https://youtu.be/uyMeDxGyI8k (خطبہ جمعہ فرمودہ ۳؍مئی ۲۰۲۴ءبمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے) سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟ جواب:فرمایا: غزوۂ حمراء الاسد کا ذکر ہو رہا تھا۔ اس ضمن میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے غزوہ اُحد سے مدینہ واپسی میں مدینہ اور حمراء الاسد کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے مختلف تاریخ کی کتابوں سے جو اخذ کیا ہے وہ بیان کرتا ہوں۔ سوال نمبر۲: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے غزوہ حمراءالاسدمیں اسلامی لشکرکی روانگی کی بابت حضرت مرزابشیراحمدصاحبؓ کاکیاموقف بیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: لکھتے ہیں کہ ‘‘یہ رات’’ یعنی جنگِ اُحد سے لَوٹنے کے بعد کی رات ‘‘مدینہ میں ایک سخت خوف کی رات تھی کیونکہ باوجود اس کے کہ بظاہر لشکرِ قریش نے مکہ کی راہ لے لی تھی یہ اندیشہ تھا کہ ان کا یہ فعل مسلمانوں کو غافل کرنے کی نیت سے نہ ہو اور ایسا نہ ہو کہ وہ اچانک لَوٹ کر مدینہ پر حملہ آور ہو جائیں لہٰذا اس رات کومدینہ میں پہرہ کاانتظام کیا گیا اور آنحضرتﷺ کے مکان کا خصوصیت سے تمام رات صحابہؓ نے پہرہ دیا۔ صبح ہوئی تو معلوم ہوا کہ یہ اندیشہ محض خیالی نہ تھا کیونکہ فجر کی نماز سے قبل آنحضرتﷺ کو یہ اطلاع پہنچی کہ قریش کالشکر مدینہ سے چند میل جاکر ٹھہر گیا ہے اوررؤسائے قریش میں یہ سرگرم بحث جاری ہے کہ اس فتح سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کیوں نہ مدینہ پرحملہ کردیا جاوے اوربعض قریش ایک دوسرے کوطعنہ دے رہے ہیں کہ نہ تم نے محمد [ﷺ]کوقتل کیا اورنہ مسلمان عورتوں کو لونڈیاں بنایا اور نہ ان کے مال ومتاع پرقابض ہوئے، بلکہ جب تم ان پر غالب آئے اورتمہیں یہ موقع ملا کہ تم ان کو ملیا میٹ کردو توتم انہیں یونہی چھوڑ کر واپس چلے گئے تاکہ وہ پھرزور پکڑ جاویں۔ پس اَب بھی موقع ہے واپس چلو اور مدینہ پر حملہ کر کے مسلمانوں کی جڑ کاٹ دو۔ اس کے مقابل میں دوسرے یہ کہتے تھے کہ تمہیں ایک فتح حاصل ہوئی ہے اسے غنیمت جانو اور مکہ واپس لوٹ چلو ایسا نہ ہوکہ یہ شہرت بھی کھو بیٹھو اور یہ فتح شکست کی صورت میں بدل جاوے کیونکہ اب اگر تم لوگ واپس لوٹ کر مدینہ پر حملہ آور ہوگے تو یقیناً مسلمان جان توڑ کرلڑیں گے اور جو لوگ اُحد میں شامل نہیں ہوئے تھے وہ بھی میدان میں نکل آئیں گے۔ مگربالآخر جوشیلے لوگوں کی رائے غالب آئی اورقریش مدینہ کی طرف لوٹنے کے لئے تیار ہو گئے۔ آنحضرتﷺ کو جب ان واقعات کی اطلاع ہوئی تو آپؐ نے فوراً اعلان فرمایا کہ مسلمان تیار ہو جائیں مگرساتھ ہی یہ حکم بھی دیا…کہ سوائے ان لوگوں کے جو اُحد میں شریک ہوئے تھے اَورکوئی شخص ہمارے ساتھ نہ نکلے۔ چنانچہ اُحد کے مجاہدین جن میں سے اکثر زخمی تھے اپنے زخموں کو باندھ کر اپنے آقا کے ساتھ ہو لئے۔ اور لکھا ہے کہ اس موقعہ پر مسلمان ایسی خوشی اورجوش کے ساتھ نکلے کہ جیسے کوئی فاتح لشکر فتح کے بعد دشمن کے تعاقب میں نکلتا ہے۔ آٹھ میل کا فاصلہ طے کرکے آپؐ حمراء الاسد میں پہنچے جہاں دو مسلمانوں کی نعشیں میدان میں پڑی ہوئی پائی گئیں اورتحقیقات پرمعلوم ہوا کہ یہ وہ جاسوس تھے جو آنحضرتﷺ نے قریش کے پیچھے روانہ کئے تھے مگر جنہیں قریش نے موقعہ پاکر قتل کردیا تھا۔ آنحضرتﷺ نے ان شہداء کوایک قبر کھدوا کر اس میں اکٹھا دفن کروا دیا۔ اور اب چونکہ شام ہوچکی تھی آپؐ نے یہیں ڈیرا ڈالنے کاحکم دیا اور فرمایا کہ میدان میں مختلف مقامات پر آگ روشن کر دی جاوے۔ چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے حمراءالاسد کے میدان میں پانچ سو آگیں شعلہ زن ہو گئیں جو ہر دُور سے دیکھنے والے کے دل کو مرعوب کرتی تھیں۔ غالباً اسی موقع پر قبیلہ خزاعہ کا ایک مشرک رئیس معبد نامی آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپؐ سے اُحد کے مقتولین کے متعلق اظہار ہمدردی کی اور پھر اپنے راستہ پرروانہ ہو گیا۔ دوسرے دن جب وہ مقام روحاء میں پہنچا توکیا دیکھتا ہے کہ قریش کالشکر وہاں ڈیرا ڈالے پڑا ہے۔ اور مدینہ کی طرف واپس چلنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ معبد فوراً ابوسفیان کے پاس گیا اور اسے جا کر کہنے لگا کہ تم کیا کرنے لگے ہو؟ واللہ! مَیں تو ابھی محمد (ﷺ)کے لشکر کوحمراءالاسد میں چھوڑ کر آیا ہوں اور ایسا بارعب لشکر مَیں نے کبھی نہیں دیکھا اوراُحد کی ہزیمت کی ندامت میں ان کو اتنا جوش ہے کہ تمہیں دیکھتے ہی بھسم کر جائیں گے۔ ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں پر معبد کی ان باتوں سے ایسارعب پڑا کہ وہ مدینہ کی طرف لوٹنے کا ارادہ ترک کرکے فوراً مکہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ آنحضرتﷺ کو لشکر قریش کے اس طرح بھاگ نکلنے کی اطلاع موصول ہوئی تو آپؐ نے خدا کاشکر کیا اورفرمایا کہ یہ خدا کارعب ہے جو اس نے کفار کے دلوں پر مسلط کردیا ہے۔ ’’ سوال نمبر۳: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جنگ احدکےنتائج کی بابت حضرت مرزابشیراحمدصاحبؓ کاکیاموقف بیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ‘‘مستقل نتائج کے لحاظ سے تو جنگِ اُحد کو کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں اور بدر کے مقابل میں یہ جنگ کوئی حیثیت نہیں رکھتی لیکن وقتی طورپر ضرور اس جنگ نے مسلمانوں کوبعض لحاظ سے نقصان پہنچایا۔ اوّل ان کے (مسلمانوں کے) ستر آدمی اس جنگ میں شہید ہوئے جن میں سے بعض اکابر صحابہؓ میں سے تھے اور زخمیوں کی تعداد توبہت زیادہ تھی۔ دوسرے مدینہ کے یہود اورمنافقین جو جنگِ بدر کے نتیجہ میں کچھ مرعوب ہوگئے تھے اب کچھ دلیر ہوگئے بلکہ عبداللہ بن اُبَی اوراس کے ساتھیوں نے تو کھلم کھلا تمسخر اڑایا اور طعنے دیئے۔ تیسرے قریش مکہ کو بہت جرأت ہو گئی اورانہوں نے اپنے دل میں یہ سمجھ لیا کہ ہم نے نہ صرف بدر کا بدلہ اتار لیا ہے بلکہ آئندہ بھی جب کبھی جتھا بنا کر حملہ کریں گے مسلمانوں کوزیر کر سکیں گے۔ چوتھے عام قبائلِ عرب نے بھی اُحد کے بعد زیادہ جرأت سے سر اٹھانا شروع کیا۔ مگر باوجود ان نقصانات کے یہ ایک بین حقیقت ہے کہ جو نقصان قریش کو جنگِ بدر نے پہنچایا تھا جنگِ اُحد کی فتح اس کی تلافی نہیں کرسکتی تھی۔ جنگِ بدر میں مکہ کے تمام وہ رؤساء جو درحقیقت قریش کی قومی زندگی کی روح تھے ہلاک ہوگئے تھے اورجیساکہ قرآن شریف بیان کرتا ہے اس قوم کی صحیح معنوں میں جڑ کاٹ دی گئی تھی اوریہ سب کچھ ایک ایسی قوم کے ہاتھوں ہوا تھا جو ظاہری سامان کے لحاظ سے ان کے مقابلہ میں بالکل حقیر تھی۔ اس کے مقابلہ میں بے شک مسلمانوں کو اُحد کے میدان میں نقصان پہنچا لیکن وہ اس نقصان کے مقابلہ میں بالکل حقیر اورعارضی تھا جو بدر میں قریش کو پہنچا تھا۔ آنحضرتﷺ جو اسلامی سوسائٹی کے مرکزی نقطہ تھے اور جو قریش کی معاندانہ کارروائیوں کا اصل نشانہ تھے خدا کے فضل سے زندہ موجود تھے۔ اس کے علاوہ اکابر صحابہ ؓبھی سوائے ایک دو کے سب کے سب سلامت تھے۔ اور پھر مسلمانوں کی یہ ہزیمت ایسی فوج کے مقابلہ میں تھی جواُن سے تعداد میں کئی گنے زیادہ اورسامانِ حرب میں کئی گنے مضبوط تھی۔ پس مسلمانوں کے لئے بدر کی عظیم الشان فتح کے مقابلہ میں اُحد کی ہزیمت ایک معمولی چیز تھی اوریہ نقصان بھی مسلمانوں کے لئے ایک لحاظ سے بہت مفید ثابت ہوا کیونکہ ان پر یہ بات روز روشن کی طرح ظاہر ہو گئی کہ رسول اللہؐ کے منشاء اورہدایت کے خلاف قدم زَن ہونا کبھی بھی موجبِ فلاح اور بہبودی نہیں ہو سکتا۔آنحضرتﷺ نے مدینہ میں ٹھہرنے کی رائے دی اوراس کی تائید میں اپنا ایک خواب بھی سنایا مگر انہوں نے باہر نکل کر لڑنے پراصرار کیا۔ آنحضرتﷺ نے انہیں اُحد کے ایک درّہ میں متعین فرمایا اور انتہائی تاکید فرمائی کہ خواہ کچھ ہوجاوے اس جگہ کو نہ چھوڑنا مگروہ غنیمت کے خیال سے اس جگہ کو چھوڑ کر نیچے اتر آئے اور گو یہ عملی کمزوری ایک محدود طبقہ کی طرف سے ظاہر ہوئی تھی مگر چونکہ انسانی تمدن سب کو ایک لڑی میں پروکر رکھتا ہے اس لئے اس کمزوری کے نتیجہ میں نقصان سب نے اٹھایا جیساکہ اگر کوئی فائدہ ہوتا تو وہ بھی سب اٹھاتے۔’’ پس یہ بھی ایک اصولی بات ہے۔ بعض لوگوں کی کمزوریوں سے بعض دفعہ پورے معاشرے کو نقصان پہنچتاہے۔ اسی طرح فائدے سے پورے معاشرے کا ایک اچھا اثر قائم ہوتا ہے۔ اب ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے حق میں بہت سارے لوگ بولتے ہیں۔ اب سوفیصد احمدی تو اعلیٰ معیار کے نہیں ہیں لیکن جو چند ایک ہیں، جن کا اچھا اثر ہے ان کی وجہ سے باقیوں کو بھی لوگ اچھے معیار کا سمجھتے ہیں۔‘‘پس اُحد کی ہزیمت اگرایک لحاظ سے موجب تکلیف تھی تودوسری جہت سے وہ مسلمانوں کے لئے ایک مفید سبق بھی بن گئی اور تکلیف ہونے کے لحاظ سے بھی وہ ایک محض عارضی روک تھی جو مسلمانوں کے راستے میں پیش آئی اور اس کے بعد مسلمان اس سیلابِ عظیم کی طرح جو کسی جگہ رک کر اور ٹھوکر کھا کر زیادہ تیز ہوجاتا ہے نہایت سرعت کے ساتھ اپنی منزل مقصود کی طرف بڑھتے چلے گئے۔’’ سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے جنگ احدکےبعدکےواقعات کی بابت حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کاکیاتجزیہ بیان فرمایا؟ جواب: فرمایا: حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے اپنی ایک تقریرمیں جنگِ اُحد کے بعد کے واقعات کا جو تجزیہ کیا ہے اس کے کچھ نکات یہ ہیں:نمبر ایک یہ کہ مسلمانوں سے احساس شکست کو کلیةً مٹانے کے لیے اس سے بہتر اَور کوئی اقدام ممکن نہ تھا کہ انہیں بلاتوقف از سرِ نو مقابلے کے لیے میدانِ قتل میں لے جایا جاتا۔ نمبر دو یہ کہ تازہ دم نوجوانوں اور نئے مجاہدین کو ساتھ چلنے کی اجازت نہ دے کر آنحضرتﷺ نے قطعی طور پر یہ ثابت کر دیا کہ آپؐ ظاہری اسباب پر بھروسہ نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے اس دعوے اور یقین میں سچے تھے کہ آپؐ کا اصل توکّل اپنے رب پر ہی ہے اور وہ یقیناً آپؐ کی نصرت پر قادر ہے۔ نمبر تین اس فیصلے کے ذریعہ آپﷺ نے اپنے ان صحابہؓ کی دلداری فرمائی جن کے پاؤں میدانِ اُحد میں اکھڑ گئے تھے اور ان پر اس مکمل اعتماد کا اظہار فرمایا کہ وہ درحقیقت پیٹھ دکھانے والے نہیں تھے بلکہ اچانک ناگزیر حالات سے مجبور ہو گئے تھے۔ …انسانی جنگوں کی تاریخ میں ایک بھی مثال ایسی نظر نہیں آتی کہ کسی جرنیل نے اپنی فوج پر اتنےمکمل اعتماد کا اظہار کیا ہو جبکہ وہی فوج صرف چند گھنٹے پہلے اسے تنہا چھوڑ کر میدان سے ایسے فرار اختیار کر چکی ہو کہ چند جاںنثاروں کے سوا ان کے پاس کچھ بھی نہ رہا ہو۔ نمبر چار یہ امر کہ آنحضورﷺ کا یہ سوفیصد اعتماد درست تھا اور کوئی جذباتی فیصلہ نہ تھا اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ بلا استثنیٰ اُحد کے وہ سب مجاہدین پورے عزم اور جوش کے ساتھ اس انتہائی خطرناک مہم میں حضورﷺ کے ساتھ شامل ہوئے جن میں چلنے پھرنے کی سکت موجود نہ تھی اور کسی ایک نے بھی یہ کہہ کر منہ نہ موڑا کہ یہ مہم خود کشی کے مترادف ہے اور یہ اعتراض نہ کیا کہ ایک دفعہ بمشکل جان بچانے کے بعد پھر اس قوی اور جابر دشمن کے چنگل میں ازخود پھنس جانا کہاں کی دانائی ہے؟ …محمد مصطفی ٰﷺ کا اُحد کے دوسرے روز ہی دشمن کے تعاقب کا فیصلہ اپنے ساتھیوں پر ایک ایسا عظیم احسان ہے کہ کبھی کسی سالار نے اپنی فوج پر نہیں کیا کہ ان کے زخمی کردار کو آن کی آن میں ایسی کامل شفا بخش دی ہو۔ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ وَ بَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیدٌ مَّجِیدٌ ۔نمبر پانچ یہ کہ بعد کے واقعات سے ثابت ہے کہ آنحضورﷺ کا یہ اقدام محض نفسیاتی اور اخلاقی فوائد کا حامل نہیں تھا بلکہ فوجی نکتہ نگاہ سے بھی انتہائی کارآمد ثابت ہوا اور اس سے دشمن ایک اَور شدید تر حملے سے باز آ گیا بلکہ اس حال میں واپس لوٹا کہ فتح کی ترنگ کے بجائے بُری طرح مرعوب ہو چکا تھا۔ پس بغیر مزید نقصان کے آنحضورﷺ نے محض اپنی حکمت اور تدبرکے طفیل متعدد عظیم الشان فوائد حاصل کیے۔ آپؒ لکھتے ہیں کہ ہرچند کہ غزواتِ نبویؐ پر نظر ڈالنے سے آنحضورﷺ کی احسن اوربے مثل استعدادوں پر بھی حیران کن روشنی پڑتی ہے جو بحیثیت ایک سالارِ جیش آپﷺ کی ذات میں بدرجہ اتم موجود تھیں لیکن آنحضورﷺ کی اوّل و آخر حیثیت ایک جنگی ماہر کی نہیں بلکہ ایک اخلاقی اور روحانی سردار کی تھی جس کے ہاتھوں میں مکارمِ اخلاق کا جھنڈا تھمایا گیا تھا۔ یہ بہت اہم چیز ہے۔ اعلیٰ اخلاق کا جھنڈا بلند رکھنے اور بلند تر کرتے جانےکے بعدجس عظیم جہاد میں مصروف تھے وہ ایک مسلسل کبھی نہ ختم ہونے والا ایک ایسا مجاہدہ تھا جو امن کی حالت میں بھی اسی طرح جاری رہا جیسے جنگ کے حالات میں۔ دن کو بھی آپؐ نے اس عَلَم کی حفاظت کی اور رات کو بھی۔ دشمن بارہا آپﷺ کو اور آپؐ کے صحابہؓ کو شدید جسمانی ضربات پہنچانے اور المناک چرکے لگانے میں کامیاب ہو جاتا رہا مگر اس عَلَمِ اخلاق پر آپؐ نے کبھی ادنیٰ سی آنچ نہ آنے دی اور اس کو کوئی گزند نہ پہنچنے دیا۔ ان سب کے باوجود آپؐ کے اعلیٰ اخلاق جو تھے ان کا مظاہرہ ہمیشہ نظر آتا ہے۔ اس وقت بھی یہ جھنڈا آپؐ کے مقدس ہاتھوں میں بڑی شان کے ساتھ آسمانی رفعتوں سے ہمکنار تھا جب آپﷺ کا بدن شدید زخموں سے نڈھال ہو کر اُحد کی اس پتھریلی زمین پر گر رہا تھا۔ اس وقت بھی یہ جھنڈا ایک عجیب شانِ بےنیازی کے ساتھ آپؐ کے ہاتھ میں لہرا رہا تھا جب چاروں طرف صحابہؓ کے بدن کٹ کٹ کر گر رہے تھے۔ پس خُلقِ محمدیﷺ اور ان صحابہؓ کے اخلاق کا جہاد جو آپؐ کے ساتھ تھے اُحد کے قتال کے شانہ بشانہ بڑی قوت اور زور کے ساتھ جاری رہا اور فاتح اعظم حضر ت محمد مصطفیٰﷺ کو ہر بار ہر اخلاقی معرکے میں عظیم فتح نصیب ہوئی۔ ان ہولناک زلازل کے وسط میں سے ہو کر آپؐ بسلامت نکل آئے جو اخلاق کی بڑی بڑی مضبوط عمارتوں کو بھی مسمار کردینے کی طاقت رکھتے ہیں۔ مزید پڑھیں:خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب