https://youtu.be/R-JB0b_u9J0 (خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۰؍مئی ۲۰۲۴ء بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے) سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب:فرمایا: آج آنحضرتﷺ کے زمانے کے بعض سرایا کا ذکر کروں گا۔ سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سریہ ابوسلمہؓ کےپس منظرکی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: اس سریہ کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ مدینہ میں رہنے والے منافقین اور یہود جنگِ اُحد کے حالات و واقعات کی وجہ سے خوشیاں منانے لگے اور ایک بار پھر ان کے دل میں یہ خیالات آنے لگے کہ مسلمانوں کو جلد ختم کرنے کے لیے پلاننگ کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح مدینہ کے ارد گرد رہنے والے وہ قبائل جو جنگِ بدر میں مسلمانوں کی عظیم الشان فتح کی وجہ سے خوفزدہ ہو گئے تھے ان کے دلوں میں بھی یہ خیال انگڑائیاں لینے لگا کہ اُحد میں مسلمانوں کو کافی نقصان ہوچکا ہے اس لیے موقع ہے کہ مسلمانوں پر حملہ کر کے ان کو مزید نقصان پہنچایا جائے اور لُوٹ مار کے نتیجہ میں ان کے اموال اور دولت حاصل کیے جائیں۔ چنانچہ جنگِ اُحد کو گزرے ہوئے ابھی دو ماہ ہی ہوئے تھے کہ ان قبیلوں میں سے جس قبیلے نے سب سے پہلے مسلمانوں پر حملے کا پروگرام بنایا وہ بنو اسد بن خُزَیمَہ تھا۔ یہ لوگ نجد میں رہتے تھے۔ اس قبیلے کے رئیس طُلَیحَہ بن خُوَیلَد اور اس کے بھائی سلمہ بن خویلد نے لوگوں کو اکٹھا کر کے ایک لشکر تیار کر لیا۔ بنو اسد کے ایک آدمی قیس بن حارث بن عمیر نے اپنی قوم کو مسلمانوں پر حملہ نہ کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اے میری قوم! یہ عقلمندی کی بات نہیں ہے۔ ہمیں مسلمانوں کی طرف سے کسی نقصان کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔مسلمان ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا رہے اور نہ ہی ہم پہ مسلمانوں نے لوٹ مار کے لیے حملہ کیا ہے۔ ہمارا علاقہ یثرب سے دُور ہے یعنی مدینہ سے دُور بھی ہے۔ ہمارے پاس قریش جیسا لشکر بھی نہیں ہے۔ قریش خود ایک عرصہ تک اہلِ عرب سے ان کے خلاف مدد مانگتے رہے۔ انہیں تو ان سے بدلہ بھی لینا تھا پھر وہ اونٹوں پر سوار ہو کر گھوڑوں کی باگ ڈور سنبھال کر نکلے تھے۔ وہ تین ہزار جنگجوؤں اور اپنے پیروکاروں کی ایک بڑی تعداد کو ساتھ لے کر گئے تھے۔ بہت سا اسلحہ بھی لیا تھا۔ اس کے مقابلے میں تمہاری کیا حیثیت ہے؟ صرف یہ ہے کہ تم بمشکل تین سو افراد لے کر نکلو گے اس طرح تم لوگ اپنے آپ کو فریب میں ڈال دو گے، اپنے علاقے سے دُور نکل جاؤ گے اور مجھے ڈر ہے کہ تم مصیبت میں پھنس جاؤ گے لیکن انہوں نے قیس کی نصیحت نہ مانی۔ ادھر بنو اسد کے مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کے منصوبہ کی اطلاع رسول کریمﷺ تک اس طرح پہنچ گئی کہ قبیلہ طَے کا ایک شخص ولید بن زُھیر مدینہ آیا۔ وہ اپنی بھتیجی زینب سے ملاقات کے لیے آیا تھا جو طُلَیب بن عُمَیر بن وَہْب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی تھیں۔ اس نے بنو اسد کے مذکورہ بالا منصوبے کی اطلاع دی تو رسول اللہﷺ نے فیصلہ کیا کہ اس سے پہلے کہ بنو اسد مدینہ پر حملہ کریں خود مسلمان اپنے تحفظ کے لیے ان کے علاقے پر چڑھائی کریں۔ چنانچہ آپؐ نے حضرت ابوسلمہ بن عبدالاسدؓ کو طلب فرمایا اور انہیں ارشاد فرمایا کہ اس مہم پر روانہ ہو جاؤ۔ مَیں نے تمہیں اس کا نگران مقرر کیا ہے۔ اس کے بعد آپﷺ نے ان کے لیے جھنڈا باندھا اور یہ ہدایت فرمائی کہ بنو اسد کے علاقے تک اپنا سفر جاری رکھو اس سے پہلے کہ ان کے لشکر تمہارے خلاف اکٹھے ہو جائیں۔ وہاں پہنچ کر ان پر حملہ کر دو۔ ایک سو پچاس اصحابِ کرامؓ پر مشتمل لشکر ابوسلمہ ؓکی قیادت میں ان قبائل کی سرکوبی کے لیے روانہ ہوا۔ قبیلہ طے کا وہ شخص یعنی ولید بن زُھیربطور گائیڈ ان کے ساتھ تھا، رہبر ان کے ساتھ تھا۔ سوال نمبر۳: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سریہ ابوسلمہؓ میں صحابہ ؓکی روانگی اورحالات کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: اس سریہ میں شامل ہونے والے چند صحابہ کرامؓ کے اسماء یہ ہیں۔ اَبُوسَبْرَہ بن ابی رُھْم ، عبداللہ بن سُہَیل بن عمرو، عبداللہ بن مَخْرَمَہ عامری، مُعَتِّبْ بن فضل، ارقم بن ابی ارقم، ابوعبیدہ بن جرّاح، سہیل بن بَیضَاء، اُسَید بن حُضَیر انصاری ، عَبَّاد بن بِشْر انصاری، ابونائلہ انصاری ، ابوعَبْس، قتادہ بن نعمان ، نَضْر بن حارث، ابوقتادہ انصاری ، ابو عَیاش زُرَقِی، عبداللہ بن زید انصاری، خُبَیب بن یسَافْ، سعد بن ابی وقاص ، ابوحذیفہ بن عُتْبہ، سالم مولیٰ ابوحذیفہ۔ صحابہ کرامؓ اپنی اس مہم کو خفیہ رکھتے ہوئے تیز رفتاری سے عام رستے سے ہٹ کر چلے تا کہ جلدازجلد دشمن تک پہنچ جائیں۔ انہوں نے دن رات مسلسل یہ سفر کیا۔ ایک روایت کے مطابق دن کا ایک حصہ یہ چھپ جاتے اور رات کو سفر کرتے۔ یوں چار دن کے سفر کے بعد وہ قَطَن پہاڑ کے قریب پہنچ گئے۔ قَطن کے متعلق لکھا ہے کہ یہ فید کے قریب ایک پہاڑ کا نام ہے اور فَید کوفہ کے رستے پر ایک منزل کا نام ہے جہاں بنو اسد بن خُزیمہ کا چشمہ تھا۔ مسلمانوں نے وہاں پہنچتے ہی حملہ کرکے ان کے مویشیوں پر قبضہ کر لیا اور ان کے چرواہوں میں سے تین کو پکڑ لیا اور باقی بھاگنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان بھاگنے والوں نے بنو اسد کے پڑاؤ میں پہنچ کر مسلمانوں کے لشکر کے پہنچ جانے اور ان کے حملے کی خبر دی اور ابوسلمہؓ کے لشکر کی تعداد بہت بڑھا چڑھا کر بیان کی۔ ان چرواہوں نے بھی بہت مبالغے سے کام لیا کہ اتنا بڑا لشکر ہے جس سے ان میں اَور خوف پیدا ہو گیا۔ جس سے بنو اسد خوفزدہ ہو گئے اور مسلمانوں کے اچانک پہنچ جانے کی وجہ سے ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ وہ ڈر کے مارے اِدھر اُدھر بھاگ گئے۔ حضرت ابوسلمہؓ جب بنو اسد کے پڑاؤ کے مقام پر پہنچے اور انہوں نے دیکھا کہ دشمن بھاگ گیا ہے تو انہوں نے ان کی تلاش میں اپنے ساتھیوں کو بھیجا۔ حضرت ابوسلمہؓ نے انہیں تین حصوں میں تقسیم کیا۔ ایک حصہ ان کے ساتھ ٹھہرا۔ باقی دونوں کو دو مختلف اطراف میں بھیجا اور ساتھ یہ بھی ہدایت دی کہ دشمن کا پیچھا کرتے ہوئے زیادہ دُور تک نہ جائیں اور اگر دشمن سے تصادم نہیں ہوتا تو واپس آ کر رات انہی کے پاس قیام کریں اور یہ بھی تاکید کی کہ منتشر نہ ہوں، اکٹھے ہی رہیں لیکن دشمن سراسیمہ ہو کر اتنی تیزی سے بھاگا تھا کہ مسلمانوں کا کسی سے بھی سامنا نہ ہوا۔ حضرت ابوسلمہؓ نے تمام مالِ غنیمت کے ساتھ مدینہ کی طرف واپسی کا سفر شروع کیا۔ جو شخص بطور راہنما ساتھ گیا تھا وہ ساتھ ہی واپس لوٹا۔ ایک رات کا سفر طے کرنے کے بعد حضرت ابوسلمہؓ نے مالِ غنیمت تقسیم کیا۔ انہوں نے آنحضرتﷺ کے لیے خمس علیحدہ کیا۔ رہبر شخص کو اس کی خوشی کے مطابق مال دیا اور بقیہ مالِ غنیمت صحابہ کرامؓ میں تقسیم کر دیا۔ ہر صحابی کو سات سات اونٹ اور کئی کئی بکریاں ملیں اور یوں باقی سفر طے کرتے ہوئے یہ لوگ خوشی کے ساتھ قریباً دس دن کے بعد واپس مدینہ پہنچ گئے۔ سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے سریہ حضرت عبداللہ بن انیسؓ کےپس منظرکی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: جنگِ اُحد کے واقعات جب مدینہ کے اردگرد قبائل کے لوگوں کو معلوم ہوئے تو جن لوگوں نے مسلمانوں کو کمزور سمجھ کر ان پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا ان میں سے قبیلہ بَنُو لَحْیان کا سردار خالد بن سفیان ھُذَلِی لَحْیانِی بھی تھا۔ بعض روایات میں اس کا نام سفیان بن خالد ہے۔ بہرحال اس نے سوچا کہ مسلمانوں کو اُحد میں تازہ تازہ نقصان پہنچا ہے تو کیوں نہ ان کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر ان پر چڑھائی کر دی جائے اور مدینہ میں لُوٹ مار کر کے ان پر اپنی دھاک بٹھائی جائے۔ اس شخص کے دل میں اسلام دشمنی کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی تھی اور بےحد متکبر تھا۔ یہ مقام نخلہ یا عرفات کے قریب وادی عُرَنَہ میں لشکر تیار کر رہا تھا۔ اس نے اپنی قوم کے جنگجوؤں اور ارد گرد کے لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف اکٹھا کرنے کی مہم چلا رکھی تھی اور مختلف قبیلوں سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ اس کے پاس اکٹھے بھی ہو چکے تھے۔جب رسول اللہﷺ کو معلوم ہوا کہ سفیان بن خالد نے مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے لشکر جمع کیا ہے تو آپؐ نے ایک منفرد حکیمانہ عسکری فیصلہ فرمایا کہ بجائے اس کے کہ ایک فوج تیار کر کے سفیان کے مقابلے کے لیے بھیجی جائے اور دونوں طرف خون بہے زیادہ مناسب معلوم ہو گا کہ حکمتِ عملی سے اس باغیانہ لشکر تیار کرنے والے بانی مبانی کو ہی ختم کر دیا جائے۔ چنانچہ آپﷺ نے اس خطرناک لیکن اہم کارروائی کے لیے اپنے ایک بہادر صحابی حضرت عبداللہ بن انیسؓ کا انتخاب فرمایا۔ سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے سفیان بن خالدکےقتل کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: آنحضرتﷺ نے حضرت عبداللہ بن انیس ؓکو بلا کر سفیان بن خالد کے سارے منصوبے کی تفصیل بتائی اور فرمایا کہ خاموشی سے جاؤ اور اس کو قتل کر دو۔عبداللہ نے آنحضرتﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہؐ! مجھے اس کا حلیہ بتائیے۔ آپؐ نے فرمایا جب تم اس کودیکھو گے تو تم پر ہیبت چھا جائے گی اور اس کو دیکھتے ہی شیطان یاد آ جائے گا۔عبداللہؓ نے عرض کیا کہ اے رسول اللہؐ! میں تو کبھی کسی سے نہیں ڈرا۔ آپؐ نے فرمایا ہاں ٹھیک ہے لیکن اسے دیکھ کر تمہارے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ چنانچہ پانچ محرم چار ہجری کو یہ اکیلے اس مہم پر روانہ ہو گئے۔ عبداللہؓ کہتے ہیں جب مَیں عُرَنَہ کے مقام پر پہنچا جو کہ عرفات کے قریب ایک وادی ہے تو مَیں نے سفیان کو لاٹھی کے سہارے چلتا ہوا دیکھا اور اس کے پیچھے پیچھے مختلف قبیلوں کے وہ لوگ تھے جو اس سے وابستہ ہو گئے تھے۔ یہ لاٹھی بڑھاپے کی وجہ سے لے کرنہیں چل رہا تھا بلکہ ا س زمانے میں رواج تھا کہ ہاتھ میں لاٹھی رکھا کرتے تھے۔ تو بہرحال عبداللہ بیان کرتے تھے کہ آنحضرتﷺ نے اس کے متعلق مجھے جو کچھ بتایا تھا اس کی وجہ سے مَیں اسے فوراً پہچان گیا کیونکہ اسے دیکھتے ہی مجھ پر ہیبت طاری ہو گئی جبکہ مَیں کبھی کسی سے نہیں ڈرتا تھا۔ چنانچہ مَیں نے دل میں کہا اللہ اور اس کے رسولؐ نے سچ کہا تھا۔ تب عصر کی نماز کا وقت تھا اس لیے مجھے ڈر ہوا کہ اگر ابھی میرا اس سے سامنا ہو گیا تو کہیں میری عصر کی نماز نہ رہ جائے۔ اس لیے مَیں نے اس حال میں نماز ادا کر لی کہ مَیں اس کی طرف چل رہا تھا اور ساتھ ہی اپنے سر سے اشارہ بھی کرتا جاتا تھا یعنی اشارے سے نماز ادا کی۔ جب مَیں اس کے پاس پہنچا تو اُس نے پوچھا تم کون ہو؟ مَیں نے کہا مَیں بنو خُزَاعہ میں سے ہوں۔ مَیں نے سنا تھا کہ تم محمدﷺ کے مقابلے کے لیے لشکر اکٹھا کر رہے ہو۔ اس لیے مَیں بھی تمہارے ساتھ شامل ہونے کے واسطے آیا ہوں۔ اس نے کہا بےشک مَیں محمدؐ کے مقابلے کے لیے لشکر جمع کر رہا ہوں۔ چنانچہ میں کچھ دیر تک اس کے ساتھ چلتا رہا۔ پھر مَیں نے اس سے باتیں شروع کیں تو اس نے میری باتوں میں بہت زیادہ دلچسپی لی۔ سفیان بن خالد نے کہا محمد (ﷺ) کو ابھی تک دراصل کوئی مجھ جیسا نہیں ملا۔اب تک ایسے ہی لوگ ملے جو جنگ کے ماہر نہیں ہیں۔ آخر جب وہ اپنے خیمہ میں پہنچ گیا اور اس کے ساتھی اِدھر اُدھر چلے گئے تو وہ مجھ سے کہنے لگا اے خزاعی بھائی! ذرا یہاں آ جاؤ۔ مَیں اس کے قریب آیا تو وہ بولا بیٹھ جاؤ۔ مَیں اس کے پاس ہی بیٹھ گیا یہاں تک کہ جب ہر طرف رات کا سناٹا چھا گیا اور لوگ سو گئے تو مَیں نے اچانک اٹھ کر اس کو قتل کر ڈالا اور اس کا سر لے لیا۔ مَیں وہاں سے نکل کر ایک قریبی پہاڑی کے غار میں جاچھپا۔ کچھ لوگ تلاش کرتے ہوئے اس غار تک آئے مگر انہیں کچھ نہ ملا۔ اس لیے مایوس ہو کر وہ لوگ وہاں سے واپس چلے گئے۔ اس کے بعد مَیں غار سے نکل کر روانہ ہوا۔ مَیں رات کو سفر کرتا اور دن میں کہیں چھپ جاتا۔ آخر مدینہ پہنچا تو مجھے دیکھتے ہی رسول اکرمﷺ نے بےساختہ فرمایا: اَفْلَحَ الْوَجْہُ۔ یعنی یہ چہرہ کامیاب رہا۔ اب دیکھیں انہوں نے بڑی عاجزی سے یہ فرمایا اور بڑی دانائی سے آنحضرتﷺ کو عرض کیا اور فوراً یہ فقرہ فرمایاکہ اَفْلَحَ وَجْھُکَ یارَسُوْلَ اللّٰہِ! یا رسول اللہﷺ! آپؐ کا چہرہ کامیاب رہا۔ یعنی یہ ساری کامیابی آپؐ کی ہی ہے، آپؐ کی دعاؤں کی برکت سے ہی ہے۔ اس کے بعد حضرت عبداللہؓ نے ساری تفصیل بتائی اور اس باغی سردار کا سر آپﷺ کے سامنے رکھ دیا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ آنحضورﷺ نے حضرت عبداللہ بن انیسؓ کے آنے سے پہلے ہی سفیان بن خالد کے قتل کی خبر دے دی تھی۔ مزید پڑھیں: خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب