سوال: اس وقت جو مولوی ہیں کیا اُن کو اولوالامر سمجھیں؟ جواب: اوخویشتن گم است کرارہبری کند۔ اصل بات یہ ہے کہ جب تک اﷲ تعالیٰ کسی کی آنکھ نہ کھولے آنکھ کھلتی نہیں۔ ان لوگوں نے دین صرف چند رسوم کا نام سمجھ رکھاہے۔حالانکہ دین رسوم کا نام نہیں ہے۔ ایک زمانہ وہ ہوتا ہے جبکہ یہ باتیں محض رسم اور عادت کے طور پرسمجھی جاتی ہیں یہ لوگ اسی قسم کے ہو رہے ہیں۔ آنحضرت ﷺکے زمانہ میں جن کو نماز اور روزہ سکھایا گیا تھا ان کا اور مذاق تھا وہ حقیقت کو لیتے تھے اور اسی لیے جلد مستفیض ہوتے تھے۔ پھر مدت کے بعد وہی نماز اور روزہ جو اعلیٰ درجہ کی طہارت اور خدا رسی کا ذریعہ تھا ایک رسم اور عادت سمجھا گیا۔ پس اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان اصل امر دین کو جو مغز ہے تلاش کرے۔(ملفوظات جلد ہفتم صفحہ۲۱۵۔ ایڈیشن۲۰۲۲ء) تفصیل: اس حصہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فارسی کا یہ مصرع استعمال کیا ہے۔ اُوْ خِوْیشْتَن گُمْ اَسْت کِرَا رَہْبَری کُنَدْ ترجمہ :وہ تو خود ہی گمراہ ہے کسی کی راہنمائی کیا کرے گا۔ ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ’’اُوْخُوْد گُمْ اَسْت کِرَا رہبری کند‘‘ بھی استعمال کیا ہے،یعنی ایک جگہ ’’خود‘‘جبکہ دوسری جگہ ’’خویشتن ‘‘کا لفظ استعمال کیا ہے اس سے ذہن نشین رہے کہ دونوں یعنی ’’خود‘‘ اور ’’خویشتن‘‘ کا ایک ہی مطلب ہے۔ ملفوظات میں مذکور فارسی مصرع گلستان سعدی میں آمدہ ایک حکایت کے شعر کا ایک مصرع ہے۔جس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ مکمل شعر اور حکایت: گلستان سعدی کا دوسرا باب ’’درویشوں کے اخلاق ‘‘کے بارہ میں ہے۔اس میں حکایت ہے۔ ایک فقیہ نے اپنے والد سے کہا واعظوں کی ان رنگین باتوں کا میرے دل پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ کیونکہ میں ان کا عمل قول کےمطابق نہیں دیکھتاہوں۔دنیا کو ترکِ دنیا کا سبق پڑھاتے ہیں۔ خود چاندی اور غلہ جمع کرتے ہیں۔ جس عالم کا صرف کہنا ہی کہنا ہو وہ جو کچھ کہے گا اس کا اثر کسی پر نہ ہوگا۔عالم تو وہ ہے جو برے کام نہ کرے۔نہ یہ کہ مخلوق کو کہتا رہےاور خود عمل نہ کرے۔اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّوَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ۔کیا تم لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنی ذاتوں کو بھولتے ہو۔ عَالِم کِہْ کَامْرَانِیْ و تَنْ پَرْوَرِی کُنَدْ اُوْ خِویْشْتَن گُمْ اَسْت کِرَا رَھْبَرِیْ کُنَدْ ترجمہ: وہ عالم جو عیش وتن پروری کرے۔ وہ تو خود ہی گمراہ ہے کسی کی کیا رہنمائی کرے گا۔ باپ نے کہا اے بیٹے!محض اس باطل خیا ل کی وجہ سے نصیحت کرنے والوں کی تربیت سے روگردانی نہ کرنی چاہیے۔اور علماء کو گمراہی کی طرف منسوب کرنا اور معصوم عالم کی تلاش میں علم کے فوائد سے محروم رہنا اس اندھے کی طرح ہے کہ جو ایک رات کیچڑ میں پھنس گیا تھا۔اور کہہ رہا تھا۔ اے مسلمانوں !میرے راستہ میں ایک چراغ رکھ دو۔ایک خوش مزاح عورت نےسنا اور کہا۔جب تجھے چراغ ہی نظر نہیں آتا تو چراغ سے کیا دیکھے گا ؟اسی طرح وعظ کی مجلس بزّاز کی دکان کی طرح ہے۔وہاں جب تک نقد نہ دوگے سامان نہیں لے سکتے ہو۔اور اس مجلسِ وعظ میں جب تک عقیدت سے نہ آؤگے کوئی نیک بختی نہ حاصل کرسکو گے۔عالم کی بات دل سے سنو اگرچہ اس کا عمل قول کی مانند نہ ہو۔ڈینگیں مارنے والا یہ غلط کہتا ہے کہ سویا ہوا سوئے ہوئے کو کب بیدار کر سکتاہے۔ انسان کو چاہیے کہ کان میں ڈال لے اگرچہ نصیحت دیوار پر لکھی ہو۔ ایک صاحب دل خانقاہ سے مدرسہ میں آگیا درویشوں کی صحبت کے عہد کو توڑ کر۔میں نے دریافت کیا عالم اور عابد میں کیا فرق ہے کہ تم نے اس فریق کو چھوڑ کر اس فریق کو پسند کیا۔اس نے کہا وہ اپنی گدڑی موج سے بچا کر لے جاتاہے اور یہ کوشش کرتاہے کہ ڈوبنے والے کی دستگیری کرے۔ لغوی بحث: اُوْ(وہ) خِوْیشْتَنْ (خود)ضمیر مشترک۔ گُمْ اَسْت(گمراہ ہے) کِرَا(کس کی) رَہْبَری کُنَدْ(راہنمائی کرتاہے؍ کرےگا) رَہْبَرِیْ کَرْدَنْ (رہنمائی کرنا)مصدر سے مضارع سادہ سوم شخص مفرد۔ مزید پڑھیں: تنویرِ افکار اور تقویٰ قلب