حرمین میں عاجز نے کچھ وقت گزارا ہےوہ روئے زمیں پر اک جنت کا نظارہ ہے اک خواب سا دیکھا ہے ان جاگتی آنکھوں سےاب تک وہ حسیں منظر ان آنکھوں میں سارا ہے ماحول وہ روشن ہے اَنوارِ الہٰی سےمولا نے یہاں اپنا قرآن اُتارا ہے اک پیکر اقدسؐ کی خوشبو ہے فضاؤں میںجو فخرِ دو عالم ہے محبوبؐ ہمارا ہے دن رات وہاں ہر دم بارش ہے سکینت کیہر دکھ کا مداوا ہے ہر درد کا چارہ ہے وہ گلیاں، مکاں، پتھر چومے ہیں نگاہوں سےاور روضۂ اقدسؐ تو مری آنکھ کا تارا ہے سیرت کا ہر اک پہلو لکھا ہے خدا نے خودمرے عشقِ محمدؐ کو قرآں نے نکھارا ہے رہتا ہے تصور میں، کرتی ہوں طواف اس کاکعبہ جو کہ اُمت کی وحدت کا اشارہ ہے احسان ہے اللہ کا ہم دید کے ترسوں پرگنبد تلے جنت کا اک ٹکڑا اُتارا ہے دل جان سے قرباں ہیں ہم روئے محمدؐ پریہ جذبہ محبت کا احمدؑ نے اُبھارا ہے وہ کعبہ، صفا، مروہ وہ ثور، حرا غاریںاللہ نے حسن ان کا ہاتھوں سے نکھارا ہے اس جنت ارضی میں دیکھوں سبھی پیاروں کوہمیں اس سے محبت ہے حق اس پہ ہمارا ہے نادار، تہی دامن، محتاج ہوں بے بس ہوںاس غمزدہ دکھیا کا اک تُو ہی سہارا ہے میں گھر ترے آئی ہوں تجھے مانگنے آئی ہوںمیرا تو فقط تیری رحمت پہ گزارا ہے کشکول مرا بھر دے قرب اپنا عطا کر دےبخشش کے لیے تجھ کو رو رو کے پکارا ہے (امۃ الباری ناصر۔ امریکہ) مزید پڑھیں: جو دکھ خدا کے قریب کردے