’’کُلُّ بَرَکَةٍ مِّنْ مُّحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَتَبَارَکَ مَنْ عَلَّمَ وَ تَعَلَّمَ یعنی یہ مخاطبات اورمکالمات کا شرف جو مجھے دیا گیا ہےیہ محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا طفیل ہے اوراس لیے یہ آپ ہی سے ظہور میں آرہے ہیں۔ ‘‘ (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام) حضرت مسیح موعودؑ نے واضح فرمایا کہ مجھ پر یہ الزام نہ دو کہ میں نے نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی۔ یہ سراسر جھوٹا الزام ہے جو مجھ پر لگایا گیا ہے۔میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آپ کے دین کی اشاعت کے لیے آیا ہوں۔ میرے دل میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے آپؑ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کا ایک ایسا اظہار فرمایا ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ ایسا عشق و محبت جو کہیں اَور دیکھنے میں نہیں آتا آپ علیہ السلام پر اور آپ کے ماننے والوں پر یہ الزام کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلامیا آپؑ کے ماننے والے توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتکب ہو رہے ہیں انتہائی گھناؤنا اور غلط الزام ہے ’’ہم کافرِ نعمت ہوں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحیدِ حقیقی ہم نے اسی نبی کے ذریعہ سے پائی اور زندہ خدا کی شناخت ہمیںاسی کامل نبی کے ذریعہ سے اور اس کے نور سے ملی ہے اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اس کا چہرہ دیکھتے ہیں۔‘‘یعنی خدا کا چہرہ دیکھتے ہیں۔’’اسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میسر آیا ہے۔اس آفتابِ ہدایت کی شعاع دھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے اور اسی وقت تک ہم منور رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اس کے مقابل پر کھڑے ہیں۔ ‘‘ ’’آخری وصیت یہی ہے کہ ہر ایک روشنی ہم نے رسول نبی و امی کی پیروی سے پائی ہے اور جو شخص پیروی کرے گا وہ بھی پائے گا۔ اور ایسی قبولیت اس کو ملے گیکہ کوئی بات اس کے آگے انہونی نہیں رہے گی۔ زندہ خدا جو لوگوں سے پوشیدہ ہے۔ اس کا خدا ہو گا اور جھوٹے خدا سب اس کے پیروں کے نیچے کچلے اور روندے جائیں گے۔وہ ہر ایک جگہ مبارک ہوگا اور الٰہی قوتیں اس کے ساتھ ہوں گی۔‘‘ ’’اب بجز محمدی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں۔ شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے مگر وہی جو پہلے اُمّتی ہو۔ پس اِسی بنا پر مَیں اُمّتی بھی ہوں اور نبی بھی۔ اور میری نبوت یعنی مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ایک ظلّ ہے اور بجز اس کے میری نبوت کچھ بھی نہیں‘‘ ’’ہماری کوئی کتاب بجز قرآن شریف نہیں ہے اور ہمارا کوئی رسول بجز محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے نہیں ہے۔ اور ہمارا کوئی دین بجز اسلام کے نہیں ہےاور ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ ہمارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء اور قرآن شریف خاتم الکتب ہے۔‘‘’’ہمیں بجز خادمِ اسلام ہونے کے اَور کوئی دعویٰ بالمقابل نہیں ہے۔ ‘‘ ’’اگر ہم اسلام کے خادم نہیں ہیں تو ہمارا سب کاروبار عبث اور مردود اور قابلِ مواخذہ ہے۔‘‘ اے وہ مخالفین احمدیت! جو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعویٰ کرتے ہو، غور کرو، سوچو کہ تمہاری بلا وجہ کی مخالفتاللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث نہ بن رہی ہو۔ آجکل جو حالات ہیں ان میں دیکھو کہ کہیں یہ مخالفت جو تمہاری ہو رہی ہے اس وجہ سے تو نہیں ہو رہی کہ تم کیا کر رہے ہو۔اس کے نتائج اس وجہ سے تو نہیں پیدا ہو رہے۔ کچھ تو غور کرو اللہ تعالیٰ مسلمان امت کو عقل اور شعور دے اور وہ بلا وجہ کی مخالفت سے باز آئیں۔سوچیں کہ کیا اللہ تعالیٰ ان سے پوچھے گا نہیں کہ تم نے بغیر تحقیق کے مخالفت کی کیونکہ اکثریت تو صرف بغیر تحقیق کے مولوی کے کہنے پر مخالفت کرتے ہیںاور مولوی بھی پڑھنا نہیں چاہتا غور نہیں کرنا چاہتا کیا تم نے ہمارا دل چیر کر دیکھا ہے کہ ہمارے دلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق و محبت ہے کہ نہیں ہے اور کس حد تک ہے اور کس حد تک بھرا ہوا ہے؟کیا تم نے دیکھا ہے کہ ہم آپ کی آخری شریعت پر کس حد تک ایمان لانے والے ہیں؟ کیا تم نے دیکھا ہے کہ ہم قرآن کریم کے ہر حکم پر عمل کرنے کی کوشش کرنے والے ہیںاور اس پر یقین اور ایمان رکھنے والے ہیں؟ کیا تم نے دیکھا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی توحید کو دنیا میں قائم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنے والے ہیں؟ پس کچھ تو غور کرو! کچھ تو غور کرو! اپنا جائزہ لیتے رہیں۔ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے جذبات تھے کیا وہ جذبات ہمارے دلوں میں پیدا ہوتے ہیں؟اللہ تعالیٰ کی توحید کو دنیا میں قائم کرنے کے لیے وہ کوشش کریں جس کا ہم سے مطالبہ کیا گیا ہے اور جو اس کا حق ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا میں لہرانے کے لیےہر قربانی کے لیے تیار رہیں۔ اللہ تعالیٰ کی توحید دنیا میں قائم کرنے کے لیے ہر قربانی کے لیے ہر وقت تیار رہیں اور اس وقت تک چین سے نہ بیٹھیںجب تک اس مقصد کو حاصل نہ کر لیں جس کو پورا کرنے کے لیے ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی جماعت میں شامل ہوئے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی متبرک تحریرات کی روشنی میں حضرت مسیح موعودؑ کے بے مثال عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان (فرمودہ مورخہ29؍دسمبر2024ء بروزاتواربمقام ایوان مسرور، اسلام آباد ٹلفورڈ، یوکے) أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾ اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کادعویٰ کہ مَیں ہی وہ مسیح موعود ہوں اور مہدی معہود ہوں جس کے آنے کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی اور اب کوئی مسیح آسمان سے نہیں آئے گا، کوئی مہدی نہیں آئے گا کیونکہ یہی مسیح موعود کے آنے کا وقت تھا جس میں خدا تعالیٰ نے مجھے بھیجا اور اس زمانے میں وہ تمام حالات ظاہر ہوئے جن کی نشاندہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی۔ وہ تمام پیشگوئیاں پوری ہوئیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح کی نشانی کے طور پر بتائی تھیں۔ آپؑ نے دنیا کو دعوت دی اور خاص طور پر مسلمانوں کو دعوت دی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کو دیکھو، غور کرو اور سمجھو کہ اسی میں سعادت ہے۔ اسی میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں کی تعمیل ہے۔ آپؑ نے واضح فرمایا کہ مجھ پر یہ الزام نہ دو کہ میں نے نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی۔ یہ سراسر جھوٹا الزام ہے جو مجھ پر لگایا گیا ہے۔ میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آپ کے دین کی اشاعت کے لیے آیا ہوں۔ میرے دل میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ بےشمار کتابوں میں، اپنی تحریرات میں، اپنی تقریروں میں، اپنی مجالس میں اپنی جو پرائیویٹ زندگی ہے اس میں آپ نے ان باتوں کا اظہار فرمایا۔ آپؑ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کا ایک ایسا اظہار فرمایا ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ ایسا عشق و محبت جو کہیں اَور دیکھنے میں نہیں آتا۔ چنانچہ اس حوالے سے میں آج آپ کے کچھ اقتباسات پیش کروں گا جس سے اس عشق و محبت پر کچھ جھلک پڑتی ہے جو آپؑ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا۔ پس آپ علیہ السلام پر اور آپ کے ماننے والوں پر یہ الزام کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا آپؑ کے ماننے والے توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتکب ہو رہے ہیں انتہائی گھناؤنا اور غلط الزام ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں:’’میں ہمیشہ تعجب کی نگہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ہے۔‘‘صلی اللہ علیہ وسلم۔ ’’(ہزار ہزار درود اور سلام اس پر) یہ کس عالی مرتبے کا نبی ہے اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہو سکتا۔ اور اس کی تاثیرِ قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں۔ افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا۔ وہ توحید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا۔ اس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی۔ اس لیے خدا نے جو اس کے دل کے راز کا واقف تھا، اس کو تمام انبیاء اور تمام اولین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اس کی مرادیں اس کی زندگی میں اس کو دیں۔ وہی ہے جو سرچشمہ ہر ایک فیض کاہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اُس کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے وہ انسان نہیں بلکہ ذریتِ شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کنجی اس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اس کو عطاکیا گیاہے جو اس کے ذریعہ سے نہیں پاتا‘‘ یعنی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے نہیں پاتا ’’وہ محرومِ ازلی ہے۔ ہم کیا چیز ہیں۔‘‘آپ اپنے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’ہم کیا چیز ہیں۔اور ہماری حقیقت کیا ہے۔ ہم کافرِ نعمت ہوں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحیدِ حقیقی ہم نے اسی نبی کے ذریعہ سے پائی اور زندہ خدا کی شناخت ہمیںاسی کامل نبی کے ذریعہ سے اور اس کے نور سے ملی ہے اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اس کا چہرہ دیکھتے ہیں۔‘‘یعنی خدا کا چہرہ دیکھتے ہیں۔’’اسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میسر آیا ہے۔ اس آفتابِ ہدایت کی شعاع دھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے اور اسی وقت تک ہم منور رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اس کے مقابل پر کھڑے ہیں۔ ‘‘ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ118-119) پھر ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں۔ ’’ہم جب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلہ نبوت میں سے اعلیٰ درجہ کا جوانمرد نبیؐ اور زندہ نبیؐ اور خدا کا اعلیٰ درجہ کا پیارا نبیؐ صرف ایک مرد کو جانتے ہیں۔ یعنی وہی نبیوں کا سردار، رسولوں کا فخر، تمام مرسلوں کا سرتاج جس کا نام محمد مصطفیٰ واحمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ جس کے زیرِ سایہ دس دن چلنے سے وہ روشنی ملتی ہے جو پہلے اس سے ہزار برس تک نہیں مل سکتی تھی۔ وہ کیسی کتابیں ہیں جو ہمیں بھی اگر ہم ان کے تابع ہوں مردود اور مخذول اور سیاہ دل کرنا چاہتی ہیں۔ کیا ان کو زندہ نبوت کہنا چاہیے جن کے سایہ سے ہم خود مردہ ہو جاتے ہیں۔‘‘یعنی دوسرے مذاہب کی کتابیں، ’’یقیناً سمجھو کہ یہ سب مردے ہیں۔ کیا مردہ کو مردہ روشنی بخش سکتا ہے۔‘‘(سراج منیر، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ82) تمام دوسرے مذاہب تو اب ختم ہو چکے ہیں۔ اسی تسلسل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کو بیان فرمایا۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’آخری وصیت یہی ہے کہ ہر ایک روشنی ہم نے رسول نبی و امی کی پیروی سے پائی ہے اور جو شخص پیروی کرے گا وہ بھی پائے گا۔ اور ایسی قبولیت اس کو ملے گی کہ کوئی بات اس کے آگے انہونی نہیں رہے گی۔ زندہ خدا جو لوگوں سے پوشیدہ ہے۔ اس کا خدا ہو گا اور جھوٹے خدا سب اس کے پیروں کے نیچے کچلے اور روندے جائیں گے۔ وہ ہر ایک جگہ مبارک ہو گا اورالٰہی قوتیں اس کے ساتھ ہوں گی۔‘‘ (سراج منیر، روحانی خزائن جلد12صفحہ82-83) ہماری مخالفت کرنے والے لوگ بتائیں کہ کیا وہ اس زندہ خدا کو حقیقی خدا سمجھتے ہیں۔ عمل ان کے اکثریت کے تو ایسے ہیں کہ لگتا ہے کہ ان کے خدا دوسرے ہیں اور حقیقی خدا کو وہ بھول گئے ہیں۔ بجائے جماعت احمدیہ پر الزام تراشیاں کرنے کے غور کریں اور دیکھیں حقیقت کیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ایک جگہ اپنے ایک الہام کا ذکر کیا ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا۔ پہلے میں اس الہام کا ذکر کردیتا ہوں۔ آپؑ نے فرمایا یہ الہام ہوا مجھے کہ ’’صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ سَیِّدِ وُلْدِ اٰدَمَ وَخَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اور درود بھیج محمد اور آل محمد پر جو سردار ہے آدم کے بیٹوں کا اور خاتم الانبیاء ہے صلی اللہ علیہ وسلم۔‘‘فرمایا ’’یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سب مراتب اور تفضّلات اور عنایات اسی کے طفیل سے ہیں اور اسی سے محبت کرنے کا یہ صلہ ہے۔‘‘ فرمایا ’’سبحان اللہ اس سرورِ کائنات کے حضرتِ احدیت میں‘‘(یعنی خدا تعالیٰ کے ہاں) ’’کیا ہی اعلیٰ مراتب ہیں اور کس قسم کا قرب ہے کہ اس کا محب خدا کا محبوب بن جاتا ہے اور اس کا خادم ایک دنیا کا مخدوم بنایا جاتا ہے۔‘‘ آپؑ فرماتے ہیں ’’…اس مقام میں مجھ کویاد آیا کہ ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل و جان اس سے معطر ہوگیا۔ اسی رات خواب میں دیکھا کہ آبِ زُلال کی شکل پر’’فرشتے ‘‘نور کی مشکیں اس عاجز کے مکان میں لیے آتے ہیں۔ اور ایک نے ان میں سے کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جو تو نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھیجی تھیں۔اور ایسا ہی عجیب ایک اور قصہ یاد آیا ہےکہ ایک مرتبہ الہام ہوا جس کے معنے یہ تھے کہ ملاء اعلیٰ کے لوگ خصومت میں ہیں یعنی ارادۂ الٰہی احیاء دین کے لیے جوش میں ہے لیکن ہنوز ملاء اعلیٰ پر شخص محیی کی تعیین ظاہر نہیں ہوئی اس لیے وہ اختلاف میں ہیں۔ اسی اثناء میں خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک محیی کو تلاش کرتے پھرتے ہیں اور ایک شخص اس عاجز کے سامنے آیا اور اشارہ سے اس نے کہا ھٰذَا رَجُلٌ یُّحِبُّ رَسُوْلَ اللّٰہِ یعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہے اور اس قول سے یہ مطلب تھا کہ شرطِ اعظم اس عہدہ کی محبتِ رسول ہے۔ سو وہ اس شخص میں متحقق ہے۔‘‘ یعنی مجھے جو کچھ ملا اور جو مقام مجھے اللہ تعالیٰ دینا چاہتا تھا وہ اس لیے تھا کہ میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کر رہا ہوں۔ صرف محبت کا دعویٰ نہیں کرتا بلکہ میرا دل اس محبت سے کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہوا ہے ’’اور ایسا ہی الہام متذکرہ بالا میں جو آلِ رسول پر درود بھیجنے کا حکم ہے سو اس میں بھی یہی سِرّ ہے کہ افاضہ انوارِ الٰہی میں محبت اہل بیت کو بھی نہایت عظیم دخل ہے‘‘اور یہ ہے عشق و محبت کی داستان کہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زبانی دعویٰ نہیں ہے عشق کا بلکہ آپؐ سے محبت و عشق بھی کرنا ہے اور آپؐ کے اہلِ بیت سے بھی عشق و محبت ہو۔ یہ بھی ضروری ہے۔ ’’اور جو شخص حضرت احدیّت کے مقربین میں داخل ہوتا ہے وہ انہی طیّبین طاہرین کی وراثت پاتا ہے اور تمام علوم و معارف میں ان کا وارث ٹھہرتا ہے۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد 1صفحہ597-598بقیہ حاشیہ در حاشیہ نمبر 3) پھر ایک موقع پر قرآنِ کریم کی عظمت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کا ذکر فرماتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:’’قرآن شریف کی زبردست طاقتوں میں سے ایک یہ طاقت ہے کہ اُس کی پیروی کرنے والے کو معجزات اور خوارق دیئے جاتے ہیں اور وہ اس کثرت سے ہوتے ہیں کہ دنیا اُن کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ چنانچہ میں یہی دعویٰ رکھتا ہوں اور بلند آواز سے کہتا ہوں کہ اگر دنیا کے تمام مخالف کیا مشرق کے اور کیا مغرب کے ایک میدان میں جمع ہو جائیں اور نشانوں اور خوارق میں مجھ سے مقابلہ کرنا چاہیں تومیں خدا تعالیٰ کے فضل سے اور توفیق سے سب پر غالب رہوں گا اور یہ غلبہ اس وجہ سے نہیں ہوگا کہ میری رُوح میں کچھ زیادہ طاقت ہے بلکہ اس وجہ سے ہوگا کہ خدا نے چاہا ہے کہ اس کے کلام قرآن شریف کی زبردست طاقت اور اس کے رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی رُوحانی قوت اور اعلیٰ مرتبت کا میں ثبوت دو ں اور اس نے محض اپنے فضل سے نہ میر ے کسی ہنر سے مجھے یہ توفیق دی ہے کہ میں اُس کے عظیم الشان نبی اور اس کے قوی الطاقت کلام کی پیروی کرتا ہوں اور اس سے محبت رکھتا ہوں اوروہ خدا کا کلام جس کانام قرآن شریف ہے جو ربّانی طاقتوں کا مظہر ہے میں اس پر ایمان لاتا ہوں۔‘‘ (چشمۂ معرفت۔روحانی خزائن جلد23صفحہ409-410) آپؑ نے مخالفینِ اسلام کے سامنے ہر آن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی برتری ثابت فرمائی۔ یہ جو آپؑ نے تحریر فرمایا جو میں نے پڑھا ہے ابھی یہ آپ کی زندگی کے آخری زمانے کی کتابوں میں سے ایک کتاب میں ہے بلکہ آخری کتاب ہے۔ اب اس میں جو دعویٰ آپؑ نے فرمایا یہ الزام لگانے والے کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ آپ نے شروع میں تو محبت کا اظہار کیا اور بعد میں اپنا دعویٰ کر کے اس محبت پر بٹہ لگا دیا۔ اس کی نفی کر دی نعوذ باللہ۔ نہیں اور کبھی نہیں۔ کبھی آپؑ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کی نفی نہیں کی۔ یہ حوالہ ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ علیہ السلام آخر وقت تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کی انتہا پر پہنچے ہوئے تھے۔ پھر آپؑ نے فرمایا ’’میں سچ کہتا ہوں اور اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ کوئی شخص حقیقی نیکی کرنے والا اور خدا تعالیٰ کی رضا کو پانے والا نہیں ٹھہر سکتا اور ان انعام و برکات اور معارف و حقائق اور کشوف سے بہرہ ور نہیں ہو سکتا جو اعلیٰ درجہ کے تزکیہ نفس پر ملتے ہیں جب تک کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں کھویا نہ جائے اور اس کا ثبوت خود خدا تعالیٰ کے کلام سے ملتا ہے۔ قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰہُ (آل عمران:32) اور خدا تعالیٰ کے اس دعویٰ کی عملی اور زندہ دلیل میں ہوں۔‘‘ (الحکم مؤرخہ 17 ستمبر 1901ء جلد 5 نمبر34صفحہ 1-2) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو تو پھر اللہ تعالیٰ بھی تم سے محبت کرے گا۔ پس آپؑ نے فرمایا یہ ہے وہ راز جس کو میں نے پایا اور اسی راز پر اگر انسان عمل کرے تو تبھی وہ اللہ تعالیٰ کا قرب بھی حاصل کر سکتا ہے۔ پھر آپؑ نے فرمایا ’’میرے نادان مخالفوں کو خدا روز بروز انواع و اقسام کے نشانات دکھلانے سے ذلیل کرتا جاتا ہے اور مَیں اُسی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جیسا کہ اُس نے ابراہیمؑ سے مکالمہ مخاطبہ کیا اور پھر اسحٰقؑ سے اور اسمٰعیل ؑسے اور یعقوب ؑسے اور یوسفؑ سے اور موسیٰؑ سے اور مسیحؑ ابن مریم سے اور سب کے بعد ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہمکلام ہوا کہ آپ پر سب سے زیادہ روشن اور پاک وحی نازل کی ایسا ہی اُس نے مجھے بھی اپنے مکالمہ مخاطبہ کا شرف بخشا۔ مگر یہ شرف مجھے محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے حاصل ہوا۔ اگر مَیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت نہ ہوتا اور آپ کی پیروی نہ کرتا تو اگر دنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی مَیں کبھی یہ شرف مکالمہ مخاطبہ ہر گز نہ پاتا کیونکہ اب بجز محمدی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں۔ شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے مگر وہی جو پہلے اُمّتی ہو۔ پس اِسی بنا پر مَیں اُمّتی بھی ہوں اور نبی بھی۔ اور میری نبوت یعنی مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ایک ظلّ ہے اور بجز اس کے میری نبوت کچھ بھی نہیں۔ وہی نبوت محمدؐیہ ہے جو مجھ میں ظاہر ہوئی ہے اور چونکہ مَیں محض ظلّ ہوں اور اُمّتی ہوں اس لیے آنجنابؐ کی اِس سے کچھ کسرِ شان نہیں۔ اور یہ مکالمہ الٰہیہ جو مجھ سے ہوتا ہے یقینی ہے۔ اگر مَیں ایک دم کے لیے بھی اِس میں شک کروں تو کافر ہوجاؤں اور میری آخرت تباہ ہو جائے۔‘‘ (تجلیات الہٰیہ، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 411-412) اب اسی بات پر یہ لوگ الزام لگاتے ہیں کہ آپؑ نے فرمایا کہ میں ظِلّ ہوں اور جو نبوت مجھ پر ظاہر ہوئی ہے یہ وہی محمدی نبوت ہے۔ یہ الزام لگانے والے کچھ تو عقل سے کام لیں۔ اس کا تو مطلب یہی ہے کہ نبوتِ محمدیہ کو، شریعتِ محمدیہ کو پھیلانے کے لیے، اس کی اشاعت کے لیے آپ کو اپنے وعدے کے مطابق اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے اور وہی شریعت اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جو لائی ہوئی شریعت تھی اس کو مسیح موعودؑ کے ذریعہ سے پھیلانے کا اللہ تعالیٰ نے سامان فرمایا ہے۔ اشاعتِ اسلام کاکام مسیح موعود کے ذمہ تھا اور یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا جو قرآن کریم میں وَّاٰخَرِيْنَ مِنْہُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِہِمْ (الجمعۃ:4)کہہ کر اللہ تعالیٰ نے فرما دیا تھا۔ جماعت کی ترقی، اللہ تعالیٰ کی تائیدات اس بات کا ثبوت ہیں کہ اللہ تعالیٰ مسیح موعود کے دعویٰ کی نہ صرف تائید فرما رہا ہے بلکہ آپ کی مدد فرما رہا ہے اور خود اس نے اس جماعت کو سنبھالا ہوا ہے ورنہ مخالفین جس زور سے اس جماعت کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں وہ کب کا اس کو تباہ کر چکے ہوتے۔ پھر آنحضرتﷺکے مقام و مرتبہ کو بیان کرتے ہوئے ایک موقع پر آپؑ نے فرمایا۔ ’’وہ انسان جس نے اپنی ذات سے، اپنی صفات سے، اپنے افعال سے، اپنے اعمال سے اور اپنے روحانی اور پاک قویٰ کے پُرزور دریا سے کمالِ تام کا نمونہ علماً و عملاً و صدقاً و ثباتاً دکھلایا اور انسان کامل کہلایا… وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسان کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے روحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالم کا عالم مرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہو گیا، وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء امام الاصفیاء ختم المرسلین فخر النبیین جناب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اےپیارے خدا! اس پیارے نبی پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتداء دنیا سے تُو نے کسی پر نہ بھیجا ہو۔ اگر یہ عظیم الشان نبی دنیا میں نہ آتا تو پھر جس قدر چھوٹے چھوٹے نبی دنیا میں آئے جیساکہ یونس اور ایوب اور مسیح بن مریم اور ملاکی اور یحییٰ اور زکریا وغیرہ وغیرہ ان کی سچائی پر ہمارے پاس کوئی بھی دلیل نہیں تھی اگرچہ سب مقرب اور وجیہ اور خدا تعالیٰ کے پیارے تھے۔ یہ اُس نبی کا احسان ہے‘‘ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا احسان ہے ’’کہ یہ لوگ بھی دنیا میں سچے سمجھے گئے۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ وسَلِّمْ و بَارِکْ عَلَیْہِ واٰلِہٖ و اَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْن و اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعٰلَمِیْن۔‘‘ (اتمام الحجۃ، روحانی خزائن جلد8صفحہ308) پھر آپؑ نے ایک موقع پر فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کا ایک یہی طریق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی فرمانبرداری کی جاوے۔ دیکھا جاتا ہے کہ لوگ طرح طرح کی رسومات میں گرفتار ہیں۔ کوئی مر جاتا ہے تو قسم قسم کی بدعات اور رسومات کی جاتی ہیں حالانکہ چاہیے کہ مردہ کے حق میں دعا کریں۔‘‘ اب بتائیں کہ یہ جو رسومات کرنے والے ہیں جو پیروں فقیروں کی عجیب عجیب باتوں پر عمل کر کے ان کے مزاروں پر سجدے کرتے ہیں ان باتوں پر عمل کرکے وہ توہین کے مرتکب ہو رہے ہیں یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام جو ان بدعات سے دور کرنے آئے تھے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’رسومات کی بجا آوری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف مخالفت ہی نہیں ہے بلکہ اُن کی ہتک بھی کی جاتی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 5صفحہ 440۔ ایڈیشن 1984ء) جو نئی نئی رسمیں پیدا کر لی ہیں یہ صرف آپؐ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں ہے بلکہ یہ ایک لحاظ سے آپؐ کی ہتک ہے۔ اب جنہوں نے ہتک رسول کے قانون پاس کیے ہوئے ہیں وہ سب سے بڑھ کر ان بدعات میں ملوث ہیں۔ یہ ہتک کس طرح کی جاتی ہے گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کو کافی نہیں سمجھا جاتا اور اگر کافی خیال کرتے تو اپنی طرف سے رسومات کے گھڑنے کی کیوں ضرورت پڑتی۔ اب یہ بتائیں جو رسومات کرنے والے ہیں کہ کون ہتک کر رہا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے والے یا آپؑ کا انکار کرنے والے۔ مخالفین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ آپؑ نے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے نعوذباللہ نبوت کا دعویٰ کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کا انکار کیا اور آپؐ کی توہین کی ہے اور احمدی بھی جو آپ پر ایمان لاتے ہیں اس حوالے سے توہین کے مرتکب ہیں اور قابلِ سزا ہیں۔ اس کا جواب تو میں پہلے دے آیا ہوں۔ میں نے پہلے بعض حوالے آپ کے پیش بھی کیے ہیں کہ جو آپ نے پایا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہی پایا ہے نہ کہ کوئی اپنی چیز ہے۔ اس کا ایک جگہ جواب آپ نے اس طرح دیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ ہم توہینِ رسالت کے مرتکب نہیں ہیں بلکہ تم لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درجہ کو کم کرنے والے ہو۔ ان سب دروازوں کو بندکرتے ہو جو آپ کے مقام سے اور آپ کے طفیل سے دنیا کو یا کسی بھی شخص کو مل سکتا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں: یہ لوگ ’’کہتے ہیں یہ دروازہ مکالمات و مخاطبات کا اس وجہ سے بند ہو گیا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ (الاحزاب:41) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ خاتم النبیین ہیں اس لیے آپ کے بعد یہ فیض اور فضل بند ہو گیا۔‘‘ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’مگر ان کی عقل اور علم پر افسوس آتا ہے۔‘‘ یہ لوگ تو اس طرح کی باتیں کر کے نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض کو کم کرنے والے بن رہے ہیں اور یہ ہتک رسول کرنے والے بن رہے ہیں ’’…کیونکہ نبی کی آمد اور بعثت تو اس غرض کے لیے ہوتی ہے تا کہ اللہ تعالیٰ پر ایک یقین اور بصیرت پیدا ہو اور ایسا ایمان ہو جو لذیذ ہو۔ اللہ تعالیٰ کے تصرفات اور اس کی قدرتوں اور صفات کی تجلی کو انسان مشاہدہ کرے اور اس کا ذریعہ بھی اس کے مکالمات مخاطبات اور خوارق عادات ہیں لیکن جب یہ دروازہ ہی بند ہو گیا تو پھر اس بعثت سے فائدہ کیا ہوا؟‘‘ فرمایا ’’میں بڑے افسوس سے کہتا ہوں کہ ان لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہرگز ہرگز قدر نہیں کی اور آپ’’صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘کی شان عالی کو بالکل نہیں سمجھا ورنہ اس قسم کے بیہودہ خیالات یہ نہ تراشتے۔’’آپؑ فرماتے ہیں اس سے ان باتوں کے کرنے سے تم لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو کم کر رہے ہو۔ یہ تو خود تم لوگ ہتک کر رہے ہو۔ ‘‘…کیونکہ جسمانی اولاد کی نفی تو قرآن شریف کرتا ہے’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جسمانی اولاد نہیں ہے ‘‘اور روحانی’’اولاد ‘‘کی یہ نفی کرتے ہیں تو پھر باقی کیا رہا؟‘‘۔ فرمایا کہ کیوں غلط باتیں کرتے ہو۔ ’’اصل بات یہ ہے کہ اس آیت سے اللہ تعالیٰ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم الشان کمال اور آپ کی قوت قدسیہ کا زبردست اثر بیان کرتا ہے کہ آپ ’’صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘کی روحانی اولاد اور روحانی تاثیرات کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہو گا۔ آئندہ اگر کوئی فیض اور برکت کسی کو مل سکتی ہے تو اسی وقت اور حالت میں مل سکتی ہے جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع میں کھویا جاوے اور فنا فی الرسول کا درجہ حاصل کر لے۔ بدوں اسکے نہیں اور اگر اسکے سوا کوئی شخص ادعائے نبوت کرے تو وہ کذّاب ہو گا۔ اس لیے نبوت مستقلہ کا دروازہ بند ہو گیا اور کوئی ایسا نبی جو بجز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور ورزش شریعت’’یعنی شریعت پر عمل کرنے سے ‘‘اور فنافی الرسول ہونے کے مستقل نبی صاحب شریعت نہیں ہو سکتا۔ ہاں فنا فی الرسول اور آپ کے امتی اور کامل متبعین کے لیے یہ دروازہ بند نہیں کیا گیا۔ اسی لیے براہین میں یہ الہام درج ہے۔’’آپ نے اپنی پہلی کتاب کا حوالہ دیا کہ ’’کُلُّ بَرَکَةٍ مِّنْ مُّحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَتَبَارَکَ مَنْ عَلَّمَ وَ تَعَلَّمَیعنی یہ مخاطبات اور مکالمات کا شرف جو مجھے دیا گیا ہے یہ محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا طفیل ہے اور اس لیے یہ آپ ہی سے ظہور میں آرہے ہیں۔‘‘ یعنی جو اللہ تعالیٰ کامیابیاں عطا فرما رہا ہے یا مجھ سے مکالمہ و مخاطبہ کر رہا ہے یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہی ہو رہا ہے اور گویا کہ آپ کی تائید و نصرت اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے اس ذریعہ سے جس طرح اس نے تکمیل اشاعت کا وعدہ کیا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے ہدایت کی تکمیل اشاعت ہورہی ہے اس ہدایت کی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے۔ اس زمانے میں آپ کے بھیجے ہوئے غلام صادق کے ذریعہ سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ فرمایا کہ ’’جس قدر تاثیرات اور برکات وانوارہیں وہ آپ ہی کے ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد8 صفحہ 91-92۔ ایڈیشن 1984ء) کہتے ہیں یہ آپ ہی کے انوار و برکات ہیں جن کو میں آگے پھیلا رہا ہوں۔ پھر مزید فرماتے ہیں کہ ’’میں بڑے یقین اور دعویٰ سے کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کمالات نبوت ختم ہو گئے وہ شخص جھوٹا اور مفتری ہے جو آپ کے خلاف کسی سلسلہ کو قائم کرتا ہے اور آپ کی نبوت سے الگ ہو کر کوئی صداقت پیش کرتا اور چشمہ نبوت کو چھوڑتا ہے۔ میں کھول کر کہتا ہوں کہ وہ شخص لعنتی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا آپ کے بعد کسی اَور کو نبی یقین کرتا ہے اور آپ کی ختم نبوت کو توڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی ایسا نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہیں آسکتا جس کے پاس وہی مہر نبوت محمدیؐ نہ ہو۔ ہمارے مخالف الرائے مسلمانوں نے یہی غلطی کھائی ہے کہ وہ ختم نبوت کی مہر کو توڑ کر اسرائیلی نبی کو آسمان سے اتارتے ہیں۔’’ وہ کہتے ہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اتریں گے ‘‘اور میں یہ کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوتِ قدسی اور آپؐ کی ابدی نبوت کا یہ ادنیٰ کرشمہ ہے کہ تیرہ سو سال کے بعد بھی آپ ہی کی تربیت اور تعلیم سے مسیح موعود آپ کی امت میں وہی مہر نبوت لے کر آتا ہے۔ اگر یہ عقیدہ کفر ہے تو پھر میں اس کفر کو عزیز رکھتا ہوں لیکن یہ لوگ جن کی عقلیں تاریک ہو گئی ہیں جن کو نور نبوت سے حصہ نہیں دیا گیا اس کو سمجھ نہیں سکتے اور اس کو کفر قرار دیتے ہیں حالانکہ یہ وہ بات ہے جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال اور آپ کی زندگی کا ثبوت ہوتا ہے۔‘‘ (الحکم جلد 9 نمبر 20 مورخہ 10 جون1905ءصفحہ 2) پھر آپؑ نے فرمایا ’’تمام شرف مجھے صرف ایک نبی کی پیروی سے ملا ہے جس کے مدارج اور مراتب سے دنیا بے خبر ہے۔ یعنی سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم۔ یہ عجیب ظلم ہے کہ جاہل اورنادان لوگ کہتے ہیں کہ عیسیٰ آسمان پر زندہ ہے حالانکہ زندہ ہونے کی علامات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں پاتا ہوں۔‘‘ آپ نے فرمایا میں تو زندہ ہونے کی علامات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں پاتا ہوں۔ ’’وہ خدا جس کو دنیا نہیں جانتی ہم نے اس خدا کو اس نبی کے ذریعہ سے دیکھ لیا اور وہ وحی الٰہی کا دروازہ جو دوسری قوموں پر بند ہے ہمارے پر محض اسی نبی کی برکت سے کھولا گیا اور وہ معجزات جو غیر قومیں صرف قصوں اور کہانیوں کے طور پر بیان کرتی ہیں۔ ہم نے اس نبی کے ذریعہ سے وہ معجزات بھی دیکھ لیے۔ اور ہم نے اس نبی کا وہ مرتبہ پایا جس کے آگے کوئی مرتبہ نہیں۔ مگر تعجب کہ دنیا اس سے بے خبر ہے۔‘‘ (مکتوبات احمد جلد 1صفحہ287) پھر آپؑ اپنے عقیدے کے متعلق اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ہماری کوئی کتاب بجز قرآن شریف نہیں ہے اور ہمارا کوئی رسول بجز محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے نہیں ہے۔ اور ہمارا کوئی دین بجز اسلام کے نہیں ہے اور ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ ہمارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء اور قرآن شریف خاتم الکتب ہے۔ سو دین کو بچوں کا کھیل نہیں بنانا چاہیے اور یاد رکھنا چاہیے کہ ہمیں بجز خادمِ اسلام ہونے کے اَور کوئی دعویٰ بالمقابل نہیں ہے۔ اور جو شخص ہماری طرف یہ منسوب کرے،وہ ہم پر افترا کرتا ہے۔ ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ فیض برکات پاتے ہیں اور قرآن کریم کے ذریعہ سے ہمیں فیضِ معارف ملتا ہے۔ سو مناسب ہے کہ کوئی شخص اس ہدایت کے خلاف کچھ بھی دل میں نہ رکھے ورنہ خدا تعالیٰ کے نزدیک اس کا جوابدہ ہو گا۔ اگر ہم اسلام کے خادم نہیں ہیں تو ہمارا سب کاروبار عبث اور مردود اور قابلِ مواخذہ ہے۔‘‘ (مکتوبات احمد جلد 2صفحہ249) لیکن جہاں اللہ تعالیٰ کی تائیدات اور نصرت جماعت احمدیہ کے ساتھ ہیں، جو اللہ تعالیٰ نظارے دکھا رہا ہے اپنی تائیدات کے وہ اس بات کا ثبوت ہیں ہزاروں لاکھوں آدمی ہر سال جو جماعت میں شامل ہوتے ہیں۔ ہزاروں لاکھوں لوگوں کو اللہ تعالیٰ خود راہنمائی کر کے مسیح موعوؑد کو ماننے کی توفیق عطا فرماتا ہے وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ آپؑ کا دعویٰ سچا ہے اور اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت آپؑ کے ساتھ ہے۔ روس میں، امریکہ میں، عرب ممالک میں، افریقہ میں ہزاروں جگہوں پر، ایشیا میں لوگ یہ خط لکھتے ہیں، اظہار کرتے ہیں کہ ہمیں کس طرح اللہ تعالیٰ نے راہنمائی فرمائی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو ماننے کی کیونکہ آپ ہی وہ شخص ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی سچی خدمت کرنے والے ہیں، اس کا حق ادا کرنے والے ہیں اور اس کو پھیلانے والے ہیں۔ جو کچھ آپؑ نے بیان فرمایا یا تحریر فرمایا اس کی تائید میںسینکڑوں واقعات آپ کی زندگی میں اس کے ملتے ہیں۔ بعض میں مختلف وقتوں میں بیان بھی کرتا رہتا ہوں۔ ایک موقع پر عیسائیوں کی طرف سے ایک مباحثہ کے بعد ایک دعوت میںآپؑ کو بھی مدعو کیا گیا لیکن صرف اس وجہ سے آپ علیہ السلام نے وہ دعوت ٹھکرا دی کہ یہ لوگ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتے ہیں۔ جون 1893ء میں عیسائیوں اور مسلمانوں کے مابین ایک معرکہ آرا مباحثہ ہوا۔ پندرہ روز بحث کے بعد عیسائیوں کے منتظم اعلیٰ ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کی جانب سے ایک چائے پارٹی کا اہتمام کیا گیا اور ان لوگوں نے حضرت اقدسؑ اور آپ کے ساتھیوں کو بھی دعوت دی لیکن آپ علیہ السلام نے محض اس وجہ سے یہ دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ یہ لوگ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تو بے حرمتی کرتے ہیں اور توہین کرتے ہیں اور مجھے چائے کی دعوت دیتے ہیں۔ ہماری غیرت تقاضا نہیں کرتی کہ ان کے ساتھ مل کر بیٹھیں سوائے اس کے کہ ہم ان کے غلط عقائد کی تردید کریں۔ (ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعودؑ مصنفہ حضرت یعقوب علی عرفانی صاحبؓ جلددوم صفحہ 262-263) ہاں عقائد کی تردید میں بحث ہے، مناظرہ ہے تو اور بات ہے۔ لیکن ہم ان کے ساتھ کھانا پینا نہیں کرسکتے جو اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ، گالیاں دینے والے ہوںدشنام طرازی کرنے والے ہوں۔ کوئی عقل کا اندھا انسان ہی ہے ایسا جو یہ باتیںسن کر بھی کہے کہ آپ علیہ السلام نعوذ باللہ توہینِ رسالت کے مرتکب ہوتے ہیں یا جماعت احمدیہ کے کسی فرد کے دل میں ہلکا سا ایک شعشہ بھر بھی یہ خیال ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام کسی طرح بھی کم ہے۔ اپنے آقا و مطاع صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کا ایک واقعہ یوں ہے جس سے آپ کی دلی کیفیت کا اظہار ہوتا ہے۔ باہر بعض دفعہ انسان کہہ سکتا ہے کہ یہ دکھاوے کا اظہار ہے لیکن اندر بیٹھ کے علیحدگی میں بیٹھ کرجس طرح آپ کے جذبات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق و محبت کے تعلق میں تھے اس کا بھی ایک واقعہ سن لیں۔ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ بیان کرتے کہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم فرماتے تھے کہ ایک دفعہ دوپہر کے وقت میں مسجد مبارک میں داخل ہوا تو اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام اکیلے گنگناتے ہوئے حضرت حسّان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ شعر پڑھ رہے تھے اور ساتھ ساتھ ٹہلتے بھی جاتے تھے۔ کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِی فَعَمِی عَلَیْکَ النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرُ کہتے ہیں کہ میری آہٹ سن کر حضرت صاحبؑ نے اپنے چہرے پر سے (چہرہ ڈھانپا ہوا تھا رومال سے)، رومال والا ہاتھ اٹھا لیا تو میں نے دیکھا کہ آپؑ کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے۔ حضرت حسانؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ میں سے تھے اور گویا آپؐ کے درباری شاعر تھے۔ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر یہ شعر کہا تھا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ تو میری آنکھ کی پتلی تھا پس تیری موت سے میری آنکھ اندھی ہو گئی۔ اب تیرے بعد جو چاہے مرے مجھے پروا نہیں۔ مجھے تو بس تیری موت کا ڈر تھا جوواقع ہو چکی ہے۔ اس شعر کہنے والے کی محبت کا اندازہ کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہے مگر اس شخص کے سمندر عشق کی تہ کو کون پہنچے جو اس واقعہ کے تیرہ سو سال بعد تنہائی میں جبکہ اسے خدا کے سوا کوئی دیکھنے والا نہیں یہ شعر پڑھتا ہے اور اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا تار بہ نکلتا ہے اور وہ شخص ان لوگوں میں سے نہیں ہے جس کی آنکھیں بات بات پر آنسو بہانے لگ جاتی ہیں بلکہ وہ، وہ شخص ہے کہ جس پر اس کی زندگی میں مصائب کا پہاڑ ٹوٹے اور غم و الم کی آندھیاں چلیں مگر اس کی آنکھوں نے اس کے جذبات قلب کی کبھی غمازی نہیں کی۔ پھر ایک موقع پر پیر سراج الحق صاحب کی بھی روایت ہے کہتے ہیں کہ یہ شعر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسجد مبارک میں میرے سامنے پڑھا اور مجھے سنا کر فرمایا کہ کاش حسان کا یہ شعر میرا ہوتا اور میرے تمام شعر حسان کے ہوتے۔ پھر آپؑ چشم پُرآب ہو گئے۔ اس وقت حضرت اقدسؑ نے یہ شعر کئی بار پڑھا جو میں نے ابھی پڑھ کے سنایا ہے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حسان بن ثابت کے شعر کے متعلق پیر سراج الحق سے جو الفاظ فرمائے وہ ایک خاص قسم کی قلبی کیفیت کے مظہر ہیں جو اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل پر طاری ہو گئی ورنہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپنے کلام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ محبت چھلکتی ہے جس کی مثال کسی دوسری جگہ نظر نہیں آتی ہےاور کسی دوسرے کے کلام میں عشق کا وہ معیار نظر نہیں آتا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق نظر آتا ہے۔ (ماخوذ ازسیرت المہدی جلد اول صفحہ305-306 روایت334) کیا ایسا شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا مرتکب ہو سکتا ہے۔ کاش! کہ عقل کے اندھوں کو عقل آ جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت ہی تھا جس کی وجہ سے آپ نے ایک موقع پر عرب کے رہنے والوں سے جس طرح محبت کا اظہار کیا وہ ایک غیر معمولی اظہار ہے اور آپ پر الزام لگانے والوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونا چاہیے اور عرب دنیا کے لوگوں کو بھی سمجھنے کے لیے اس کی بہت ضرورت ہے۔ عربی کے الفاظ میں آپ نے یہ خط لکھا تھا لیکن میں اس کا ترجمہ کر دیتا ہوں۔ا س خط کا ایک ایک حرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات سے عشق و محبت کا اظہار کرتا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں : السلام علیکم۔ اے عرب کے خالص لوگو یعنی خالصۃًعربی لوگو! نیک اور بزرگ لوگو! سلام۔ تم پر سلام۔ اے نبی کریم کی زمین اور بیت اللہ عظیم کے پڑوس میں رہنے والو! تم اسلام کی بہترین امت ہو اور اس بلند خدا کا سب سے بہتر گروہ ہو۔ کوئی قوم تمہاری شان کو نہیں پہنچ سکتی۔ یقیناً تم شرف، بزرگی اور منزلت میں بڑھ کر ہو۔ تمہارے لیے یہی فخر کافی ہے کہ اللہ نے حضرت آدمؑ سے جو وحی شروع کی اس کو اس نبی پر ختم کیا جو تم میں سے تھے اور تمہاری زمین ان کا وطن ان کی پناہ اور جائے پیدائش تھی۔ اور تمہیں معلوم ہے کہ وہ نبی کون ہے۔ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم برگزیدوں کا سردار، انبیاء کا فخر، خاتم الرسل اورسب مخلوق کا امام ہے۔ ان کا احسان زمین پر چلنے والے ہر انسان پر ثابت ہے۔ آپ کی وحی نے رموز معانی اور بلند نکات جو گمشدہ تھے ان سب کو پا لیا۔ یقیناً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین نے معارف حقائق کے راستے اور ہدایت کے طریقے جو ناپید ہو گئے تھے ان کو از سر نو زندہ کیا۔ اے اللہ! تُو ان پر اپنا اتنا درود و سلام اور برکات نازل فرما جتنے زمین کے قطرے زمین کے ذرّے، جتنے اس میں رہنے والے زندہ اجسام اور جتنے اس میں مدفون ہیں۔ آپ کو اتنی برکتیں عطا کر جتنے آسمان میں ذرے جو ظاہر اور مخفی ہیں اور ان کو ہماری طرف سے اتنا سلام پہنچا جس سے آسمان کے کنارے بھر جائیں۔ خوش قسمت ہے وہ قوم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جوا اپنے کندھے پر رکھ لیا۔ مبارک ہے وہ دل جو اُن تک پہنچا اور ان سے مل گیا اور ان کی محبت میں فنا ہو گیا۔ عربوں کو مخاطب ہو کر فرماتے ہیں ، اے اس سر زمین کے باسیو جس کو محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں نے رونق بخشی۔ اللہ تم پر رحم کرے اور تم سے راضی ہو اور تم کو راضی رکھے۔ میں تمہارے بارے میں ا چھا ظن رکھتا ہوں۔ اے اللہ کے بندو میری روح میں تمہاری ملاقات کے لیے بڑی تشنگی ہے۔ میں تمہارے ملکوں کی اور تمہاری جمعیت کی برکات دیکھنے کا مشتاق ہوں تا اس زمین کو دیکھوں جس کو مخلوق کے سردار کے قدموں نے چھؤا اور اس مٹی کا سرمہ اپنی آنکھوں میں لگاؤں۔ اس زمین کی صلاحیتوں اور صلحاء کو ملوں۔ (التبلیغ ،آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5صفحہ419تا421) پس یہ ہے وہ دلی کیفیت جس کا اظہار آپؑ نے فرمایا۔ کاش کہ آجکل عرب کے مسلمانوں کو بھی اس نصیحت پر عمل کرنے کی توفیق ملے اور اپنے عملوں کو اس قابل بنائیں کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی ماننے والوں اور آپؐ کی امت کے حقیقی پیروی کرنے والوں میں شامل ہو جائیں۔ آپؐ کی شریعت پر صحیح طور پر عمل کرنے والوں میں شامل ہو جائیں تبھی وہ اپنے اس مقام کو پا سکتے ہیں جو ان سے کھویا گیا ہے۔ دشمنوں کی دشنام دہی پر ایک موقع پر اپنے دلی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے آپؑ نے اس طرح فرمایا کہ ’’دل رو رو کر یہ گواہی دیتا ہے کہ اگر یہ لوگ ہمارے بچوں کو ہماری آنکھوں کے سامنے قتل کرتے اور ہمارے جانی اور دلی عزیزوں کو جو دنیا کے عزیز ہیں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتے اور ہمیں بڑی ذلت سے جان سے مارتے اور ہمارے تمام اموال پر قبضہ کر لیتے تو واللہ ثم واللہ ہمیں رنج نہ ہوتا اور اس قدر کبھی دل نہ دکھتا جو ان گالیوں اور اس توہین سے جو ہمارے رسولﷺ کی کی گئی‘‘ہیں دل ’’دُکھا۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 52) کیا یہ الفاظ توہین کرنے والے کے ہیں؟ الزام لگانے والے کچھ تو سوچیں، کچھ تو غور کریں۔ پس اے وہ مخالفین احمدیت! جو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعویٰ کرتے ہو، غور کرو، سوچو کہ تمہاری بلا وجہ کی مخالفت اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث نہ بن رہی ہو۔ آجکل جو حالات ہیں ان میں دیکھو کہ کہیں یہ مخالفت جو تمہاری ہو رہی ہے اس وجہ سے تو نہیں ہو رہی کہ تم کیا کر رہے ہو۔ اس کے نتائج اس وجہ سے تو نہیں پیدا ہو رہے۔ کچھ تو غور کرو۔ جہاں تک ہمارا مسلمانوں سے تعلق ہے اور ہمدردی کا تعلق ہے ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے اس شعر پر عمل کرنے والے ہیں جس میں آپ نے فرمایا کہ ’’اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاہ دار کاخر کنند دعویٰ حب پیمبرمؐ‘‘ (ازالۂ اوہام حصہ اول، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 182) کہ اے دل! تُو ان لوگوں کا لحاظ رکھ کیونکہ آخر میرے پیغمبرؐ کی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ہم تو اس لحاظ سے ہر مسلمان سے محبت کرنے والے ہیں اور ان کی بقاکے لیے دعا گو بھی ہیں اور جو کوشش ہو سکتی ہے وہ بھی کرتے ہیں اور ان کے لیے نیک جذبات اور احساسات رکھتے ہیں۔ ان کے لیے دعائیں کرتے ہیں لیکن یہ خود بھی تو ہوش کریں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کی تکفیر کرنے کی بجائے اس کے پیغام کو سنیں اور سمجھنے کی کوشش کریں۔ کفر کے فتوے لگانے میں جلدی نہ کریں۔ بہرحال ہم تو اس محبت کا دعویٰ مسلمانوں سے کرتے رہیں گے کیونکہ ان کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں چاہے وہ محبت کا دعویٰ ظاہری ہی ہو۔ اللہ تعالیٰ مسلمان امت کو عقل اور شعور دے اور وہ بلا وجہ کی مخالفت سے باز آئیں۔ سوچیں کہ کیا اللہ تعالیٰ ان سے پوچھے گا نہیں کہ تم نے بغیر تحقیق کے مخالفت کی کیونکہ اکثریت تو صرف بغیر تحقیق کے مولوی کے کہنے پر مخالفت کرتے ہیں اور مولوی بھی پڑھنا نہیں چاہتا، غور نہیں کرنا چاہتا۔ اگر غور کرتے پھر اگر دیکھتے کہ اس دعویٰ کرنے والے کے کسی کلام میں توہین رسالت ہے اور اس غور کے بعد اگر کلام سمجھ نہ آتا تو پھر صرف مخالفت نہیں شروع کر دیتےپھر بھی ان کو چاہیے تھا کہ احمدیوں سے پوچھتے اس کے بعد پھر اگر تمہیں نظر آتا کہ سب باتیں ناجائز ہیں اور قرآن و حدیث اور شریعت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے منافی ہیں تو مخالفت کا حق رکھتے لیکن کیا تم نے ہمارا دل چیر کر دیکھا ہے کہ ہمارے دلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق و محبت ہے کہ نہیں ہے اور کس حد تک ہے اور کس حد تک بھرا ہوا ہے؟ کیا تم نے دیکھا ہے کہ ہم آپ کی آخری شریعت پر کس حد تک ایمان لانے والے ہیں؟ کیا تم نے دیکھا ہے کہ ہم قرآن کریم کے ہر حکم پر عمل کرنے کی کوشش کرنے والے ہیں اور اس پر یقین اور ایمان رکھنے والے ہیں؟ کیا تم نے دیکھا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی توحید کو دنیا میں قائم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنے والے ہیں؟ پس کچھ تو غور کرو! کچھ تو غور کرو! اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقل دے کہ یہ اس طرح سوچیں اور ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم یہ حب پیغمبری کا دعویٰ اپنے ہر عمل سے ثابت کریں۔ جن باتوں کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وضاحت فرمائی ہے اور بہت جگہ وضاحت فرمائی ہے اس کے علاوہ بھی اس پر غور کریں اور سوچیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جو عشق و محبت ہے اس میں بڑھتے چلے جائیں اور صرف ہماری زبانی باتیں نہ ہوں، ہم نے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو مانا ہے ہم اس ماننے کا حق ادا کرنے والے بنیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کے وہ معیار قائم کریں جو اعلیٰ ترین معیار ہوں۔ اپنا جائزہ لیتے رہیں۔ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے جذبات تھے کیا وہ جذبات ہمارے دلوں میں پیدا ہوتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ کی توحید کو دنیا میں قائم کرنے کے لیے وہ کوشش کریں جس کا ہم سے مطالبہ کیا گیا ہے اور جو اس کا حق ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا میں لہرانے کے لیے ہر قربانی کے لیے تیار رہیں۔ اللہ تعالیٰ کی توحید دنیا میں قائم کرنے کے لیے ہر قربانی کے لیے ہر وقت تیار رہیں اور اس وقت تک چین سے نہ بیٹھیں جب تک اس مقصد کو حاصل نہ کر لیں جس کو پورا کرنے کے لیے ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی جماعت میں شامل ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قادیان میں جلسہ میں شامل ہونے والے ہر فرد کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور جو اپنے گھروں میں بیٹھے سن رہے ہیں ان کو بھی اپنی حفظ و امان میں رکھے اور حقیقی طور پر اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سےعشق و محبت کا اظہار کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی بیعت کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ اس وقت ہمارے قادیان کے اس جلسہ کے ساتھ دنیا کے مختلف ممالک میں جلسے ہو رہے ہیں۔ بعض کی تصاویر دکھائی جا رہی ہیں۔ ان میں ٹوگو میں جلسہ ہورہا ہے، مالی میں جلسہ سالانہ ہو رہا ہے، آج ان کا آخری دن ہے۔ برکینا فاسو میں ہو رہا ہے، ان کا بھی آخری دن ہے۔ گنی کناکری میں جلسہ ہو رہا ہے، ان کا بھی آخری دن ہے۔ نائیجر میں جلسہ ہو رہا ہے، ان کا بھی آخری دن ہے۔ سینیگال میں ہو رہا ہے، ان کا بھی آخری دن ہے۔ گنی بساؤ میں ہو رہا ہے، امریکہ کے ویسٹ کوسٹ میں جلسہ ہو رہا ہے۔ یہ سب جو جلسہ سالانہ ہو رہے ہیں یہ سب اس لیے یہاں جمع ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے پیغام کو سمجھیں اور دنیا میں پہنچانے کی کوشش کریں اوراپنی اصلاح کرنے کی بھی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور وہ سب برکات لے کر جلسہ سے جائیں جن برکات کے لینے کے لیے وہ اس جلسہ میں شامل ہوئے ہیں۔ اس وقت قادیان میں جو حاضری انہوں نے مجھے بھیجی ہے وہ کہتے ہیں کہ اس وقت بیالیس ممالک کی نمائندگی وہاں ہو رہی ہے اور 16ہزار 91(16,091)کی حاضری ہے۔ قادیان کے لحاظ سے اچھی حاضری ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جلسہ کی برکات سے فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ اب دعا کر لیں۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ جرمنی 2021ء کے اختتامی اجلاس سے براہِ راست معرکہ آرا،بصیرت افروز اور دل نشیں خطاب