آسٹریلیا میں غزہ کے حق میں تاریخی احتجاج سڈنی میں ماہ اگست میں غزہ کے حق میں تاریخی احتجاج ہوئے۔ پہلا احتجاج ۳؍اگست ۲۰۲۵ء کو ہواجس میں لاکھوں افراد شامل ہوئے۔ March for Humanity کے موضوع سے یہ احتجاجی ریلی ہاربر برج پر نکالی گئی جس میں شریک مظاہرین نے فلسطینی عوام سے یکجہتی کا بھرپور اظہار کیا۔ نیو ساؤتھ ویلز پولیس کے مطابق اس مارچ میں کم از کم ۹۰؍ہزار افراد شریک ہوئے، تاہم منتظمین اور آزاد ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ تعداد دو سے تین لاکھ کے درمیان تھی۔ مظاہرین میں بڑی تعداد میں نوجوان، خواتین، بچے اور خاندان شامل تھے۔ شرکاء نے ہاتھوں میں فلسطینی پرچم اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر ‘‘Ceasefire Now’’ و ‘‘Free Palestine’’ اور ‘‘Stop the Genocide’’ جیسے نعرے درج تھے۔ کئی افراد نے برتن اور پتیلیاں بجا کر غزہ میں بھوک اور جبری قحط کی علامتی عکاسی کی۔ ان مظاہرین کے تین مطالبات تھے۔ ٭…اسرائیل کی نسل کشی فوری طور پر روکی جائے۔ ٭…غزہ میں خوراک اور امداد کی رسائی یقینی بنائی جائے۔ ٭…آسٹریلوی حکومت اسرائیل پر اقتصادی و سفارتی پابندیاں عائد کرے۔ اس احتجاج میں وکی لیکس کے بانی جولیان آسانج نے بھی شرکت کی۔ اس کے علاوہ سڈنی کی میئر کلور مور، گرینز پارٹی کی سینیٹر مہرین فاروقی، سابق وزیر خارجہ باب کار اور سماجی کارکن و سابق کھلاڑی کریگ فوسٹر بھی مظاہرین کے ہمراہ تھے۔مظاہرے کے دوران بارش اور تیز ہوا بھی چلتی رہی مگر مظاہرین بدستور اپنے نعروں اور جوش کے ساتھ کھڑے رہے۔ سڈنی کے بعد میلبرن، پرتھ، ایڈیلیڈ، کینبرا، ہوبارٹ اور برسبین سمیت چالیس سے زائد شہروں میں ۲۴؍اگست کو فلسطینی عوام کے حق میں بڑے مظاہرے ہوئے۔ منتظمین کے مطابق ان ملک گیر احتجاجی مظاہروں میں مجموعی طور پر تین لاکھ سے زیادہ افراد شریک ہوئے۔غزہ کے حق میں یہ سب سے بڑا احتجاج سمجھا جا رہا ہے۔ حکام کے تحفظات اور ٹریفک کی بےترتیبی کی بنیاد پر اس احتجاج کو رکوانے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست بھی دائر کی گئی تھی جو مسترد کردی گئی ۔ یہ مظاہرے ایسے وقت میں ہوئے جب اقوام متحدہ کے ادارے غزہ میں قحط کے خطرے کی شدید وارننگ جاری کرچکے ہیں۔ اسی دوران دنیا کے دیگر ممالک جیسے برطانیہ، بیلجیم، فن لینڈ، جنوبی کوریا اور حتیٰ کہ اسرائیل کے شہر تل ابیب میں بھی فلسطین کے حق میں احتجاجی مظاہرے دیکھنے میں آئے۔ شمالی کوریا کے صدر کی روس یوکرائن جنگ میں مرنے والے فوجیوں کے اعزاز میں تقریب شمالی کوریا کے راہنما کم جونگ ان نے ان فوجیوں کو اعزازات سے نوازا جو یوکرائن کے خلاف روس کے ساتھ مل کر لڑے۔ ۲۱؍اگست کو پیانگ یانگ میں ایک خصوصی تقریب میں کم جونگ اُن نے روس کے لیے لڑنے والے شمالی کوریا کے فوجیوں کو تمغے عطا کیے اور انہیں گلے لگایا۔ انہوں نے ان کی قربانیوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ ان کی جنگی سرگرمیوں نے ’’کورسک کی آزادی‘‘ میں اہم کردار ادا کیا۔ اس موقع پرصدر کِم نے مرنے والے فوجیوں کے بچوں کو گلے لگایا اور ان کے اہلِ خانہ سے تعزیت کی۔ تقریب میں ایک یادگاری دیوار پر مرنے والے فوجیوں کے نام درج کیے گئے اور ایک کنسرٹ و ضیافت کا اہتمام بھی کیا گیا۔ جنوبی کوریا کے انٹیلی جنس حکام کے مطابق، تقریباً پندرہ ہزار فوجی تعینات کیے گئے جن میں سے تقریباً ۶۰۰؍ہلاک ہوئے۔ اسی طرح ۲۹؍اگست کو کم جونگ اُن نے اس جنگ میں مرنے والے فوجیوں کے اہلِ خانہ سے ملاقات کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم ان کے بچوں کو ایک خوبصورت زندگی فراہم کریں گے اور ان کی قربانیوں کو قومی فخر قرار دیا۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے حال ہی میں ایک خط میں ان فوجیوں کو ہیرو قرار دیا تھا۔یہ ملاقات روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ چین میں ہونے والی ایک اہم فوجی پریڈ سے قبل ہوئی۔ جون ۲۰۲۴ء میں روس اور شمالی کوریا کے درمیان ایک جامع دفاعی شراکت داری کا معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت شمالی کوریا نے روس کو فوجی امداد فراہم کی جس میں پندرہ ہزار فوجیوں کی تعیناتی اور خودکار توپوں کی فراہمی شامل ہے۔ اس کے بدلے میں روس نے شمالی کوریا کو جدید فوجی ٹیکنالوجی اور اقتصادی امداد فراہم کی۔ شمالی کوریا نے اپریل ۲۰۲۵ء میں پہلی بار تصدیق کی تھی کہ اس نے روس کی مدد کے لیے فوجی بھیجے ہیں۔ اس عسکری تعاون پر بین الاقوامی سطح پر تشویش پائی جاتی ہے۔ امریکہ اور جنوبی کوریا نے اس تعاون کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ تاہم چین اور روس نے اس شراکت داری کا دفاع کیا ہے، جس سے بین الاقوامی تعلقات میں تناؤ بڑھ رہا ہے۔ تھائی لینڈ کی وزیر اعظم کے بارے میں آئینی عدالت کا فیصلہ تھائی لینڈ کی وزیراعظم پیتونگٹارن شیناوترا ۲۹؍اگست ۲۰۲۵ء کو آئینی عدالت کے فیصلے کے بعد اپنے عہدے سے برطرف ہو گئیں۔ یہ فیصلہ ایک لیک ہونے والی فون کال کے نتیجے میں آیا، جس میں انہوں نے کمبوڈیا کے سابق وزیراعظم ہن سین کو ’’چچا‘‘ کہہ کر مخاطب کیا تھا اور سرحدی جھڑپوں میں تھائی فوجی کمانڈر کی تنقید کی تھی۔ عدالت نے اس بات کو قومی مفادات کے خلاف قرار دیتے ہوئے اخلاقی بدعنوانی کا مرتکب قرار دیا۔ فیصلہ ۶-۳ کی اکثریت سے آیا، اور اس کے بعد نائب وزیرِ اعظم فوم تھام ویچیاچائی کو عبوری وزیراعظم مقرر کیا گیاہے۔ شیناوترا کو قومی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دینے کے الزام پر عہدے سے برطرف کر دیا، وہ صرف ایک سال ہی اقتدار میں رہ سکیں، عدالتی فیصلہ مشکلات کا شکار شیناوترا سیاسی خاندان کے لیے ایک اور تباہ کن دھچکا ہے۔ پیتونگاترن تھائی لینڈ کی سب سے کم عمر وزیراعظم تھیں، وہ چھٹی شخصیت بن گئی ہیں جنہیں فوج یا عدلیہ کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے ہٹایا گیا۔ وہ سابق وزیراعظم تھاکسن شیناوترا کی بیٹی اور سیاسی جانشین سمجھی جاتی تھیں۔ انڈونیشیا میں شدید مظاہرے اور احتجاج انڈونیشیا میں پارلیمانی اراکین کے لیے بھاری الاؤنسز کے اعلان کے بعد شروع ہونے والے احتجاج نے خطرناک رُخ اختیار کر لیا ہے۔ ملک بھر میں پھیلنے والے مظاہروں میں اب تک دس افراد ہلاک، سینکڑوں زخمی اور ہزاروں گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ احتجاج کا آغاز ۲۵؍اگست کو اس وقت ہوا جب انکشاف سامنے آیا کہ ارکانِ پارلیمنٹ کو ماہانہ پچاس ملین روپیہ ہاؤسنگ الاؤنس دیا جا رہا ہے، جو عام شہریوں کی کم از کم اجرت سے کئی گنا زیادہ ہے۔ صورتحال اس وقت بگڑ گئی جب ۲۱؍سالہ ڈلیوری ڈرائیور عفان کرنیاؤن جکارتہ میں پولیس کی بکتر بند گاڑی تلے آکر ہلاک ہو گیا۔ اس واقعے نے مظاہروں کو مزید بھڑکا دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے بندونگ، یوگیاکارتا، ماکاسر اور دیگر شہروں میں فسادات پھیل گئے۔ مشتعل ہجوم نے سرکاری عمارتوں اور پولیس اسٹیشنز کو آگ لگا دی جبکہ ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔ فسادات کے نتیجے میں صرف سرکاری املاک کو ہی نو صد ارب روپیہ (تقریباً ۵۳؍ملین ڈالر) کا نقصان پہنچا ہے۔ ٹرانس جاکرتا اسٹیشنز، سڑکیں اور دیگر عوامی سہولیات تباہ ہو چکی ہیں جبکہ کاروباری سرگرمیاں بھی بری طرح متاثر ہوئیں۔ عوامی دباؤ کے تحت حکومت نے الاؤنسز میں کمی اور ارکان پارلیمنٹ کے بیرون ملک دوروں پر پابندی لگا دی، عفان کرنیاؤن کی ہلاکت میں ملوث افسر کو برطرف کر دیا گیا اور تفتیش جاری ہے۔ تاہم مظاہرین اس پر مطمئن نہیں ۔ مظاہروں میں سیاست دانوں کے سرکاری املاک اور گھروں کو جلانے اور لوٹ مار کے واقعات کے بعد صدر نے مزید فوج اور پولیس کو سڑکوں پر تعینات کر دیا۔ اسی طرح سینکڑوں خواتین نے گلابی اور سیاہ لباس میں جھاڑو اٹھائے ہوئے جکارتہ میں ملک گیر احتجاج کے خلاف پُرتشدد کریک ڈاؤن کے بعد سیکیورٹی فورسز میں اصلاحات کے لیے ریلی نکالی۔ خواتین مظاہرین پارلیمنٹ کے احاطے میں جمع ہوئیں جو ’پولیس میں اصلاحات کرو‘ اور ’ریاستی تشدد بند کرو‘ کے نعرے لگا رہی تھیں۔ احتجاج کے منتظمین کے مطابق جھاڑو ریاستی بدعنوانی اور سیکیورٹی فورسز کے ظلم کو صاف کرنے کی علامت ہے۔ وینزویلا کے صدر مادورو کو چینی صدر شی جن پنگ کی طرف سے فون کا تحفہ وینزویلا کے صدر نکولس مادورو نے ایک پریس کانفرنس کے دوران ہواوے (Huawei) کا سمارٹ فون دکھایا جو چینی صدر شی جن پنگ نے انہیں بطور تحفہ دیا ہے۔ مادورو نے خاص طور پر فون کے سیکیورٹی فیچرز کو اجاگر کیا اور دعویٰ کیا کہ اسے امریکی انٹیلی جنس، جاسوس طیارے، یا سیٹلائٹ ہیک نہیں کر سکتے ۔ انہوں نے اس فون کے بارے میں کہا کہ میں سب کچھ اسی فون کے ذریعے جانتا ہوں جو شی جن پنگ نے مجھے دیا اور ہواوے، دنیا کا سب سے بہترین فون ہے اور امریکی اسے ہیک نہیں کر سکتے—نہ اُن کے جاسوس طیارے، نہ اُن کے سیٹلائٹ۔ یہ واقعہ ایک ایسے موقع پر سامنے آیا جب امریکہ اور وینزویلا کے تعلقات میں شدید کشیدگی پائی جا رہی تھی، جیسا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے مادورو کے خلاف مالی اور عدالتی دباؤ بڑھا دیا ہے۔ تحفہ دیا جانے والا موبائل فون چینی ٹیکنالوجی کمپنی ہواوے کا سمارٹ فون ہے۔ مادورو نے اس کی سیکیورٹی خصوصیات اور جزئیات پر زور دیا، اسے ’’غیر ہیک ایبل‘‘ قرار دیا یعنی اسے امریکی انٹیلی جنس یا نگرانی کے زیر اثر نہیں سمجھا جاتا۔ تائیوان میں اگست کی اہم پیش رفت اگست ۲۰۲۵ء تائیوان کے لیے دفاعی، سیاسی اور سماجی لحاظ سے نہایت اہم اور ہلچل بھرا مہینہ ثابت ہوا۔ اس دوران چین کے ساتھ بڑھتی کشیدگی، دفاعی بجٹ میں اضافہ، قدرتی آفات اور عوامی رائے کے بڑے فیصلے منظرعام پر آئے۔ ماہ اگست کے آخری ہفتے میں امریکی سینیٹرز روجر وکر اور ڈیب فشر نے تائیوان کا دورہ کیا۔ دونوں راہنماؤں نے صدر لائی چنگ ٹے سے ملاقات کے دوران مشترکہ دفاعی تعاون اور ہتھیاروں کی تیاری پر بات چیت کی۔ اس موقع پر امریکی سینیٹر نے کہا کہ مستقبل میں ڈرونز سمیت دفاعی سامان کی مشترکہ پیداوار کا امکان موجود ہے۔ بیجنگ نے اس دورے کو سختی سے تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے ’’چین کے داخلی معاملات میں مداخلت‘‘ قرار دیا۔صدر لائی چنگ ٹے نے اعلان کیا کہ ۲۰۳۰ء تک دفاعی بجٹ کو مجموعی جی ڈی پی کے پانچ فیصد تک بڑھایا جائے گا، جو اس وقت ۳.۳؍فیصد کے قریب ہے۔ حکومتی اعلان کے مطابق اس میں کوسٹ گارڈ کا بجٹ بھی شامل کیا جائے گا تاکہ خطے میں بڑھتے خطرات کا مؤثر مقابلہ کیا جا سکے۔ ۲۳؍اگست کو ہونے والے عوامی ریفرنڈم میں جنوبی حصے کے Maanshan نیوکلیئر پلانٹ کو دوبارہ فعال کرنے کی تجویز اکثریتی ووٹ لینے کے باوجود ناکام رہی۔ قانونی حد پوری نہ ہونے کی وجہ سے پلانٹ کو کھولنے کی منظوری نہ مل سکی۔ صدر لائی نے عندیہ دیا کہ مستقبل میں محفوظ اور جدید نیوکلیئر توانائی کے منصوبوں پر غور کیا جا سکتا ہے۔ ماہ اگست میں تائیوان کو شدید قدرتی آفات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ۱۳؍اگست کو ٹائفون Podul نے مشرقی صوبے تائی تنگ کو نشانہ بنایا جس میں ایک شخص لاپتا، ایک سو سے زائد زخمی اور ہزاروں افراد بے گھر ہوئے۔ اسی طرح ۲۷؍اگست کو شمال مشرقی ساحل پر چھ شدت کے زلزلے نے خوف و ہراس پھیلایا، تاہم بڑے پیمانے پر جانی نقصان نہیں ہوا۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: شیعہ علم الکلام کی رو سے امام مہدی کو ماننا ضروری ہے