https://youtu.be/io35joCiLT0 (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲؍مارچ ۲۰۱۸ء) اسلام میں اعلیٰ اخلاق اپنانے، اچھے اخلاق ہر موقع پر ظاہر کرنے، گھروں میں بھی اور معاشرے میں بھی اور ہر سطح پر اعلیٰ اخلاق دکھانے، اپنوں اور غیروں سے اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرنے کی جتنی تعلیم دی گئی ہے اور کسی چھوٹے سے چھوٹے پہلوکو بھی نہیں چھوڑا گیا، کسی اور مذہب میں اس طرح تفصیل سے ان کا بیان نہیں کیا گیا۔ لیکن بدقسمتی سے مسلمان ہی ہیں جو اس لحاظ سے عموماً نچلے ترین درجہ پر سمجھے جاتے ہیں۔ غیر مسلم ان پر انگلی اٹھاتے ہیں کیونکہ جو کچھ وہ کہتے ہیں ان کے عمل اس کے خلاف ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے بھی اور مختلف مواقع پر بار بار اپنی اُمّت کو اخلاق کے اعلیٰ معیاروں کو حاصل کرنے پر زور دیا ہے۔ مسلمان عمومی طور پر رسول کی محبت کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں اور سنّت پر عمل نہ ہونے کے برابر ہے۔ مسلمانوں کی اسی حالت کے پیش نظر جب یہ حالات ہونے تھے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا۔ لیکن اس طرف بھی یہ لوگ توجہ دینے سے انکاری ہیں بلکہ بعض لوگ مخالفت میں بعض جگہوں پر یا بعض ملکوں میں انتہا پر پہنچے ہوئے ہیں اور معمولی اخلاق سے ہٹ کر، بلکہ ایک اخلاق سے نیچے گرے ہوئے شخص سے بھی گھٹیا بن کر، انتہائی گندی اور غلیظ زبان حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے ماننے والوں کے لئے استعمال کرتے ہیں اور اس کا نتیجہ بھی یہ دنیا میں ہر جگہ بھگت رہے ہیں۔ جیساکہ مَیں نے کہا غیر مسلم ان پہ انگلی اٹھاتے ہیں۔ ان کی یہ حالت ہم احمدیوں کو اس طرف توجہ دلانے والی ہونی چاہئے کہ ہم اپنی تمام تر کوششوں کے ساتھ اعلیٰ اخلاق کو اپنانے کی کوشش کریں۔ تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اعلیٰ اخلاق کو اپنانے کی کوشش کریں جو اسلام کی تعلیم ہے اور جس کا اُسوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے قائم فرمایا یا کسی بھی رنگ میں ان باتوں کے بارے میں نصیحت فرمائی ہے۔ ورنہ پھر ہمیں احمدی ہونے اور کہلانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو ہم دیکھیں تو حیرت انگیز معیار نظر آتے ہیں۔ آپ کے گھریلو حالات کو دیکھیں تو کہیں آپ اپنی بیوی کے دوسری بیوی کے چھوٹے قد کا مذاق اڑانے پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار فرماتے ہیں کہ کسی کو جذباتی تکلیف نہیں دینی چاہئے۔ (سنن ابو داؤد کتاب الأدب باب فی الغیبۃ حدیث 4875) تو کہیں اس بات پر ایک بیوی کو سمجھا رہے ہیں کہ معمولی سی بھی ناپسندیدگی کا اظہار دوسری بیوی کے کسی کام پر نہیں ہونا چاہئے۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الاحکام باب الحکم فیمن کسر شیئا حدیث 2333) کہیں آپ بچوں کے اخلاق بلند کرنے کی نصیحت فرماتے ہیں کہ لوگوں کے پھلوں کے درختوں پر پتھر مار کر ان کا کچا پکا پھل جو ہے وہ ضائع نہ کرو۔ آپ نے ایک بچے کو فرمایا کہ اگر بہت بھوک لگی ہوئی ہے برداشت نہیں ہوتا تو درخت سے نیچے گری ہوئی پکی کھجوریں ہیں وہ اٹھا کر کھا لو۔ لیکن ساتھ ہی یہ نصیحت بھی فرمائی کہ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ مَیں تمہیں دعا دیتا ہوں کہ تمہیں ایسی حالت کی نوبت بھی نہ آئے کہ تمہیں نیچے سے اٹھا کے کھجوریں کھانی پڑیں۔ تم مجبور ہی نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے سامان فرماتا رہے۔ (سنن ابی داؤد کتاب الجہاد باب من قال انہ یاکل مما سقط حدیث 2622) اس دعا کے ساتھ بچے کو بھی توجہ دلا دی کہ اپنی ضروریات کے پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرو، نہ کہ غلط طریقے سے لوگوں کے مالوں کو اٹھاؤ۔ کیونکہ گو مجبوری میں بعض دفعہ اس طرح کی چیزیں جو نیچے زائد پڑی ہیں جائز بھی بن جاتی ہیں لیکن آپؐ نے فرمایا کہ اعلیٰ اخلاق اختیار کرو اور یہی نیکی ہے۔ پھر ایک بچے کوتیزی سے کھانے اور اپنا ہاتھ کھانے کی پلیٹ پر یا تھالی پر پھیرنے کی وجہ سے فرمایا کہ پہلے بسم اللہ پڑھو، اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے سامنے سے کھاؤ۔ (صحیح البخاری کتاب الاطعمۃ باب التسمیۃ علی الطعام … الخ حدیث 5376) پس بچوں کی تربیت بھی اس رنگ میں کرنی چاہئے تا کہ بڑے ہو کر ان میں اعلیٰ اخلاق پیدا ہوں۔ پھر جھوٹ ایک گناہ ہے اور سچائی ایک نیکی ہے اور خُلق ہے۔ اس کو بچپن سے ہی بچوں کے دلوں میں قائم کرنے کے لئے آپ نے اس طرح نصیحت فرمائی کہ ایک صحابی اپنے بچپن کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے اور مَیں اپنے بچپن کی وجہ سے تھوڑی دیر بعد ہی گھر میں آپ کی موجودگی میں ہی کھیلنے کے لئے باہر جانے لگا تو میری ماں نے مجھے اس بابرکت ماحول سے دُور جانے سے روکنے کے لئے کہا کہ اِدھر آؤ۔ ابھی یہیں رہو۔ مَیں تمہیں ایک چیز دوں گی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ تم اسے کچھ دینا چاہتی ہو؟ میری ماں نے کہا کہ ہاں میں اسے ایک کھجور دوں گی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ اگر تمہارا یہ ارادہ نہ ہوتا اور تم صرف بچے کو بلانے کے لئے یہ کہتی تو تم پھر جھوٹ بولنے کا گناہ کرنے والی ہوتی۔ (سنن ابی داؤد کتاب الأدب باب فی التشدید فی الکذب حدیث 4991) اب اس بچے پر بھی اس چھوٹی عمر میں سچائی کی اہمیت اور جھوٹ سے نفرت واضح ہو گئی اور بڑے ہونے تک انہوں نےیہ بات یاد رکھی اور اس کے بعد بیان فرمائی کہ میرے دل میں یہ اہمیت تھی۔ ایک مرتبہ ایک شخص کو فرمایا کہ اگر تم ساری برائیاں نہیں چھوڑ سکتے تو جھوٹ بولنا چھوڑ دو۔ ایک برائی کم از کم چھوڑو۔ (تفسیر کبیر امام رازی جلد 8 جزء 16 صفحہ 176 تفسیر سورۃ التوبۃ مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2004ء) اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا آجکل کے مسلمانوں کے یہ معیار ہیں کہ اس باریکی سے جھوٹ سے بچیں اور سچائی کو قائم کریں بلکہ ہمیں اپنے بھی جائزے لینے چاہئیں کہ کیا ہمارے یہ معیار ہیں۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گناہ کبیرہ کے بارے میں بتاتے ہوئے فرمایا کہ گناہ کبیرہ یہ ہے کہ اللہ کا شرک کرنا۔ والدین کی نافرمانی کرنا اور پھر راوی کہتے ہیں کہ آپ ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے یہ باتیں کر رہے تھے تو اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ غور سے سنو۔ جھوٹ اور جھوٹی گواہی۔ پھر آپ نے فرمایا جھوٹ اور جھوٹی گواہی۔ اور بار بار فرمایا۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ یہ کہتے چلے گئے اور ہم نے خواہش کی کہ کاش حضور صلی اللہ علیہ وسلم اب خاموش ہو جائیں۔ (صحیح البخاری کتاب الأدب باب عقوق الوالدین من الکبائر حدیث 5976) پھر ہم اس رنگ میں بھی آپ کے اخلاق کا مظاہرہ دیکھتے ہیں۔ برداشت اور صبر کا کیا معیار ہے اور کس طرح آپ نصیحت فرماتے تھے۔ ایک بدّو مسجد میں پیشاب کرنے لگا۔ لوگ اس کی طرف روکنے کے لئے دوڑے۔ آپ نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو اور جہاں پیشاب کیا ہے وہاں پانی بہا دو۔ پھر آپ نے فرمایا کہ تم لوگوں کی آسانی کے لئے پیدا کئے گئے ہو نہ کہ تنگی کے لئے۔ اس پر وہ بدّو ہمیشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت کا ذکر کیا کرتا تھا۔ (سنن الترمذی ابواب الطہارۃ باب ما جاء فی البول یصیب الارض حدیث 147) مزید پڑھیں: قولِ سدید