حضرت مصلح موعود ؓ

سورۂ کوثر میں اسلام کے چار رکن (خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۲؍ستمبر ۱۹۲۱ء) (قسط دوم۔آخری)

(گذشتہ سے پیوستہ )پہلی بات صفاتِ کاملہ کے مالک خدا پر ایمان،دوسری ایمان کی درستی کے سامان ہیں اور باقی دو باتیں بندوں کے متعلق ہیں۔

تیسرا رکن فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانۡحَرۡ ہے یعنی نفس کی اصلاح اور حقوق العباد کی نگہداشت کرو۔

قربانیاں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ جسم کی یا مال کی۔ اور اِن دونوں سے اپنے آپ کو بھی فائدہ ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی۔

مثلاً زکوٰۃ دینے والے کو بھی فائدہ پہنچتا ہے اور جن کو ملے اُن کو بھی۔ اِسی طرح اخلاقِ حسنہ انسان کو خود بھی خوشنما بناتے ہیں اور لوگوں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔ اُس کی عزت ہوتی ہے اور لوگوں کو تکلیف اور دکھ سے نجات۔ تو فرمایا کہ نمازیں پڑھ کر اپنی اصلاح کرو اور قُربانی کر کے لوگوں کو فائدہ پہنچاؤ۔

چوتھا رکن جس کے بغیر کوئی مذہب مکمل نہیں ہوتا یہ ہے کہ اُس کے دشمن تباہ کیے جاویں۔ کیونکہ اگر یہ نہ ہو تو نیکی اور بدی میں ہمیشہ لڑائی جاری رہے اور ترقی امن کے بغیر نہیں ہو سکتی۔

ایک بزرگ کا قصّہ لکھا ہے۔ جب ان کا ایک شاگرد تعلیم حاصل کر کے واپس جانے لگا تو انہوں نے اُس سے سوال کیا کہ اگر شیطان نے حملہ کیا تو کیا کرو گے؟ اُس نے جواب دیا مقابلہ کروں گا۔ انہوں نے کہا اگراُس نے پھر حملہ کیا تو پھر؟

اُس نے جواب دیا کہ پھر مقابلہ کروں گا۔ تیسری دفعہ انہوں نے یہی سوال کیا اور اس نے وہی جواب دیا۔ اِس پر انہوں نے فرمایا اِس طرح تو مقابلہ میں ہی ساری عمر گزر جائے گی۔ اُس نے عرض کی۔ پھر آپ ہی فرمائیے میں کیا کروں؟ انہوں نے کہا اچھا ایک بات بتاؤ۔ اگر تم اپنے دوست کو ملنے جاؤ اور اُس کے دروازے پر ایک کُتا بندھا ہو جو تمہیں اندر جانے سے روکے تو تم کیا کرو گے؟ اُس نے جواب دیا کہ کُتے کو ماروں گا۔ انہوں نے جواب دیا اگر کُتا پیچھے ہی پڑ جاوے تو؟ اُس نے کہا اگر باز نہ آئے تو مالک کو آواز دوں گا کہ اس کو ہٹائے۔ انہوں نے فرمایا یہی طریقہ اﷲتعالیٰ کی راہ میں ہونا چاہیے۔

شیطان خدا کی راہ میں کُتے کا کام کرتا ہے۔اول تو انسان اس کو ہٹانے کی کوشش کرے۔ اگر نہ ہٹے تو پھر خدا ہی کو آواز دے اور اُس سے مدد مانگے۔ پس

جب تک دشمن راستے سے نہ ہٹ جائے۔ اُس وقت تک کامیابی نہیں ہو سکتی۔ اس لیے فرمایا تیرا دشمن ہلاک ہو گا اور تیرا راستہ صاف کیا جاوے گا تا کہ مسلمان بے خوف و بے خطر خدا تک پہنچ سکیں۔

جب تک یہ چاروںرکن نہ ہوں تب تک نہ کسی مذہب کی صداقت ثابت ہو سکتی ہے نہ اس کا قیام ہو سکتا ہے۔ سو

اﷲ تعالیٰ نے فرمایا اے رسول! یہ چاروں ستون تیرے مذہب میں موجود ہیں اور جب تک بندہ ان چاروں ستونوں پر کھڑا نہ ہو اُس کا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا۔

میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے ایمانوں کو ان چاروں ستونوں پر قائم کرو۔ اوّل تمام صفاتِ کاملہ کے مالک واحد خدا پر ایمان لاؤ۔ پھر خدائی سامانوں پر بھی یقین رکھو۔ جیسا کہ اِس زمانہ میں بھی اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کی اصلاح کے لیے مسیح موعودؑ کو بھیجا اور اپنے اُس وعدہ کو جو رسول کریم صلی اﷲعلیہ وسلم سے کیا تھا فراموش نہیں کیا۔ دیکھو! ایک وہ زمانہ تھا کہ عیسائیوں کے سامنے مسلمانوں کا دم نکلتا تھا۔ اب ہم اُن کے گھر پر حملہ کرتے ہیں اور وہ ہمارے آگے آگے بھاگتے ہیں۔

تیسری بات آپ کے ذمہ ہے کہ اپنے اعمال کی درستی کرو اوردوسروں کی اصلاح کی بھی فکر کرو۔

آپ بھی فائدہ اٹھاؤ اور لوگوں کو بھی فائدہ پہنچاؤ۔ چوتھے یہ کہ تمہارے دشمن خائب و خاسر ہوں گے۔ مگر شرط یہ ہے کہ بندہ بھی کوشش کرے۔ جیسا کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم خود بھی پورے زور سے لڑتے تھے۔ اب

دشمن کو ہلاک کرنے کی کوشش سے مُراد مارنا نہیں بلکہ حق کے دلائل و براہین پیش کر کے اُسے شرمندہ کرے۔

پھر جب بندہ اپنا کام کرتا ہے اور دشمن ضد سے باز نہیں آتا تو خدائی تلوار اٹھتی ہے اور اُسے ہلاک کرتی ہے۔

چونکہ اِس سورت میں اپنوں اور دوسروں سے بھلائی کا ذکر ہے اس لیے ایسی باتوں کا پھر اِعادہ کرتا ہوں جو اِس ملک میں خصوصیت سے ہیں۔ یہاں

عام طور پر عورتیں شاکی ہیں کہ خاوند گالیاں دیتے ہیں۔ گالی دینا کمزوری اور بُزدلی کی علامت ہے۔

بعض وجوہات سے اﷲ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر حاکم بنایا ہے۔ لیکن یونہی مارنا، پیٹنا اور گالیاں دینا جائز نہیں۔ گالیاں تو کسی صورت میں جائز نہیں، مارنا بھی مجبوری کے وقت جب عورت کھلی کھلی بے حیائی کرے جائز ہے۔ مگر وہ بھی اتنا کہ جسم پر نشان نہ پڑے۔ عورتوں سے رأفت اور حُسنِ سلوک کا حکم ہے۔ لوگوں کے اس حکم کو قطع نظر کرنے سے آجکل دشمن

اسلام پر اعتراض کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے نزدیک عورت کی بڑی گری ہوئی حیثیت ہے ۔لیکن دراصل عورتیں ویسی ہی ہیں جیسے مرد۔

یہ تو خداتعالیٰ کی طرف سے تمہارے ذمہ امانت ہے۔ سو اس کو پورا کرنے میں کوتاہی نہ کرو۔ جو عورتوں پر سختی کرتا ہے وہ اپنی بُزدلی کا اظہار کرتا ہے۔

بہادر تو بہادر سے مقابلہ کرتا ہے کمزوروں پر ہاتھ نہیں اٹھاتا۔ پس عورتوں سے نیک سلوک کرو۔

پردہ کے متعلق پہلے بھی کہا تھا اب پھر کہتا ہوں۔ گھر میں سر ننگا رکھنا ناجائز نہیں۔ باہر جانے کے لیے چادر یا برقع کی ضرورت ہے لیکن عادات کا اثر ہوتا ہے۔ اِسی وجہ سے عام طور پر مسلمان عورتیں گھر میں بھی سر پر کپڑا رکھتی ہیں تا کہ باہر جا کر بھی رکھنے کی عادت ہو جائے۔ مجھے یہ سن کر بہت تعجب ہوا کہ یہاں قریب ہی اہلِ حدیث کا ایک گاؤں ہے جہاں عورتوں میں پائجامہ پہننے کا رواج ہے مگر احمدی ابھی پیچھے ہیں۔

میں نے پچھلی دفعہ سیکرٹری، محاسب وغیرہ کے انتخاب کے لیے کہا تھا مگر مجھے اب تک بتایا نہیں گیا کہ کون کون مقرر ہوئے ہیں۔ اگر ابھی تک مقرر نہیں ہوئے تو اب جمعہ کے بعد مشورہ کر کے مجھے اطلاع دیں۔

میں پھر نصیحت کرتا ہوں کہ یہ خدا نے ایک موقع دیا ہے۔ اس کو غنیمت جانو۔

اپنے نفسوں کی درستی کرو، اپنے اعمال سے اپنے احمدی ہونے کا اظہار کرو، سچے دین کی سچائی سچے اعمال سے ثابت کرو۔

محض دعویٰ سے کچھ نہیں ہوتا۔ اسلام کا دعویٰ کرنے والے تو پہلے بھی بہت موجود تھے۔ تم اپنے اندر بیّن فرق پیدا کرو۔ تاکہ تمہاری اصلاح سے لوگوں کو فائدہ ہو۔ مومن کی یہ شرط ہے کہ خدا اُس کے لیے غیرت رکھتا ہے اور اُس کے دشمن کو ہلاک کرتا ہے۔ اگر خدا اُس کی نُصرت اور حفاظت نہیں کرتا تواُس کے اﷲتعالیٰ کے ساتھ تعلق میں کوئی کمی ضرور ہے۔ مومن کو تو ہر وقت ڈرنا چاہیے۔ رسول کریم صلی اﷲعلیہ وسلم کی یہ حالت تھی کہ زور کی آندھی آ جائے تو گھبرا جاتے تھے۔(ابوداؤدکتاب الادب باب مایقول اِذا ھَاجتِ الرِّیْح) مگر

زندہ مومن سے خداکا معاملہ ایسا ہوتا ہے کہ خدا اُس کی حفاظت کرتا ہے۔ تم زندہ مومن بنو۔

ایسا نہ ہو کہ خدا کے وجود کا پتا ہی نہ ہو۔ مومن وہی ہے جس کو خدا نظر آ جائے۔ اس کو معلوم ہو جائے کہ واقعی خدا ہے۔ خدا اِن آنکھوں سے تو نظر نہیں آتا۔ مگر اِس دنیا میں اندھے کو کس طرح پتا لگتا ہے کہ اُس کے رشتہ دار ہیں؟ اُن کے سلوک سے۔ اِسی طرح خدا کے سلوک سے پتا لگ جانا چاہیے کہ خدا ہے۔ اور جب تک کوئی ایسا مومن نہیں اُس کا ایمان لغو اور فضول ہے‘‘۔

(الفضل۲۲؍ستمبر۱۹۲۱ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button