حقیقی دین سے محروم رہ جانے کا باعث فرمایا:’’سب سے بڑی بات تو دین ہے جس کو حاصل کر کے انسان حقیقی خوشحالی اور راحت کو حاصل کرتا ہے۔ دنیا کی زندگی تو بہر حال گذرہی جاتی ہے۔ شب تنور گذشت و شب سمور گذشت یعنی راحت اور رنج دونو گذر جاتے ہیں لیکن دین ایک ایسی چیز ہے کہ اس پرچل کر انسان خدا تعالیٰ کو راضی کرلیتا ہے۔ یقیناً جانو کہ اﷲ تعالیٰ اس وقت تک راضی نہیں ہوتا اور نہ کوئی شخص اس تک پہنچ سکتا ہے جب تک صراط مستقیم پر نہ چلے۔ وہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب اﷲ تعالیٰ کی ذات صفات کو شناخت کرے اور ان راہوں اور ہدایتوں پر عملدرآمد کرے جو اس کی مرضی اور منشاء کے موافق ہیں۔جب یہ ضروری بات ہے تو انسان کو چاہیے کہ د ین کو دنیا پر مقدم کرے اور یہ کچھ مشکل امر نہیں۔دیکھو! انسان پانچ سات روپیہ کی خاطر جو دنیا کی ا دنیٰ ترین خواہش ہے اپنا سرکٹا لیتا ہے۔ پھر جب اﷲ تعالیٰ کو راضی کرنے کا خیال ہو اور اسے راضی کرنا چاہے تو کیا مشکل ہے۔ انسان حقیقی دین سے کیوں محروم رہ جاتاہے اس کا بڑا باعث قوم ہے۔ خویش واقارب دوستوں اور قوم کے تعلقات کوایسا مضبوط کرلیتاہے کہ وہ ان کو چھوڑنا نہیں چاہتا۔ ایسی صورت میں ناممکن ہے کہ یہ نجات کا دروازہ اس پر کھل سکے۔ یہ ایک قسم کی نامردی اورکمزوری ہے لیکن یہ شہیدوں او ر مردوں کا کام ہے کہ ان تعلقات کی ذرا بھی پروا نہ کرےاور خداتعالیٰ کی طرف قدم اٹھائے۔ (ملفوظات جلد ہفتم صفحہ۴۲۱-۴۲۲۔ ایڈیشن۲۰۲۲ء) تفصیل : اس حصہ ملفوظات میں فارسی کی ایک ضرب المثل ’’شب تنور گذشت وشب سمورگذشت‘‘ استعمال ہوئی ہے۔جو ایرانی کتب میں ملتی ہے۔کہتے ہیں ایک مرتبہ سردیوں کی یخ بستہ رات میں ایک فقیر کو کوئی جگہ نہ ملی تو اس نے ناچار بادشاہ کے محل کے قریب ایک تنور پر پڑاؤ ڈالا۔پہلو کے بل لیٹا تو نیچےکا پہلو تنور گرم ہونے کی وجہ سےبہت گرم جبکہ اوپروالا پہلو شدتِ سردی کی وجہ سے بہت ٹھنڈاہوگیا۔ساری رات بےآرامی میں کروٹیں بدلتا رہا۔ صبح کو آواز لگائی کہ اے بادشاہ! اِس شدیدسرد رات میں تو محل کے اندر شراب پی کر کمبل میں مزے کی نیند سویا۔ جبکہ ایک فقیر تیری ہمسائیگی میں ساری رات تنور پرکروٹیں بدلتا رہا اور تجھے اس کی خبر نہ ہوسکی۔ رات تیری بھی گزرگئی اوراس کی بھی۔ اس حکایت کو اشعار میں کچھ یوں بیان کیا گیا ہے۔ شَنِیْدِہْ اِیْم کِہْ مَحْمُوْدغَزْنَوِیْ یِکْ شَبْ شَرَابْ خُوْرْد وشَبَشْ جُمْلِہْ دَرْسَمُوْر گُذَشْت سننے میں آیا ہے کہ محمود غزنوی نے ایک را ت شراب پی اور اس کی ساری رات سمور( کمبل ) میں گذری۔ گَدَایِ گُوْشِہْ نَشِیْنِیْ لَبِ تَنُوْرْ خَزِیْد لَبِ تَنُوْر بِہْ آنْ بِیْنَوَایِ عَوْر گُذَشْت ایک گوشہ نشین فقیر تنور پر کروٹیں بدلتارہا۔اس بےسروسامان کی رات وہاں گذر گئی۔ عَلَی الصّبَاحْ بِزَدْ نَعْرِہ اِیْ کِہْ اَیْ مَحْمُوْد شَبِ سَمُوْر گُذَشْت ولَبِ تَنُوْر گُذَشْت صبح ہوتے ہی اس نے نعرہ لگایا کہ اے محمود! تنور (پر سونے ) والی رات بھی گزر گئی اور سمور (پہن کر سونے )والی رات بھی گزرگئی۔ لغوی بحث: شَبِ تَنُوْر(تنور والی رات) گُذَشْت(گذرگیا؍گئی) گذشتن(گزرنا) مصدر سے ماضی مطلق سوم شخص مفرد۔ شَبِ سَمُوْر(سمور والی رات) گُذَشْت(گذر گیا؍گئی) گذشتن (گزرنا) مصدر سے ماضی مطلق سوم شخص مفرد۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: خلافت کے زیر سایہ ہمدردی اور اخوت کی اہمیت اور ہماری ذمہ داری