دادی جان کا آنگن

ہابیل اور قابیل کا قصہ

گڑیا آپی مجھے دودھ پینے کی دعا نہیں آتی ۔آپ دونوں جب پڑھ رہے تھے تو مجھے تھوڑی سی یاد ہو گئی تھی۔ خاقان نے گڑیا کو کہا۔ وہ کل ہی اپنی اُمّی جان کے ساتھ کچھ دنوں کے لیے اپنی پھوپھو کے گھر آیا تھا۔

احمد فوراً بولا: اَللّٰهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيْهِ وَزِدْنَا مِنْهُ۔(مشكاة المصابيح) اے اللہ! تو اس میں ہمیں برکت دے، اور ہمیں اس سے اور زیادہ دے۔

گڑیا: خاقان بھائی آپ جلدی سے یاد کر لوگے۔ ان شاءاللہ۔ گڑیا نے بھی دعا دہرائی اور کہا دادی جان ! خاقان بھائی کو ہم نے حضرت آدمؑ کی کہانی سنائی تھی۔ انہیں سکول میں بتایا گیا ہے کہ حضرت آدمؑ دنیا کے پہلے انسان تھے اور وہ نو سو سال زندہ رہے۔

دادی جان: احمد بیٹا یہ بات درست نہیں ہے۔ اس دن میں نے بتایا تھا حضرت آدمؑ دنیا کے پہلے انسان نہیں تھے بلکہ انسانوں کی طرف اللہ تعالیٰ کے پہلے نبی تھے۔ اور انبیاء کی عمر کا جب ذکر ہوتا ہے تو اس سے مراد بعض اوقات ان کی لائی ہوئی تعلیمات کا زمانہ ہوتا ہے۔ پھر جب لوگ کمزور ہوتے ہیں اور مذہب سے دور چلے جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نیا نبی بھیج دیتا ہے۔ حضرت آدمؑ کی تعلیمات دنیا میں نو سو سال یا اس سے زائد رہی ہوں گی۔ اسے بائبل میں ان کی عمر ہی بیان کر دیا گیا ہے۔

تو چلو پھر! آج ہم حضرت آدم ؑ کے بیٹوں کے متعلق بات کرتے ہیں، ہابیل اور قابیل ۔

گڑیا : ہمارے سکول کی کتاب میں تھا کہ ہابیل نے قابیل کو مارا تھا۔

دادی جان: نہیں گڑیا آپ نے الٹ کہہ دیا۔ قابیل نے ہابیل کو قتل کیا تھا۔ جب میں چھوٹی تھی تو میری استانی نے ہمیں سہولت سے یاد رکھنے کے لیے بتایا تھا کہ ق سے قابیل اور ق سے قتل ۔

احمد: دادی جان یہ تو آسان بات بتا دی۔ ق سے قابیل اور ق سے قتل۔لیکن یہ بھی تو بتائیں کہ ایسا کیا ہوا کہ قابیل نے ہابیل کو جان سے ہی مار ڈالا!

دادی جان: حضرت آدم ؑ نے اپنے بیٹوں کو محنت کرنے اور پھر اپنی کمائی سے خدا تعالیٰ کے حضور قربانی پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔ خدا تعالیٰ نے ہابیل کی قربانی قبول کر لی ۔ جس پر قابیل کو غصہ آ گیا۔ اور اس نے غصّے میں کہا کہ میں تمہیں مار ڈالوں گا۔ ہابیل ایک نرم خُو انسان تھا، اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ متقیوں کی قربانی قبول کرتا ہے۔ یعنی ہابیل نے قابیل کو سمجھانا چاہا کہ لڑائی کرنے کی بجائے متقی بننے کی کوشش کرو تو قربانی قبول ہو جائے گی۔ جیسے آپ کے اگر نمبر کم آئیں تو ٹیچر یا اُمّی کہتی ہیں کہ اَور زیادہ محنت کرو۔ اگلی بار کامیاب ہو جاؤ گے۔ اسی طرح ہابیل نے بھی قابیل کو سمجھایا اور یہ بھی کہا کہ اگر تم مجھے مارنے کے لیے ہاتھ بڑھاؤ گے یعنی پہل کرو گے تب بھی مَیں تمہیں مارنے کے لیے ہاتھ نہیں بڑھاؤں گا۔ ہابیل کی عاجزی اور انکساری اور اس طرح سمجھانے سے قابیل کو اَور بھی غصہ آگیا اور اس نے ہابیل کی جان لے لی۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ قابیل سے ناراض ہو گیا ۔ پھر ایسا ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کوّے کو بھیجا جو زمین کو اپنے پنجوں سے کھود رہا تھا۔ اس طرح اللہ نے قابیل کو سمجھایا کہ وہ اپنے فوت شدہ بھائی کی لاش کو مٹی سے ڈھانپ دے یعنی اُسے دفن کردے۔ اور کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس کا غصہ کچھ ٹھنڈا ہوا تو وہ بہت شرمندہ ہوا اور اس نے اپنی اس حرکت پر افسوس کرتے ہوئے اپنے آپ سے کہا کہ کیا میں اس کوّے سے بھی گیا گزرا ہوں کہ اپنے بھائی کی نعش کو دفنائے بغیر جانے لگا ہوں۔ اور پھر اُس نے اپنے بھائی کو دفنا دیا۔

تو پھر اللہ تعالیٰ نے قابیل کو سزا نہیں دی؟ خاقان نے بڑی بڑی آنکھیں کھولے دادی جان سے پوچھا؟

دادی جان: جی بیٹا ضرور سزا دی ہو گی۔ بلکہ قرآنِ کریم میں آتا ہے کہ قابیل پچھتانے والوں میں سے ہو گیا۔ ساری عمر اس دکھ نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا کہ اُس سے اتنا گندا کام ہوا۔ عمر بھر کا پچھتاوا بھی تو اپنی ذات میں ایک سزا ہے۔ انسان کا سکون چھینا جاتا ہے۔ اور سکون حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھلا کیا سکھایا ہے گڑیا؟

گڑیا: اللہ تعالیٰ کی جو نعمتیں ہمارے پاس ہیں، چاہے چھوٹی ہوں یا بڑی ہمیں ہمیشہ اُن کے لیے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔

احمد: اور اگر ہم اللہ میاں کا شکریہ ادا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہمیں وہ نعمتیں بڑھا کر بھی تو دے گا۔ ہے ناں دادی جان؟

دادی جان: جی بالکل احمد اور گڑیا۔ آپ نے بالکل ٹھیک بتایا۔ اس بارے میں نبی اکرمﷺ کی ایک بہت خوبصورت دعا بھی ہے۔ لیکن وہ دعا آپ کو پھر کبھی سکھاؤں گی۔ اس وقت بہت رات ہو گئی ہے۔ سونے کی دعا پڑھیں اور اپنے اپنے کمرے میں چل کر سونے کی تیاری کریں۔ بچے یہ سن کر اٹھے اور دادی جان سے دعائیں لے کر کمرے سے روانہ ہو گئے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button