(خطبہ جمعہ فرمودہ ۳۱؍مئی۲۰۲۴ء بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے) سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب:فرمایا: ایک سریہ کے ذکر میں حضرت خبیبؓ کے شہید کیے جانے کا ذکر ہو رہا تھا۔ سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت خبیبؓ کی شہادت کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: ایک روایت میں ہے کہ قریش نے حضرت خبیبؓ سے کہا کہ اگر تم اسلام سے رجوع کر لو تو ہم تمہارا راستہ چھوڑ دیں گے لیکن اگر تم نے رجوع نہ کیا تو ہم تمہیں قتل کردیں گے۔ حضرت خبیبؓ نے کہا:اللہ کے راستے میں میرا قتل تو ایک معمولی بات ہے۔پھر گویا ہوئے: اے اللہ! یہاں کوئی ایسا نہیں جو اس وقت تیرے رسولؐ تک میرا سلام پہنچا دے اس لیے اے خدا! تُو خود آنحضرت ﷺ کو میرا سلام پہنچا دے اور آپؐ کو بتا دے جو یہاں ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔حضرت اسامہ بن زیدؓ سے روایت ہے کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہؓ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ رسول اللہ ﷺ پر وہ کیفیت طاری ہوئی جو وحی نازل ہونے کے وقت طاری ہوا کرتی تھی۔ ہم نے آپؐ کو فرماتے ہوئے سنا: وَعَلَیْہِ السَّلَامُ وَرَحْمَةُاللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ۔ یعنی اُس پر بھی سلامتی اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں۔ پھر جب آپ ﷺ پر سے وحی کے آثار ختم ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا :یہ جبرئیل تھے وہ مجھے خبیب کا سلام پہنچا رہے تھے۔خبیب کو قریش نے قتل کر دیا۔ روایت ہے کہ قریش نے ایسے چالیس آدمیوں کو حضرت خبیبؓ کے قتل کے وقت بلایا جن کے باپ دادا جنگِ بدر میں قتل ہوئے تھے۔ پھر قریش کے ان لوگوں میں سے ہر ایک کو ایک ایک نیزہ دے کر کہا کہ یہی وہ شخص ہے جس نے تمہارے باپ داد ا کو قتل کیا تھا۔تو ان لوگوں نے خبیب کو اپنے نیزوں کے ساتھ ہلکی ہلکی ضربیں لگائیں اس پر حضرت خبیبؓ صلیب پر بے چین ہونے لگے۔ پھر خبیب پلٹے تو ان کا چہرہ کعبہ کی طرف ہو گیا۔ انہوں نے کہا :تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے میرے چہرے کو اپنے قبلہ کی جانب کر لیا جو اس نے اپنے لیے پسند کیا ہے۔پھر مشرکین نے خبیب کو قتل کر دیا۔ سوال نمبر۳:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت خبیبؓ کی شہادت کی بابت حضرت مرزابشیراحمدصاحبؓ کاکیاموقف بیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس کےبارےمیں لکھا ہے کہ ’’رؤسائے قریش کی قلبی عداوت کے سامنے رحم وانصاف کا جذبہ خارج از سوال تھا۔ چنانچہ ابھی زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ بنو الحارث کے لوگ اوردوسرے رؤساء قریش خبیب کو قتل کرنے اوراس کے قتل پر جشن منانے کے لئے اسے ایک کھلے میدان میں لے گئے۔ خبیب نے شہادت کی بُو پائی تو قریش سے الحاح کے ساتھ کہا کہ مرنے سے پہلے مجھے دو رکعت نماز پڑھ لینے دو۔ قریش نے جو غالباً اسلامی نماز کے منظر کو بھی اس تماشہ کاحصہ بنانا چاہتے تھے اجازت دے دی اور خبیب نے بڑی توجہ اورحضورِقلب کے ساتھ دو رکعت نماز ادا کی اور پھر نماز سے فارغ ہوکر قریش سے کہاکہ ’’میرا دل چاہتا تھا کہ مَیں اپنی نماز کو اَور لمبا کروں، لیکن پھرمجھے یہ خیال آیا کہ کہیں تم لوگ یہ نہ سمجھو کہ مَیں موت کو پیچھے ڈالنے کے لئے نماز کو لمبا کر رہا ہوں۔‘‘اور پھر خبیب یہ اشعار پڑھتے ہوئے آگے جھک گئے وَمَا اَنْ اُبَالِیْ حِیْنَ اُقْتَلُ مُسْلِمًا عَلٰی اَیِّ شِقٍّ کَانَ لِلّٰہِ مَصْرَعِی وَذَالِکَ فِیْ ذَاتِ الْاِلٰہِ وَاِنْ یَّشَاء یُبَارِکْ عَلٰی اَوْصَالِ شَلْوٍ مُمَزَّعِ یعنی ’’جبکہ مَیں اسلام کی راہ میں اورمسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جارہا ہوں تو مجھے یہ پرواہ نہیں ہے کہ مَیں کس پہلو پرقتل ہوکر گروں۔ یہ سب کچھ خدا کے لئے ہے اور اگر میرا خدا چاہے گا تو میرے جسم کے پارہ پارہ ٹکڑوں پر برکات نازل فرمائے گا۔‘‘ غالباً ابھی خبیب کی زبان پران اشعار کے آخری الفاظ گونج ہی رہے تھے کہ عقبہ بن حارث نے آگے بڑھ کر وار کیا اور یہ عاشقِ رسولؐ خاک پر تھا۔ دوسری روایت میں یہ ہے کہ قریش نے خبیب کوایک درخت کی شاخ سے لٹکا دیا تھا اورپھر نیزوں کی چوکیں دے دے کر قتل کیا۔‘‘ سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے مخالفین کے بارے میں حضرت خبیبؓ کی دعا اور اس دعا کے نتیجے میں مشرکین کےانجام کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: اس بارے میں علامہ ابن حجر عسقلانی جو بخاری کے شارح ہیں وہ سریہ رجیع کے تحت ایک حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ خبیب نے شہادت کے وقت یہ دعا مانگی کہ اَللّٰهُمَّ أَحْصِهِمْ عَدَدًا۔ کہ اے اللہ! ان دشمنوں کی گنتی کو شمار کر رکھ۔ یہ جو میرے دشمن ہیں ان کی گنتی کر لے تا کہ ان سے بدلہ لے سکے اور ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ وَاقْتُلْهُمْ بَدَدًا وَلَا تُبْقِ مِنْھُمْ اَحَدًا۔ اور انہیں چُن چُن کر قتل کر اور ان میں سے کسی ایک کو بھی باقی نہ چھوڑ۔جب حضرت خبیب ؓقتل کیے جانے کے لیے تختہ پر چڑھے تو اس وقت انہوں نے یہ دعا کی تھی۔ ایک مشرک نے جب یہ دعا سنی کہ اَللّٰهُمَّ أَحْصِهِمْ عَدَدًا وَاقْتُلْهُمْ بَدَدًا۔یعنی اے اللہ! ان کی گنتی کو شمار کر رکھ اور ان کو چُن چُن کر قتل کر تو وہ خوف سے زمین پر لیٹ گیا۔ کہتے ہیں کہ ابھی ایک سال نہیں گزرا تھا کہ سوائے اس کے جو زمین پر لیٹ گیا حضرت خبیبؓ کے قتل میں شریک تمام لوگ زندہ نہ رہے اور سب ختم ہو گئے… ایک سیرت نگار اس حوالے سے لکھتا ہے کہ مشرکین خبیب کی زبان سے یہ کلمات سُن کر کانپ اٹھے۔ انہیں یقین تھا کہ خبیب کی یہ بددعا رائیگاں نہیں جائے گی۔ حارث بن بَرصَاء وہاں موجود تھے۔ وہ ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ خبیب کی بددعا سنتے ہی مجھے یقین ہو گیا کہ اب یہ بددعا ان میں سے کسی کو بھی زندہ نہیں چھوڑے گی۔یہی وجہ ہے کہ یہ بددعا سن کر وہاں موجود کافروں اور مشرکوں میں سے بعض لوگ کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر فرار ہوگئے ،کچھ لوگوں کے پیچھے چھپنے لگے،یعنی بددعا کے اثر سے بچنے کے لیے اپنے رواج کے مطابق ایک دوسرے کے پیچھے چھپنے لگ گئے،کچھ درختوں کی اوٹ میں ہو گئے اور کچھ زمین پر لیٹ گئے۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح ہم اس بددعا سے محفوظ رہیں گے۔ ان کے ہاں روایتی طور پر یہ بات مشہور تھی کہ اگر کسی آدمی کے لیے بددعا کی جائے اور وہ پہلو کے بل لیٹ جائے تو اس بددعا کا اثر ختم ہو جاتا ہے۔حضرت معاویہ بن ابوسفیانؓ اپنے اور اپنے والد کے اسلام قبول کرنے سے پہلے کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ دوسرے لوگوں کی طرح مَیں بھی اپنے والد کے ساتھ اس جگہ پہنچا تھا۔ مَیں نے دیکھا کہ میرے والد خبیب کی بددعا سے گھبرا گئے۔ انہوں نے مجھے لٹانے کے لیے بہت زور سے زمین کی طرف گھسیٹا۔ مَیں پیٹھ کے بل گرا۔ گرنے کی وجہ سے مجھے اتنی زبردست چوٹ لگی کہ مَیں بڑی مدت تک اس کی تکلیف محسوس کرتا رہا۔حُوَیطِبْ بِن عَبْدُالْعُزّیٰ فتح مکہ والے سال مسلمان ہوئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت خبیبؓ کی بددعا سنتے ہی مَیں نے فورا ًکانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور بھاگ نکلا۔ مَیں ڈر رہا تھا کہ مبادا ان کی بددعا کی آواز میرے کانوں کے تعاقب میں آ جائے۔ حکیم بن حِزَام بیان کرتے ہیں کہ مَیں حضرت خبیبؓ کی بددعا سے ڈر کر درختوں کے پیچھے چھپ گیا۔ جُبَیر بن مُطْعِم کہتے ہیں کہ مَیں اُس دن حضرت خبیبؓ کی بددعا کا سامنا کرنے کا حوصلہ نہ کر سکا۔ مَیں نے خوفزدہ ہو کر لوگوں کی آڑ لے لی۔ نوفل بن مُعَاویہ دِیلِی فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس دن میں خبیب کی بددعا کے وقت موجود تھا۔مجھےیہ پورا یقین تھا کہ ان کی بددعا سے وہاں موجود لوگوں میں سے کوئی بھی زندہ نہیں بچے گا۔ مَیں کھڑا ہوا تھا، ان کی بددعا سے گھبرا گیا اور زمین کی طرف جھک گیا۔ قریش کے لوگوں میں اس بددعا کا بہت چرچا رہا۔ ایک مہینے یا اس سے زیادہ عرصہ تک ان کی مجلسوں میں خبیب کی بددعا کا خوف منڈلاتا رہا اور وہ اِس پر طرح طرح کے تبصرے کرتے رہے۔ سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے حضرت خبیبؓ کی نعش کوسولی سےاتارنےکی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: روایت میں بیان ہوا ہے کہ قریش نے سولی کی حفاظت کے لیے چالیس آدمی تعینات کیے تھے تاکہ وہ لاش وہیں لٹکی رہے اور وہیں خراب ہو جائے، گل سڑ جائے یا بعد میں یہ اپنابدلہ لیتے رہیں۔ بہرحال رسول اللہ ﷺ نے حضرت مقدادؓ اور حضرت زبیر بن عوام ؓکو مکہ کی طرف روانہ کیا تا کہ وہ حضرت خبیبؓ کی لاش کو سولی سے اتاریں۔ آپؐ کو اس کی خبر ہو گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے شاید علم دے دیا ہو۔ بہرحال ایک روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کون ہے جو خبیب کو سولی سے اتارے گا تو اس کے لیے جنت ہو گی۔ حضرت زبیر بن عوامؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ! مَیں اور میرا ساتھی مقداد بن اسود یہ کام کر لیں گے۔ جب یہ دونوں اس جگہ پہنچے جہاں حضرت خبیبؓ کی نعش تھی تو انہوں نے وہاں چالیس آدمیوں کو پایا لیکن وہ سب کے سب مدہوش سوئے ہوئے تھے۔ ان دونوں نے خبیب کو اتار لیا اور یہ حضرت خبیبؓ کی شہادت کے چالیس روز بعد کا واقعہ ہے۔ حضرت زبیرؓ نے خبیبؓ کی لاش کو اپنے گھوڑے پر رکھ لیا اور وہ دونوں چلے۔ یہاں تک کہ جب کفار کو خبر ہوئی اور انہوں نے حضرت خبیبؓ کو گم پایا تو انہوں نے قریش کو اس کی خبر دی جس پر ان میں سے ستّر سوار نکلے۔ مزید لوگ بھی شامل کیے تاکہ پیچھا کریں۔ پھر جب قریش کے افراد ان دونوں صحابہؓ کے قریب پہنچے تو حضرت زبیرؓ نے حضرت خبیبؓ کی لاش کو زمین پر رکھا اور حضرت زبیرؓ نے اپنے سر سے اپنا عمامہ کھول دیا اور ان سے کہا مَیں زبیر بن عوام ہوں اور یہ میرا ساتھی مقداد بن اسود ہے ہم دونوں ایسے ببر شیر ہیں جنہوں نے اپنے بچوں کو پیچھے چھوڑا ہے۔ اگر تم لوگ چاہو تو ہم تیروں سے تمہارا استقبال کریں اور چاہو تو تم پر آ پڑیں اور اگر تم لوگ چاہو تو یہیں سے لَوٹ جاؤ۔ یہ سُن کر وہ مشرکین واپس چلے گئے اور اس کے بعد جب حضرت زبیرؓ نے دیکھا کہ حضرت خبیبؓ کی لاش غائب تھی جیسے زمین انہیں نگل گئی ہو جس پر آپؓ کا نام بَلِیعُ الْاَرْض مشہور ہو گیا یعنی وہ شخص جس کو زمین نگل گئی ہو۔ سوال نمبر۶:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے حضرت خبیبؓ کی نعش کوبےحرمتی سےبچانےکےحوالے سے کیاروایات بیان فرمائیں؟ جواب: فرمایا: سیرت کی کتابوں میں حضرت خُبیبؓ کی نعش لانے کے لیے ایک اَور پارٹی کی روانگی کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔چنانچہ ایک روایت کے مطابق آنحضورﷺ نے حضرت عَمرو بن امیہ ؓکو تنہا بطور جاسوس قریش کی طرف بھیجا۔ انہوں نے بیان کیا مَیں حضرت خبیبؓ کی صلیب کے پاس آیا۔ مَیں جاسوسوں سے ڈر رہا تھا۔ مَیں صلیب پر چڑھا۔مَیں نے حضرت خبیبؓ کی نعش کو کھولا تو وہ زمین پر آ گئی۔ میں کچھ دیر کنارہ کش رہا۔مَیں نے اپنے پیچھے آواز سنی۔ مَیں نے دیکھا تو مَیں نے وہاں حضرت خبیبؓ کی نعش کو نہ پایا گویا کہ زمین نے انہیں نگل لیا۔ آج تک ان کا کوئی نشان نہیں ملا…ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت عمرو بن امیہ ضَمْرِیؓ کے ساتھ حضرت جَبَّار بن صَخْر انصاریؓ کو بھی بھیجا گیا تھا۔ حضرت خبیبؓ کی نعش کی نگرانی کرنے والے قریشیوں نے جب ان دونوں کا پیچھا کیاتو حضرت جبارؓنے لاش کو ندی میں پھینک دیا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے خبیب کی نعش کو کافروں سے غائب کر دیا… دریا اس نعش کو بہا کر لے گیا۔ اور یہ ہوتا ہے کہ دریا کا تیز پانی لاشوں کو بہا کر لے جاتا ہے۔تو اس بارے میں مختلف روایات آتی ہیں۔ بہرحال ان کی لاش کافروں کے ہاتھ نہیں لگی اور یہی کہتے ہیں کہ زمین نگل گئی، غائب ہو گئی۔ اسی نام سے یعنی بَلِیعُ الْاَرْض کے نام سے پھر یہ مشہور ہوگئے تھے کہ ان کی نعش زمین میں غائب ہو گئی۔ وہ کفار تو جو کچھ کرنا چاہتے تھے وہ نہ کر سکے اور اس طرح نعش کو اللہ تعالیٰ نے بےحرمتی سے محفوظ رکھا۔اللہ تعالیٰ اس طرح بھی اپنے پیاروں کی حفاظت کرتا تھا۔بہت سے ایسے مواقع ہیں جہاں نعشوں کو محفوظ رکھا۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: اسلام کا حقیقی مفہوم