براعظم شمالی امریکہ کے تازہ حالات و واقعات کا خلاصہ لاس اینجلس میں امریکی امیگریشن کے نفاذی ادارے کےخلاف مظاہرے جون ۲۰۲۵ء کے آغاز میں امریکہ کے معروف شہر لاس اینجلس میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے جن کا نشانہ امریکہ کا وفاقی ادارہ امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (Immigration and Customs Enforcement یعنی ICE) تھا۔ پسِ منظر کے طور پر یاد رہے کہ یہ ادارہ ۲۰۰۳ء میں قائم ہوا اور اس کے بنیادی فرائض میں امیگریشن کے قوانین کا نفاذ، کسٹمز کے قوانین اور سمگلنگ کی روک تھام اور اندرونِ ملک مجرموں کا نیٹ ورک اور منی لانڈرنگ وغیرہ کی تفتیش کرنا شامل ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت میں انہوںنے امیگریشن کے قوانین کو سخت کرنے پر زور دیا تھا تاہم اب ان کے دوسرے دورِ صدارت میں انہوں نے ICE کو نہ صرف سخت قوانین نافذ کرنے کے پورے اختیارات دیے ہیں بلکہ پہلے سے بڑا ہدف بھی دیا ہے۔ چنانچہ صدر ٹرمپ نے ICE کو ہدایت دی کہ وہ ’’Zero Tolerance‘‘ پالیسی اپنائے، یعنی صرف خطرناک مجرموں تک محدود نہ رہے بلکہ ہر اس شخص کو گرفتار کرے جو امیگریشن قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے، چاہے اس کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہ بھی ہو۔اس کے علاوہ انہوں نے اس ادارہ کو کاروباری اداروں، فیکٹریوں اور رہائشی علاقوں میں بلااطلاع چھاپوں کی اجازت بھی دی ہے۔ ان پالیسیوں کے نتیجے میں جارحانہ اور غیر قانونی طور پر کئی لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے اور ملک بدر کر کے ظالمانہ قید خانوں یا ان کے اصل ممالک میں واپس بھجوادیا گیا ہے۔ لاس اینجلس میں ہونے والے مظاہروں کا تعلق اِنہی پالیسیوں سے ہے۔ در اصل ICE نے لاس اینجلس کے رہائشی علاقوں اور عوامی مقامات پر بڑے پیمانے پر چھاپے مارے، جن میں ایسے افراد بھی حراست میں لیے گئے جن کے خلاف کوئی وارنٹ یا سنگین مقدمہ نہیں تھا۔ ان اقدامات نے جہاں خصوصاً مہاجرین کی کمیونٹیوں میں خوف و ہراس پیدا کیا، وہاں انسانی حقوق کی تنظیموں کو ہوشیار اور متحرک بھی کر دیا اور ریاستی و وفاقی حکومتوں کے مابین قانونی ٹکراؤ کروادیا۔ لہٰذا یہ مظاہرے صرف مہاجرین تک محدود نہ رہے بلکہ شہری آزادیوں اور ریاستی خودمختاری کے حامی گروپ بھی اس میں شامل ہو گئے۔ مظاہرے جلد ہی ریاست گیر تحریک میں بدل گئے۔ لاس اینجلس کے وسطی علاقوں میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے، پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم ہوا اور شہر کے میئر نے امن و امان برقرار رکھنے کے لیے رات کا کرفیو نافذ کر دیا۔ اس تناؤ کو مزید بڑھانے والا واقعہ اس وقت پیش آیا جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گورنر گیون نیوسم (Gavin Newsom) کی اجازت کے بغیر تقریباً چار ہزارنیشنل گارڈ (ریاستی ریزرو فوج) اور ۷۰۰میرینز (بحری و بَرّی فوجی دستے ) کو لاس اینجلس میں تعینات کر دیا۔ یہ اقدام وفاقی اور ریاستی اختیارات کے ٹکراؤ کا باعث بنا۔ گورنر نے اسے امریکی آئین کے تحت ریاستی خودمختاری میں مداخلت قرار دیا اور وفاقی عدالت میں چیلنج کر دیا۔ یہ معاملہ اب Posse Comitatus Act کے تحت عدالت میں زیرِ سماعت ہے، جو وفاقی فوج کو شہری قانون نافذ کرنے میں براہِ راست کردار ادا کرنے سے روکتا ہے، سوائے اس کے کہ کانگریس اس کی اجازت دے۔ ماہرینِ قانون کا کہنا ہے کہ یہ مقدمہ مستقبل میں ریاستوں اور وفاق کے تعلقات کی قانونی تعریف پر گہرے اثرات ڈال سکتا ہے۔ میمز کے ذریعے ڈی پورٹیشنز کے متعلق عوامی تاثر بدلنے کی کوشش جون میں ٹرمپ انتظامیہ نے ایک غیر روایتی اور متنازعہ سوشل میڈیا حکمت عملی شروع کی، جس کا مقصد بڑے پیمانے پر ڈی پورٹیشنز کو عوام کے سامنے ’’معمول‘‘ اور ’’مزاحیہ‘‘ بنا کر پیش کرنا تھا۔ اس مہم کے تحت ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیورٹی کے آفیشل اکاؤنٹس اور وائٹ ہاؤس کے معاون پلیٹ فارمز سے ایسی میمز (mems)اور ویڈیوز جاری کی گئیں جن میں غیر قانونی تارکینِ وطن کی گرفتاری اور ملک بدری کو طنزیہ انداز میں دکھایا گیا۔ یہ حکمت عملی بالخصوص نوجوان طبقے کو نشانہ بنا رہی تھی، جو سوشل میڈیا پر وائرل مواد سے سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں، اکیڈمک ماہرین اور سماجی کارکنوں نے اس پر سخت تنقید کی۔ ان کے مطابق یہ رویہ ایک سنجیدہ انسانی مسئلے کو معمولی اور تفریحی رنگ دے کر سماجی حساسیت کو کمزور کرتا ہے اور امیگریشن مخالف جذبات کو مزید تقویت دیتا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ مہم روایتی پبلک پالیسی کمیونیکیشن سے ہٹ کر ایک نفسیاتی مہم (Psychological Operation) کی مثال ہے، جو عوامی شعور اور رویوں کو مخصوص سیاسی ایجنڈے کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتی ہے۔ فُٹبال کے CONCACAF گولڈ کپ میں میکسیکو کی جیت ۶؍جولائی ۲۰۲۵ء کو ہیوسٹن میں کھیلے گئے CONCACAF گولڈ کپ کے فائنل میں میکسیکو نے امریکہ کو ۲–۱ سے شکست دے کر اپنا دسواں ٹائیٹل جیت لیا۔ میچ میں امریکی ٹیم نے ابتدا میں برتری حاصل کی، مگر میکسیکو نے شاندار واپسی کرتے ہوئے دوسرے ہاف میں فیصلہ کن گول کیا۔ یہ گولڈ کپ شمالی، وسطی امریکہ اور کیریبین خطے کا سب سے بڑا بین الاقوامی فُٹبال ٹورنامنٹ ہے۔ اس ٹورنامنٹ کا انعقاد Confederation of North, Central America and Caribbean Association Football یعنی CONCACAF کرتی ہے جو FIFA کی چھ بر اعظمی فیڈریشنز میں سے ایک ہے۔ عام طور پر یہ ٹورنامنٹ ہر دو سال بعد منعقد ہوتا ہے۔ ۱۹۶۳ء سے ۱۹۸۹ء تک اسے CONCACAF چیمپئن شِپ کہا جاتا رہا اور بعد ازاں ۱۹۹۱ء سے اب تک اسے گولڈ کپ کہا جاتا ہے۔اس مقابلے میں عموماً ۱۶؍ ٹیمیں شریک ہوتی ہیں۔ تاریخی لحاظ سے میکسیکو اس ٹورنامنٹ کی سب سے زیادہ کامیاب ٹیم ہے، جو کُل ۱۰؍ مرتبہ فاتح قرار پائی ہے۔ امریکہ اس کا سب سے بڑا حریف ہے اور دونوں ٹیموں کے درمیان فائنل میچز اکثر سخت اور تاریخی مقابلے ثابت ہوتے ہیں۔ اِمسال یہ فتح میکسیکو کے لیے محض ایک کھیلوں کی کامیابی نہیں بلکہ قومی فخر اور حوصلے کی علامت سمجھی گئی۔ سڑکوں پر جشن منایا گیا، اور میکسیکو کی صدر نے کھلاڑیوں کو قومی ہیرو قرار دیا۔ کینیڈا میں جنگلاتی آگ اور ماحولیاتی ہنگامی صورتحال جون اور جولائی ۲۰۲۵ء کے دوران کینیڈا کے کئی صوبوں،بالخصوص مینیٹوبا، سسکاچیوان اور برٹش کولمبیا شدید جنگلاتی آگ کی لپیٹ میں رہے۔ ان آگوں کی بنیادی وجوہات میں غیر معمولی گرمی، خشک سالی اور تیز ہوائیں شامل تھیں جو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو مزید نمایاں کر رہی ہیں۔ مینیٹوبا میں سب سے زیادہ نقصان ریکارڈ ہوا، جہاں ۲۱؍ہزار سے زائد افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔ دھوئیں اور فضائی آلودگی کی سنگینی کے باعث متعدد شہروں میں تعلیمی ادارے عارضی طور پر بند کر دیے گئے اور دیگر سرگرمیاں محدود کر دی گئیں۔ وفاقی ماحولیاتی ادارے نے خبردار کیا کہ فضائی معیار خطرناک حد تک گر چکا ہے اور یہ صورتحال بچوں، بزرگوں اور سانس کی بیماریوں کے مریضوں کے لیے خاص طور پر مضر ہے۔ وزیر اعظم مارک کارنی نے اس صورتحال کو ’’ماحولیاتی ہنگامی حالت‘‘ قرار دیا اور متاثرہ صوبوں کے لیے وفاقی امداد اور اضافی فائر بریگیڈ کے اہلکار بھیجنے کا اعلان کیا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اب کینیڈا میں جنگلات میں آگ لگنے کا موسم پہلے سے زیادہ لمبا اور خطرناک ہو گیا ہے اور اس مسئلے کو روکنے کے لیے لمبے عرصے کی منصوبہ بندی بہت ضروری ہے۔ امریکی معیشت میں مہنگائی اور فیڈرل ریزرو کی پالیسی جولائی میں امریکی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، پچھلے سال کے مقابلے میں چیزوں کی قیمتوں میں اوسطاً ۲.۷ فیصد اضافہ ہوا۔ یہ شرح فیڈرل ریزرو کے مقررہ ہدف ۲؍فیصد سے کچھ زیادہ ہے، مگر ماہرین کے مطابق اسے ’’قابلِ برداشت‘‘ اور ’’کنٹرول میں‘‘ قرار دیا جا سکتا ہے۔ تجارتی پالیسیوں اور خاص طور پر صدر ٹرمپ کے وسیع محصولات (Tariffs) کے باعث درآمدی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ صنعتی شعبہ اور زرعی منڈیوں نے خبردار کیا کہ اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو صارفین پر بوجھ بڑھے گا اور معاشی ترقی سُست روی کا شکار ہو سکتی ہے۔ فیڈرل ریزرو کے چیئرمین نے بیان دیا کہ اگر مہنگائی کی شرح اگلے دو ماہ بھی اسی سطح پر رہی تو سال کے اختتام سے قبل سود کی شرح میں کمی ممکن ہے۔ اسٹاک مارکیٹ نے اس بیان پر مثبت ردعمل دیا اور ڈاؤ جونز انڈیکس میں ایک دن میں ۴۵۰ پوائنٹس کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ واشنگٹن ڈی سی میں نیشنل گارڈ کی تعیناتی اگست کے وسط میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اچانک حکم جاری کیا کہ واشنگٹن ڈی سی میں ۸۰۰ نیشنل گارڈ (ریاستی ریزرو فوج) اور متعدد فوجی یونٹس کے ساتھ ۷۰۰ میرینز (بحری و برّی فوجی دستے) تعینات کیے جائیں۔ بظاہر یہ فیصلہ ’’عوامی تحفظ‘‘ اور ’’ممکنہ ہنگامہ آرائی‘‘ کے پیش نظر کیا گیا، لیکن سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اس کے پیچھے ایک گہرا سیاسی پس منظر تھا۔ یہ تعیناتی اس وقت ہوئی جب کانگریس میں ٹرمپ کی امیگریشن اور تجارتی پالیسیوں پر سخت بحث جاری تھی، اور ساتھ ہی جیفری ایپ سٹین (Jeffrey Epstein) سکینڈل کے حوالے سے ٹرمپ حکومت کو عوامی اور میڈیا دباؤ کا سامنا تھا۔ Epstein ، جو جنسی استحصال اور کم عمر لڑکیوں کی اسمگلنگ کے گھناؤنے الزامات کا سامنا کرتے ہوئے ۲۰۱۹ء میں جیل میں مردہ پایا گیا تھا، کا معاملہ دوبارہ سرخیوں میں آیا۔ ٹرمپ ماضی میں Epstein کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمولی اور پرانے قرار دیتے رہے ہیں، لیکن حالیہ مہینوں میں یہ تنازعہ اس وقت مزید شدت اختیار کر گیا جب ان کے اپنے حمایتی حلقے MAGA کے اندر سے بھی حکومت کی شفافیت پر سوال اٹھنے لگے۔ بعض حامیوں نے ایپ سٹین کی ’’کلائنٹ لسٹ‘‘ اور مزید عدالتی ریکارڈ منظرعام پر لانے کا مطالبہ کیا، جبکہ حکومت نے یہ مؤقف اپنایا کہ تحقیقات مکمل ہو چکی ہیں اور مزید شواہد موجود نہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ واشنگٹن ڈی سی میں نیشنل گارڈ کی یہ بڑی اور اچانک تعیناتی جزوی طور پر ایک سیاسی ڈسٹریکشن تھی،یعنی عوامی توجہ کو Epstein اسکینڈل اور اس پر ہونے والے شور و غوغا سے ہٹانے کا ایک طریقہ ہے۔ اس تاثر کو اس لیے بھی تقویت ملی کہ تعیناتی کا حکم مقامی حکومت سے پیشگی مشورے کے بغیر جاری کیا گیا اور یہ ایسے وقت میں ہوا جب نہ تو دارالحکومت میں بڑے پیمانے پر فسادات تھے اور نہ ہی فوری فوجی مداخلت کی کوئی واضح ضرورت۔ ڈی سی کی میئر نے اس اقدام پر شدید تنقید کی اور کہا کہ وفاقی حکومت نے نہ صرف مشاورت کا عمل نظرانداز کیا بلکہ اس سے مقامی خودمختاری کے اصول کو بھی نقصان پہنچا۔ صدر ٹرمپ نے تعیناتی کا جواز پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’’واشنگٹن ڈی سی جرائم کا گڑھ بن چکا ہے‘‘ اور فوری اقدامات ضروری ہیں، لیکن پولیس کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق رواں سال جرائم کی شرح میں مجموعی طور پر کمی آئی ہے اور صورتحال صدر کے بیان سے مختلف تصویر پیش کرتی ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اس واقعہ نے ایک بار پھر ریاستی و وفاقی اختیارات کے درمیان توازن کے مسئلے کو اجاگر کر دیا ہے، اور آنے والے مہینوں میں یہ سیاسی و قانونی بحث کا اہم موضوع رہے گا۔ مزید پڑھیں: مکتوب مشرقِ بعید (جون و جولائی ۲۰۲۵ء)