سخن میں اے خدا الفاظ اور جذبات مل جائیںہمیں ذکر محمدﷺ کے حسیں لمحات مل جائیں وہ جن کے نور کی بارش سے عالم جگمگاتے ہیںنگاہوں کو ہماری کچھ گہر خیرات مل جائیں ہماری روح تک سیراب ہو جائے گی اے ساقیاگر کچھ گھونٹ کوثر سے ہمیں سوغات مل جائیں ترے پاؤں کی مٹی کو بنالوں آنکھ کا سرمہاگر اس خاکِ پا کے قیمتی ذرات مل جائیں وہ جن میں نور کی مشکیں ملائک لے کے آتے ہیںمرے مولا ہمیں وہ دلنشیں اوقات مل جائیں نہیں ممکن بجھا پائیں کبھی وہ نور مصطفویؐشریروں منکروں کے گر سبھی طبقات مل جائیں یہ صدیقوں، شہیدوں، انبیاء والے سبھی رُتبےاطاعت کا ہی پھل ہیں جس کو جو ثمرات مل جائیں ہمیں ملتے رہیں تازہ ثمر بستانِ احمد سےتو اس دنیا میں ہی جنت کے میوہ جات مل جائیں ظفرؔ کو بھی ملے قدموں میں تھوڑی سی جگہ ان کےتو اس احقر کو عالم کے سبھی درجات مل جائیں (مبارک احمد ظفرؔ)