جل رہے ہیں بحر و بر، یہ سوچیےدکھ میں ہیں شمس و قمر، یہ سوچیے امن جنگوں سے بھی آیا ہے کبھیکچھ تو اے اہل نظر، یہ سوچیے آگ کی پھیلی ہیں لہریں چار سُوچین و راحت ہے کدھر، یہ سوچیے مر گئی کب کی یہاں انسانیتیوں ہے شیطاں کا اثر، یہ سوچیے بن گئی خانہ بدوشوں سی زمیںایسے اجڑے ہیں نگر، یہ سوچیے لہلہاتا تھا جو سبزہ کھیت میںہیں پڑے لاشے، ادھر یہ سوچیے بن رہے ہیں اب وہ کھنڈر کے نشاںشہر بستے تھے جدھر یہ سوچیے ہے صلہ اپنے ہی یہ اعمال کاڈالیے خود پہ نظر یہ سوچیے ہو تسلّی دل کو، دنیا سے کہِیںآئے جو اچھی خبر یہ سوچیے تم کو شکوہ ہے اگر تقدیر سےکس نے لکھی ہے مگر یہ سوچیے آج زاہدؔ ظلمتوں کے دور میںکیسے پھوٹے گی سحر یہ سوچیے (سید طاہر احمد زاہدؔ) مزید پڑھیں: مرضیٔ مولا