حقیقی احمدی بننے کے لیے ضروری ہے کہ ہم تقویٰ پر چلنے اور خدا تعالیٰ کے حقیقی عبد بننے کی کوشش کریں جلسہ سالانہ برطانیہ کی تقریب پرچم کشائی اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے بصیرت افروز افتتاحی خطاب کا خلاصہ (حدیقۃ المہدی، ۲۵؍جولائی ۲۰۲۵ء، نمائندگان الفضل انٹرنیشنل) امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آج اپنے بصیرت افروز خطاب سے جماعت احمدیہ برطانیہ کے ۵۹ویں جلسہ سالانہ کا افتتاح فرمایا۔ ساڑھے چار بجے کے قریب حضورِ انور نے لوائے احمدیت لہرایا جبکہ محترم رفیق احمد حیات صاحب امیر جماعت احمدیہ برطانیہ نے برطانیہ کا قومی پرچم لہرایا۔ جیسے ہی حضورِ انور نے لوائے احمدیت لہرایا فضا نعروں سے گونج اٹھی۔ اس کے بعد حضورانور نے دعا کروائی اور جلسہ سالانہ کے افتتاحی اجلاس کے لیے جلسہ گاہ میں تشریف لے گئے۔ چار بج کر چھتیس منٹ پر حضور انور مردانہ پنڈال میں رونق افروز ہوئے۔ جونہی حضورِانور پنڈال میں داخل ہوئے فلک شگاف نعرے بلند ہوئے اور عشاقانِ خلافت نے ان نعروں کا بھرپور جواب دیا۔ بعد ازاں افتتاحی اجلاس کی کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ الحاج راشد خطاب صاحب کو سورت آل عمران کی آیات۱۰۳ تا ۱۰۸ تلاوت کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ جبکہ مکرم نصیر احمد قمر صاحب (ایڈیشنل وکیل الاشاعت)نے تفسیر صغیر سے ان آیات کا اردو ترجمہ پیش کیا۔ بعد ازاں مکرم عصمت اللہ صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا اردو منظوم کلام بعنوان ’’بشیر احمد، شریف احمد، مبارکہ کی آمین‘‘ میں سے بعض اشعار پیش کیے۔ یہ اشعار حسب ذیل اشعار سے شروع ہوئے: ہمیں اُس یار سے تقویٰ عطا ہے نہ یہ ہم سے کہ احسانِ خدا ہے کرو کوشش اگر صدق و صفا ہے کہ یہ حاصل ہو جو شرطِ لقا ہے بعد ازاں مکرم عمر شریف صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی تصنیف تریاق القلوب سے فارسی منظوم کلام پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جس کا آغاز درج ذیل شعرسے ہوا: رسید مژده ز غیبم که من ہماں مردم که او مجدّدِ اِیں دین و رہنما باشد ان اشعار کا اردو ترجمہ مکرم جواد احمد قمر صاحب کو پیش کرنے کی سعادت ملی۔ خلاصہ خطاب حضورِانورایدہ اللہ تعالیٰ پانچ بج کر ایک منٹ پر فلک شگاف نعروں کی گونج میں حضور انور منبر پر رونق افروز ہوئے اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ کا تحفہ عطا فرماتے ہوئے افتتاحی خطاب کا آغاز فرمایا۔ تشہد،تعوذ اورسورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا: آج کل دنیا کےجو حالات ہیں اس نے ہرایک کو فکرمیں ڈالا ہوا ہے۔فکرکا اظہار تو سب کرتے ہیں مگر اس کے حل کی طرف کسی کی بھی توجہ نہیں۔ دنیاکی اکثریت بھول گئی ہے کہ دنیاکا ایک مالک ہے جو ربّ العالمین ہے۔وہ خداہے جس نے انسان کو تمام اچھی صفات کے ساتھ پیداکیا ہے مگر انسان ان صفات سے فائدہ اٹھانا نہیں چاہتا،نیکی کی بجائے برائی کی طرف زیادہ رجحان ہے۔ اپنے پیدا کرنے والے خدا کی بجائے شیطان کے حربوں کی طرف زیادہ جھکاؤہے۔ اس میں مذہب کو ماننے والے اور خدا کے منکر سب شامل ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ خدا کو ماننے کا دعویٰ کرنے والے بھی دنیا کے دھندوں، ذاتی خواہشات اور اناؤں میں ڈوب کر خدا کا اپنے عمل سے انکار کر رہے ہیں۔ گو منہ سے تو یہی کہتے ہیں کہ ہم خدا کو مانتے ہیں مگر ان کے عمل کچھ اور ہی ظاہر کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت بھی حقوق اللہ اور حقوق العباد کو بھلا بیٹھی ہے۔ سربراہانِ مملکت بھی خدا کو فراموش کر بیٹھے ہیں، اسی لیے انہیں اپنی حکومتیں قائم رکھنے کے لیے خدا کی بجائے غیروں کی طاقت کاسہارا لینا پڑ رہا ہے۔ خدا کو بھول کر اپنی عزت اور وقار اور طاقت سب گنوا بیٹھے ہیں۔ یہ بھول گئے ہیں کہ خدا نے مسلمانوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اُن کی اصلاح کے لیے اپنے خاص تائید یافتہ اور علم سے پُر بندے بھیجتا رہے گا، وہ اگر اُن کی پیروی کریں گے تو ان کی دنیا و آخرت دونوں سنور جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے آخری زمانے میں تو ایک خاص فرستادے کو بھیجنے کا وعدہ فرمایا تھاجو مسیح و مہدی کے نام سے آئے گا۔ بدقسمتی سے مسلمانوں کی اکثریت اس کے بالکل الٹ کر رہی ہے۔ ان حالات میں ہم احمدیوں کی ذمہ داری ہے کہ اِس بات کو سمجھیں اور حضرت مسیح موعودؑ کو ماننے کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں۔ آپؑ کو مانا ہے تو آپؑ کی باتیں سنیں، اُن پر غور کریں اور ان پر عمل کرکےاپنی دنیا و آخرت سنواریں، اپنی اولادوں کی بھی حفاظت کریں اور دنیا کو بھی صراطِ مستقیم پر لانے کے لیے خود کوشش کریں۔ اگر ہم نے اس طرف توجہ نہ کی تو ہم بھی نام نہاد مسلمانوں کی طرح ہوجائیں گے۔ آپؑ ہمیں تقویٰ کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والا بنانا چاہتے ہیں۔ آپؑ نے ایک مرتبہ یہ مصرعہ بنایا کہ ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے تو اللہ تعالیٰ نے الہاماً آپؑ کو دوسرا مصرعہ یہ عطا فرمایا کہ اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے پس حقیقی احمدی بننے کے لیے ضروری ہے کہ ہم تقویٰ پر چلنے اور خدا تعالیٰ کے حقیقی عبد بننے کی کوشش کریں۔ اسی مقصد کے حصول کے لیے آپ سب جلسے پر آئے ہیں۔ پس اس کے لیے اپنے اندر عاجزی پیدا کرنے، ہر قسم کے تکبر سے بچنے، ریا سے پرہیز کرنے، سچائی پر قائم رہنے،صبر اور استقامت پر مضبوطی سے قائم ہونے کی ضرورت ہے۔ حضورؑ نے ایک جگہ فرمایا کہ اپنی جماعت کی خیرخواہی کےلیے زیادہ ضروری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ تقویٰ کی بابت نصیحت کی جاوے، کیونکہ یہ بات عقل مند کے نزدیک ظاہر ہے کہ بجزتقویٰ کے اللہ تعالیٰ راضی نہیں ہوتا۔ ایک جگہ آپؑ نے فرمایا :ہماری جماعت کےلیے خاص کر تقویٰ کی ضرورت ہے خصوصاً اس خیال سے بھی کہ وہ ایک ایسے شخص سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کے سلسلہ بیعت میں ہیں جس کا دعویٰ ماموریت کا ہے،تاوہ لوگ جو خواہ کسی قسم کے بغضوں، کینوں یا شرکوں میں مبتلا تھے یا کیسے روبہ دنیا تھے ان تمام آفات سے نجات پاویں۔ پس چاہیے کہ ہم چھوٹی چھوٹی برائیوں سے بھی بچنے کی کوشش کریں کیونکہ بجز اس کے کوئی دوسرا راستہ نہیں جسے اختیار کرکے ہم بچ سکیں۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ یقیناً وہ جو مومن ہیں فلاح پاگئے، ایسے ہی متقی کی زندگی کا نقشہ کھینچ کر آخر میں فرمایا اور تقویٰ پر چلنے والے ہی فلاح پانے والے ہیں۔ پس ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اگر ہم نے اپنی مراد کو پانا ہے، کامیابی حاصل کرنی ہے تو ہمیں مومن بننا پڑے گا اور مومن بننے کے لیے تقویٰ اختیارکرنا ضروری ہے۔ پس اگر ہم کامیابی چاہتے ہیں تو ہمیں حضرت مسیح موعودؑ کی نصائح پر عمل کرنا ہوگا۔ ہمیں قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنا ہوگا۔ ہمیں آنحضرتﷺ کے اسوہ پر چلنے اور آپؐ کی حقیقی تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ جب یہ ہوگا تو ہم اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتے چلے جائیں گے۔ مومن کی ایک نشانی یہ ہے کہ وہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ وہ خدا کے دیے ہوئے میں سے دیتے ہیں۔ نمازوں کی طرف ان کی توجہ ہوتی ہے، عبادت کی طرف توجہ ہوتی ہے، یہی حقیقی مومن کی نشانی ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ ہماری جماعت کے افراد کو چاہیے کہ سب غموں سے بڑھ کر یہ غم اپنےاوپرلگالیں کہ ہم میں تقویٰ ہے کہ نہیں۔ اہلِ تقویٰ کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ اپنی زندگی غربت اور مسکینی میں بسر کریں۔ فرمایا بڑے بڑے عارف اور صدیقوں کے لیے آخری اور کڑی منزل غضب سے بچنا ہی ہے، عجب و پندار غضب سے پیدا ہوتا ہے۔ ایک جگہ آپؑ نے فرمایا کہ اگر تم اپنے اندر عقل پیدا کرنا چاہتے ہو،ذہانت پیداکرنا چاہتے ہو، تو پھر تقویٰ سے کام لو۔ خدا کے واسطے عقل سے کام لو، اور اس کے واسطے جودت اور ذہانت پیدا کرو۔ راستباز اور متقی بنو، پاک عقل آسمان سے آتی ہے اور اپنے ہمراہ ایک نور لاتی ہے وہ جوہر ایک قابل کی تلاش میں رہتی ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ اس زمانے میں خداتعالیٰ نے بڑا فضل فرمایا ہے اور اپنے دین اور حضرت نبی کریمﷺ کی تائید میں غیرت کھاکر ایک انسان کو جو تم میں بول رہا ہے بھیجا ہے تاکہ اس روشنی کی طرف لوگوں کو بلائے۔… اب تم دیکھتے ہو کہ ہر طرف یمین ویسار سے اسلام ہی کو معدوم کرنے کی فکر میں ساری قومیں لگی ہوئی ہیں۔ حضورِانور نے فرمایا کہ آج بھی دیکھ لیں کہ (اسلام کو )ختم کرنے کے لیے مختلف طریقے اپنائے جارہے ہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم جغرافیائی جنگیں لڑ رہے ہیں۔ ٹھیک ہے سیاسی اور جغرافیائی جنگیں لڑی جارہی ہیں، مگر آج بھی بہت سے لوگوں کے دلوں میں اندر ہی اندر اسلام کے خلاف کینہ اور بغض ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ آج تو فلسطین پر حملہ ہے مگر مَیں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ باقی مسلمان ملک بھی متاثر ہوں گے۔ پس اب بھی وقت ہے کہ مسلمان عقل سے کام لیں اور اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے جو فرستادہ بھیجا ہے اس کو ماننے والے بنیں اور ایک ہوکر اللہ تعالیٰ کے حضور اس کے احکامات پر چلتے ہوئے گڑگڑائیں اور روئیں اور اُس کی مدد مانگیں اور عملی طور پر بھی جو اللہ تعالیٰ کے احکامات ہیں ان پر عمل کرکے اپنی ساخت کو برقرار رکھنے کی کوشش کریں تو پھر دیکھیں کہ کیا انقلاب پیدا ہوتا ہے۔ اگر یہ نہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کو کوئی پروا نہیں۔ اسلام کو صدمہ پہنچانے کی ہر طرف سے کوشش ہے، دہریوں کی طرف سے بھی ہے، لامذہبوں کی طرف سے بھی ہے غیرمذاہب کی طرف سے بھی ہے، اس کو بچانےکے لیے آج احمدی کا کام ہے کہ وہ کھڑا ہو اور اپنے ایمان میں ترقی کرنے کی کوشش کرے، اپنے تقویٰ کے معیار بلند کرنے کی کوشش کرے، اگر یہ نہیں تو پھر دشمن توہر طرف سے حملہ کرنے کے لیے تُلا بیٹھا ہے۔ حضورؑ فرماتے ہیں اگر تم اسلام کی حمایت اور خدمت کرنا چاہتے ہو تو پہلے خود تقویٰ اور طہارت اختیار کرو۔ فرمایا اگر تم نے حقیقی سپاس گزاری یعنی طہارت اور تقویٰ اختیار کرلیں تو مَیں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ تم سرحد پر کھڑے ہو کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا۔ فرمایامَیں اپنی جماعت کو مخاطب کرکے کہتا ہوں کہ ضرورت ہے اعمالِ صالحہ کی، خدا تعالیٰ کے حضوراگر کوئی چیز جاسکتی ہے تو وہ اعمالِ صالحہ ہیں۔ ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم نے خدائے واحد کی حکومت کو دنیا میں قائم کرنا ہے۔ اس کے لیے ہم نے بھرپور کوشش کرنی ہے اور دنیا کو آنحضرتﷺ کے جھنڈے تلے لےکر آنا ہے۔ اگر یہ ہم کریں گے تو یہی ہماری کامیابی اور ہمارا مقصد ہے۔ حضورؑ فرماتے ہیں کہ لوگ میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر یہ تو کہہ جاتے ہیں کہ دین کو دنیا پر ترجیح دوں گا لیکن یہاں سے جاکر بھول جاتے ہیں کہ وہ کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ پس اصل بات یہی ہے کہ صرف عہد کافی نہیں…بلکہ اس کے لیے عمل ضروری ہے۔ تقویٰ ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنا ضروری ہے۔ حقوق العباد کے متعلق آپؑ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کسی کی پرواہ نہیں کرتا مگرصالح بندوں کی، آپس میں محبت اور اخوت کو پیدا کرو اور درندگی اور اختلاف کو چھوڑ دو۔ ہر ایک قسم کے تمسخر سے مطلقاً کنارہ کش ہوجاؤ کیونکہ تمسخر انسان کے دل کو صداقت سے دُور کرکے کہیں سے کہیں پہنچا دیتا ہے۔ آپؑ نے اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا اپنی زندگی میں ایسی تبدیلی پیدا کرلو کہ معلوم ہو کہ گویا نئی زندگی ہے۔ استغفار کی کثرت کرو،جن لوگوں کو بوجہ کثرتِ اشغال دنیا کم فرصتی ہے انہیں سب سے زیادہ ڈرنا چاہیے۔ حضورؑ نے فرمایاکہ اگر تم اللہ تعالیٰ کے حضور میں صادق ٹھہرو گے تو کسی کی مخالفت تمہیں تکلیف نہ دے گی۔ ہاں! یہ شرط ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں تم صادق ٹھہروسچے بن جاؤ۔ اگر تم اپنی حالتوں کو درست نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے فرمانبرداری کا سچا عہد نہ باندھو تو پھر اللہ تعالیٰ کو کسی کی پرواہ نہیں۔ ہزاروں بھیڑیں اور بکریاں روز ذبح ہوتی ہیں اور اُن پر کوئی رحم نہیں کرتا اور اگر ایک آدمی مارا جائے تو کتنی بازپرس ہوتی ہے کیونکہ انسان کی زندگی کی قیمت ہے۔ فرمایا تم خدا کے عزیزوں میں شامل ہوجاؤ تاکہ کسی وبا یا آفت کو تم پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہ ہوسکے۔ ہر ایک آپس کے جھگڑے اور جوش اور عداوت کو درمیان سے اٹھادو کہ اب وہ وقت ہے کہ تم ادنیٰ باتوں سے اعراض کرکے اہم اور عظیم الشان کاموں میں مصروف ہوجاؤ۔ لوگ تمہاری مخالفت کریں گے مگر تم انہیں نرمی سے سمجھاؤ اور جوش کو ہرگز کام میں نہ لاؤ۔ یہ میری وصیت ہے۔ حضورِانور نے فرمایا کہ پس یہ باتیں ہیں اگر ہم انہیں یاد رکھیں گے تو ہم اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے وارث بنتے چلے جائیں گے۔ خدا تعالیٰ کرے کہ ہم حضرت مسیح موعودؑ کی نصائح پر عمل کرتے ہوئے ان باتوں کو اختیار کرنےو الے ہوں اور جلد ہم وہ نظارہ دیکھیں کہ جب اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے جماعت احمدیہ آنحضرتﷺ کے جھنڈے کو تمام دنیا کے کونوں میں گاڑنے والی ہو، پہنچانے والی ہو اور خدائے واحد کی حکومت کو دنیا میں قائم کرنے والی ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ٭…٭…٭