خطبہ عید

خطبہ عیدالاضحی سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ ۲۹؍ جون ۲۰۲۳ء

قربانیاں اس وقت قبول ہوتی ہیں جب تقویٰ کے پیش نظر کی جائیں، اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کے لیے کی جائیں

پاکستان میں تو احمدیوں کو اس عید پر جذبات کی قربانی بھی دینی پڑتی ہے

اس زمانے میں جان کی قربانی دینے کا اور خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی خاطر جان کی قربانی دینے کا ادراک بھی جتنا احمدیوں کو ہے کسی اَور کو شاید ہی ہو

جس قانون کے تحت احمدیوں کو روکا جاتا ہے اس قانون کی وضاحت میں ان کی ہی اعلیٰ عدلیہ نے یہ فیصلہ دیا ہوا ہے کہ چار دیواری کے اندر احمدی اپنی عبادات اور مناسک بجا لا سکتے ہیں

ظلم زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتا۔ یہ لوگ جو اپنی طاقت کے نشے میں من مانیاں کر رہے ہیں ایک دن اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آئیں گے۔ ان شاء اللہ

جذبات کو اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔دعاؤں میں بڑی طاقت ہے

اصل چیز قربانی کی روح کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی رضا کو چاہنا ہے اور تقویٰ ہے جو ہماری ہر قسم کی قربانیوں میں کام آئے گا

اگر ہمارے اندر تقویٰ ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہمارا ہر فعل ہے تو اللہ تعالیٰ جو دلوں کا حال جانتا ہے، ہمارے جذبات کی کیفیت جانتا ہے

ہماری جانوروں کی قربانیوں کے بغیر بھی ہمیں قربانیوں کا اجر دے سکتا ہے

دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ عید کی قربانیوں کی بھی ہمیں توفیق عطا فرمائے اور مخالفین کے منصوبوں کو خاک میں ملا دے۔ ہمارے اندر وہ تقویٰ پیدا کرے جو حقیقی تقویٰ ہے

اگر ہم اس تقویٰ کے معیار کو حاصل کر لیں۔ اللہ تعالیٰ سے ایک خاص تعلق پیدا کر لیں تو یہ مخالفتیں دیکھتے دیکھتے ہوا میں اڑ جائیں گی۔ ان شاء اللہ۔

ہم تمام مناسک آزادی سے ادا کرنے والے ہوں گے

ایسے لوگ جو اللہ اور رسول کے نام پر ظلم کرتے ہیں اگر ان کی رسّی دراز ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی پکڑ بھی سخت ہوتی ہے

دنیا میں فتنہ و فساد اور جنگوں کے خاتمہ کے لیے، پاکستانی احمدیوں کے لیے خصوصاً نیز برکینا فاسو، بنگلہ دیش اور الجزائر سمیت تمام دنیا کے احمدیوں کے لیے دعاؤں کی تحریک

خطبہ عیدالاضحی سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ۲۹؍ جون ۲۰۲۳ء بمطابق ۲۹؍ احسان ۱۴۰۲ ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے

(خطبہ عید کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ كَذٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ وَ بَشِّرِ الْمُحْسِنِيْنَ(الحج:38) ہرگز اللہ تک نہ ان کے گوشت پہنچیں گے اور نہ خون لیکن تمہارا تقویٰ اس تک پہنچے گا۔ اِسی طرح اس نے تمہارے لئے انہیں مسخر کردیا ہے تا کہ تم اللہ کی بڑائی بیان کرو اس بنا پر کہ جو اس نے تمہیں ہدایت عطا کی۔ اور احسان کرنے والوں کو خوشخبری دیدے۔

آج یہاں عید الاضحی ہے۔ پاکستان میں بھی اور بہت سے ممالک میں بھی آج عید منائی جا رہی ہے۔ بعض جگہ کل بھی ہو گئی۔سعودی عرب میں بھی۔ یہ عید قربانی کی عید بھی کہلاتی ہے۔

پاکستان میں تو احمدیوں کو اس عید پر جذبات کی قربانی بھی دینی پڑتی ہے۔

احمدیوں کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مالی قربانیاں دینے کی تو عادت ہے بلکہ

اس زمانے میں جان کی قربانی دینے کا اور خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی خاطر جان کی قربانی دینے کا ادراک بھی جتنا احمدیوں کو ہے کسی اَور کو شاید ہی ہو۔

اس لیے بھیڑ بکریوں گائیوں وغیرہ پر خرچ کرنا اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق یہ خرچ کرنا تو احمدیوں کے لیے ایک ایسی خوشی کی بات ہے جس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ اور جو یہ قربانی نہیں کر سکتے ان کی جذباتی کیفیت کیا ہوتی ہے اس کا اندازہ کرنا ہی مشکل ہے لیکن پاکستان میں قانون کی آڑ لے کر احمدیوں کو ان جانوروں کی قربانیوں سے روکا جاتا ہے اور یہ سب کچھ نام نہاد ملاں کے کہنے پر ہو رہا ہے۔ گذشتہ چند سالوں سے پولیس اور انتظامیہ پاکستان میں اسے ایسا خطرناک جرم ثابت کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ اس بارے میں ماضی میں بھی اور اب بھی اس سال بھی بڑی منصوبہ بندی سے یہی ہو رہا ہے کہ مقدمات درج کر کے اپنے گھر میں بھی جانور ذبح کرنے کے جرم میں قید میں ڈال دیا جاتا ہے۔ بلکہ

اب تو یہ کہتے ہیں کہ عید کی نماز پڑھنا بھی جرم ہے اور اس سے بھی وہاں روکا گیا ہے۔

پس بعض جگہ تو اس قربانی کے نہ کرنے کی وجہ سے جذبات کی قربانی دینی پڑتی ہے، انتہائی خوف و ہراس کی حالت میں سے گزرنا پڑتا ہے حالانکہ

جس قانون کے تحت احمدیوں کو روکا جاتا ہے اس قانون کی وضاحت میں ان کی ہی اعلیٰ عدلیہ نے یہ فیصلہ دیا ہوا ہے کہ چار دیواری کے اندر احمدی اپنی عبادات اور مناسک بجا لا سکتے ہیں

لیکن مُلّاں کے خوف یا بعض افسران کے ذاتی عناد یا مخالفت کی وجہ سے احمدیوں کو قربانی سے بھی روکا جاتا ہے۔ ان لوگوں کو خدا تعالیٰ سے زیادہ بندوں کا خوف ہے۔ نہیں جانتے کہ

ظلم زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتا۔ یہ لوگ جو اپنی طاقت کے نشے میں من مانیاں کر رہے ہیں ایک دن اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آئیں گے، ان شاء اللہ۔

لیکن بہرحال احمدیوں کو ان دنوں میں جہاں اپنے جذبات قربان کرنے پڑتے ہیں۔ اور جذبات کی قربانی معمولی چیز نہیں ہے۔ وہاں

جذبات کو اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں میں ڈھالنے کی کوشش کریں، دعاؤں میں بڑی طاقت ہے۔

حضرت ہاجرہ علیہا السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی دعائیں اور آہ و زاری اور بے چینی اور اللہ تعالیٰ پر توکل ہی تھا جس نے پانی کا چشمہ بہا دیا اور شہر بھی بسا دیا اور ایسا شہر جو مرکز اسلام بنا۔ پس ہمارا بھی یہ کام ہے کہ ہم عید قربان سے صرف یہ سبق نہ لیں کہ ہم نے جانور کی قربانی کرنی ہے اور بس۔

اصل چیز قربانی کی روح کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی رضا کو چاہنا ہے اور تقویٰ ہے جو ہماری ہر قسم کی قربانیوں میں کام آئے گا۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنی خواب کی بنا پر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو یہ کہا کہ مَیں نے تجھے خواب میں ذبح کرتے دیکھا ہے، تُو بتا تیری اس بارے میں کیا رائے ہے تو اس اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی خواہش رکھنے والے بیٹے نے یہ جواب دیا کہ يٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ (الصافات: 103) کہ اے میرے باپ! وہی کر جو تجھے حکم دیا گیا ہے اور گردن چھری کے نیچے رکھ دی اور اللہ تعالیٰ نے باپ بیٹے کی اس قربانی کے جذبے کو سراہتے ہوئے باپ کو بیٹے کی گردن پر چھری پھیرنے سے روک دیا اور اس کے بدلے جانور کی قربانی کا حکم دیا۔ پس یہ جذبہ اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے یہ عملی مظاہرہ تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے قبول کرتے ہوئے اسے اسلامی تعلیم کی بنیاد اور مناسک میں شامل فرما لیا اور اس انسانی جان کے بدلے جانور کی قربانی صرف ایک ظاہری اظہار کے لیے نہیں رکھی بلکہ جب مسلمانوں کو حج کے دوران یا عید پر بھی قربانی کا حکم دیا تو ساتھ یہ وضاحت بھی کر دی کہ یہ

قربانیاں اس وقت قبول ہوتی ہیں جب تقویٰ کے پیش نظر کی جائیں، اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کے لیے کی جائیں۔

چنانچہ اس بات کی وضاحت اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرما دی جو مَیں نے تلاوت کی ہے۔ اس قربانی کا فلسفہ اور مقصد بیان فرماتے ہوئے اس آیت کی روشنی میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :’’خداتعالیٰ نے شریعت اسلام میں بہت سے ضروری احکام کے لئے نمونے قائم کئے ہیں چنانچہ انسان کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنی تمام قوتوں کے ساتھ اور تمام وجود کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو۔ پس ظاہری قربانیاں اسی حالت کے لئے نمونہ ٹھہرائی گئی ہیں لیکن اصل غرض یہی قربانی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ (الحج:38) یعنی خدا کو تمہاری قربانیوں کا گوشت نہیں پہنچتا اورنہ خون پہنچتا ہے مگر تمہاری تقویٰ اس کو پہنچتی ہے۔ یعنی اس سے اتنا ڈرو کہ گویا اس کی راہ میں مر ہی جاؤ اور جیسے تم اپنے ہاتھ سے قربانیاں ذبح کرتے ہو اسی طرح تم بھی خدا کی راہ میں ذبح ہو جاؤ۔ جب کوئی تقویٰ اس درجہ سے کم ہے تو ابھی وہ ناقص ہے۔‘‘

(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 99 حاشیہ)

پس یہ تقویٰ ہے اور یہ سو چ ہے جو قربانی کرنے والے کی ہونی چاہیے ورنہ ظاہری قربانی کوئی چیز نہیں۔ آج احمدیوں کو تو قربانی سے روکا جاتا ہے لیکن ان نام نہاد ملاؤں اور احمدیت کے مخالف لوگوں میں بہت سے ایسے ہیں کہ جو ناجائز کمائی کے پیسوں سے صرف دکھاوے کے لیے خرچ کرتے ہیں اور منڈیوں کے پروگرام دکھائے جاتے ہیں جہاں یہ اظہار ہو رہا ہوتا ہے کہ ہم نے اتنے لاکھ کا جانور خریدا۔ پاکستان میں تو ایک طرف مہنگائی کا رونا ہے اور دوسری طرف لاکھوں روپوں کے جانور بھی خریدے جاتے ہیں۔ قیمتیں بھی پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہیں۔

اگر یہی لوگ ایمانداری سے اپنی زندگیاں گزاریں، ٹیکس صحیح طرح ادا کریں تو یہ مہنگائی جس کا آج کل پاکستان میں شور پڑا ہوا ہے یہ ختم ہو جائے۔ ملک کی معیشت تباہ نہ ہو۔

بہرحال یہاں تو یہ سارے، آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے اس لیے کچھ کہنے کا فائدہ نہیں۔ دینے والے بھی تقویٰ سے عاری ہیں اور لینے والے بھی تقویٰ سے عاری ہیںلیکن اسلام جس کی بنیاد تقویٰ پر ہے اس پر ان کی تقویٰ کے بغیر پوری اجارہ داری ہے اور کوئی احمدی اسلامی شعائر کی انجام دہی نہیں کر سکتا کیونکہ ان سے مذہب کے ٹھیکیداروں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ بہرحال یہ تو ان کے فعل ہیں لیکن

اگر احمدی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنی حالتوں کے جائزے لینے ہوں گے۔ اگر ہمارے اندر تقویٰ ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہمارا ہر فعل ہے تو اللہ تعالیٰ جو دلوں کا حال جانتا ہے ہمارے جذبات کی کیفیت جانتا ہے ہماری جانوروں کی قربانیوں کے بغیر بھی ہمیں قربانیوں کا اجر دے سکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ اگر ایک بندے کا حق ادا کرنے کی وجہ سے ایک نیک شخص کے حج کو حج پر نہ جانے کے باوجود بھی قبول کر سکتا ہے اور لاکھوں حاجیوں کا جنہوں نے حج کیا تھا حج ردّ کر سکتا ہے۔(ماخوذ از تذکرۃ الاولیاء صفحہ 123 مطبوعہ الفاروق بک فاؤنڈیشن لاہور 1997ء)تو اللہ تعالیٰ یہ طاقت رکھتا ہے کہ وہ ہماری قربانیوں کو بھی اگر نیک نیتی سے کرنے کی نیت تھی تو قبول فرمائے اور ہم اپنی قربانیاں کسی اور رنگ میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے دے سکتے ہیں لیکن

دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ عید کی قربانیوں کی بھی ہمیں توفیق عطا فرمائے اور مخالفین کے منصوبوں کو خاک میں ملا دے۔ ہمارے اندر وہ تقویٰ پیدا کرے جو حقیقی تقویٰ ہے

جو اللہ تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے، جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تلقین فرمائی ہے، جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوتِ قدسی اور تربیت کے نتیجے میں صحابہؓ نے اپنایا اور اپنی زندگیوں کا حصہ بنایا، جن کا ہر لمحہ قربانیوں میں گزرا، جن کے نمونے ہمارے لیے اسوہ ہیں اور پھر اس زمانے میں اس کی تجدید حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے خدا تعالیٰ نے فرمائی اور آپؑ نے بار بار ہمیں تقویٰ کی راہوں پر چلنے کی تلقین فرمائی۔

اگر ہم اس تقویٰ کے معیار کو حاصل کر لیں، اللہ تعالیٰ سے ایک خاص تعلق پیدا کر لیں تو یہ مخالفتیں دیکھتے دیکھتے ہوا میں اڑ جائیں گی۔ ان شاء اللہ۔ ہم تمام مناسک آزادی سے ادا کرنے والے ہوں گے۔

اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کثرت سے دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اور احمدی جہاں سے آسانی سے جاسکتے ہیں حج پر بھی جاتے ہیں اور دوسرے مناسک بھی آسانی سے بجا لاتے ہیں لیکن ہمیں اپنے تقویٰ کے معیار پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔ اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو انسان کب سمجھ سکتا ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’کو ئی پاک نہیں بن سکتا جب تک خدا تعالیٰ نہ بنا دے۔ جب خدا تعالیٰ کے دروازہ پر تذلّل اور عجزسے اس کی روح گرے گی تو خدا تعالیٰ اس کی دعا قبول کر ے گا اور وہ متقی بنے گا اور اس وقت وہ اس قابل ہو سکے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو سمجھ سکے۔ اس کے بغیر جو کچھ وہ دین دین کرکے پکارتا ہے اور عبادت وغیرہ کرتا ہے وہ ایک رسمی بات اور خیالات ہیں کہ آبائی تقلید سے سن سنا کر بجالا تا ہے۔‘‘ اپنے باپ دادا کو جس طرح کرتے ہوئے دیکھا اسی طرح وہ کر رہا ہے۔ ’’کوئی حقیقت اور روحانیت اس کے اندر نہیں ہو تی۔‘‘

(ملفوظات جلد 6صفحہ 228 ایڈیشن 1984ء)

پس یہ وہ تقویٰ کا معیار ہے جسے ہمیں حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور جب یہ معیار حاصل ہوتا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ پھر ہی ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو سمجھ سکتے ہیں۔ یہ جو ہمارے مخالفین ہیں انہوں نے کیا دین سمجھنا ہے۔ ہمارے مخالفین تو تکبر اور رعونت اور طاقت کے بل بوتے پر ہمارے پر ظلم کرتے ہیں اور یہ سب ظلم اپنے زعم میں ناموسِ رسالت کے لیے کرتے ہیں جس کا ان کو معمولی سا بھی ادراک نہیں اور غیرتِ رسول کا نام دے کر کرتے ہیں۔ یہ بھی سب دکھاوا ہے۔ لیکن عملی حالتیں ان کی دیکھیں تو اسلام کی تعلیم سے ان لوگوں کا دُور کا بھی واسطہ نہیں۔ لیکن

ہم نے جب زمانے کے امام کو مانا ہے تو ہمارے ہر عمل میں اس اسلامی تعلیم کا اظہار ہونا چاہیے جس کی تعلیم ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی اور جو ادراک اللہ تعالیٰ سے ملنے کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عطا فرمایا اور جس کی وضاحت اس زمانے میں ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق نے آپؐ کی تعلیم کی روشنی میں دی۔

یہ تذلّل اور عجز سے اللہ تعالیٰ کے حضور روح کا گرنا ہی تھا جس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ علیہا السلام کو مقبولیت کا وہ درجہ دیا کہ ان کی مقبول دعاؤں کے پھل ہم آج تک کھا رہے ہیں۔ وہ مقبول دعائیں ہی تھیں جن کے نتیجے میں وہ عظیم انسان آپ کی نسل میں پیدا ہوا جس کے ساتھ جڑنے اور اس کی اتباع کرنے سے خدا تعالیٰ ملتا ہے اور دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ یہ لوگ جو ہمارے مخالف ہیں یہ تو صرف اپنے آباء کی تقلید میں مسلمان ہیں اور حقیقت میں ان کے پاس کچھ نہیں ہے لیکن اگر ہم نے حقیقت میں مسیح موعود علیہ السلام کو مانا ہے تو ہمارا کام ہے کہ تقویٰ پر چلتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کا ادراک پیدا کریں ا ور پھر دیکھیں کس طرح خدا تعالیٰ ہماری دعائیں سنتا ہے اور دشمن کے منصوبے ہوا میں اڑتے ہیں۔ پھر قربانی کے فلسفے اور تقویٰ کی حقیقت بیان کرتے ہوئے ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’راستباز لوگ روح اور روحانیت کی رو سے خدائے تعالیٰ کی طرف اٹھائے جاتے ہیں نہ یہ کہ ان کا گوشت اور پوست اور ان کی ہڈیاں خدائے تعالیٰ تک پہنچ جاتی ہیں۔ خدائے تعالیٰ خود ایک آیت میں فرماتا ہے۔ لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ (الحج:38) یعنی خدائے تعالیٰ تک گوشت اور خون قربانیوں کا ہرگز نہیں پہنچتا بلکہ اعمال صالحہ کی روح جو تقویٰ اور طہارت ہے وہ تمہاری طرف سے پہنچتی ہے۔‘‘

(ازالہ اوہام حصہ اوّل، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 247)

پس دوبارہ یہ نصیحت ہے کہ

اپنے اعمال پر نظر رکھو۔ اعمال صالحہ ہی وہ سرمایہ ہیں جو انسان کی قربانیوں کی قبولیت کا ذریعہ بنتے ہیں اور اعمال صالحہ وہ ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا ہو رہے ہوں اور اس کے بندوں کے حقوق بھی ادا ہو رہے ہوں۔

یہ نہیں کہ ایک طرف ظلم و بربریت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہو اور دوسری طرف اللہ اور رسول کا نام بھی لیا جائے۔ اللہ تعالیٰ تو رب العالمین ہے۔ رحمان ہے۔ رحیم ہے۔ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین ہے۔ پس

ایسے لوگ جو اللہ اور رسول کے نام پر ظلم کرتے ہیں اگر ان کی رسّی دراز ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی پکڑ بھی سخت ہوتی ہے۔

پس ان کے یہ عمل ہمیں اَور زیادہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر چلانے والے ہونے چاہئیں۔ پھر مزید وضاحت کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’قانونِ قدرت قدیم سے ایسا ہی ہے کہ یہ سب کچھ‘‘ یعنی تقویٰ کا ادراک اور اس کا پھل ’’معرفتِ کاملہ کے بعد ملتا ہے۔ خوف اور محبت اور قدردانی کی جڑھ معرفتِ کاملہ ہے۔ پس جس کو معرفتِ کاملہ دی گئی اس کو خوف اور محبت بھی کامل دی گئی اور جس کو خوف اور محبت کامل دی گئی اس کو ہر ایک گناہ سے جو بیباکی سے پیدا ہوتا ہے نجات دی گئی۔ پس ہم اِس نجات کے لئے نہ کسی خون کے محتاج ہیں اور نہ کسی صلیب کے حاجتمند اور نہ کسی کفارہ کی ہمیں ضرورت ہے بلکہ ہم صرف ایک قربانی کے محتاج ہیں جو اپنے نفس کی قربانی ہے۔ جس کی ضرورت کو ہماری فطرت محسوس کررہی ہے۔ ایسی قربانی کا دوسرے لفظوں میں نام اسلام ہے۔ اسلام کے معنے ہیں ذبح ہونے کے لئے گردن آگے رکھ دینا یعنی کامل رضا کے ساتھ اپنی روح کو خدا کے آستانہ پر رکھ دینا۔ یہ پیارا نام تمام شریعت کی روح اور تمام احکام کی جان ہے۔ ذبح ہونے کے لئے اپنی دلی خوشی اور رضا سے گردن آگے رکھ دینا کامل محبت اور کامل عشق کو چاہتا ہے اور کامل محبت کامل معرفت کو چاہتی ہے۔ پس اسلام کا لفظ اِسی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حقیقی قربانی کے لئے کامل معرفت اور کامل محبت کی ضرورت ہے نہ کسی اَور چیز کی ضرورت۔ اِسی کی طرف خدا تعالیٰ قرآن شریف میں اشارہ فرماتاہے لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ (الحج:38) یعنی تمہاری (قربانیوں) کے نہ تو گوشت میرے تک پہنچ سکتے ہیں اور نہ خون بلکہ صرف یہ قربانی میرے تک پہنچتی ہے کہ تم مجھ سے ڈرو اور میرے لئے تقویٰ اختیار کرو۔‘‘

(لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 151-152)

پس یہ وہ خوبصورت تعلیم ہے جو ایک مومن کا سرمایہ ہے۔ یہ قربانی کی روح کا وہ ادراک ہے جو ایک مومن کی دنیا و عاقبت سنوارنے والا ہے۔

کتنا خوش قسمت ہے وہ جسے اللہ تعالیٰ کی معرفت کا ادراک حاصل ہو جائے

اور معرفت حاصل کرنے کے لئے آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا خوف اور اس کی محبت کا حصول بھی ضروری ہے۔ اور یہ پتہ کس طرح چلے کہ یہ معرفت حاصل ہو گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کا خوف اور محبت دل میں پیدا ہو گئے ہیں تو اس کے ماپنے کا معیار یہ ہے کہ ہر گناہ سے انسان بچے۔ اگر بشری تقاضوں کے تحت کبھی کمزوری ظاہر بھی ہو جائے تو فوراً استغفار کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے۔ مومن کبھی کوئی غلطی بے باکی سے نہیں کرتا۔ فرمایا کہ بے باک نہ ہو گناہ کرنے میں بلکہ اس پر ہر وقت اللہ تعالیٰ کی محبت غالب رہتی ہے۔ صحیح ایمان تو یہ ہے۔ ہر وقت وہ اس یقین پر قائم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے۔ جب بھی کوئی فعل کرنے والا ہے اس کو یہ یقین ہوتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے، میرے دلوں کا حال بھی اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور میرا کوئی عمل ایسا عمل نہ ہو جو خدا تعالیٰ کو ناپسند ہو۔ آپؑ نے فرمایا جب یہ حالت ہو تو یہ ہی وہ اصل اسلام ہے جس پر ایک مومن کو چلنا چاہیے اور یہ اسلام کی وہ حالت ہے جس کے زیر اثر انسان اپنی گردن کٹوانے کے لیے تیار ہو جاتا ہے، ہر قربانی کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول مقصد ہوتا ہے۔ ہر قول اور فعل خدا تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ جب یہ حالت ہو تو یہ حقیقی اسماعیلی قربانی کا نمونہ ہے۔ پس

یہ عید ہمیں اس کامل محبت اور کامل عشق کا سبق دینے کے لیے ہے۔ صرف جانوروں کی قربانی کر کے ان کے گوشت کھانے میں نہیں ہے۔ آج اگر ہم اس معرفت کے نکتے کو سمجھ جائیں تو قبولیتِ دعا کے عظیم نشان بھی دیکھنے والے ہوں گے۔ فتوحات کے نظارے ہم اپنی زندگیوں میں دیکھنے والے ہوں گے

لیکن روح کی قربانی اپنے اعمال کی درستگی اور اللہ تعالیٰ کا خوف ہے۔ خالص تقویٰ پیدا کرنے کے ساتھ عیدالاضحی پر جو ظاہری قربانی ہوتی ہے وہ بھی جو صاحب حیثیت ہیں ان کو کرنی چاہیے۔ یہ نہیں کہ ظاہری قربانی نہ کی جائے۔ بعض لوگ یہاں امیر ملکوں میں، یورپ اور امریکہ کے ملکوں کے رہنے والے پاکستان میں کرواتے ہیں لیکن آج کل کے حالات کی وجہ سے وہاں اتنی آزادی سے نہیں کروا سکتے تو افریقہ کے ممالک میں جماعتی نظام کے تحت کروا سکتے ہیں۔ گو اَب دیر تو ہو گئی ہے۔ آج عید ہے، کہیں کل ہو گئی لیکن ابھی بھی قربانیاں کرنے کے ایک دو دن ہیں۔ اس میں جماعت سے رابطہ کر کے جو کروانا چاہتے ہیں وہ کروا سکتے ہیں۔ یہ ظاہری قربانیاں بھی سنت ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ کیا کرتے تھے ابراہیمی سنت کو اسلام نے خاص طور پر جاری کیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ یہ قربانی کی بلکہ امّت کے غریب لوگوں کی طرف سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ قربانی کیا کرتے تھے۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الاضاحی باب اضاحیّ رسول اللّٰہ حدیث 3122)

یہاں تو آپ لوگوں کو اندازہ نہیں ہے لیکن جب غریب ملکوں میں قربانی کا گوشت دیا جاتا ہے تو ان کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ وہاں بےشمار لوگ ایسے ہیں جن کو شاید دو سال بعد بھی گوشت کھانے کو نہیں ملتا اور اس کا وہ اظہار بھی کرتے ہیں۔

پس

یہ ظاہری قربانی بھی حقوق العباد کی ادائیگی کا ایک ذریعہ ہے اور اس سے بھی خدا تعالیٰ کی محبت بڑھتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت اللہ تعالیٰ کی محبت کی خاطر انسان کر رہا ہوتا ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’دلوں کی پاکیزگی سچی قربانی ہے۔ گوشت اور خون سچی قربانی نہیں۔ جس جگہ عام لوگ جانوروں کی قربانی کرتے ہیں خاص لوگ دلوں کو ذبح کرتے ہیں۔ مگر خدا نے یہ قربانیاں بھی بند نہیں کیں‘‘ یعنی یہ ظاہری قربانیاں بھی بند نہیں کیں ’’تا معلوم ہو کہ ان قربانیوں کا بھی انسان سے تعلق ہے۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 424)

یہ ظاہری بھیڑ بکریوں کا ذبح کرنا ان کا بھی انسان سے تعلق ہے۔ پس فرمایا کہ گو فلسفہ قربانی تو دلوں کی قربانی ہے۔ نیکیوں کو پھیلانا ہے۔ اپنے نفس کو ہر غیر اللہ سے پاک کرنا ہے لیکن ظاہری قربانیاں بھی کرنی چاہئیں کیونکہ یہ بھی ایک مومن کو قربانی کے فلسفے کی طرف توجہ دلاتی ہیں۔

پھر ایک مجلس میں

قربانیوں کے فلسفے کی طرف توجہ

دلاتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’ظاہری نماز اور روزہ اگر اس کے ساتھ اخلاص اور صدق نہ ہو کوئی خوبی اپنے اندر نہیں رکھتا۔جوگی اور سنیاسی بھی اپنی جگہ بڑی بڑی ریاضتیں کرتے ہیں۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ان میں سے بعض اپنے ہاتھ تک سکھا دیتے ہیں۔‘‘ مستقل ایک جگہ ہاتھ کو کھڑا رکھ کے۔’’اور بڑی بڑی مشقتیں اٹھاتے اور اپنے آپ کو مشکلات اور مصائب میں ڈالتے ہیں لیکن یہ تکالیف ان کو کوئی نور نہیں بخشتیں اور نہ کوئی سکینت اور اطمینان ان کو ملتا ہے بلکہ اندرونی حالت ان کی خراب ہوتی ہے۔ وہ بدنی ریاضت کرتے ہیں جس کو اندر سے کم تعلق ہوتا ہے۔‘‘ یعنی روح سے اس کا کم تعلق ہوتا ہے ’’اور کوئی اثر ان کی روحانیت پر نہیں پڑتا۔ اسی لئے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ (الحج:38) یعنی اللہ تعالیٰ کو تمہاری قربانیوں کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تقویٰ پہنچتا ہے۔ حقیقت میں خدا تعالیٰ پوست کو پسند نہیں کرتا بلکہ وہ مغز چاہتاہے۔‘‘ صرف چھلکا اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔ باہر کا شیل (shell)اللہ کو پسند نہیں۔ اندر جو مغز ہے وہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔

’’اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اگر گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تقویٰ پہنچتا ہے تو پھر قربانی کرنے کی ضرورت کیا ہے؟‘‘

فرمایا ’’اور اس طرح نماز روزہ اگر روح کا ہے تو پھر ظاہر کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ کیا ضرورت ہے روزے رکھنے کی؟ کیا ضرورت ہے نمازیں پڑھنے کی؟ روح کو ہر وقت اللہ تعالیٰ کے آگے جھکائے رکھو۔ ’’اس کا جواب یہی ہے کہ یہ بالکل پکی بات ہے کہ جو لوگ جسم سے خدمت لینا چھوڑ دیتے ہیں ان کو روح نہیں مانتی اور اس میں وہ نیازمندی اور عبودیت پیدا نہیں ہو سکتی جو اصل مقصد ہے۔‘‘اگر جسم سے خدمت نہیں لو گے، جسم کو اس کی حالت میں نہیں ڈھالو گے تو پھر ایک وقت آتا ہے کہ روح اس کو انکار کر دیتی ہے۔ روح نہیں مانتی اور عبودیت نہیں پید اہوتی۔ ظاہری حرکات کا اثر بھی روح پر ہوتا ہے اور عبودیت کا صحیح ادراک پیدا ہوتا ہے۔ پھر دوسری بات بھی ہے کہ اگر صرف روح سے کام لیا اور جسم سے کام نہ لیا تو مقصد حاصل نہیں ہو گا، عبودیت پیدا نہیں ہو سکتی ’’اور جو صرف جسم سے کام لیتے ہیں روح کو اس میں شریک نہیں کرتے وہ بھی خطرناک غلطی میں مبتلا ہیں اور یہ جوگی اسی قسم کے ہیں۔‘‘ اگر صرف جسم کو ہی مشقت میں ڈالا ہے اور روح کا کوئی حصہ نہیں تو وہ بھی خطرناک بات ہے۔ فرمایا کہ ’’روح اور جسم کا باہم خدا تعالیٰ نے ایک تعلق رکھا ہوا ہے اور جسم کا اثر روح پر پڑتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد 4صفحہ 420تا 421 ایڈیشن 1984ء) ’’غرض جسمانی اور روحانی سلسلے دونو برابر چلتے ہیں۔ روح میں جب عاجزی پیدا ہو جاتی ہے پھر جسم میں بھی پیدا ہو جاتی ہے اس لئے جب روح میں واقع میں عاجزی اور نیاز مندی ہو تو جسم میں اس کے آثار خود بخود ظاہر ہو جاتے ہیں اور ایسا ہی جسم پر ایک الگ اثر پڑتا ہے تو روح بھی اس سے متاثر ہو ہی جاتی ہے۔‘‘(ملفوظات جلد 4صفحہ 421 ایڈیشن 1984ء) ظاہری عاجزی انسان دکھائے تو ایک وقت میں دل کے اندر بھی عاجزی پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہے۔

پس

یہ حکمت ظاہری قربانی اور ظاہری عمل کی ہے کہ روح اور جسم کا ساتھ ہے اور جسم کی ظاہری حرکات اور عمل کا اثر روح پر بھی پڑتا ہے۔

مثلاً انسان اگر زبردستی رونے کی کوشش کرے، رونی صورت بنائے تو بسا اوقات حقیقت میں رونا آ جاتا ہے اس لیے دعا کے فلسفے کے ضمن میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ رونی شکل بناؤ، اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی سے گڑگڑاؤ تو پھر دل کی بھی وہ کیفیت پیدا ہو جاتی ہے کہ انسان کی گڑگڑاہٹ جو ہے وہ دل سے نکلتی ہے پھرانسان اگر زبردستی رونے کی کوشش کرے رونی صورت بنائے تو حقیقت میں اس کو رونا آہی جاتا ہے۔ اسی طرح ہنسنے کی مثال ہے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 4صفحہ 421 ایڈیشن 1984ء)

پس اسلام میں ظاہری اعمال کا حکم بھی اس لیے ہے کہ ظاہری حالت کا اثر روح پر ہوتا ہے اور بعض دفعہ روح پر اثر کی وجہ سے ظاہر میں بھی جسمانی طور پر توجہ پیدا ہو جاتی ہے اور اپنے قویٰ سے انسان دوسروں کی مدد بھی کرتا ہے اور جیساکہ بیان ہو چکا ہے دوسروں کو مادی فائدہ اس کے علاوہ بھی پہنچتا ہے اور اس فائدے کی وجہ سے ان کے جذبات بھی اس شخص کے لیے ایسے نکلتے ہیں کہ جس سے وہ ان کے لیے دعا کرتا ہے۔ اس سے حقوق العباد کی ادائیگی کی وجہ سے معاشرے میں محبت اور پیار بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ پس

اسلام کے ہر حکم کے پیچھے ایک حکمت اور فلسفہ ہے۔

بعض لوگ لکھ دیتے ہیں کہ قربانیوں یا صرف صدقات جو جانوروں کی قربانیوں کی صورت میں ہوتے ہیں اس کا کیا فائدہ ہے؟ اس کی جگہ فلاں کام میں یہ رقم خرچ کر دی جاتی تو زیادہ بہتر تھا۔ ان میں سے اکثر وہ لوگ ہوتے ہیں جن کو کھانے پینے کی تنگی نہیں اس لیے انہیں ظاہری خوراک کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں۔ ان کو ان لوگوں کی حالت کا اندازہ ہی نہیں جن کو گوشت تو کیا عام کھانا بھی میسر نہیں۔ ہاں یہ بالکل ٹھیک ہے کہ صاحبِ حیثیت لوگ جہاں عید کی قربانی پر لاکھوں خرچ کرتے ہیں وہاں غریبوں کو دوسری ضروریات کے لیے بھی کچھ دیں اور ان کی ضروریات پوری کریں۔ بہرحال یہ باتیں اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب تقویٰ ہو، جب اللہ تعالیٰ کا خوف ہو، جب دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت ہو اور اس کی مخلوق کی محبت ہو جیساکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اس سوچ کے ساتھ قربانیوں کی روح کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے، ہمیں اپنے اندر تقویٰ پیدا کرتے ہوئے اپنی حالتوں کو خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہم خالص اللہ تعالیٰ کے ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ جلد ہمارے لیے مخالفین سے نجات کے سامان پیدا فرمائے اور ہماری قربانیوں کو قبول فرمائے۔ جن کو کسی وجہ سے توفیق نہیں ملی اللہ تعالیٰ ان کی نیتوں کے بھی انہیں اجر عطا فرمائے۔ مسلمانوں کو عقل اور سمجھ دے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کو سمجھتے ہوئے آپؐ کی غلامی میں آئے ہوئے مسیح موعود اور مہدی معہود کو ماننے والے ہوں۔

اسیران جو قید و بند کی صعوبتیں محض للہ برداشت کر رہے ہیں ان کی قربانیاں بھی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور جلد ان کی رہائی کے سامان بھی پیدا فرمائے۔ شہداء کے خاندانوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ ان کے باپ، بیٹوں، بھائیوں نے جو جان کی قربانیاں دی ہیں ان کے نتیجے میں ان کو قربانیوں کا ادراک دیتے ہوئے خدا تعالیٰ سے تعلق میں بڑھنے کی توفیق عطا فرمائے نہ کہ وہ دین سے دُور ہٹنے والے ہوں۔

دنیا میں فتنہ و فساد اور جنگوں کے خاتمہ کے لیے بھی دعا کریں۔

پاکستان میں احمدیوں کے لیے خاص طور پہ دعا کریں اور پاکستانی احمدیوں کو خود بھی اپنے لیے دعا کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مالی ،جانی اور جذباتی قربانیاں قبول فرمائے۔

برکینا فاسو کے احمدیوں کے لیے بھی دعا کریں۔

اللہ تعالیٰ وہاں بھی حالات بہتر کرے اور ان کے لیے آسانیاں پیدا کرے۔

بنگلہ دیش کے احمدیوں کے لیے بھی دعا کریں۔

اللہ تعالیٰ وہاں بھی حالات بہتر کرے۔

الجزائر کے احمدیوں کے لیے بھی دعا کریں

وہاں بھی اللہ تعالیٰ حکومت کو عقل دے اور وہ لوگ احمدیوں کے حق کو تسلیم کرنے والے ہوں۔

تمام دنیا کے احمدیوں کے لیے دعا کریں۔

اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنے فضل اور رحمت کی چادر میں ڈھانپ لے اور سب احمدی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا میں لہرانے اور توحید کے پھیلانے کے لیے ہمیشہ اپنے عہد کو پورا کرتے ہوئے ہر قربانی کے لیے تیار رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

(خطبہ ثانیہ ۔ دعا )

(خطبہ ثانیہ کے بعد حضورِ انور نے فرمایا: آپ سب کو بھی عید مبارک اور دنیا میں احمدیوں کو، سب کو عید مبارک ہو۔ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button