https://youtu.be/6t4JVXB6s4I (خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۴؍مئی۲۰۲۴ء بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے) سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب:فرمایا: اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق آپؑ کے وصال کے بعد خلافت اولیٰ کا دَور آیا اور جماعت کا قدم آگے بڑھتا گیا۔ پھر خلافت ثانیہ کا دَور آیا تو جماعت میں مزید ترقی ہوئی اور دنیا کے بہت سے ممالک میں جماعتیں قائم ہوئیں۔ پھر خلافت ثالثہ کا دَور آیا تو اس میں مزید ترقی ہوئی۔پھر خلافت رابعہ کا دَور آیا تو ترقیات کے بھی نئے دروازے کھلے۔ پھرخلافت خامسہ کا دَور ہے تو اس میں جماعت ترقی کی منازل طے کرتی چلی جا رہی ہے۔اللہ تعالیٰ نے خلافت قائم رکھنے کا وعدہ فرمایا تو کس طرح لوگوں کے دلوں میں خلافت سے تعلق اور اس سے جڑے رہنے کے جذبات پیدا فرماتا ہے۔ اس بارے میںبعض لوگوں کے واقعات بھی پیش کر دیتا ہوں جن سے خلافت احمدیہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائید اور اس کے وعدے پورے ہونے کا نظارہ ہم دیکھتے ہیں۔ سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خلافت احمدیہ کےقیام اورخدائی تائیدات کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: اللہ کے وعدوں کے مطابق ہی اور آنحضرتﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق آپؑ کی بنائی ہوئی جماعت میں خلافت کا نظام جاری ہوا۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کے وعدے اور آنحضرتﷺ کی پیشگوئیوں کے پورا ہونے کا اظہار ہے جس کی وجہ سے ہم ہر سال دنیا میں ہر جگہ جہاں جماعت احمدیہ قائم ہے ۲۷؍مئی کو یوم خلافت مناتے ہیں۔۲۶؍مئی کو حضرت مسیح موعود ؑ کا وصال ہوا اور ۲۷؍مئی کو جماعت نے خدائی وعدوں کے مطابق حضرت مولانا حکیم نور الدین ؓکو خلیفةالمسیح الاوّل منتخب کر کے آپؓ کے ہاتھ پر حضرت مسیح موعود ؑ کے کام کو جاری رکھنے کا عہد کیا اور بیعت کی۔ پھر حضرت خلیفةالمسیح الاولؓ کی وفات کے بعد حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کے ہاتھ پر جماعت جمع ہوئی اور باوجود بعض اندرونی مخالفتوں اور ہر قسم کے نامساعد حالات کے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نظارے ہم نے دیکھے اور آپؓ کی خلافت تقریباً ۵۲ سال جاری رہی اور اس دَور میں جماعت احمدیہ کی دن دونی اور رات چوگنی ترقی کے نظارے ہم نے دیکھے۔ پھر حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی وفات کے بعد خلافت ثالثہ کا آغاز ہوا اور اس دَور میں بھی جماعت کی ترقی کے نظارے ہم نے دیکھے۔ دشمنوں نے بڑا زور لگایا جماعت کو ختم کرنے کا لیکن اس کے باوجود ہمیں تاریخ میں ترقی کے نظارے ہی نظر آتے ہیں۔ پھر جب حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کی وفات ہوئی تو ایک بار پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا نظارہ دکھایا اور خلافت رابعہ کا دَور شروع ہوا جس میں دشمن نے جماعت کو ختم کرنے کی پھر بھرپور کوشش کی لیکن ہر طرح ناکامی کا منہ دیکھا اور اس دشمنی کی وجہ سے حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒکو پاکستان سے ہجرت کرنی پڑی۔ انگلستان میں مرکز قائم کیا۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ جماعت کی ترقی کی رفتار بڑھتی چلی گئی اور جماعت کی ترقی کو روکنے والے اس ترقی کو دیکھ کر پیچ و تاب کھانے لگے۔ پھر حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کی وفات ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے پھر اپنے وعدے کو پورا کرنے کا جلوہ دکھایا اور خلافت خامسہ کا انتخاب ہوا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے باوجود میری بےشمار کمزوریوں کے غیرمعمولی تائید و نصرت سے نوازا اور جماعت کی ترقی کا قدم آگے سے آگے ہی بڑھتا گیا۔ اِس دَور میں درجنوں ملکوں میں احمدیت کا پودا لگا۔ درجنوں ملکوں میں جماعت احمدیہ کا باقاعدہ نظام قائم ہوا۔ سینکڑوں شہروں اور قصبوں میں خود اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی راہنمائی کر کے خلافت کی تائید و نصرت کے نظارے دکھا کر لوگوں کے دلوں میں خلافت سے تعلق کا جذبہ پیدا کر کے مخلصین کی جماعتوں کے قیام کے سامان پیدا فرمائے اور یہ نظارے اللہ تعالیٰ دکھاتا چلا جا رہا ہے۔خلافت سے وابستگی کے یہ نظارے اور جماعت کی ترقی کے یہ نظارے کیوں نہ ہوتے؟ یہ تو ہونے ہی تھے کہ اس کا اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا اور پھر آنحضرتﷺ نے اس کی پیشگوئی فرمائی تھی۔پس نہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کو بھولنے والا اور توڑنے والا ہے اور نہ ہی اپنے سب سے پیارے نبی حضرت محمد رسول اللہﷺ کی پیشگوئیوں کے پورا کرنے میں کمی کرنے والا ہے۔ آنحضرتﷺ نے ایک پیشگوئی فرمائی تھی کہ تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔یعنی آنحضرتﷺ کا اپنا زمانہ۔فرمایا:پھر اس کو اٹھا لے گا اور خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم ہو گی۔اور پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھا لے گا۔ پھر اس کی تقدیر کے مطابق ایذا رساں بادشاہت قائم ہو گی جس سے لوگ دل گرفتہ ہوں گے اور تنگی محسوس کریں گے۔ پھر جب یہ دَور ختم ہو گا تو اس کی دوسری تقدیر کے مطابق اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہو گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آئے گا اور اس ظلم و ستم کے دَور کو ختم کر دے گا اور اس کے بعد پھر خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم ہو گی اور یہ فرما کر آپؐ خاموش ہو گئے۔ جیساکہ آنحضرتﷺ نے فرمایا تھا، خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم ہو گی۔ آپؐ کی غلامی میں حضرت مسیح موعودؑ کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا اور آپؑ نے بھی فرمایا کہ میرے بعد بھی جماعت میں میری خلافت کا سلسلہ آنحضرتﷺ کی پیشگوئی کے مطابق جاری رہے گا۔ آپؑ نے فرمایا: مَیں خاتم الخلفاء ہوں۔اب جو بھی آئے گا جس کو اللہ تعالیٰ خلافت کا مقام دے گا میری پیروی میں ہی آئے گا۔ پس دنیاوی طور پر اب کوئی جتنا چاہے زور لگا لے کبھی خلافت کا قیام حضرت مسیح موعودؑ سے علیحدہ ہو کر نہیں ہو سکتا۔ سوال نمبر۳:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خلافت کےقیام کی بابت حضرت اقدس مسیح موعودؑ کےکون سےارشادات بیان فرمائے؟ جواب: فرمایا: آپؑ نے خلافت کے جاری رہنے کی خبر دیتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالیٰ ’’دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے (۱) اوّل خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے(۲) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آ جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردّد میں پڑ جاتے ہیں اور ان کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں۔ تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبردست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے۔ پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے جیساکہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے وقت میں ہوا جب کہ آنحضرتﷺ کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہوگئے اور صحابہؓ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہوگئے۔ تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اُس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا: وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا (النور:۵۶) یعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پیر جما دیں گے۔‘‘ فرمایا :’’…سو اےعزیزو! جب کہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو۲ قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو۲ جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلاوے۔ سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے۔ اس لیے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔ اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک میں نہ جاؤں۔‘‘ ضمناً میں یہ بھی بتا دوں کہ مَیں تو اس بات سے یہ بھی استنباط کرتا ہوں کہ جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عمر کی بحث میں پڑے ہوئے ہیں ان کا بھی اس میں جواب ہے کہ آپؑ نے اپنی عمر کے سال گنواکر یہ نہیں بتایا کہ اتنے سال باقی ہیں بلکہ اپنی واپسی کا اشارہ دیا ہے اور عمر کی بحث کو کوئی اہمیت نہیں دی بلکہ کام پورا کرنے کی اہمیت ہے۔ بہرحال آپؑ فرماتے ہیں:’’لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اُس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی جیساکہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیساکہ خدا فرماتا ہے کہ میں اِس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا۔ سو ضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے۔ وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے وہ سب کچھ تمہیں دکھائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا۔اگرچہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہوجائیں جن کی خدا نے خبر دی۔ ‘‘ سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے برکینافاسوکےاحمدیوں کاخلافت کےساتھ محبت واخلاص کا کیا واقعہ بیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: برکینا فاسو افریقہ کا ایک ملک ہے۔ وہاں کے معلم لکھتے ہیں کہ جب ہماری جماعت میں پہلی بار ایم ٹی اے لگا اور لوگوں نے پہلی بار خلیفہ وقت کو دیکھا تو ان کی آنکھیں نم تھیں اور خوشی ان کے چہروں سے عیاں تھی۔کچھ دن کے بعد وہاں سے ایک وفد آیا اور ایم ٹی اے کا شکریہ ادا کیا اور کہنے لگے کہ ویسے تو ہم خلیفہ وقت سے ملاقات کے لیے نہیں جا سکتے مگر ایم ٹی اے پر خلیفہ وقت کو دیکھ کر ہماری آنکھوں کو ٹھنڈک اور دل کو تسکین ملتی ہے۔اور اس طرح اب یہ ہمارا روز کا معمول بن گیا ہے کہ ایم ٹی اے کے ذریعہ ہم روز خلیفہ وقت سے ملاقات کرتے ہیں۔ تو اس طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا کر رہا ہے۔وہ جو کبھی ملے بھی نہیں ان کے دلوں میں بھی خلافت سے محبت ہے۔ سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے جرمنی سےایک شخص کےقبول احمدیت کاکیاواقعہ بیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: اب ایک عرب ہےجرمنی میں۔ سیکرٹری تبلیغ جرمنی لکھتے ہیں کہ وہ ان کے تبلیغی سٹال پہ آئے۔ قرآن کریم جرمن ترجمہ لے گئے۔ اپنا نمبر بھی دے گئے تا کہ ان سے رابطہ رکھا جائے۔ گذشتہ سال جلسہ سالانہ جرمنی پہ ان کو آنے کی دعوت دی گئی۔ یہ کچھ سالوں کا واقعہ ہے اس لیے گذشتہ سال سے مراد یہ ہے کہ جب یہ واقعہ بیان ہورہا ہے اس سے ایک سال پہلے۔ بہرحال اپنے امتحان کی وجہ سے جلسہ میں شامل ہونے سے انہوں نے معذرت کی اور اپنی جگہ اپنے بڑے بھائی اورایک اَور فیملی ممبر کو بھجوا دیا۔ وہاں جلسہ پر ان کے بھائی میری تقریر سننے کے بعد کہنے لگے کہ یہ شخص یقیناً خداتعالیٰ کا تائید یافتہ ہے۔اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں ڈالا کہ خلافت سچی ہے۔ موصوف نے اسی رات بیعت فارم پُر کیا اور جماعت احمدیہ میں شامل ہو گئے۔ یہ جذبات صرف اللہ تعالیٰ ہی دلوں میں پیدا کر سکتا ہے اور اس لیے کرتا ہے کہ اس کا یہ وعدہ ہے۔ دوسرے جو عرب دوست تھے ان کے فیملی ممبر نے پہلے دن تو بیعت نہیں کی لیکن جماعت کے بارے میں کافی سوالات پوچھتے رہے۔ میرے ساتھ عربوں کی ایک نشست بھی تھی۔ تکفیر کے حوالے سے ایک سوال کرنا چاہتے تھے۔ یہی سوال ایک اَور عرب دوست نے کر دیا جس کا میں نے ان کو بڑی تفصیل سے جواب دیا۔ یہ جواب سن کر موصوف کی تسلی ہوئی اور بیعت کی تقریب سے قبل ہی وہاں بیعت فارم پُر کرکے انہوں نے دستی بیعت کی اور اس بیعت میں شامل ہوئے۔ سوال نمبر۶: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے قرغیزستان سےایک دوست کےقبولیت احمدیت کاکیاواقعہ بیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: قرغیزستان کے سلطان صاحب ہیں۔ اب یہ قرغیزستان کا ایک علاقہ ہے۔ بالکل ہی دوسرا علاقہ ہے۔ وہ کہتے ہیں: میرے بیٹے اور اہلیہ کو بیعت کرنے کی توفیق مل چکی تھی۔ میں نے ۲۰۱۷ء میں ہر جمعہ کو جماعتی مشن ہاؤس جانا شروع کیا۔ جب میں اور میری اہلیہ گاڑی میں نماز جمعہ کے لیے اپنی جماعت کے مشن ہاؤس جاتے تو تقریباً بارہ کلو میٹر کے سفر میں ہم ہمیشہ خلیفہ وقت کے خطبہ کی ریکارڈنگ سنتے۔ کہتے ہیں میں نے جب بھی ان خطبات کو سنا اس کے بعد میرے احساسات بہت مضبوط ہوتے جاتے۔ یہ ۲۲ء کی بات ہے۔ چنانچہ کہتے ہیں اس سال ۲؍مئی کو رمضان المبارک کے مقدس مہینے کے اختتام پر عید کے دن میں نے بیعت کی۔ میں یہ پہلے کرنا چاہتا تھا لیکن کسی نہ کسی طرح یہ کام رہ جاتا تھا۔کہتے ہیں میں نے مختصراً لکھا ہے لیکن جو کچھ میرے اندر روح میں ہو رہا ہے میں یہ بیان نہیں کرسکتا۔ اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔میں ہر نماز میں اللہ سے اسلام کے بارے میں علم میں اضافہ کی دعا کرتا ہوں۔ ہر جمعہ کی نماز میرے لیے مسلسل کچھ نہ کچھ نیا راستہ کھول رہی ہوتی ہے۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: تاریخ مذہب کے آئینہ میں کَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِیْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً کَثِیْرَةً کے نظارے