خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب

خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب فرمودہ ۲۳؍جون ۲۰۲۳ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے) یوکے

سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب:فرمایا: جیسا کہ گذشتہ خطبےمیں بیان ہوا تھا آنحضرتﷺ کے بھیجے ہوئے مخبروں نے واپس آکر آنحضرتﷺ کو ایک قافلے یا لشکر کے آنے کی اطلاع دی۔ جب رسول کریمﷺ کو یہ اطلاع ملی کہ قریش کا لشکر تجارتی قافلے کے بچاؤ کے لیے بڑھا چلا آ رہا ہے تو رسول اللہﷺ نے صحابہ کرامؓ سے مشورہ طلب کیااور انہیں قریش کی صورتحال سے آگاہ کیا۔

سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےآنحضرتﷺکےمشورہ طلب کرنےپرمہاجرصحابہؓ کے ردعمل کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب:فرمایا:(مشورہ طلب کرنے)پر حضرت ابوبکرؓ اٹھے اور بڑی خوبصورت گفتگو کی۔ پھر حضرت عمرؓ اٹھے، انہوں نے بھی بڑے خوبصورت انداز میں گفتگو کی۔ پھر حضرت مقداد بن عمروؓ اٹھے اور عرض کی یا رسول اللہﷺ! تشریف لے چلیے جدھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیاہے۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔بخدا! ہم آپ کو وہ جواب نہ دیں گے جو جواب بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ ؑکو دیا تھا کہ فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَآ اِنَّاهَاهُنَا قَاعِدُوْنَ (المائدة: 25) جا تُو اور تیرا رب دونوں لڑو ہم تو یہیں بیٹھے رہیں گے بلکہ ہم یوں کہیں گے کہ آپ اور آپ کا ربّ تشریف لے جائیے اور جنگ کیجیے ہم بھی آپ کے ساتھ مل کر جنگ کریں گے۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے اگر آپ ہمیں برک الغماد تک بھی لے جائیں تو ہم آپ کے ساتھ چلیں گے۔ … اور پھر انہوں نے کہاکہ آپ کی معیت میں دشمن کے ساتھ جنگ کرتے جائیں گے یہاں تک کہ آپ وہاں پہنچ جائیں۔ رسول اللہﷺ نے انہیں کلمہٴ خیر سے نوازا اور ان کے لیے دعا فرمائی۔

سوال نمبر۳:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےآنحضرتﷺکےمشورہ طلب کرنے پر انصار کی نمائندگی میں حضرت سعدبن معاذؓ کےاخلاص ووفاکی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب:فرمایا:یہ تینوں یعنی حضرت ابوبکرؓ،حضرت عمرؓ اور حضرت مقدادؓ چونکہ مہاجرین میں سے تھے۔ اس لیے رسول اللہﷺکی خواہش تھی کہ انصار کی رائے معلوم کریں۔چنانچہ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔ اے لوگو! مجھے مشورہ دو۔ آپﷺ کی مراد انصار تھے اور شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ بیعت عقبہ کے وقت انہوں نے عرض کی تھی کہ یارسول اللہ! بیشک ہم اس وقت تک آپ کے ذمہ سے بری ہیں جب تک آپ ہمارے شہر میں تشریف نہیں لاتے لیکن جب آپؐ وہاں مدینےمیں تشریف لے آئیں گے تو آپ ہمارے ذمہ ہوں گے۔ ہم ہر اس چیز سے آپ کا دفاع کریں گے جس سے ہم اپنے بچوں اور اپنی عورتوں کا دفاع کرتے ہیں۔ اس لیے رسول اللہﷺیہ اندیشہ ظاہر کر رہے تھے کہ کہیں انصار صرف اُس دشمن سے آپ کا دفاع کریں جو مدینہ طیبہ پر اچانک چڑھائی کر دے اور وہ یہ سمجھ رہے ہوں کہ ان پر اپنے شہر سے باہر جا کر دشمن کا مقابلہ کرنا لازم نہیں لیکن جب رسول اللہﷺ نے یہ بات فرمائی تو حضرت سعد بن معاذؓنے آپ سے عرض کی کہ اے رسول اللہؐ! یوں لگتا ہے کہ حضورہماری رائے پوچھ رہے ہیں۔رسول کریمﷺ نے فرمایا بیشک۔ تو حضرت سعدؓ گویا ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ بیشک ہم آپ پر ایمان لے آئے ہیں۔ ہم نے آپ کی تصدیق کی ہے اور ہم نے گواہی دی ہے کہ جو دین لے کر آپ تشریف لائے ہیں وہ حق ہے اور اس پر ہم نے آپ کے ساتھ وعدے کیے ہیں اور ہم نے آپ کا حکم سننے اور اس کو بجا لانے کے پختہ عہد کیے ہیں۔ یا رسول اللہﷺ! آپ تشریف لے چلیے جدھر آپ کا ارادہ ہے۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ اگر آپ ہمیں سمندر کے پاس لے جائیں اور خود اس میں داخل ہو جائیں تو ہم بھی آپ کے ساتھ سمندر میں چھلانگ لگا دیں گے۔ ہم میں سے ایک شخص بھی پیچھے نہیں رہے گا۔ ہم اس بات کو ناپسند نہیں کرتے کہ آپؐ کل ہمیں ساتھ لے کر دشمن کا مقابلہ کریں۔ ہم جنگ میں صبر کرنے والے ہیں۔ دشمن سے مڈھ بھیڑ کے وقت وفا دکھانے والے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے آپ کو وہ کارنامے دکھائے گا جس سے آپ کی آنکھ ٹھنڈی ہو جائے گی۔ پس اللہ کی برکت پر آپ ہمیں لے کر روانہ ہو جائیے۔

سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آنحضرتﷺکےحصول معلومات کےطریق کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب:فرمایا:بدر کے میدان کے قریب نزول کرنے کے کچھ دیر بعد آپؐ اور حضرت ابوبکرؓ سوار ہو کر نکلے یہاں تک کہ ایک عربی بوڑھے کے پاس جا کر رک گئے اور اس سے قریش اور محمدﷺ اور ان کے ساتھیوں کے متعلق یہ بتائے بغیر دریافت کیا کہ آپ کون ہیں۔ بوڑھا کہنے لگا میں تمہیں تب بتاؤں گا جب تم مجھے یہ بتاؤ کہ تم کس قبیلے سے ہو۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا جب تم ہمیں بتاؤ گے تو ہم بھی تمہیں اپنے متعلق آگاہ کر دیں گے، اپنے بارے میں بتا دیں گے۔ وہ کہنے لگا کہ کیا ادلے کا بدلہ؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہاں۔ بوڑھے نے کہا مجھے معلوم ہوا ہے کہ محمد (ﷺ ) اور آپ کے صحابہ فلاں فلاں دن روانہ ہو چکے ہیں۔ اگر مجھے بتانے والے نے سچ کہا تھا تو وہ آج فلاں مقام پر ہوں گے۔ اس نے اس جگہ کا نام لیا جہاں رسول اللہﷺ پہنچے تھے۔ پھر کہنے لگا مجھے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ قریش فلاں دن روانہ ہوئے ہیں۔ اگر مجھے بتانے والے نے سچ کہا ہے تو وہ آج فلاں مقام پر ہوں گے۔ اس نے اس جگہ کا نام لیا جہاں قریش پہنچے تھے۔ دونوں باتیں اس نے صحیح بتائی ہیں۔ جب وہ اپنی اطلاع سے فارغ ہوا تو اس نے کہا تم کس سے ہو؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہم پانی سے ہیں۔ پھر آپﷺ اس کے پاس سے پلٹ آئے…پھر رسول اللہﷺصحابہ کرام کے پاس واپس تشریف لائے۔ جب شام ہوئی تو رسول اللہﷺ نے حضرت علیؓ، حضرت زبیر بن عوامؓ اور سعد بن ابی وقاصؓ کو چند دیگر صحابہ کے ہمراہ بدر کے چشمے کی طرف روانہ فرمایا تا کہ وہ آپ کے لیے وہاں کی خبروں کی جستجو کریں۔ انہیں قریش کے لیے پانی لے جانے والے دو غلام ملے جنہیں صحابہ کرام پکڑ کر لے آئے اور ان سے سوالات کیے جبکہ رسول اللہﷺ کھڑے نماز ادا کر رہے تھے۔ ان دونوں نے بتایا کہ ہم قریش کے لیے پانی لے جانے والے ہیں۔ انہوں نے ہمیں پانی لانے کے لیے بھیجا ہے۔ صحابہ نے ان کی بات نہ مانی اور خیال کیا کہ شاید وہ ابوسفیان کے ملازم ہیں۔ اس لیے صحابہ نے انہیں زدوکوب کیا اور جب انہیں بہت تنگ کیا تو انہوں نے کہہ دیا کہ ہم ابوسفیان کے ملازم ہیں۔ اس پر صحابہ کرام نے انہیں چھوڑ دیا۔ رسول اللہﷺ نے جب سلام پھیرا تو فرمایا۔ جب ان دونوں نے تم سے سچ کہا تو تم نے انہیں مارا اور جب انہوں نے جھوٹ بولا تو تم نے انہیں چھوڑ دیا۔ بخدا ! انہوں نے سچ کہا ہے۔ بیشک وہ قریش کے غلام ہیں۔ پھر ان دونوں کی طرف متوجہ ہو کر آپؐ نے فرمایا کہ مجھے قریش کے متعلق آگاہ کرو۔ ان دونوں نے بتایا بخدا! وہ اس ٹیلے کے پیچھے وادی کے دوسرے کنارے پر ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں۔ پھر رسول اللہﷺنے ان سے پوچھا وہ لوگ کتنے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: بہت سے ہیں۔ پوچھا گیا ان کی تعداد کیا ہے؟ کہنے لگے کہ ہمیں معلوم نہیں۔آپﷺ نے پوچھا کہ وہ کھانے کے لیے روزانہ کتنے اونٹ ذبح کرتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کسی دن نو اور کسی دن دس۔ اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ وہ لوگ نوسو اور ایک ہزار کے درمیان ہیں۔ اونٹوں کے کھانے سے آپ نے اندازہ لگایا۔ پھر آپﷺ نے ان سے دریافت فرمایا کہ ان میں قریش کے سرکردہ لوگوں میں سے کون کون ہیں؟ انہوں نے قریش کے کئی سرداروں کے نام بتائے جن میں ابوجہل، عتبہ، شیبہ، حکیم بن حزام، امیہ بن خَلف وغیرہ شامل تھے۔ پھر رسول اللہﷺ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایاھٰذَا مَکَّةُ قَدْ اَلْقَتْ اِلَیْکُمْ اَفْلَاذَ کَبِدِھَا کہ مکہ نے اپنے جگر کے ٹکڑے تمہارے آگے نکال کر ڈال دیے ہیں۔

سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے بدرمیں اسلامی لشکرکےپڑاؤکےحوالہ سےحضرت حباب بن منذرؓ کےمشورہ کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب:فرمایا:جب حضورﷺ نے بدر کے قریب ترین چشمےپر پڑاؤ ڈالا تو حباب بن منذر نے عرض کیا۔ یارسول اللہؐ! کیا آپ نے حکم الٰہی سے اس جگہ قیام کیا ہے کہ ہم یہاں سے نہ آگے بڑھ سکتے ہیں اور نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں یا یہ صرف آپ کی رائے اور جنگی چال ہے؟ حضورﷺ نے فرمایا یہ صرف ایک رائے ہے اور جنگی چال ہے۔ تب حضرت حبابؓ نے عرض کیا کہ یہ جگہ مناسب نہیں بلکہ آپ لوگوں کو یہاں سے ہٹا لیجیے اور وہاں قیام کیجیے جو دشمن کے پانی سے قریب ترین جگہ ہو اور اس کے علاوہ جتنے کنویں ہیں ان کو بند کر دیا جائے اور اپنے لیے ایک حوض تیار کر لیا جائے جس کو پانی سے بھر دیا جائے۔ اس کے بعد ہم دشمن سے مقابلہ کرتے ہیں تو ہمیں پینے کے لیے پانی میسر ہو گا اور دشمن پانی سے محروم رہے گا۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ تمہاری رائے بہت درست ہے اور پھر حضورﷺ لشکر سمیت اس پانی پر آئے جو قریش سے قریب تر تھا اور وہاں پڑاؤ کیا اور آپ کے حکم سے باقی کنویں بیکار کر دیے گئے اور جس کنویں پر پڑاؤ ڈالا گیا اس پر ایک حوض بنا کر اس کو پانی سے بھر دیا گیا۔

سوال نمبر۶: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے بدرمیں آنحضرتﷺکی حفاظت کےلیےحضرت سعدبن معاذؓ کی تجویزکی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب:فرمایا:اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے جو تفصیل بیان کی ہےسعد بن معاذ رئیس اوس کی تجویز سے صحابہؓ نے میدان کے ایک حصہ میں آنحضرتﷺ کے واسطے ایک سائبان ساتیار کردیا اورسعد نے آنحضرتﷺ کی سواری سائبان کے پاس باندھ کر عرض کیاکہ یارسول اللہ!آپؐ اس سائبان میں تشریف رکھیں اورہم اللہ کا نام لے کر دشمن کا مقابلہ کرتے ہیں۔ اگر خدا نے ہمیں فتح دی تو یہی ہماری آرزو ہے، لیکن اگرخدانخواستہ معاملہ دگرگوں ہوااس کے علاوہ کچھ ہوا، ہماری شکست ہوئی توآپؐ اپنی سواری پرسوار ہوکر جس طرح بھی ہو مدینہ پہنچ جائیں۔ وہاں ہمارے ایسے بھائی بند موجود ہیں جو محبت واخلاص میں ہم سے کم نہیں ہیں لیکن چونکہ ان کو یہ خیال نہیں تھا کہ اس مہم میں جنگ پیش آجائے گی اس لئے وہ ہمارے ساتھ نہیں آئے ورنہ ہرگز پیچھے نہ رہتے لیکن جب انہیں حالات کاعلم ہوگا تو وہ آپؐ کی حفاظت میں جان تک لڑا دینے سے دریغ نہیں کریں گے۔ یہ سعد کا جوشِ اخلاص تھا جو ہر حالت میں قابلِ تعریف ہے۔ ورنہ بھلا خدا کا رسول اورمیدان سے بھاگےیہ کس طرح ہو سکتا ہے۔چنانچہ حنین کے میدان میں ہم نے دیکھا کہ بارہ ہزار فوج نے پیٹھ دکھائی، مگریہ مرکز توحیدیعنی آنحضرتﷺاپنی جگہ سے متزلزل نہیں ہوا۔ بہرحال سائبان تیار کیا گیا اور سعد اور بعض دوسرے انصار اس کے گرد پہرہ دینے کے لئے کھڑے ہو گئے۔ آنحضرتﷺ اور حضرت ابوبکرؓ نے اسی سائبان میں رات بسر کی ایک روایت میں یہ بھی ذکر ہے کہ حضرت ابوبکرؓ سائبان میں ننگی تلوار سونت کر آپؐ کے پاس حفاظت کے لئے کھڑے رہے اور آنحضرتﷺ نے رات بھر خدا کے حضور گریہ وزاری سے دعائیں کیں اورلکھا ہے کہ سارے لشکر میں صرف آپؐ ہی تھے جو رات بھر جاگے باقی سب لوگ باری باری اپنی نیند سو لئے۔

سوال نمبر۷:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےخطبہ کے آخر پر کن مرحومین کاذکرخیرفرمایااورنمازجنازہ پڑھائی؟

جواب: فرمایا:۱۔مکرم قاری محمد عاشق صاحب جو جامعہ احمدیہ کے استاد تھے اور مدرسة الحفظ کے نگران اور پرنسپل تھے۔ ان کی گذشتہ دنوں پچاسی سال کی عمر میں وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُوْنَ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ قاری عاشق صاحب کو قرآن کریم حفظ کرنے اور تجوید سیکھنے کے بعد احمدیت قبول کرنے سے پہلے پاکستان کے مختلف مقامات پر اہلحدیث کے مدارس میں درس و تدریس کا موقع ملا۔ خود انہوں نے بیعت کی تھی …رمضان المبارک میں آپ کی مسجد مبارک میں پندرہ سال تک نماز تراویح پڑھانے کی ڈیوٹی لگتی رہی۔ مولانا عبدالمالک خان صاحب ناظر اصلاح و ارشاد مرکزیہ نے ایک دفعہ آپ کو کہا تھا کہ مسجد مبارک میں نماز تہجد اور نماز تراویح کے پڑھانے کی آپ کی ڈیوٹی بار بار اس لیے لگائی جاتی ہے کہ حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کو آپ کی تلاوت بہت پسند ہے۔

۲۔مکرم نور الدین الحصنی صاحب ،جو شام کے بہت پرانے احمدی تھے۔ آجکل سعودی عرب میں تھے۔ کئی سال سے احمدی ہونے کی وجہ سے سعودی عرب کی ایک جیل میں قید تھے۔ یہ اسیرِ راہ مولیٰ تھے۔ بیماری اور سختیوں کے باوجود ایمان پر ثابت قدم رہے اور بالآخر اسیری کے دوران ہی ۲۵؍مئی کو تقریباً ۸۲سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ …مرحوم کے بیٹے معاذ الحصنی صاحب… انہوں نے تفصیل لکھی ہے کہ ۲۰۱۶ء میں جب قید کیے گئے تو آپ نے روزہ رکھا ہوا تھا اور روزہ کھولنا پسند نہیں کیا باوجود اس کے کہ آپ جانتے تھے کہ آپ کو قید میں مشقّت برداشت کرنی پڑے گی۔ جب افسر نے پانی پیش کیا تو آپ نے کہا کہ میرا روزہ ہے۔ پھر نماز عصر پڑھنے کی اجازت مانگی اس نے اجازت دے دی۔ آپ نے اس کے سامنے نماز پڑھی تو اس کے بعد وہ کہنے لگا کہ آپ لوگ تو ہماری طرح نماز پڑھتے ہیں ۔ بہرحال اس کا اس پر اثر ہوا ، اس نے ان کو اس وقت چھوڑ دیا۔پھر دسمبر ۲۰۱۹ء میں بغیر کوئی وجہ بتائے دوبارہ پولیس نے پکڑ لیا اور جیل میں ڈال دیا اور اسی اسیری کی حالت میں ان کی وفات ہو گئی۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button