برّاعظم ایشیا کے چنداہم حالات و واقعات کا خلاصہ ایران، اسرائیل لڑائی اسرائیل کے حکمرانوں نے غزہ میں پونے دو سال کے دوران ریاستی دہشت گردی کے ذریعے آگ اور خون کی ہولی جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ، ۱۲؍جون کو صبح ہونے سے پہلے اپنے لڑاکا طیاروں اور ڈرونز کی مدد سےایران پر حملہ کردیا۔ ایران کے جوہری معاملے پر امریکہ سے متوقع طور پر نتیجہ خیز مذاکرات سے عین پہلے سراسر بلا جواز، اور انتہائی سنگین نقصانات کا سبب بننے والے فضائی حملے کرکے اسرائیل نے پورے مشرق وسطیٰ بلکہ پوری دنیا کو جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آنےکے خدشات کو آخری حد تک ابھار دیا۔ عالمی برادری کی طرف سے اسرائیل کے ایران پر اس حملے کا شدید ردّعمل سامنے آیا۔سعودی عرب نے اسرائیلی جارحیت کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔سعودی وزارت خارجہ کی طرف سے بیان میں کہا گیا کہ یہ ایران کی سلامتی اور خود مختاری پر حملہ اور بین الاقوامی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کے مطابق خطہ موجودہ صورتحال کا متحمل نہیں ہوسکتا۔امریکہ برطانیہ،آسٹریلیا،نیوزی لینڈاور عمان سمیت کئی ممالک نے اس حملہ کو عالمی امن کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دیا۔ ۱۲؍ اور ۱۳؍جون کی درمیانی رات ایران نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے اسرائیل پر پے در پے میزائل حملے کیے۔جن میں ایرانی حکام کے مطابق اسرائیل کے جوہری تحقیقی مرکز کو بھی ہدف بنایا گیا۔ ایران نے دو سوسے زیادہ میزائل فائر کیے جو تل ابیب اور مقبوضہ بیت المقدس تک پہنچے۔ میزائلوں کے ذریعے سات مقامات کونشانہ بنایا گیا، ایرانی میڈیا نے دو اسرائیلی طیارے گرانے کا بھی دعویٰ کیا۔ برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مشورہ دیا کہ وہ ایران کےخلاف فوجی کارروائی کے منصوبے سے پیچھے ہٹ جائیں۔روسی اور چینی صدور نے بھی متنبہ کیا کہ تنازع میں امریکی فوجی مداخلت کے نتائج سنگین اور ناقابل تصور ہوں گے چنانچہ وائٹ ہاؤس کے مطابق صدر ٹرمپ نے ایران کے خلاف براہ راست کارروائی کا معاملہ دو ہفتوں کے لیے مؤخر کردیا۔ مختلف ممالک کی جانب سے صبروتحمل اور فائربندی کی اپیلوں کے باوجود ایران اسرائیل جنگ تشویشناک مرحلے میں داخل ہوگئی اور دونوں ایک دوسرے کی فوجی اور صنعتی تنصیبات کو میزائلوں کا نشانہ بناتے رہے۔ایران نے اپنے خطرناک میزائلوں کی بارش سے اسرائیل میں جو تباہی مچائی اس کے پیش نظر امریکی صدر ٹرمپ نے بھی جنگ بندی کے لیے ڈیل کرانے کا عندیہ دیا۔ امریکی صدر نے اگرچہ کہا کہ وہ پاک بھارت جنگ بند کراچکے ہیں اور اسی طرز پر اب ایران اور اسرائیل میں بھی معاہدہ کراسکتے ہیں۔ ایرانی میزائل حملوں سے بچنے کے لیے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سمیت اکثریت عوام نے ۱۵؍جون کی رات بھی بنکروں میں گزاری۔ روسی صدر پیوٹن سے امریکی صدر نےٹیلی فون پر بات کی،اس دوران پیوٹن نے فریقین میں ثالثی کی پیشکش بھی کی۔ مغربی اتحادی ممالک برطانیہ،جرمنی اور فرانس نے ایران کو جوہری مذاکرات کی پیشکش کی جبکہ چین نے ایران اور اسرائیل کو جنگ بند کرنے اور اختلافی مسائل حل کرنے کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا۔صدر ٹرمپ نے ایک طرف جنگ بندی کے لیے معائدہ کرانے کاعندیہ دیا تو دوسری طرف خفیہ طور پر دیگر جنگی سامان کے علاوہ تین سو مہلک میزائل اسرائیل پہنچادیے۔ دوسری طرف اسرائیلی فوج نے اصفہان میں نیوکلیئر تنصیب کو بھی نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا۔ تہران کے وسط میں بھی کئی دھما کے ہوئے۔ تہران کے مہرآباد ہوائی اڈے کو نشانہ بنایا گیا۔ امریکی سینیٹر برنی سینڈرز نے ایران پر اسرائیلی حملے کو غیرقانونی قرار دیا اور کہا ایران کے نیوکلیئر پروگرام پر ۱۵؍جون کو مذاکرات طے تھے تاہم اسرائیل نے ایران پر غیرقانونی حملہ کردیا اور جنگ بندی کے سب سے بڑے مذاکرات کے پروگرام کو ختم کردیا۔ امریکی سینیٹر کے اس بیان سے واضح ہے کہ ایران پر اسرائیلی حملے کا اصل مقصد ایران امریکہ مذاکرات کو ناکام بنانا تھا۔ جنگ روکنے کے لیے بلائے گئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں چین نے اسرائیل کو ریڈلائن عبور کرنے کا ذمے دار قرار دیا اور روس نے اسرائیلی حملوں کو بلاجواز ٹھہرایا۔ ۲۲؍جون کی صبح امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹروتھ سوشل پر کی گئی پوسٹ میں یہ اعلان سامنے آیا، کہ’’امریکہ نے ایران میں فردونیو، نطنز اور اصفہان کی جوہری تنصیبات پر حملہ مکمل کر لیا اس پر مکمل بمباری کرکے یہ پلانٹ ختم کردیا۔‘‘ امریکہ نے ۲۲؍جون کی صبح ایران کی تین اہم ایٹمی تنصیبات پر جو بمباری کی، اس پر چند ممالک کے سوا تقریباًساری دنیا نے امریکہ کے اس اقدام کی مذمت کی اور اسے عالمی امن کے لیے تباہ کن قرار دیتے ہوئے تیسری عالمی جنگ کا نقطہ آغاز قرار دیا۔اس سے خود امریکی صدر ٹرمپ کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا،جو دنیا کو جنگوں سے نجات دلانے کا وعدہ کرکے برسر اقتدار آئے تھےاور آج کل نوبیل امن انعام کے دعویدار ہیں۔ صدر ٹرمپ نے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے میں امریکی فضائیہ کو براہ راست ملوث کرکے اپنی اس یقین دہانی کی کھلی خلاف ورزی کی کہ وہ کم از کم دو ہفتے تک ایسا کوئی اقدام نہیں کریں گے اورجوہری معاملے پر ایران سے بات کرکے اختلافات کا حل تلاش کریں گے۔ ایران کا کہنا ہے کہ امریکی دعووں کے برخلاف اس کی تنصیبات کو معمولی نقصان پہنچا ہےکیونکہ اس نے افزودہ یورینیم وہاں سے نکال کر اس کی جگہ ریت بھر دی تھی۔جنگ بند نہ ہونے کی صورت میں ایرانی حکام نے اقوام متحدہ کولکھے گئے خط میں دھمکی دی کہ وہ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے این پی ٹی سے علیحدہ ہوسکتے ہیں اور کہا کہ وہ فوجی اہمیت کی حامل آبنائے ہرمز کی بندش کا سنجیدگی سے جائزہ لے رہا ہے۔ واضح رہے کہ عمان اور ایران کے درمیان واقع آبنائے ہرمز تیل کی ترسیل کے لیے دنیا کا اہم ترین داخلی مقام ہے اور اس کی بندش دنیا کے بہت بڑے حصے کو تیل کی دستیابی میں مشکلات سے دوچار کرکے عالمی معاشی بحران پیدا کرنے کا سبب بن سکتی تھی اس کے بعد ایران کے کہنے پر سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلوایا گیا،جس میں پاکستان،روس اور چین نے مشترکہ قراردار پیش کی،جس میں ایران،اسرائیل اور امریکہ کے درمیان فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا۔ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی رپورٹ میں حملے کا نشانہ بننے والی ایرانی تنصیبات سے تابکاری کا اخراج نہ ہونے کی تصدیق کی گئی،جس سے ایران کا یہ مؤقف درست ثابت ہوگیاکہ وہ ایٹم بم نہیں بنا رہا تھا۔ المختصر۱۲؍روز تک جاری رہنے والی ایران اسرائیل لڑائی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جنگ بندی کی حکمت عملی سےختم ہوگئی اور دنیا تیسری ہولناک عالمی جنگ سے بچ گئی۔تفصیل اس طرح ہے کہ ۲۳؍جون کی رات قطر اور عراق میں قائم امریکی فوجی اڈوں پر ایرانی میزائل حملوں سے ایسا لگتا تھا کہ امریکہ اس کے جواب میں پوری طاقت سے پھر حملہ کرے گا لیکن امریکی صدر نے پہلے اسرائیلی وزیراعظم سے بات کرکے انہیں جنگ بندی پر آمادہ کیا۔ پھر امیر قطر سے بات کی کہ وہ اسرائیل کی جنگ بندی پر آمادگی سے متعلق ایران کو بتائیں اور اسے جنگ بندی پر رضامند کریں۔امیرقطر کے ایما پر ایران نے بھی آمادگی ظاہر کردی،جس کے بعد ایران نے اسرائیل پر ابتدائی میزائل حملوں کے بعد جنگ روک دی اور اسرائیل نے بھی ۱۲؍گھنٹے بعد حملے بند کردیے۔صدر ٹرمپ نے کہا کہ اگر جنگ جاری رہتی تو پورے خطے میں تباہی آنے کاخطرہ پیدا ہوجاتا۔ احمد آباد، انڈیا میں مسافرطیارے کا افسوسناک حادثہ بھارتی ریاست گجرات میں احمد آباد ایئرپورٹ کے قریب برطانیہ کے شہر لندن کے لیے اڑان بھرنے والا ایئرانڈیا کا مسافر بردار طیارہ ٹیک آف کےچند لمحوں بعد میڈیکل کالج ہاسٹل کی عمارت پر گر کر تباہ ہوگیا۔ ۱۲؍جون کی دوپہر کو اس افسوسناک حادثے میں ۲۶۵سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ بھارتی میڈیا کےمطابق ایئرانڈیا کی پرواز فلائٹ نمبر اے آئی ۱۷۱ بھارتی ریاست گجرات کے احمد آباد ایئرپورٹ سے لندن (برطانیہ) کے لیے روانہ ہوئی تھی، انڈیا ٹوڈے کے مطابق طیارے کو حادثہ ٹیک آف کے دوران پیش آیا۔ طیارے کے ڈاکٹرز ہاسٹل پر گرتے ہی آگ کے شعلے بھڑک اٹھے، ہاسٹل میں درجنوں افراد موجود تھے، اطلاع ملتے ہی ریسکیو ادارے اور فائر بریگیڈ کے اہلکار موقع پر پہنچ گئے۔حادثے کا شکار ہونے والا طیارہ بوئنگ ۸-۷۸۷ ڈریم لائنر تھا، جس کا رجسٹریشن نمبر VT-ANB ہے۔یہ انتہائی جدید طیاروں میں شمار ہوتا ہے۔ طیارےمیں سوار ۲۴۲ مسافروں میں سے صرف ایک مسافر زندہ بچ سکا،جو ایمرجنسی گیٹ کے پاس بیٹھا ہوا تھا جبکہ ہاسٹل میں۵؍طلبہ کی ہلاکت کی بھارتی میڈیا کی جانب سے تصدیق کی گئی۔ ایئرانڈیا کے مطابق سابق وزیراعلیٰ گجرات وجے روپانی بھی بدقسمت طیارے میں موجودتھے۔ ہلاک شدگان میں ۱۶۹بھارتی شہری، ۵۳برطانوی، ۷پرتگالی اورایک کینیڈین شہری شامل ہے۔ حادثے میں میڈیکل ہاسٹل میں موجود متعدد افراد زخمی ہوئے۔ اس حادثے کی اطلاع کے فوراً بعدپاکستان سمیت عالمی برادری کی طرف سے افسوس اور لواحقین سے اظہار ہمدردی پر مبنی ردعمل سامنے آیا۔ ترکی انڈونیشیا کو لڑاکا طیارے برآمد کرےگا ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے ۱۱؍جون کو اعلان کیا کہ ان کا ملک مقامی طور پر تیار کردہ کان (Kaan)نامی ۴۸؍لڑاکا طیارے انڈونیشیا کو دے گا۔ ایکس(ٹوئٹر) پر اپنی ٹویٹ میں طیب اردگان نے ترک ایرو سپیس انڈسٹریز(TUSAS) اور انڈونیشیا کی وزارت دفاع کے درمیان ہونے والے اس معاہدے کو، ریکارڈ برآمدی معاہدہ قرار دیا۔واضح رہے کہ ترکی نے پہلی بار اپنے لڑاکا طیاروں کی برآمد کے لیے کسی ملک کے ساتھ معاہدہ کیا ہے۔ترکی کے مقامی طور پر تیار کردہ کان نامی اس لڑاکا طیارے نے ۲۱؍فروری ۲۰۲۴ء کو اپنی پہلی پرواز مکمل کی تھی۔ امریکہ، روس تعلقات میں بہتری کا امکان امریکہ اور روس کے باہمی تعلقات میں بہتری کے امکانات سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ دونوں ملکوں کے صدور کی ٹیلی فون پر بات چیت ہوئی جس کے بعد روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں بہتری کا کریڈٹ براہِ راست امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دے دیا۔ روسی صدر کاکہنا تھا کہ صدرٹرمپ کا احترام کرتا ہوں اور ان سے ملاقات کی خواہش ہے۔ جبکہ سفارتی سطح پرمعاملات میں اتفاق کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔غیرملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق صدر پیوٹن نے ۲۸؍جون کوپریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی کوششوں کے باعث روس اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں بہتری کی سمت پیشرفت ہونا شروع ہوئی ہے۔ روسی صدر نے واضح کیا کہ امریکی صدر سے ممکنہ ملاقات کےلیے محتاط اور جامع تیاری کی ضرورت ہوگی، تاہم انہوں نے امید ظاہر کی کہ مستقبل میں یہ ملاقات ہوسکتی ہے۔صدر پیوٹن کا کہنا تھا کہ اگرچہ سفارتی سطح پر ابھی ہر بات پر اتفاق نہیں ہو پایا، لیکن اہم ابتدائی اقدامات کیے جاچکے ہیں اور اس سمت میں پیش رفت جاری ہے۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ روس اور امریکہ کے تعلقات میں مزید بہتری کے لیے یہ مثبت اقدامات بنیاد فراہم کریں گے۔ چین میں شدید بارشوں کے بعد سیلابی صورتحال چین کے جنوب مغربی علاقوں میں بارشوں نے شدید تباہی مچادی۔ چینی صوبہ گوئژو ایک بار پھر سیلاب سے متاثر ہوا ہے۔غیرملکی میڈیا کے مطابق چین میں شدید بارشوں کے بعد جنوب مغربی علاقے سیلاب کی زد میں ہیں۔تین دریاؤں کے سنگم پر واقع رونگجیانگ کاؤنٹی جہاں تین لاکھ سے زائد گھر موجود ہیں، میں جون کے دوسرے ہفتے میں ریکارڈ بارشوں کی وجہ سے چھ افراد ہلاک ہوئے اور ۸۰؍ہزار سے زائد افراد اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہوگئےہیں۔چین میں شدید بارش اور سیلاب سے رہائشی علاقے زیر آب آگئے، لینڈ سلائیڈنگ سے سڑکیں بندہوچکی ہیں۔محکمہ موسمیات کے سائنسدانوں کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں اب بارشیں زیادہ اور شدید ہو رہی ہیں۔چینی حکام نے کہا ہے کہ ڈیم ٹوٹنے کے واقعات بھی سامنے آرہے ہیں۔چینی وزارتِ آبی وسائل نے بتایا ہے کہ جون کے تیسرے ہفتے میں جنوبی چین کے ۱۳؍ بڑے دریاؤں میں سیلاب کی وارننگ جاری کی گئی تھی۔ مزید پڑھیں: مغربی معاشرے میں تربیت اولاد کے مسائل اور ان کا حل