیکن ظاہر یوں کر رہا تھا کہ وہ ایک بہت بڑا لشکر لے کر آپؐ پر حملہ آور ہونے کی تیاری کر رہا ہے تا کہ یہ خبر اہلِ مدینہ تک پہنچ جائے اور عرب کے دیگر حصوں میں بھی پھیل جائے اور مسلمانوں کو اس سے خوف زدہ کیا جا سکے۔ اسی دوران بَنُو اَشْجَعْ سے تعلق رکھنے والا ایک شخص نُعَیم بن مسعود مکہ گیا۔ اس نے بعد میں اسلام بھی قبول کر لیا تھا۔ اس نے وہاں ابوسفیان سے ملاقات کی اور کہنے لگا کہ میں مکہ اس غرض سے آیا ہوں کہ تمہیں مسلمانوں کی تیاری کے متعلق آگاہ کروں۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ ان کے پاس بے تحاشہ اسلحہ، اونٹ اور گھوڑے ہیں اور انہوں نے اپنے حلیف قبیلے کو بھی ساتھ ملا لیا ہے۔ اب وہ بڑے زور و شور سے حملہ آور ہونے والے ہیں۔ دیکھو تم نے خود مقابلہ کے لیے پکارا تھا اب اس وعدے کا وقت قریب آ گیا ہے۔ لہٰذا تم میدان کارزار میں اپنے جوہر دکھاؤ۔ ابوسفیان بات ٹالتے ہوئے کہنے لگا کہ اے نُعَیم! تم جانتے ہو کہ ہمارے علاقے میں قحط سالی ہے۔ عرصہ دراز سے بارش نہیں ہوئی۔ پانی کے تالاب خشک ہیں۔ چراگاہوں میں مویشی اور سواری کے جانوروں کے لیےگھاس کا تنکا تک نہیں ہے۔ ہر طرف رزق کی تنگی ہے۔ لہٰذا عقلمندی اسی میں ہے کہ ہم یہ دن گزار لیں اس کے لیے تم اہم کردار ادا کر سکتے ہو۔ اس سے مدد مانگی کہ تم مدینہ جا کر لوگوں کو ہمارے عزائم اور افرادی قوت کے متعلق بڑھا چڑھا کر معلومات دو اور اسے خوب مشہور کرو تا کہ ہمارا بھرم بھی رہ جائے اور مسلمان خود ہی ڈر کے مارے بدر کی طرف نہ آئیں۔ نُعَیم نے کہا اس کے بدلے مجھے کیا دو گے؟ ابوسفیان نے بیس اونٹوں کی پیشکش کی جو نُعَیم نے بخوشی قبول کر لی اور کہا کہ یہ انعام سُہَیل بن عَمرو کے سپرد کر دیا جائے۔ پھر مَیں اس کام کے لیے جاؤں گا۔ سہیل اس کا گہرا دوست تھا اس کی یقین دہانی پر نُعَیم چلنے کے لیے تیار ہو گیا۔ اسے تیز رفتار اونٹ دیا گیا تا کہ اس منصوبے کو جلد از جلد عملی جامہ پہنایا جائے۔ سوال نمبر۴:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نعیم بن مسعودکےمسلمانوں سے لشکرقریش کی جنگی تیاریوں کا تذکرہ کرنے کے حوالہ سے کیا بیان فرمایا ؟ جواب: فرمایا: نُعَیم نے رختِ سفر باندھا اور مدینہ کی طرف چل پڑا۔ اس نے عمرہ کر کے سر مونڈھ رکھا تھا۔ مدینہ کی طرف سرپٹ بھاگا جا رہا تھا۔ وہ فوراً مدینہ پہنچنا چاہتا تھا کہ کہیں اسلامی لشکر مدینہ سے چل نہ پڑے۔ چنانچہ جب وہ مدینہ پہنچا تو مسلمان بڑے جوش و خروش سے جہاد کی تیاری میں مصروف تھے۔ مسلمانوں نے اس سے پوچھا نُعَیم! کہاں سے آئے ہو؟ اس نے بتایا میں عمرہ کر کے مکہ سے آ رہا ہوں۔ انہوں نے کہا: پھر تو تمہیں ابوسفیان کے بارے میں علم ہو گا۔ اس کی جنگ کی تیاری کیسی ہے؟ اس نے کہا کہ ابوسفیان نے تو بہت سے لشکر اکٹھے کر لیے ہیں، سارا عرب اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ بڑا مبالغہ کیا اس نے۔ وہ اتنی بڑی فوج لے کر آ رہا ہے کہ اس کا مقابلہ کرنا تمہارے بس کی بات نہیں ہے۔ میری مانو تو تم لوگ مدینہ ہی میں ٹھہرے رہو۔ جنگ کے لیے مدینہ سے باہر مت جاؤ۔ وہ اتنے بڑے لشکر کے ساتھ حملہ آور ہونے والا ہے کہ اس سے صرف وہی بچ سکے گا جو بھاگ نکلے گا۔ تمہارے سرکردہ لوگ قتل کر دیے جائیں گے۔ خود محمد (ﷺ ) زخموں کی تاب نہ لا سکیں گے۔ کیا تم مدینہ سے نکل کر موت کے منہ میں جانا چاہتے ہو؟ افسوس تم نے اپنے لیے بہت برا فیصلہ کیا ہے۔ اللہ کی قسم! میں نہیں سمجھتا کہ تم میں سے کوئی بچ نکلے گا۔ بڑی مایوس کن باتیں کیں تا کہ وہ ڈر جائیں۔ اس نے باتوں کا ایسا بتنگڑ بنایا کہ کبھی ابوسفیان کی تیار کردہ سپاہ کی عددی کثرت کا تذکرہ، کبھی ان کے اسلحے کے ذخائر کابیان، کبھی رؤوسائے قریش کے جوش و خروش کی حکایت، کبھی ان کی خطرناک جنگی چالوں کی مدح سرائی۔ اس نے ایسی مہارت سے اپنی مہم چلائی کہ چند ہی روز میں مدینہ کی فضا خوف و ہراس سے مسموم ہو گئی۔ نُعَیم بن مسعود کی چال کارگر ثابت ہوئی۔ کمزور ایمان والے مسلمان اس کی افواہوں سے واقعی مرعوب ہو گئے حتیٰ کہ جو بھی بات کرتا وہ نُعَیم بن مسعود کے قول کی تصدیق کرتا تھا۔ ہر مجلس میں ابوسفیان کے لشکر جرار اور خوفناک تیاری کا ذکر چھڑاہوا تھا۔ مسلمانوں کی یہ حالت دیکھ کر یہود اور منافقین خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے اور ایک دوسرے کو یہ خوشخبری سنا رہے تھے کہ اب اسلام کے ماننے والوں کا وجود صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گا۔ مدینہ کی اس کیفیت کے وقت میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے عرض کی یار سول اللہؐ! اللہ تعالیٰ اپنے دین کو غالب کرے گا۔ اپنے نبی ﷺ کو عزت دے گا۔ ہم نے قوم کے ساتھ وعدہ کیا تھا اور ہم اس کی خلاف ورزی پسند نہیں کرتے۔ وہ یعنی کفار اسے بزدلی شمار کریں گے اگر ہم وہاں میدان میں نہ جائیں۔ آپ ﷺ وعدے کے مطابق تشریف لے چلیں۔ بخدا اس میں ضرور بھلائی ہے۔ یہ جذبات سن کر آپ ﷺ بہت خوش ہوئے اور فرمایا: وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِهٖ لَاَخْرُ جَنَّ وَإِنْ لَّمْ یخْرُجْ مَعِی أَحَدٌ۔ اس ذات کی قسم !جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں ضرور نکلوں گا خواہ میرے ساتھ ایک فردبھی نہ نکلے۔ مسلمانوں نے رسول اللہ ﷺ کا عزم اور ہمت اور حوصلہ دیکھا تو خوف و ہراس کی کیفیت ختم ہو گئی اور وہ جوش و خروش سے تیاری کرنے لگے۔ سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے غزوہ بدرالموعدکےلیےاسلامی لشکرکی روانگی اورلشکرقریش پرمسلمانوں کی ہیبت طاری ہونےکی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: بہرحال رسول اللہ ﷺ کو جب ابوسفیان کے لشکر کی تیاری کے بارے میں خبر ملی تو آپ ﷺ نے عبداللہ بن عبداللہ بن اُبَی بن سلول جو رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبَی کے مخلص اور جاںنثار بیٹے تھے، بڑے پکے مسلمان تھے ان کو اپنے پیچھے مدینہ کا امیر مقرر فرمایا۔ ایک روایت کے مطابق حضرت عبداللہ بن رَوَاحہ کو امیر مقرر کیا۔ بہرحال ہو سکتا ہے کہ مختلف کاموں کے لیے دونوں کو منتظم بنایا ہو یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ راوی کو عبداللہ کے نام سے شبہ پڑ گیا ہو۔ کسی نے عبداللہ بن عبداللہ کہہ دیا اور کسی نے عبداللہ بن رَوَاحَہ کا ذکر کر دیا۔ پھر آپ ﷺ نے اپنا جھنڈا حضرت علیؓ کو عطا فرمایا اور پندرہ سو صحابہؓ کے ہمراہ بدر کی جانب روانہ ہوئے۔ اس لشکر میں دس گھڑ سوار تھے۔ ایک گھوڑا رسول اللہ ﷺ کے لیے تھا۔ اس کے علاوہ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت ابوقتادہ ؓ، حضرت سعید بن زید ؓ، حضرت مِقْدَاد بن اسودؓ، حضرت حُبَابْ بن مُنْذِرؓ، حضرت زبیر بن عَوَّامؓ، حضرت عَبَّاد بن بِشرؓ کے پاس گھوڑے تھے۔ مسلمان اپنے تجارتی مال کے ساتھ بدر کی طرف نکلے۔ مسلمان تو حسبِ وعدہ بدر کے میدان میں پہنچ چکے تھے۔ البتہ دوسری طرف ابوسفیان نے سردارانِ قریش سے کہا کہ ہم نے نُعَیم بن مسعود کو بھیج دیا ہے وہ مسلمانوں کو سفر پر روانہ ہونے سے پہلے پست ہمت کر دے گا۔ وہ انتہائی کوشش کر رہا ہے لیکن ہم ایک یا دو راتوں کے لیے نکلیں گے پھر ہم واپس آ جائیں گے۔ اگر محمد ﷺ سفر کے لئے نہ نکلے تو ہم بڑے آرام سے کہہ دیں گے کہ ہم تو گئے تھے لیکن محمد ﷺ اور ان کے ساتھی ہی نہیں آئے اور اس طرح پر ہماری فتح ہو گی اور اگر وہ سفر کے لیے نکل پڑے تو ہم ظاہر کریں گے یہ قحط کا سال ہے۔ ہمارے لیے شادابی کا سال (نکلنے کے لیے) بہتر ہو گا اور یہ کہہ کر راستے سے ہی پلٹ آئیں گے۔ قریش نے کہا یہ اچھا مشورہ ہے۔ اس پر کفار کا لشکر ابو سفیان کی قیادت میں مکہ سے روانہ ہوا۔ ان کی تعداد دو ہزار تھی۔ ان میں سے پچاس گھڑسوار تھے۔ یہ لشکر وادی مَرُّالظَّہْرَان میں مَجَنَّہ نامی چشمہ پر خیمہ زن ہوا۔قحط سالی کے سبب قریش کے اقتصادی حالات واقعی خراب تھے اور ان کی آمدنی کے ذرائع کم ہو گئے تھے۔ اس لیے ان کو مقررہ وقت اور جگہ پر پہنچنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی یعنی بدر پر پہنچنے کی لیکن شرمندگی کے ڈر سے اس لشکر نے کوچ کیا۔ ان کا سپہ سالار مکہ سے ہی بوجھل اور بددل تھا۔ وہ بار بار مسلمانوں سے ہونے والی جنگ کا انجام سوچتا تھا اور ان کی ہیبت کے مارے لرز رہا تھا۔ مَرُّالظَّہْرَان پہنچ کر ا س کی ہمت جواب دے گئی اور وہ واپسی کے بہانے سوچنے لگا اور آخر کار اپنی فوج میں واپسی کا اعلان اور اس بات کی وضاحت کرنے کے لیے کھڑا ہوا۔ اس نے کہا کہ اے قریش کے لوگو! تمہارے لیے شادابی اور ہریالی کا سال جنگ کے لیے موزوں رہے گا تا کہ تم جانوروں کو بھی چَرا سکو اور خود بھی دودھ پی سکو۔ اس وقت خشک سالی ہے۔ لہٰذا مَیں واپس جا رہا ہوں تم بھی واپس چلے چلو۔ ابوسفیان کے اس فیصلے کی مخالفت کیے بغیر سب نے واپسی کی راہ لی اور کسی نے بھی سفر جاری رکھنے اور مسلمانوں سے جنگ کی رائے نہ دی۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پورے لشکر کے اعصاب پر مسلمانوں کی ہیبت چھائی ہوئی تھی۔ سوال نمبر۶: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے غزوہ دومۃالجندل کےمقاصدکی بابت کیا بیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے سامنے اس غزوہ کے کئی مقاصد تھے۔ یہ بجائے خود جنگ نہ تھی تاہم اس سے جزیرہ نمائے عرب کے شمال کے حالات سے باخبر رہنے اور دیکھ بھال کا موقع میسر آیا۔ جزیرہ نمائے عرب میں قوت کے اصل مراکز کا کھوج بھی اس کے اہداف میں شامل تھا۔ اس کے ساتھ غزوۂ دومة الجندل اپنے نتائج و ثمرات کے اعتبار سے بھی بہت مفید ثابت ہوا۔ سارے علاقے کا پتہ بھی لگ گیا اور یہی مقصد تھا کہ علاقے کا پتہ لگ جائے اور جو ظلم ہو رہا ہے اس کو بھی دُور کیا جائے۔ بہرحال یہ لکھتا ہے کہ عملاً نہ ہونے والی یہ جنگ رحمتِ ربّانی سے مسلمانوں کے لیے آئندہ کی فتح و نصرت کے نتائج سمیٹ رہی تھی۔ یہ ایک عسکری کارروائی تھی جو درحقیقت مستقبل کی ممکنہ جنگ کا سدِّباب تھی۔ اصل میں توجنگ ہو سکنے کا جو امکان تھا اس کو روکنے کے لیے یہ کارروائی تھی کیونکہ اس علاقے کے بہت سارے عربی قبائل مدینہ پر چڑھائی کا ارادہ رکھتے تھے۔ علاوہ ازیں یہ ایک سیاسی جنگ بھی تھی جس نے ان قبائل کی ممکنہ حملہ آوری کو روکا جو جنگِ احد میں مسلمانوں کی عارضی شکست سے فائدہ اٹھا کر مدینہ پر چڑھ دوڑنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ اس جنگ کا ایک مقصد عربوں کی نفسیاتی مرعوبیت کو دُور کرنا بھی تھا کہ وہ کبھی سلطنت روم سے جنگ نہیں کر سکتے۔ صرف ایک نہیں بلکہ عربوں پہ ان کا جو یہ نفسیاتی اثر قائم ہوا تھا کہ سلطنت روم سے ہم کبھی مقابلہ نہیں کر سکتے وہ بھی اس کارروائی سے دور ہوگیا۔ انہیں عملاً یقین دہانی کرانی بھی مقصود تھی کہ ان کا پیغام عالمی ہے صرف عرب تک محدود نہیں۔ اس کارروائی نے مسلمانوں کو یہ تسلّی بھی کروادی۔ ان اچانک اور فیصلہ کن اقدامات اور حکیمانہ تدبیر پر مبنی منصوبوں کے ذریعہ نبی ﷺ نے اسلامی ریاست میں امن و امان بحال کرنے اور صورتحال پر قابو پانے میں کامیابی حاصل کی اور وقت کی رفتار کا رخ مسلمانوں کے حق میں موڑ لیا اور مسلسل پیش آنے والی اندرونی اور بیرونی مشکلات کی شدّت کم کی جو ہر جانب سے انہیں گھیرے ہوئے تھی۔ بہت سارے لوگ جو مخالفین تھے وہ بھی اس کارروائی سے باز آگئے۔ اندرونی طور پر منافقین بھی اس سے باز آ گئے چنانچہ منافقین خاموش اور مایوس ہو کر بیٹھ گئے۔ عرب کے بدو ڈھیلے پڑ گئے اور مسلمانوں کو اسلام پھیلانے اور ربّ العالمین کے پیغام کی تبلیغ کرنے کا موقع میسر آ گیا۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب