https://youtu.be/j0XED6dIng8?si=Flcw3B4dicPctpLF&t=1676 جمعے کا مبارک دن تھا۔ حسب معمول سب گھر والے نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کاخطبہ براہ راست ایم ٹی اے پر سن رہے تھے۔ آج کے خطبہ کے آخر پر بھی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے چند مرحومین کا ذکر خیر فرمایا۔ جن میں ایک انتہائی قابل ڈاکٹر شیخ محمد محمود شہید آف سرگودھا کا بھی ذکر خیر فرمایا جنہیں 16؍مئی کو فاطمہ ہسپتال سرگودھا میں بے رحمی سے گولیاں مار کر شہید کردیا گیا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ خطبہ کے بعد گھر کا ماحول قدرےبوجھل سا ہوگیا تھا۔ آج کل تو ہر ہفتے ہی کبھی کسی کی شہادت کی خبر موصول ہوتی ہے کبھی کہیں مخالفت، مساجد اور قبور کی بے حرمتی کے واقعات علم میں آتے ہیں۔ دادی جان بھی بہت غمگین تھیں۔ احمد، محمود اور گڑیا انہیں دیکھ کر افسردہ ہوگئے۔ محمود نے دادی جان کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے کہا : دادی جان !آپ پریشان تو نہ ہوں میں بڑا ہوکر ان سب کو پولیس کے حوالے کردوں گا۔ دادی جان نے نم آنکھوں کے ساتھ اُسے دیکھتے ہوئے سر ہلایا اور ساتھ ہی زیر لب دعائیں شروع کردیں۔ احمد :دادی جان یہ لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں ؟ دادی جان :بیٹا جی جب بھی کوئی نبی آتا ہے تو اس کی مخالفت میں سب لوگ اکٹھے ہوکر کوششیں کرتے ہیں کہ کسی طرح سے نبی کے مشن کو ناکام کیا جائے ۔جیسا کہ آنحضرت ﷺ کے دور میں ہوا۔ آنحضورﷺ اور آپؐ کے صحابہ کرامؓ کو کفار مکہ نے کس قدر دکھ دیے تھے۔ حضرت عمارؓ، حضرت بلالؓ اور دیگر صحابہ کرامؓ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ اسی طرح حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ ہوا جب انہوں نے اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر یہ اعلان فرمایا کہ آپ ہی وہ مسیح موعود اور مہدی معہود ہیںجن کی بشارت دی گئی تھی۔آپ کا یہ دعویٰ کرنا تھا کہ مخالفت کا ایک طوفان کھڑا ہوا۔ کیا اپنے کیا بیگانے ہر ایک مخالفت میں نکل کھڑا ہوا۔ مختصر یہ کہ حضرت مسیح موعودؑ کی مخالفت تو اس وقت سے ہو رہی ہے جب ابھی باقاعدہ جماعت کا قیام بھی عمل میں نہیں آیا تھا اور آپ ؑ نے بیعت بھی نہیں لی تھی۔ مسلمانوں نے بھی اور غیر مسلموں نے بھی اپنا پورا زور آپؑ کی مخالفت میں لگایا اور ہر ممکن کوشش کی کہ کسی طریقے سے آپ کے مشن کو ناکام کیا جائے۔ احمد : پھر کیا ہوا ؟ دادی جان : اس زمانےمیں آپ نےشروع سےہی اپنےفدائین کو مخالفین کے ظلم و ستم کو برداشت کرنے کی نصائح فرمائیں۔ بہرحال یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات کے بعد اس مخالفت نے خلافت اولیٰ اور ثانیہ میں مزید شدّت اختیار کرلی اور قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے دعوے کئے جانے لگے لیکن حضرت مصلح موعودؓ نے الٰہی منشاء کے مطابق تحریک جدید کے ذریعہ اس مخالفت کو ختم کردیا اور احمدیہ مسلم جماعت ساری دنیا میں اسلام احمدیت کےپیغام میں مصروف عمل ہو گئی۔ محمود :کیا پھر امن ہوگیا ؟ دادی جان :نہیں بلکہ قیام پاکستان کے کچھ عرصے کے بعد 1953ء میں جماعت کے خلاف فسادات کا سلسلہ پھر سے شروع ہوگیا۔ جس میں چُن چُن کر احمدیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ منظّم طریق پر معصوم احمدیوں کے مال و اسباب کو لوٹا گیا، گھروںکو نذرِ آتش کیا گیا۔ احمدیوں پرحملے کیے گئے۔ پہلی بار مخالف عقائد رکھنے والی مذہبی جماعتیں مخالفت میں پیش پیش نظر آئیں۔ ایسےنازک موقع پر حضرت مصلح موعودؓ نے احباب جماعت کوظلم کے بدلے میں صبر کرنےتعصّب کے بدلے میںمحبت سےپیش آنے اور خدا تعالیٰ کے حضور دشمن کے لیےدعائیں کرنے کی نصیحت فرمائی۔ اسی طرح 1974ء میں جماعت احمدیہ کے خلاف نہ صرف ملکی بلکہ طاقتور سربراہوں پر مشتمل عالمی جتھے اکٹھے کرلیے گئےاور احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا۔ عوام کو بھڑکایا گیا۔ جانیں لی گئیں، اموال لوٹے گئے، تحریکات چلائی گئیں اور یہ خیال کیا گیا کہ بس اب احمدیت کو کچل کر رکھ دیا جائے گا۔ پھراسی پر بس نہیں ہوئی 1984ء کے ابتلاؤں کے دوران بہت سے احمدیوں کو صحابہؓ کے نمونوں کے مطابق تکلیفوں سے بھی گزرنا پڑا۔ اسی طرح سال 2010ء میں 28؍مئی کو جمعۃ المبارک کا دن سیاہ دن کے طور پر تاریخ احمدیت میں ہمیشہ زندہ رہے گا جب لاہور شہر کی دو مساجد میں دنیا کی مصروفیات چھوڑ کر محبت الٰہی کی خاطر جمع ہونے والے سینکڑوں نہتے اورمعصوم احمدیوں پر مسلح اور سفاک دہشت گردوں نے نہایت بے دردی سے گولیوں اور گرنیڈوں کی بوچھاڑ کردی اور کئی احمدیوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے۔ پاکستان میں مظالم کا یہ دور آج بھی چل رہا ہے اور مسلسل احمدیوں کو جانی اور مالی قربانیاں خدا تعالیٰ کے حضور پیش کرنے کی توفیق مل رہی ہے۔ باوجود اہل وطن کی حوصلہ شکنی اور مظالم کے اللہ تعالیٰ ان قربانیوں کے صدقے اپنےعظیم الشان افضال جماعت پر نازل فرما رہا ہے۔ گڑیا : دادی جان اتنا ظلم! اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ دادی جان: مَیں آپ کو اس سوال کا جواب حضور انور ایدہ اللہ کے ہی الفاظ میں دیتی ہوں۔ گڑیا بیٹا مجھے الفضل کی ایپ سے خطبہ جمعہ کا سیکشن نکال کر دینا۔ دادی جان گڑیا سے Tabپکڑتے ہوئے بولیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے18؍ اپریل 2025ء کے خطبہ جمعہ میں پاکستان کے لیےاحباب جماعت کو دعائیں کرنے کی نصیحت کرتےہوئے فرمایا: ’’اس وقت مَیںپاکستان کے احمدیوں کے لیے بھی خاص طور پر دعا کے لیے کہنا چاہتا ہوں۔ خود پاکستانی احمدی بھی اپنے لیے دعا کریںاور جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ درود کی طرف توجہ کریں اور وہ دو سو مرتبہ پڑھا کریں: سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ۔ اس وقت اس طرف جتنی توجہ کر سکتے ہیں وہ ہونی چاہیے۔ اگر ہم دعا کا حق ادا کرتے ہوئے دعاؤں کی طرف توجہ دیں گے تو پھر ہی کامیابی ہے۔ جتنی توجہ دینی چاہیے تھی وہ توجہ دی نہیں جا رہی۔ صرف یہ کہہ دینا اور جیسا کہ بعض لوگ مجھے بھی لکھ دیتے ہیں کہ صرف دعاؤں سے تو کچھ نہیں ہو گا کچھ اَور کرنا چاہیے۔ کچھ اَور کیا کرنا چاہیے؟ہمارا ہتھیار تو صرف دعائیں ہیں۔ اس بارے میں کئی دفعہ میں بیان کر چکا ہوں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کے اقتباسات بیان کرچکا ہوں۔ یہ انتہائی غلط خیال ہے کہ دعاؤں سے کچھ نہیں ہونا۔ بہرحال دعائیں ہی ہیں جو ہماری کامیابی کا حل ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق بھی دے اور ہم دعا کا حق ادا کرنے والے بنیں۔ اگر ہم صرف یہ کہہ دیں کہ دعاؤں سے کچھ نہیں ہونا اور ان کا حق ادا نہیں کرنا تو یہ غلط شکوہ ہے جو ہم اللہ تعالیٰ پر کریں گے۔ پس ہمیں استغفار بھی کرنی چاہیے‘‘۔ ان شاء اللہ! سب بچوں نے مِل کر بلند آواز سے کہا۔ اور دادی جان کو پیار سے بوسہ دے کر باہر چلے گئے۔ (درثمین احمد۔ جرمنی)