اسباب و عوامل پہ تدبّر نہیں کرتےانجام پہ بے بس کی طرح رونے کے عادی تاریخ ہے شاہد کہ یہ قانونِ ازل ہےسوتے ہیں ہمیشہ کے لیے سونے کے عادی کشکول بکف سر کو اُٹھا کر نہیں چلتےکاٹیں گے نہ گندم کبھی جَو بونے کے عادی کچھ اور گرا دیتی ہے ہر حرکتِ معکوسرہتے ہیں تہی دست سدا کھونے کے عادی جلتے رہیں اغیار یہ ہے ان کا مقدرہم لوگ ہیں ہر حال میں خوش ہونے کے عادی (امۃ الباری ناصر۔امریکہ)