باطنی عالم اسباب فرمایا:دعا اور توجہ میں ایک روحانی اثر ہے جس کو طبعی لوگ جو صرف مادی نظر رکھنے والے ہیں نہیں سمجھ سکتے۔ سنت اﷲ میں دقیق در دقیق اسباب کا ذخیرہ ہے جو دعا کے بعد اپنا کام کرتا ہے۔نیند کے واسطے طبعی اسباب رطوبات کے بیان کئے جاتے ہیں مگر بہت دفعہ آزمائش کی گئی ہے کہ بغیر رطوبات کے اسباب کے ایک نیند سی آجاتی ہے اور ایک حالت طاری ہوتی ہے جس میں سلسلہ الہامات کا وارد ہوتا ہے اور وہ بعض اوقات ایسا لمبا سلسلہ ہوتا ہے کہ انسان بار بار اپنے رب سے سوال کرتا ہے اور رب جواب دیتا ہے۔ ایسا ہی بعض مادی لوگوں نے چند ظاہر اسباب کو دیکھ کر فتویٰ لگالیا ہے کہ اب زلازل کا خاتمہ ہے اور دو سو سال تک یہاں کوئی زلزلہ نہیں آئے گا۔ لیکن یہ لوگ دراصل اﷲ تعالیٰ کے باریک رازوں اور اسباب سے بے خبر ہیں۔ وہ ظاہر عالم اسباب کو جانتے ہیں لیکن اس کا ایک باطنی عالم اسباب بھی ہے ؎ فلسفی گو منکر حنانہ است از حواسِ اولیاء بیگانہ است اس جہاں کے لوگ جب فتنہ و فساد کی کثرت کو دیکھ کر اس کی اصلاح سے عاجز آجاتے ہیں تب اﷲ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو ایسے قویٰ عطا کرتے ہیں جن کی توجہ سے سب کام درست ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ دعا کے ذریعہ سے عمریں بڑھ جاتی ہیں۔(ملفوظات جلد ہفتم صفحہ۱۶۸، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) تفصیل: اس حصہ ملفوظات میں بیان فرمودہ فارسی شعر مولانا جلال الدین محمد بلخی معروف بہ مولانا روم کاہے جس کی تفصیل کچھ یوں ہے ۔ ایک ایمان افروز واقعہ احادیث میں تفصیل سے بیان ہوا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ شروع شروع میں مسجد نبویﷺ کے اندر حضورؐ جس جگہ پر کھڑے ہو کر خطبہ دیا کرتے تھے وہاں کھجور کا ایک خشک تنا موجود تھا۔ آپؐ خطبہ کے لیے کھڑے ہوتے تو اس کے ساتھ ٹیک لگا لیتے۔ بعد میں اس مقصد کے لیے جب منبر بن گیا تو آپؐ نے اس پر کھڑے ہو کر خطبہ دینا پسند فرمایا۔ لیکن جب آپؐ پہلے دن منبر پر تشریف فرما ہوئے تو اس خشک لکڑی سے ایسی آوازیں آنا شروع ہوگئیں جیسے کوئی بچہ بِلک بِلک کر رو رہا ہو۔ یعنی وہ خشک لکڑی اپنی محرومی پر رو رہی تھی کہ آج کے بعد اسے حضور ﷺ کی معیت نصیب نہیں ہوگی۔ اس روز سے اس کا نام ’’حنانہ‘‘رقت والی پڑگیا۔ بعد میں اس جگہ پر ایک ستون تعمیر کردیا گیا، جو’’ستون حنانہ‘‘سے موسوم ہے۔ مولانا رومؒ نے اپنے اس شعر میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے: فلسفی کو منکر حنانہ است از حواس انبیاء بیگانہ است کہ فلسفی کو ’’حنانہ ‘‘ جیسے معاملہ کی سمجھ نہیں آسکتی ، اس لیے کہ وہ انبیاء کے مقام و مرتبہ سے واقف نہیں ہے۔ ملفوظات میں جو شعر آیا ہے اس میں انبیاء کی جگہ اولیاء کا لفظ استعمال ہوا ہے ،باقی تمام شعر اسی طرح ہے۔ فَلْسَفِیْ کُوْ مُنْکِرِ حَنَانِہْ اَسْت اَزْحَوَاسِ اَوْلِیَاء بِیْگَانِہْ اَسْت ترجمہ: وہ فلسفی جو رونے والے ستون کامنکر ہے وہ اولیاء کی باطنی حسوں سے بے خبر ہے ۔ لغوی بحث: فَلْسَفِیْ(فلسفی) کُوْ(جوکہ)مُنْکِرِحَنَانِہْ(رونے والے ستون کا منکر) اَسْت(ہے) اَزْ(سے) حَوَاسِ اَوْلِیَاء (اولیا کی باطنی حسوں) بِیْگَانِہْ(بے خبر) اَسْت(ہے) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: ۱۹۵۳ء کےاینٹی احمدیہ فسادات اور اُن کا انجام