https://youtu.be/kaAWnVDZwvc حقیقت میں جس محترم خاتون کا اس نظم میں ذکر کیا ہے وہ کوئی معمولی عورت نہیں بلکہ اس معزز خاتون کی والدہ ماجدہ ہیں جس کواللہ تعالیٰ نے کُل انبیاء علیہم السلام کے موعود اور بروز مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زوجیت کے لیے برگزیدہ کیااور اسے ام المومنین ٹھہرایا (ایڈیٹر الحکم) حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے متبعین احمدی شعراء کی صف میں ایک نیک اور پارسا وجود حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ ہیں۔جنہیں نہ صرف حضرت اقدسؑ کے غلامان میں شامل ہونے کی سعادت حاصل تھی بلکہ آپؓ کے حصہ میں امام الزمان علیہ السلام کے خسر ہونے کا فخر بھی آیا ۔حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ۱۸۴۵ء کے قریب پیدا ہوئے۔ آپؓ دلّی کے معروف شاعر اور صوفیانہ شاعری کے امام کہلانے والے بزرگ خواجہ میر دردؒ کی اولادمیں سےتھے۔یعنی یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ وصفِ شعر گوئی آپ کو وراثت اورخون میں ملا۔ ۱۸۹۲ء میں قادیان منتقل ہونے کے بعد حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ نے مکمل طور پر خود کو سلسلہ کی خدمت میں وقف کردیا تھا۔آپؓ ایک عمدہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بلند پایہ نثر نگار بھی تھے۔نظم اور نثر ہر دو اصناف میں خداتعالیٰ کی رضا کو مقدم رکھا۔بیعت سے قبل انجمن حمایتِ اسلام کا جب نیا نیا دور شروع ہوا تو آپؓ نے اس کے سالانہ جلسہ میں ایک نظم پڑھی جس کا یہ شعر نہایت مقبول ہوا اور اس شعر کے ذریعہ مذکورہ انجمن کو خوب آمدنی ہوئی پھولوں کی گر طلب ہے تو پانی چمن کو دےجنّت کی گر طلب ہے تو زَر انجمن کودے غرباءکی امداد کے لیے بھی آپؓ نے نظمیں کہیں۔ آپؓ نے متنوع موضوعات کو اپنی شاعر ی کاموضوع بنایا اور طویل نظمیں لکھیںجن میں اسلام کا درد اور مخلوقِ خدا کی ہمدردی کا رنگ عیاں ہوتاہے۔آپؓ نے سلسلہ کے مصارف اورضروریات کی خاطر چندہ اکٹھا کرنے کی غرض سے ہندوستان کے دُور دراز علاقوں کا سفر اختیار کیا اور اس سفر کے بارہ میں ایک لمبی نظم بعنوان’’سفرنامہ ناصر‘‘ کہی جو ازاں بعد کتابی صورت میںبھی شائع ہوئی۔گو کہ باقاعدہ طور پر آپؓ کا مجموعہ کلام اشاعت پذیر نہ ہو سکا تاہم سلسلے کے لٹریچر میں آپؓ کاکثرت سے منظوم کلام ملتا ہے جس کوپڑھنے سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ آپؓ کی شاعری مقصدیت کی جیتی جاگتی مثال ہے۔آپؓ کے اشعار میں سلاست اور سادگی پائی جاتی ہے۔دلّی سے تعلق کے باعث نظم و نثر میں اہلِ دلّی کی ٹھیٹھ زبان اور ٹکسالی محاورے کا گہرا اثر تھا۔جیسا کہ بالائی سطور میں ذکر ہواکہ آپؓ نے میدانِ شعر و سخن میں متعدد موضوعات پرفکروخیال کی اسپ سواری کی۔ان موضوعات میں ایک منفرد اور نرالا موضوع اپنی شریکِ حیات کے متعلق ان کی زندگی میں ایک طویل نظم ہے۔ اگرچہ اردو ادب کی تاریخ میں شاعری کے خاصے بڑے حصے کا موضوع صنف ِ نازک ہی رہا ہے لیکن بیوی کی توصیف و تعریف میں خال خال بلکہ نہ ہونے کے برابر شعراء نے خامہ فرسائی کی ہے۔ طرفہ یہ کہ اگر شعراء نے اس موضوع کو اپنایا بھی تو محض طنز و مزاح کے طور پر۔ بدقسمتی سے سنجیدہ شاعری میں بیوی کو جگہ اس کی وفات کے بعد شخصی مرثیہ کے طور پرہی مل سکی ہے۔لیکن حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ نے اس حوالے سے شاعری کو ایک نئی جہت دی کہ اپنی شریکِ حیات کے بارے میں حقیقی توصیف سے مزین ایک منفرد نظم تحریر فرمائی۔حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کی زوجہ حضرت سیّدہ بیگم صاحبہؓ دلّی کی رہنے والی تھیں۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی مبشر اولاد کی نانی ہونے کی وجہ سے حضرت سیّدہ بیگم صاحبہ ’’نانی امّاں‘‘ کے لقب سے مشہور تھیں۔حضرت اماں جانؓ کی والدہ ہونے کی وجہ سے حضرت مسیح موعودؑ بھی آپؓ کا بے حد احترام فرمایا کرتے تھے۔آپؓ اپنے خاوند حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کی خدمتِ خلق اور فلاح و بہبود کے کاموں میں ممد اور معاون بنی رہیں۔ ایک مرتبہ حضرت میر محمد اسحق صاحبؓ بہت بیمار ہوگئے۔ حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ اُس وقت محلہ دارالضعفاء میں غرباء کے لیے مکانات تعمیر کروارہے تھے۔ حضرت نانی جان نے اُنہیں پیغام بھیجا کہ بیٹا بیمار ہے اُس کے لیے دعا کریں۔ آپؓ نے جواباً فرمایا کہ غرباء کے مکانات کی تعمیر کے لیے مجھے روپیہ کی اشد ضرورت ہے اگر بچے کی صحت کے لیے دعا کروانی ہے تو اپنے سونے کے کڑے بھیج دو۔ یہ پیغام ملتے ہی حضرت نانی جان نے اپنے کڑے اتار کر آپؓ کو بھجوادیئے۔(حیاتِ نورصفحہ۶۶۷،۶۶۶از شیخ عبدالقادر صاحب سابق سوداگر مل)اسی طرح حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ والدہ صاحبہ کی شادی بارہ تیرہ سال کی عمر میں ہوگئی تھی اور اس جوڑے میں دلی تعلقِ محبت تھا۔ ابتدائے عمر میں جب حضرت میر صاحبؓ ملازم نہ تھے تو والدہ صاحبہ کا ہزارہا روپیہ کا زیور سب گھر کے خرچ میں کام آیا۔ ۱۹۱۲ء میں والدہ صاحبہ نے کئی دفعہ سونے کے کڑے پہننے کی خواہش کا اظہار کیا۔ مجھے کہیں سے معقول رقم دستیاب ہوئی تو مَیں نے اُن کی خواہش پوری کردی۔ لیکن اگلے سال مَیں قادیان گیا تو ہاتھ خالی تھے۔ پوچھا کڑے کہاں گئے تو فرمایا کہ تمہارے ابّا کے حج پر خرچ ہوگئے۔(الفضل ۲۲ ؍دسمبر۱۹۳۲ءصفحہ۹)حضرت نانی اماں کے درج بالا مختصر تعارف کے بعد اب وہ نظم پیش ہے جو حضرت میر صاحبؓ نے اپنی اہلیہ کے بارہ میں کہی۔یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ حضرت نانی جانؓ کی سیرت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نظم شعری مبالغہ کی آمیزش سے بکلی مستثنیٰ ہے کیونکہ حضرت میر صاحبؓ نے جن اوصاف کا ذکر کیا ہے موصوفہ بخوبی ان کی حامل تھیں۔یہ شاہکار، اچھوتا اور نایاب کلام زیرِعنوان ’’حرمِ محترم‘‘ ۲۴؍فروری ۱۹۰۶ء کو اخبار الحکم میں شائع ہوا۔اس نظم کے متعلق مدیر الحکم حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ نے بوقتِ اشاعت ایک نوٹ بھی تحریر فرمایا جو لائقِ مطالعہ ہے۔حضرت عرفانیؓ نے تحریر فرمایا کہ ’’ذیل میں ایک عجیب نظم درج کی جاتی ہےجومیرے واجب الاحترام مخدوم میرناصر نواب صاحب سلمہ اللہ الوہاب نے اپنے دلی جوش کے اظہار سے لکھی ہے۔اگرچہ اس نظم کا تعلق ایک واجب العزّت عصمت مآب خاتون کی ذاتِ خاص تک ہے لیکن اخبار کے کالموں میں اس نظم کے آنے کی غرض کیا ہو سکتی ہے۔اس کا اظہار میرا فرض ہے۔میں اس نظم کو محض اس غرض سے شائع کرتا ہوں تا ہماری مستورات کو ایک اعلیٰ نمونہ ہمارے خاوندوں کی فرمانبرداری کا معلوم ہو اور وہ اس پاک نمونہ سے اپنے شوہروں کے لیے اطاعت ووفاداری کا خاص سبق سیکھیں۔حقیقت میں جس محترم خاتون کا اس نظم میں ذکر کیا ہے وہ کوئی معمولی عورت نہیں بلکہ اس معزز خاتون کی والدہ ماجدہ ہیں جس کواللہ تعالیٰ نے کُل انبیاء علیہم السلام کے موعود اور بروز مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زوجیت کے لیے برگزیدہ کیااور اسے ام المومنین ٹھہرایا۔اس حیثیت سے ام المومنین کی واجب الاحترم والدہ ماجدہ ایک عالم کی ماں ٹھہرتی ہیں۔ اس پاک نمونہ سے یہی معلوم ہو گا کہ ایسی محترم اور پاکباز خاتون اور اس کے واجب العزّت شوہر کے کیسے نیک اور پاک ارادے اپنی اولاد کے متعلق ہوں گے۔یہ ذکر کرنابھی ضروری ہے کہ اس خاندان کو اللہ تعالیٰ نے دوہرا شرف عطا فرمایا ہے۔پہلے آلِ رسولﷺ ہونے کا شرف تھا ہی۔اس پر بروزِ محمدﷺ کے خاندان کے ساتھ تعلق ہونے کی وجہ سے دوسرا فضل کیا۔ ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ وَاللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِـيْمِ۔خدا کرے کہ ہمارے گھروں میں ایسے ہی پاک نمونے ہوں۔آمین۔اگر عورتوں میں اس قسم کی وفاداری،محبت اور اطاعت اپنے خاوند کے لیے ہو تو پھرکیا وجہ ہے کہ معاشرت اعلیٰ درجہ کی نہ ہو۔‘‘۵۷؍ اشعار پر مشتمل اس نظم کے ابتدائی ۳۶؍اشعار میں حضرت میر صاحبؓ نے اپنی زوجہ کے خصائل و عادات اور وفا و جاںنثاری کا ذکر کیا ہے۔جبکہ آخری ۲۱؍ اشعار میں اسلام کی شان و شوکت ، غلبہ اور دنیا میں نیکی اور امن کے فروغ کے متعلق دعائیں کی ہیں۔مذکورہ نظم ذیل میں درج کی جاتی ہے۔ اے میرے دل کی راحت میں ہوں ترا فدائیتکلیف مَیں نے ہرگز تجھ سے کبھی نہ پائیصورت سے تیری بڑھ کر سیرت میں دِلربائیمیں ہوں شکستہ خاطر اور تُو ہے مومیائیمجھ کو نہ چَین تجھ بن بے میرے سکھ نہ تجھ کومَیں تیرے غم کی دارو تُو میری ہے دوائیشرمندہ ہوں مَیں تجھ سے، مجھ سے نہیں خجل تُومجھ میں رہی کدورت تجھ میں رہی صفائیتُونے کرم کیا ہے میرے ستم کے بدلےدیکھی نہ مَیں نے تجھ سے اِک ذرّہ بے وفائیتُو لعلِ بےبہا ہے، انمول ہے تُو موتیہے نقش میرے دل پر بس تیری پارسائیمَیں نے قدر نہ تیری پہچانی ایک ذرّہہیرے کو مَیں نے سمجھا افسوس ایک پائیخاطر سے تُونے میری کنبے کو اپنے چھوڑاجنگل میں ساتھ میرے اپنے وطن سے آئیتھی ناز کی پلی تُو اور مَیں غریب گھر کاتُو نے ہر اک مصیبت گھر میں مرے اٹھائیمحنت کا تیری ثمرہ اللہ تجھ کو بخشےچولہے میں سر کھپایا، بچوں پہ جاں کھپائیدکھ سکھ میں ساتھ میرا تُو نے کبھی نہ چھوڑاخود ہو گئی مقابل جب غم کی فوج آئیدنیا کے رنج و غم کو ہنس ہنس کے تُو نے کاٹااللہ رے تیری ہمّت بل بے تری سمائیبچوں کو تُو سلاتی اور آپ جاگتی تھیبچوں کے پالنے میں لاکھوں اٹھائے صدمےجب تک یہ سلسلہ تھا راحت نہ تو نے پائیہوتا تھا ایک پیدا اور دوسرا گزرتا٭تھی صابرہ تُو ایسی ہرگز نہ بلبلائیصدمے کو اپنے دل کے لاتی نہ تُو زباں پرجُہّال کی طرح سے دیتی نہ تُو دُہائیتنگی میں عمر کاٹی، بچوں کو خوب پالاشکوہ نہ سختیوں کا لب پر کبھی تُو لائیجو مَیں نے تجھ کو بخشا تُو نے لیا خوشی سےمانگی نہ تُو نے مجھ سے ساری کبھی کمائیدھوکہ دیا نہ ہرگز، بولی نہ جھوٹ گاہےمجھ سے نہ بات کوئی تُو نے کبھی چھپائیتھی جتنی تجھ میں طاقت کی تُو نے میری خدمتخود کھایا رُوکھا سوکھا نعمت مجھے کھلائیعیبوں کو تُو نے میرے اغیار سے چھپایاتھا تیرے بس میں جتنا عزّت مری بنائیصدمے سے میرے صدمہ تجھ کو ہوا ہمیشہجب شاد مجھ کو پایا تُو نے خوشی منائیتھی میرے دشمنوں کی تُو جان و دل سے دشمناور میرے دوستوں سے تیری رہی صفائیجو کچھ تھا میرا مذہب، تھا وہ ہی تیرا مشربتھی تیرے دل میں الفت ایسی مری سمائیمجھ پر کیا تصدّق جو تیرے پاس زر تھایاں تک کہ پاس تیرے باقی رہی نہ پائیکرتا ہوں شکر حق کا جس نے تجھے ملایااور میری تیری قسمت آپس میں یوں ملائیہو تجھ پہ حق کی رحمت، تجھ کو عطا ہو جنّتاور میری تیری اِک دم ہووے نہ واں جدائیآرام تجھ کو دیوے فضل و کرم سے مولیٰہر رنج و غم سے بخشے مالک تجھے رہائیہر گز نہ تُو دکھی ہو، ہر وقت تُو سکھی ہوبچوں کا عیش دیکھے تُو اور تیری جائیفضلِ خدا کی بارش دن رات تجھ پہ برسےپانی میں مغفرت کے ہر دم رہے نہائیدولت ہو تجھ سے ہمدم، عزّت ہو ساتھ تیرےاولاد میں ہو برکت، کہلائے سب کی مائیتیرا نہیں ہے ثانی لاکھوں کی ہے تُو نانیعیسیٰ سے کر کے رشتہ دولت یہ تُو نے پائیاسلام پر جئیں ہم، ایمان سے مریں ہمہردَم خدا کے در کی حاصل ہو جَبّہ سائیجب وقتِ موت آئے بے خوف ہم سدھاریںدل پر نہ ہو ہمارے اندوہ ایک رائیمہدیؑ کے مقبرہ میں ہم پاس پاس سوئیںدنیا کی کشمکش سے ہم کو ملے رہائیاک اور بھی دعا ہے اب میرے دل میں آئیہے جوش کا یہ عالم جاتی نہیں چھپائیہو قوم کو ہدایت، اللہ کی آئے نصرتآقا کرے ہمارا دنیا کی رہنمائیمثلِ مدینہ ہووے اسلام کا یہ مرکزقصبے میں قادیاں کے آئے نظر خدائیمہدیؑ کو لوگ مانیں، عیسیٰ کے معتقد ہوںپھر جائے چار جانب اسلام کی دُہائیدنیا سے دُور ہووے ہر طَور کی کدورتجس سمت آنکھ اٹھے آئے نظر خدائیاسلام میں ہو داخل بس فوج فوج دنیااعداء گلے سے مل کر بن جائیں بھائی بھائیآنکھوں سے ہم کو اپنی وہ دن خدا دکھائےجب قوم سے ہماری، کُل دُور ہو برائیآنکھیں کھلیں ہماری، روشن دماغ ہوویںہووے شعار اپنا تقویٰ و پارسائیدنیا سے دُور ہوویں جتنے ہیں بُت جہاں میںاللہ کی ہو عبادت جس کی ہے کُل خدائیقرآن کی حکومت دنیا میں ہووے قائمہو کفر پارہ پارہ اور شرک رائی کائیروشن ہو دینِ احمدؐ فضلِ خدا سے ہر دمجو ہیں جنم کے اندھے ان کو بھی دے دِکھائیدینِ محمدیؐ کا اقبال خوب چمکےباطل پرست جو ہیں اُن کی ہو جگ ہنسائیتوحید کا ہو دورہ، تثلیث ہو شکستہحق کی ہو بادشاہی، باطل نہ دے دکھائیقرآں کا نور چمکے، کندن کی طرح دمکےسورج کی روشنی سے ہو بڑھ کے روشنائیشر اور فساد جاوے، دنیا میں امن آوےظاہر میں خیر و خوبی، باطن میں ہو بھلائیبچے ہوں نیک بچے، اور ہوں جوان صالحہوں لائقِ زیارت دنیا میں باپ مائیہر نشّہ دُور ہووے، سچا سُرور ہووےجو سُود خور ہیں یاں اُن کو ملے نہ پائیجھوٹے طبیب جائیں، سچے امین آئیںدھوکے سے جو نہ بیچیں مخلوق میں دوائیہو صدق و راستی کا دنیا میں بول بالاہو جھوٹ کی تباہی، پھیلے یہاں سچائیآپس میں ہو محبت، جائے یہ بغض و نفرتجو دل شکن ہیں اُن میں آ جائے دلربائیاب یہ دعا ہے میری دن رات صدقِ دل سےناصرؔ کی اِس دعا کو حق تک ملے رسائی ٭آپ کے ہاں تیرہ بچے پیدا ہوئے لیکن اکثر بچپن میں ہی وفات پاگئے اور صرف تین بچوں یعنی حضرت امّاں جان سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ، حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ اور حضرت میر محمد اسحق صاحبؓ نے عمر پائی۔ مزید پڑھیں: سفرایک رات کا