https://youtu.be/KgP4KZmcqPQ جھوٹے کا کبھی سچ بولنا مسلّم مگر اس کا لازمہ یہ نہیں کہ اس کے سبھی بول سچ ہوں۔اس کا لازمہ تو یہ ہے کہ اس کا جھوٹ سچ سے زیادہ ہو۔ پھر جس کلام میں جھوٹ کا شائبہ بھی نہ ہو تو وہ جھوٹے کا کلام کیونکر ہو سکتا ہے براہین احمدیہ پر لکھے جانے والے ریویو زکے سلسلے میں ابوسعید محمدحسین بٹالوی صاحب کا تحریر کردہ ریویو اعتراض سوم کا جواب اس اعتراض کا ماحصل یہ ہے کہ مؤلف براہین احمدیہ اپنے الہامات کو حجت قطعی جانتا ہے حالانکہ علماء اسلام نے الہام غیر نبی کو مطلق حجت نہیں مانا اور اس کو دلیل شرعی قرار نہیں دیا۔ الجواب: علمائے اسلام نے جو قرار دیا ہے کہ الہام و کشف غیر نبی حجت نہیں تو اِس سے ان کی مراد (جس کووہ خود بہ تصریح بیان کر چکے ہیں ہم اپنی طرف سے نہیں کہتے) یہ ہے کہ غیر نبی کا الہام یا کشف کسی دوسرے پر حجت نہیں اور وہ ان دلائل شرعیہ میں سے نہیں ہے جن کا اتباع عام اہل اسلام پر واجب ہے اور مؤلف براہین احمدیہ نے اس قرارداد علماء کا خلاف ہرگز نہیں کیا اور کہیں نہیں فرمایا کہ میرا الہام اور لوگوں پر حجت ہے چہ جائیکہ اس کو قطعی حجت ٹھہرایا ہو۔ جو لوگ یہ دعوے کرتے ہیں کہ مؤلف براہین اپنے الہامات کو اوروں پر حجت ٹھہراتے ہیں اور دوسرے لوگوں کو ان پر یقین کرنا واجب سمجھتے ہیں۔ وہ ہم کو مؤلف براہین کا کوئی ایک ہی کلمہ اس کتاب میں سے یا اورکہیں سے ایسا بتا دیں جس میں انہوں نے اپنے الہامات کو اوروں کے لئے حجت یا قطعی دلیل ٹھہرایا ہے۔ اور اگر وہ کوئی ایسا کلمہ ان کی کلام میں نہ پائیں تو یہ اعتراض کرتے ہوئے خدا سے شرمائیں اور اس اعتراض بےجا اور طعن ناروائے سے باز آئیں۔ کتاب براہین احمدیہ کی جلد ۳ صفحہ ۲۳۲ اور جلد ۴ صفحہ ۵۴۸ وغیرہ کے اُن فقرات سے (جن میں مؤلف نے الہام اولیاء اللہ کو قطعی کہا ہے) یا مؤلف کی کسی اور عبارت و کلام سے یہ ہرگز مفہوم نہیں ہوتا کہ وہ الہام غیر نبی کو ملہم کے سوا اوروں کے حق میں بھی قطعی جانتے ہیں۔ اور حجت واجب العمل خیال کرتے ہیں بلکہ ان کے اِن فقرات سے جو جلد چہارم میں آپ نے فرمائے ہیں۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس الہام کو ملہم ہی کے حق میں حجت و دلیل سمجھتے ہیں غیروں پر اس کا عمل واجب نہیں جانتے۔ چنانچہ بصفحہ ۵۴۸ جلد چہارم خود فرماتے ہیں۔ ’’خود ظاہر ہے کہ اگر خضر اور موسیٰ کی والدہ کا الہام صرف شکوک اور شبہات کا ذخیرہ تھا اور قطعی اور یقینی نہ تھا تو ان کو کب جائز تھا کہ وہ کسی بے گناہ کی جان کو خطرہ میں ڈالتے یا ہلاکت تک پہنچاتے یا کوئی دوسرا ایسا کام کرتے جو شرعاً و عقلاً جائز نہیں ہے۔ آخر یقینی علم ہی تھا جس کے باعث سے وہ کام کرنا ان پر فرض ہوگیا تھا اور وہ امور اُن کے لئے روا ہوگئے کہ جو دوسروں کے لئے ہرگز روا نہیں۔‘‘ ایک دفعہ مؤلف سے بالمشافہ ان کے الہام کی نسبت کچھ ذکر ہوا تو انہوں نے صاف فرمایا کہ ’’ملہم پر تو اپنے الہام کے موافق عمل کرنا واجب ہی ہے اور لوگ اس کے موافق عمل نہ کریں تو ملہم کو رنج ضرور ہوتا ہے۔‘‘جس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ وہ اوروں کے حق میں اس کو واجب العمل نہیں سمجھتے اور حجت خیال نہیں کرتے۔ اس بیان سے جواب اعتراض سوم تو پورے طور پر ادا ہوا مگر اس سے ایک یہ سوال پیدا ہو گیا کہ ولی اپنے الہام کو اپنے حق میں کیوں حجت و دلیل سمجھتا ہے اور ا سکے منجانب اللہ ہونے کا یقین کر لینا اس کو کیونکر جائز ہے۔ جس حالت میں اِس کے الہام میں وسوسہ شیطانی کا بھی احتمال ہے اور وہ خود تلبیس ابلیس سے معصوم نہیں ہے۔ اسی نظر سے ادلہ شرعیہ چار سے زیادہ شمار نہیں ہوئیں اور الہام و کشف غیر نبی اُن چار میں داخل نہیں۔ یہ سوال مؤلف براہین احمدیہ پر وہ لوگ بھی کرتے ہیں جو خود الہامی خاندان سے مشہور ہیں اور مؤلف براہین سے پہلے وہ اپنے بزرگوں کے الہام خود لوگوں کو سناتے تھے اور انہی الہامات کے سبب وہ اپنے زمرہ اتباع میں آج تک ممتاز و مقتدا تصور کئے جاتے ہیں۔ جب وہ مؤلف کے ان دعاوی کو جن میں وہ اپنے الہامات کا اپنے لئے مفید علم ویقین ہونا بیان کرتے ہیں۔ سنتے ہیں تو ان کی طرف تعجب و حیرت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ اور جب وہ آپ کے وہ دعاوی مبارزانہ (جن میں وہ اپنے الہامات کے بھروسے مخالفین اسلام کو شرطیں لگا کر خوارق مشاہدہ کرانے کا وعدہ دیتے ہیں) سنتے ہیں تو ان پر سخت معترض ہوتے ہیں اور بعید نہیں کہ وہ لوگ یا اور معترض اشاعۃ السنۃ نمبر ۵ و ۶ جلد ۲ صفحہ ۱۵۳ اور ۱۵۴ کی مندرجہ عبارات احیاء العلوم و میزان کبریٰ شعرانی وغیرہ کو بھی اپنے تعجب و اعتراض کے مؤید سمجھیں اور ان عبارات کی دستاویز سے ہمارے ہی رسالہ سے ہم کو الزام دینے پر بھی مستعد ہو جائیں۔ لہٰذا اس سوال کے جواب دینے میں ہم کو خود بھی کسی قدر زیادہ غور کی ضرورت پیش آئی ہے اور ناظرین باانصاف کو بھی اس میں مزید توجہ کی ضرورت ہے۔ بلکہ سچ پوچھو تو اس کتاب یا اس کے مؤلف کی نسبت جس قدر اعتراضات منقول ہوئے ہیں ان میں سے صرف یہی ایک علمی یا مذہبی سوال ہے جس کے جواب میں کچھ ہم کو سوچنا پڑا اور اس کی طرف ناظرین اہل علم کی بھی توجہ ضروری ہے اور اعتراضات تو محض حاسدوں کے افتراءات یا وہمیوں کے خیالات ہیں جن کے جوابات سے صرف عوام یا اوساط الناس کے دھوکا کھا کر گمراہی میں پڑ جانے کے خوف سے قلم اٹھایا گیا ہے ورنہ اہل علم کے نزدیک وہ سوالات لائق تعرض و جواب نہ تھے۔ جواب: یہ اصول تو مسلّم ہے کہ (۱) ملہم (غیر نبی) اپنے سبھی الہامات میں معصوم نہیں ہوتا۔ اس کے بعض الہامات میں تلبیس ابلیس کا امکان و احتمال ہے۔ (۲) اور وہ خود بھی اپنے ہر ایک الہام پر (جب تک ان کا مخالف شریعت نہ ہونا ثابت نہ کرلے) یقین کرنے کا شرعاً مجاز نہیں۔ (۳) اور اس کایقین (جو اُس کو اپنے الہام پر خود بخود حاصل ہوتا ہے) شرعی حکم نہیں۔ (۴) اور (بناء علیہ) اس کا ہر ایک الہام خود اس کے حق میں بھی ایسی دلیل شرعی (جس پر اہل اسلام کا اتفاق ہو) نہیں ہے چہ جائیکہ وہ اوروں کے حق میں دلیل شرعی قطعی واجب العمل ہو اشاعۃ السنۃ نمبر ۵ و ۶ جلد ۲ کے صفحہ ۱۵۳ وغیرہ میں انہی اصول کی تائید و تسلیم کے متضمن عبارات احیاء العلوم میزان کبریٰ و فرقان وغیرہ منقول ہوئے ہیں جن کی تسلیم سے ہم کو اب بھی انکار نہیں ہے۔ ولیکن یہ (۱) مسلّم نہیں کہ ولی اپنے کسی الہام میں بھی معصوم (بمعنی محفوظ) نہیں ہوتا۔ اِس کا ہر ایک الہام محتمل تلبیس ابلیس (یا وسوسہ شیطانی ہوتا ہے) (۲) اور نہ یہ مسلّم ہے کہ ولی کو اپنے کسی الہام پر جب تک کہ کتاب آسمانی میں اس کی شہادت و تائید نہ پائی یقین کرنا جائز نہیں ہے۔ (۳) اور نہ یہ مسلّم ہے کہ یہ یقین اس کو اپنے کسی الہام میں حاصل نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اپنے الہام کی شہادت کسی کتاب آسمانی میں نہیں پاتا۔ (۴) اور (یہ مسلّم ہے کہ اُس کو اپنے الہام پر (گو وہ مخالف شرع نہ ہو) عمل کرنا شرعاً ممنوع ہے جب تک کہ کسی کتاب آسمانی میں اس پر عمل کرنے کی صریح اجازت نہ پائے۔) (۵) (اور) نہ یہ مسلّم ہے کہ اس کا کوئی الہام بدون شہادت آسمانی اس کے حق میں (اتفاقی نہ سہی) اختلافی دلیل بھی نہیں ہے جس پر عمل کرنے کے لئے وہ کسی وجہ سے اور کسی کے نزدیک مامور و مجاز نہ ہو۔ ان اصول کو جن کی تسلیم سے ہم کو انکار ہے ہم نے اشاعۃ السنۃ نمبر ۵ و ۶ جلد ۲ میں تسلیم نہیں کیا اور نہ کسی اور محقق عالم اسلام کو ان اصول کا قائل و مسلّم پایا اور نہ ان کی تسلیم و صحت پر کتاب اللہ و سنت یا تصانیف علماء امت و فقہاء ملت میں کسی دلیل کا مشاہدہ کیا۔ لہٰذا ہم باوجود تسلیم ان اصول کے جو اشاعۃ السنۃ نمبر ۵ و۶ جلد ۲ میں تسلیم کر چکے ہیں یہ چار دعوے کر سکتے ہیں (۱) ملہم غیر نبی جو نیکو کار و پرہیز گار ہو نہ فاسق و بدکار اپنے الہامات میں (جو کتاب اللہ کے مخالف نہ ہوں (حاشیہ: یہ قید محض ادباًو تعظیماً للشریعۃ لگائی گئی ہے۔ ورنہ قید دوام و ثبات الہام اِس قید (عدم مخالفت کتاب اللہ) سے مغنی ہے۔ اور کوئی الہام اولیاء اللہ جس پر وہ منجانب اللہ قائم و ثابت رکھے جاویں خلاف شریعت نہیں ہوتا۔ اسی نظر سے مؤلف براہین احمدیہ نے الہام اولیاء کے مخالف کتاب اللہ کے ہونے سے انکار کیا۔ اور بصفحہ ۲۳۵ کتاب بضمن حاشیہ در حاشیہ نمبر۱ کہا ہے ’’اور یہ وہم کہ اگر الہام اولیاء شریعت حقہ محمدیہ سے مخالف ہو تو پھر کیا کریں۔ یہ ایسا ہی قول ہے جیسا کوئی کہے کہ اگر ایک نبی کا الہام دوسرے نبی کے الہام سے مخالف ہو تو پھر کیا کریں۔ پس وساوس کا یہ جواب ہے کہ ایسا کامل النور الہام جس کی ہم نے اوپر تعریف لکھی ہے۔ ممکن نہیں کہ شریعت حقہ محمدیہ سے مخالف ہو۔ اور اگر کوئی کم فہم کچھ مخالفت سمجھے تو وہ اس کے سمجھ کا قصور ہے۔‘‘) بلکہ مؤید و موافق ہوں اور ان میں کذب و گمراہی کا دخل نہ ہو اور ان پر ملہم کو بہ تکرار و تاکید قائم رکھا گیا ہو۔ تلبیس ابلیس (یا وسوسہ شیطانی) سے محفوظ ہوتا ہے۔ (۲) اور ان الہامات کے منجانب اللہ ہونے کا اس کو یقین کر لینا اس الہام کا لازمہ ہے اور شرعاً منع نہیں گو اس یقین کی وجہ و دلیل بجز اس الہام کے اور کوئی اس کے پاس نہ ہو۔ (۳) اور اس یقین کے موافق اس کو کوئی عمل یا دعویٰ (جس کو شریعت منع نہ کرے) کر لینا بھی اِس الہام کے لوازم سے ہے اور شرعاً منع نہیں گو اِس عمل یا دعویٰ کے لئے کوئی اور دلیل شرعی اس کے ہاتھ میں نہ ہو۔ (۴)یہی الہام اور جو اس سے یقین حاصل ہوا ہے اس ملہم کے حق میں خدا کی طرف سے دلیل ہے گو یہ دلیل ایسی شرعی دلیل نہیں ہے جس پر اور لوگوں کو عمل کرنا واجب یا جائز ہوتا ہے اور نہ ایسی دلیل ہے جس کو عام اہل اسلام دلیل سمجھتے ہیں صرف بعض علماء جو کشف و الہام کا مذاق رکھتے ہیں۔ اس کو ملہم کے حق میں دلیل سمجھتے ہیں اور ان دعاوی اربعہ پر دلائل ذیل سے استدلال کر سکتے ہیں۔ دلائل دعویٰ اوّل اس دعویٰ کی مؤید دو دلیلیں پہلی بھی بضمن جواب اعتراض دوم گذر چکی ہیں جو آیت ھَلْ اُنَبِّئُکُمْ عَلٰی مَنْ تَنَزَّلُ الشَّیٰطِیْنُ سے ماخوذ ہیں اور ان سے خاص کر الہامات براہین احمدیہ کا منجانب شیطان نہ ہونا ثابت کیا گیا ہے اس مقام میں دو دلیلیں اور پیش کی جاتی ہیں۔ دلیل اوّل (جو دلیل دوم سابق الذکر کے قریب قریب ہے)(حاشیہ: اس میں فرق یہ ہے کہ وہ چند خاص الہامات کے منجانب اللہ ہونے پر دلیل ٹھہرائی گئی ہے۔ یہ اسی قسم کی سبھی الہامات پر (۲)اس کا ماخذ ایک آیت ہے اس کا ماخذ کئی آیات (۳) اس کا نتیجہ یہ ہے کہ الہامات براہین احمدیہ شیطان کی طرف سے نہیں اس کا نتیجہ یہ کہ ایسے الہامات شیطانی الہامات ہو ہی نہیں سکتے۔) ہے کہ شیطان بجز برائی و گمراہی کے اور کچھ القاء نہیں کرتا اور ان الہامات میں سراسر ہدایت تسلیم کی گئی ہے (حاشیہ : کیونکہ اِن ہی الہامات کو تلبیس ابلیس سے محفوظ مانا گیا ہے جو کتاب اللہ کے مخالف نہ ہوں بلکہ اس کے مؤید و موافق ہوں) گمراہی کی کوئی بات ان میں مانی نہیں گئی۔ پھر یہ القاء شیطانی کیونکر ہو سکتے ہیں۔ اس دلیل کا دوسرا مقدمہ ظاہر الثبوت ہے۔ پہلے مقدمے کے شواہد قرآن میں کثرت سے موجود ہیں۔ ایک جگہ ارشاد ہوا ہے اِنَّمَا یَاْمُرُکُمْ بِالسُّوْٓءِ وَالْفَحْشَآءِ۔ (بقرہ ع ۲۱)شیطان تم کو برائی اور بے حیائی ہی کی باتیں کرنے کو کہتا ہے۔ اور جگہ فرمایا ہے۔اَلشَّیْطَانُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ وَ یَاْمُرُکُمْ بِالْفَحْشَآءِ۔ (بقرۃ ع ۳۷) شیطان تم کو فقیری سے ڈراتا ہے اور بے حیائی کی باتیں بتاتا ہے ۔ اور فرمایایُرِیْدُ الشَّیْطَانُ اَنْ یُّضِلَّھُمْ ضَلٰلًا بَعِیْدًا۔ (نساء ع ۹) شیطان چاہتا ہے کہ ان کو دور بھلاوے۔ اور فرمایا کہ وَ اِنَّ الشَّیَاطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰٓی اَوْلِیٰٓئِھِمْ لِیُجَادِلُوْکُمْ۔(انعام ع۱۴) شیاطین اپنے دوستوں کو یہ وسوسہ ڈالتے ہیں کہ وہ تم سے (اے اہل قرآن مسئلہ ذبیحہ میں بمقابلہ قرآن) جھگڑیں۔ اور فرمایا وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیَاطِیْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا۔ (انعام ع۱۴) ایسا ہی ہم نے ہر ایک نبی کے لئے شیطان آدمیوں اور جنوں میں سے دشمن بنائے ہیں جو ایک دوسرے کو دھوکا دینے کے لئے ملمع کی باتیں سکھاتے ہیں۔ اس مضمون کی آیات قرآن میں اور بیسوں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ شیاطین حق اور ہدایت کی باتیں کسی کو نہیں سکھاتے وہ گمراہی اور بُرائی ہی سکھاتے ہیں۔ سوال۔ بحکم ’’الکذوب قد یصدق ‘‘(یعنی جھوٹا کبھی غرض فاسد سے سچ بول لیتا ہے) ممکن ہے کہ وہ الہامات حقہ شیطان کی طرف سے ہوں جس سے کوئی نتیجہ بد نکالنا اس کو مدنظر ہو۔ اس کا مؤید وہ قصہ کتب حدیث ہے جس میں شیطان کا حضرت ابوہریرہ کو آیۃ الکرسی سکھا جانا پایا جاتا ہے۔ جواب۔جھوٹے کا کبھی سچ بولنا مسلم مگر اس کا لازمہ یہ نہیں کہ اس کے سبھی بول سچ ہوں۔ اس کا لازمہ تو یہ ہے کہ اس کا جھوٹ سچ سے زیادہ ہو۔ پھر جس کلام میں جھوٹ کا شائبہ بھی نہ ہو تو وہ جھوٹے کا کلام کیونکر ہو سکتا ہے۔ بناء علیہ جن الہامات میں از سر تا پا حق و ہدایت ہو۔ جھوٹ اور گمراہی کا اس میں نام و نشان نہ ہو وہ القاء شیطانی کیونکر ہو سکتی ہیں۔ اور اگر کہو یہ الہامات کسی خاص ایسے شیطان کے القاء سے ہیں جو کبھی جھوٹ نہیں بولتا اور وہ آنحضرت کے قرین شیطان کی طرح مسلمان ہو گیا ہے (حاشیہ: چنانچہ حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا کہ و عن ابن مسعود قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ما منکم من احد الا و قد وکلّ بہ قرینہ من الجن و قرینہ من الملائکۃ قالوا و ایاک یا رسول اللّٰہ قال و ایای ولکن اللّٰہ اعاننی علیہ فاسلم فلا یامرنی الا بخیر رواہ مسلم (مشکوٰۃ صفحہ ۱۰) تم میں سے ہر ایک کے ساتھ ایک ہمنشین شیطانوں میں سے مقرر ہوتا ہے ایک فرشتوں میں سے لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا آپ کے ساتھ بھی؟ آپ نے فرمایا ہاں میرے ساتھ بھی ہے۔ پر خدائے تعالیٰ نے مجھے اُس (ہمنشین شیطان) پر غالب کر دیا ہے۔ اور وہ میرے تابع ہو گیا ہے۔ لہٰذا وہ مجھے نیکی کے سوا کچھ نہیں کہتا۔ ) اور قول نبوی ’’فلا یامرنی الا بخیر‘‘کا مصداق بن گیا ہے تو ایسے شیطان کا القا عین القاء رحمانی ہے اور ایسا شیطان (ملہم الحق) نائب رحمان ہے جو بجز لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ اور اس کے فروعات و مؤیدات کی کچھ القاء نہیں کرتا۔ ایسے شیطان سے خدا نے آنحضرت سیّد الرسل کونہیں بچایا تو اس سے ملہم غیر نبی کی حفاظت کی کیا ضرورت ہے اور اس سے محفوظ ہونے کا دعویٰ کون کرتا ہے؟ مزید پڑھیں: حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی کوشش اور قربانی کا ایک نظارہ