https://youtu.be/xPFLvXv6j6g کہتے ہیں جس نے عشق مجازی کا ذائقہ نہیں چکھا وہ عشق حقیقی کی لذت سے کیسے آشنا ہو سکتا ہے؟ اس مقام پہ پہنچ کر ہی اپنی نماز کے اس روحانی سفر کا آغاز کرتا ہے۔ حقیقت میں نماز کی عادت ہونے کے باوجود نماز کی لذت تب ہی پیدا ہوتی ہے جب انسان عشق حقیقی کی منازل طے کرنے لگتا ہے وہ لوگ جو نماز کے اصل ماخذ کو نہیں سمجھتے ان کے لیے تو قیامِ نماز بظاہر پانچ دس منٹ کی اٹھک بیٹھک ہے۔ اور طوطے کی طرح رٹی ہوئی عربی میں چند سورتیں اور تیزی سے دعائیں پڑھ لینے کا نام نماز ہے۔میں نے اکثرچار چار رکعات نماز بعض اماموں کو ایک ڈیڑھ منٹ میں بھی پڑھاتے دیکھا ہے۔ نماز تو چوبیس گھنٹوں میں پانچ دفعہ اپنے محبوب کی طرف سفر کا نام ہے۔ واسکوڈے گاما (Vasco da Gama)یا مارکوپولو کے سفر نامے پڑھ لیں، ان کے اتنے طویل اور پُر خطر سفروں کا مقصد کیا ہوتا تھا۔ ایک تو سیر عالم کا جنون اور دوسرا دولت کا حصول۔ اسی طرح سب مسلمان والدین اپنے بچوں کو ایسے ہی ایک روحانی سفر کے لیے تیار کرتے ہیں۔ بچہ ابھی بولنا شروع کرتا ہے تو اس کو چھوٹی چھوٹی دعائیں یاد کراتے ہیں اور پھر قرآن کریم عربی میں پڑھنے کا انتظام کرتے ہیں پوری نماز یاد کراتے ہیں اس طرح ہر مسلمان بچہ اپنی نشوونما کے مراحل طے کرتا ہے اور والدین اور مکتب کی تربیت سے اس سفر کے لیے تیار ہوتا ہے۔ جیسے جیسے جسمانی اور ذہنی بلوغت سے گذرتا ہے تو جہاں وہ اردگرد کےماحول اور اشیاء کو تجسس کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جب وہ اپنے ادراک اور آگہی کے دریچوں سے معطر ہواؤں کے جھونکے محسوس کرتا ہے اور نئی نئی روشنیاں اس کے وجود کو روشن تر کرنے لگتی ہیں۔ یہیں سے عشق کے ہلکے ہلکے ہلارے چلنے لگتے ہیں اور اپنے وجود کی کھوج میں اپنے گردو پیش سے برسرِپیکار ہوتا ہے۔ بچپن سے جوانی کا دور جسمانی اور روحانی تغیر کا دور ہوتا ہے۔ یہاں ہی انسان عشق مجازی سے ہمکنار ہو تا ہے۔ اس کی کشش اس کو ایک نئے محسوسات کی دنیا سے آشکار کرتی ہے اپنی تمام خواہشات کے لیے وہ آہستہ آہستہ اپنے روحانی سفر پر بھی چل نکلتا ہے اور عشق حقیقی کی لو بھی لگتی ہے۔ کہتے ہیں جس نے عشق مجازی کا ذائقہ نہیں چکھا وہ عشق حقیقی کی لذت سے کیسے آشنا ہوسکتا ہے؟ اس مقام پہ پہنچ کر ہی اپنی نماز کے اس روحانی سفر کا آغاز کرتا ہے۔ حقیقت میں نماز کی عادت ہونے کے باوجود نماز کی لذت تب ہی پیدا ہوتی ہے جب انسان عشق حقیقی کی منازل طے کرنے لگتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ نماز اس وقت حقیقی نماز کہلاتی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ سے سچا اور پاک تعلق ہو اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں اس حد تک فنا ہو اور یہاں تک دین کو دنیا پر مقدم کر لے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں جان تک دے دینے اور مرنے کے لیے تیار ہو جائے۔ جب یہ حالت انسان میں پیدا ہو جائے اس وقت کہا جائے گا کہ اس کی نماز نماز ہے۔(ملفوظات جلد ۵ صفحہ ۳۶۵، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) اسلام نے پانچ وقت نماز ہر مسلمان پر فرض کی ہے۔ بعض اس میں سستی بھی کر لیتے ہیں اور بعض پنجوقتہ اس کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ پانچ وقت کی نماز اسلام کو دنیا کے دوسرے تمام مذاہب سے ممیز کرتی ہے۔ ہر نماز میں وقت کے لحاظ سے اس کی رکعات کا تعین، اس کی ادائیگی میں آسانیاں اور کسی بھی مذہب میں نہیں۔ ہر نماز کی ادائیگی سے قبل جسمانی اور ذہنی پاکیزگی کا اہتمام بھی کسی دوسرے مذہب میں نہیں ہے۔ اس لیے نماز کواس کی قائم کردہ شرائط کے مطابق قائم رکھنے والے ہمیشہ جسمانی اور ذہنی لحاظ سے صاف ستھرے ہوں گے۔ اب آئیے نماز کے روحانی سفر پر نکلیں۔ سفر پر نکلنے سے پہلے اس کی تیاری کی جاتی ہے۔ جیسے ہم اور آپ کسی ٹرپ پر جاتے ہیں تو روانگی سے قبل جا ئزہ لیتے ہیں کہ ہمارے پاس وہ سب کچھ ہے جس کی ہمیں دورانِ سفر ضرورت پڑے گی۔ تو ہم اپنے محبوب سے ملاقات کا سفر شروع کر نے سے پیشتر اس بات کا اہتمام کرتے ہیں کہ ہمارا جسم اور ہمارا لباس ہر قسم کی آلائش سے پاک ہے۔ نماز سے پہلے صاف لباس اور جسم پاک صاف ہونا ضروری ہے۔ نماز کی تکمیل وضو کے بغیر نہیں ہوتی۔ اپنے ہاتھ، منہ، ناک، بازو، سر، پاؤں دھونے ضروری ہیں اگر یہ ممکن نہ ہو تو تیمم بھی ہو سکتا ہے۔ جسمانی سفر تو انسان کی صحت اور جسم کے ہر عضو کو تقویت بخشتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جسم کو تنومند رکھنے کی اس سے بڑی اکسیر دنیا میں ہے ہی کوئی نہیں۔ انسان ایک دن کے مختلف اوقات میں کم از کم چونتیس بار کھڑا ہوتا ہے۔ جھکتا ہے اور بیٹھتا ہے اور اڑسٹھ بار سجدے میں جاتا ہے۔ آپ جم میں جا کر یہی ورزشیں نہیں کرتے کیا۔ اور یہ ورزشیں اسلام نے ہم پر فرض کر دی ہیں۔ میں نے نوے نوے سال کے بزرگوں کو اسی طرح نماز پڑھتے دیکھا ہے اور ان کے اصلی دانت اور بینائی ایسی کہ عینک کی ضرورت ہی نہیں۔ اور اس کے بعد ہم اپنے آپ کو اپنے محبوب کے سامنے حاضر کر دیتے ہیں اور زیر لب اس کا اقرار بھی کرتے جاتے ہیں کہ اے میرے محبوب! میں ایک دن تجھے دیکھنے کے لیے ایک دن تجھ سے ملنے کے لیے اپنے سفر کا آغاز کر رہا ہوں جب کہ تُو مجھ کو دیکھ رہا ہے۔ میں بلا شبہ اپنا منہ پوری عقیدت سے تیری طرف کیے ہوئے ہوں کہ تو مجھ کو دیکھ لے کہ میں اپنا آپ لےکر تیرے حضور حاضر ہوں تو ہی تو ہے جس نے اس زمین اور آسمانوں کو تخلیق کیا۔ میں کلیۃً تیرے حضور آ پہنچا ہوں۔ تُو ہی صرف تو ہی میرا معبود ہے۔ میرے محبوب تیرے سوا کوئی نہیں جس مقام پہ تُو ہے وہاں اَور کوئی نہیں میرے دل میں۔ میرے عشق میں ذرا بھر بھی ملونی نہیں۔ اس کے ساتھ ہی سفر کا آغاز ہوتا ہے۔ اب میرے اور میرے مالک کے درمیان اور کوئی نہیں۔ میرے محبوب تُو اللہ ہے اور بڑائی میں تیرا ہمسر کوئی ہے ہی نہیں۔ اتنا بڑا ہے تو کہ میرے ذہن کی کم مائیگی کسی بھی صورت اس کا اندازہ کر ہی نہیں سکتی۔ تُو بہت بڑا ہے اور اس کے ساتھ ہی میں اپنے ہی گناہوں کا بوجھ اٹھائے اپنے وجود کے گھر سے نکل پڑتا ہوں۔ نیا راستہ انجان راستہ اور میں۔ میں پھر پکارتا ہوں یقین دلاتا ہوں اپنے محبوب کوکہ تو مکمل ہے۔ تو ہی ہے میرے چاروں طرف اور میں ہی نہیں تیرا عاشق تو کُل جہان ہے۔ انسان ہی نہیں بلبل پپیہے غرض ہر چرند و پرند، کوہسار اور میدان بھی تیری ہی حمد میں مصروف ہوتے ہیں۔ میرے محبوب تیرے مقام پر اور کوئی نہیں میں اقرار کرتا ہوں۔ سارے بت پاش پاش کر آیا ہوں۔ کوئی دیوی دیوتا نہیں تو ہی ہے بس تو ہی۔ یہ کہتے ہوئے ایک دم نظر گناہوں پر اکسانے والے ایک عجیب الخلقت وجود پر پڑتی ہے تو پکارتا ہوں کہ میرے آقا میرے محبوب میں تو صرف تیرا ہوں بچائیو مجھے اس سے۔ اپنی پناہوں میں لے لے۔ اپنے حصار میں لے لے کہ یہ بیہودہ مخلوق میری توجہ نہ ہٹائے۔ یہ وہی ہے میرے آقا جس نے تیرے ہی تخلیق کیے ہوئے پہلے انسان کو کہا تھا کہ بچنا اس سے۔ اس کی باتوں میں آگیا تھا اور اس نے وہ پھل کھا لیا جس سے تو نے اس کو منع کیا تھا وہی ہے جو کھانس رہا ہے میری توجہ ہٹا رہا ہے اپنی پناہ میں رکھنا اور تیرا ہی نام ہے جس سمت میں دیکھتا ہوں میں آج یہ سفر بھی تیرے نام سے کر رہاہوں۔ میں اقرار کرتا ہوں کہ تو ہی نے تو سب کچھ دیا ہے۔ میری حیثیت، میری صحت میری دولت میرے پاس جو کچھ بھی ہے۔ سب تو نے دیا ہے۔ میں کیا کیا گند نہیں کرتا میں کیا کیا غلط کام نہیں کرتا تو مجھے دیکھ رہا ہوتا ہے اور تو معاف کر دیتا ہے تو کیسا محبوب ہے میرا۔ کیسا دوست ہے میرا۔تو ناراض بھی ہوتا ہے اور پھر میں تیری طرف لوٹتا ہوں تو تُو ہنس کے میری بات سن لیتا ہے اپنے رومال سے میری تاسف کے آنسوؤں سے بھری آنکھیں صاف کر دیتا ہے۔ میں ہاتھ باندھے اپنے محبوب کے سامنے ایسے کھڑا ہوں کہ اردگرد کی کچھ خبر نہیں۔ میں پھر پکارتا ہوں کہ ساری تعریفیں تجھ پر ختم ہوتی ہیں تو اے میرے محبوب! ماں کی طرح پالتا ہے۔ میں بیٹھ نہیں سکتا تھا تو نے مجھے بیٹھنا سکھایا میں روتا تھا تو تُو نے میری ماں کے سینوں میں دودھ بھر دیا۔ تو نے مجھے چلنا سکھایا دوڑنا سکھایا تونے مجھے پہاڑوں کو سر کرنا سکھایا۔ تو ہی میرا رب ہے تو ہی ہے جس سے عشق ہو سکتا ہے۔ میں کچھ مانگتا بھی نہیں اور تو دے دیتا ہے تو آخر ہے کیا؟میں بھلا تجھ پر کیوں نہ مر مٹوں میں تیرے سوا کسی اور سے کیونکر عشق کروں تو گھر بھر دیتا ہے۔ اتنا دیتا ہے۔ ہاں ہاں تو ہی تو ہے جس سے مجھے ملنا ہے ایک دن اور وہ دن بھی تو جانتا ہے میرے محبوب میں سفر پہ ہوں اس دن تک میں سفر پہ ہوں جو دن تیری ملاقات کا دن ہے۔ وہ دن بھی تیرے اختیار میں ہے۔ اے میرے پیارے! میں اور وہ سب تیری محبت میں پاگل، یہ ہی کہتے ہیں کہ تیرے آگے ہی جھکتے ہیں صرف تیرے آگے۔ تو ہی ہمارا دیوتا ہے تو ہی ہے جس کے قدموں میں یہ سر ہیں۔ تو ہی میری مدد کر سکتا ہے ناممکن کو ممکن میں تو ہی بدل سکتا ہے۔ میرے عشق کی حرارت اور بڑھا دے کہ اس میں کسی پروانے کی طرح جل کے بھسم ہو جاؤں۔ تو، اے طاقتوں کے مظہر تو اپنی طرف جھکنے والے بےحیثیت لوگوں کی مدد فرما۔ میرا سفر اس راستے پر رکھنا جو ٹیڑھا میڑھا نہ ہو سیدھا ہو جو تیرے قدموں پر پہنچتا ہو وہ ہی تو میری منزل ہے جب کہیں دوراہے آتے ہیں تو بھٹکنے لگتا ہوں اپنے عشق کی وہ حرارت رکھنا کہ تیرے ہی راستے پر چلنے کی طاقت پیدا ہوتی رہے۔ مجھے پتہ ہے کہ وہ راستہ ہی تو ہے جس پر چل کر کئی مفلس نواب ہو گئے، کئی چور ولی بن گئے بس اسی رستے پر رکھنا میرے محبوب جو تیرے عشق کا راستہ ہے۔ تو جتنا پیار کرتا ہے اتنا ہی غصیلہ بھی ہے غضبناک بھی ہے میرے محبوب اپنی محبت میں دیوانہ رکھنا کہ تیری ناراضگی سے بچا رہوں اور تیرے ہی راستے پر سیدھا سیدھا چلتا رہوں۔ میرے آقا تیرا کلام ہی تو میرے لیے روشنی ہے۔ تیرا کلام ہی میں پڑھتا ہوں۔ تیری تعریف کے سوا مجھے کچھ پتہ نہیں تو ہی ہے جو میرا محبوب ہے تیرا ہر نام مجھے تیرے قریب کر دیتا ہے۔ تو ہی میرا آقا ہے تو ہی میرا اللہ ہے۔ تو ہر لحاظ سے بھرپور ہے مکمل ہے تو نور ہے جو اپنی لو سےمیرے دل کو منور رکھتا ہے تو اس زمین اور آسمانوں کی تخلیق سے بھی پہلے سے ہے۔ تو اتنا مکمل ہے کہ نہ تو تجھے کسی نے پیدا کیا اور نہ ہی تیری کوئی اولاد ہے۔ اور نہ ہی تیرے برابر کوئی ہے۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ تومجھے دیکھ رہا ہے۔تو میرے سامنے ہے بالکل سامنے۔ میں لقاء کے اس مقام پہ آن پہنچا ہوں جہاں وصل کا مقام ہوتا ہے۔ میں تیرے نور کی ایک جھلک بھی سہنے کے قابل نہیں۔ موسیٰ نبی (علیہ السلام) تو ایک جھلک نہ سہ سکے طور پہاڑ پگھل گیا اور میں تو ایک گنہگار اور انسان ایک بےمایہ ذرہ ہوں میں تیری جھلک کو سہ نہیں سکتا میں تیرے آگے جھکا، اے شہنشاہوں کے شہنشاہ! تیری پاکیزگی کی قسم کھاکے کہتا ہوں تو عظمتوں کی معراج ہے۔ اس ساری کائنات میں عظیم تر ہے اور میں اپنے سر کو جھکائے دو زانو دیوانہ وار اس ارض و سماء کے بادشاہ کی طاقتوں کا اقرار کرتا ہوں اور پھر سیدھا کھڑا ہوتے ہوئے میں پکارتا ہوں کہ اے میرے اللہ! اے میرے مالک! تُو ان کی سنتا ہے جو تیری حمد و ثنا کرتے ہیں اور میں بھی تیری حمدوثنا میں مصروف ہوں۔ میرے لبوں پہ اپنے محبوب کی تمام صفتوں کے ترانے ہیں تیری عظمتوں کا اقرار ہے۔ اور میں سیدھا کھڑا ہو کر ہاتھ کھلے چھوڑ کر یہ ہی اقرار کرتا ہوں کہ میں بے طاقت ہوں۔ اے میرے محبوب! تیرے سامنے تہی دست ہوں۔ تو ہی تعریف کے لائق ہے۔ میرے وجود کا ذرہ ذرہ تیری حمد و ثنا کرتا ہے۔ میری روح تیری تعریف اور تیرے احترام میں دیوانہ وار جھومتی ہے۔ تیری پاکیزگی اس چشمے کے بہتے دھارے سے کہیں زیادہ پاک، صاف اور شفاف ہے جو دور پہاڑوں کی وادیوں میں بہتا ہے۔ تو ہی، اے میرے محبوب!تمام برکتوں کا منبع ہے۔ میں تیری عظمتوں کے سامنے بے حیثیت کھڑا ہوں۔ اے میرے رب !تو ہی اعلیٰ و ارفع ہے تو سب سے بڑا اور عظیم ہے اور پھر میں تیرے قدموں میں جھک گیا ہوں۔ تو تو میری ماں جس نے مجھے جنا تھا اس سے بھی زیادہ محترم او ر عزت کے لائق ہے۔ میرا سرخاک کو چھو رہا ہے میرا لا یعنی وجود اقرار کر رہا ہے کہ میرا مقام یہی خاک ہے اور میں اپنے محبوب کی شان کا اقرار کرتا ہوں۔ میں کمزوریوں، نقائص اور برائیوں کا مجموعہ اور تو ہر نقص سے پاک، ایک مکمل ہستی، ایک نور کا منبع۔ میں اس اقرار کے بعد اٹھتا ہوں بیٹھ جاتا ہوں کہ میرا اقرار میری پکار میری صدا اس بادشاہوں کے بادشاہ کے در پہ لگی زنجیر کو جنبش دینے میں ضرور کامیاب ہو گئی ہو گی او ر بیٹھتے ہی ایک ہی التجا کرتا ہوں اے میرے اللہ! اے میرے مالک! اے میرے محبوب! اپنی نظرِ کرم کرنا مجھے معاف کر دینا میرے سارے گناہ بخش دینا۔ میں نے اپنی جان پر بےحساب ظلم کیے ان کو صرفِ نظر کرنا۔ اے قدرت رکھنے والے مجھ پر رحم کرنا۔ مجھے چھوڑنا نہ مجھے ٹیڑھے میڑھے راستوں کے گورکھ دھندوں سے بچانا۔ مجھے اس پگڈنڈی پر چلانا جو سیدھی تیرے گھر تک لے جائے۔ مجھے اس سفر میں سرابوں میں بھٹکنے سے بچانا اور اس راہِ صداقت میں میرے ہر نقصان کی تلافی بھی کرنا۔ مجھے رزق دینا مجھے بھوک کی شدتوں سے بچانا۔ تُو تو اس ماں سے زیادہ پیار کرنے والا ہے جس کے بچے کے ذرا سا رونے پر اس کے پستان دودھ سے بھر جاتے ہیں۔ مجھ خاک بسر کو تو ہی ہے جو عزت دینے والا ہے کہ تو ہی تو ہے جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت و رسوائی دیتا ہے۔ تیرے قدموں میں جھکا اپنے محبوب سے اپنی محبت کا واسطہ دیتا ہوں کہ تو مجھے عزت دینا۔ اور یہ اقرار کرتے ہوئے کہ میرا رب تمام عظمتوں کا مالک ہے دوبارہ اپنا سر اس کے حضور اس کے قدموں میں رکھ دیتا ہوں۔ یہ میری روح کے سفر کی ایک منزل ہے اور پھر اس کے بعد ایک اور منزل اور پھر ایک اور منزل اور اس کے بعد ایک اور…۔اس طرح سارے دن میں جب انسان کم و بیش چونتیس منزلیں طے کرتا ہے تو پھر عشق کی تشنگی نہیں رہتی۔ اپنے محبوب سے وصل کےلیے ایک ایسا جہاد اس کی روح کو پرسکون کر دیتا ہے۔ آئیے ہم اپنے اس عشقِ حقیقی کی تمام منزلوں کو طے کرتے ہوئے اپنے روحانی سفر کو اپنی عادتِ ثانیہ بنا لیں۔ (عبد الحئی بشارت۔ کینیڈا) مزید پڑھیں: قرآنِ کریم اور رسول کریمﷺ – ایک سیپ سے نکلے دو موتی