خطبہ عید

خطبہ عید الفطر فرمودہ مورخہ 16؍ جون 2018ء

بمطابق16؍احسان1397 ہجری شمسی بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن،لندن، یوکے

(اس خطبہ کا متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ-
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج عید کا دن ہمیں اس بات کی طرف توجہ دلانے اور یاد کروانے والا ہونا چاہئے کہ جن نیکیوںکے مزے ہم نے ایک مہینے میں چکھے ان کو ہم نے جاری رکھنا ہے۔ ان باتوں جن کی طرف عموماً ہماری رمضان کے مہینے میں توجہ رہتی ہے، ان میں عبادتیں بھی ہیں اور صدقات اور مالی قربانیاں اور حقوق العباد کا خیال رکھنا بھی ہے یہ باتیں اب اجتماعی طور پر ایک خاص ماحول کے تحت کرنے کا عرصہ تو ختم ہو گیا لیکن ایک مومن کی حقیقی ذمہ داری اور مقام یہی ہے کہ نیکیوں کو نہ صرف جاری رکھے بلکہ ان میں بڑھے۔ پس کل سے اس سال کے فرض روزوں کے دن تو ختم ہو گئے جن میں ہم نے بہت سی نفلی عبادتیں بھی کیں لیکن جن دوسری عبادتوں اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ ہوئی اسے ہمیں جاری رکھنا چاہئے۔ نوافل کی طرف توجہ ہوئی تو اسے جاری رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ نمازوں کی باقاعدگی کی طرف توجہ ہوئی تو اسے جاری رکھنا ہے۔ اپنے نفس پر کنٹرول کی ٹریننگ ہوئی تو اس پر قائم رہنے کی کوشش ہم نے کرنی ہے۔ ہمدردیٔ خلق کے جذبے کی طرف توجہ ہوئی تو اس پر اپنے آپ کو قائم رکھنا ہے۔ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہم کوشش کرتے ہیں کہ نماز باقاعدگی سے پڑھیں لیکن اگر وہ اپنے نفس کو ٹٹولیں تو یہ ان کے نفس کا دھوکہ ہے، وہ کوشش کرتے ہی نہیں۔ نماز کی ادائیگی کی ذمہ داری کو سمجھتے ہی نہیں۔ اگر سمجھتے ہوں تو کبھی کوشش ناکام ہو ہی نہیں سکتی۔ آخر رمضان کے مہینے میں عموماً بہتر صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ ان دنوں میں حقیقی کوشش ہوتی ہے، اٹھنے کا ارادہ ہوتا ہے عموماً سوائے اس کے کہ کوئی بہت ہی ڈھیٹ ہو اور اپنے ماحول کو دیکھ کر بھی شرم نہ آئے۔ رمضان میں سحری کی غرض سے بھی اور ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی بھی اٹھتے ہیں۔ سست ترین لوگ بھی جو ہیں وہ بھی عموماً فجر کی نماز وقت پر پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ حقیقی کوشش ہے جس کا نتیجہ نکلتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں۔ پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ جس کام کا ستر اسی فیصد نتیجہ نہیں نکلتا اس کے لئے صحیح رنگ میں ایک جذبے سے کوشش کی ہی نہیں گئی۔ پس آج ہمیں مصمم اور پکا ارادہ کرنا چاہئے کہ تمام نیکیوں کے بجا لانے کے لئے ہم حقیقی کوشش کریں گے۔ صرف اپنے نفس کے دھوکے میں نہیں آئیں گے کہ ہم کوشش کر رہے ہیں۔ جب یہ ہو گا تبھی ہماری عید حقیقی عید ہو گی۔ تبھی ہماری آج کی خوشی پورے سال کی خوشی پر محیط ہو گی۔ اور یہی عید کا حقیقی مقصد ہے۔ اگر یہ نہیں تو آج خاص طور پر تیار ہونا، اچھے کھانے کھانا اور دوستوں کو ملنا اور دوسرے پروگرام بنانا یہ تو بے مقصد ہے۔ اصل روح تو آج کی خوشیوں کے پیچھے یہ ہے کہ ایک مہینہ خاص طور پر اپنی تربیت کے لئے ہم اللہ تعالیٰ کے حکم سے بعض جائز کاموں سے رکیں اور خوشی سے اور قربانی کرتے ہوئے رکیں۔ آج ہم اللہ تعالیٰ کے حکموں سے ہی اس کی خوشی منا رہے ہیں کہ یہ ہم نے مہینہ گزارا لیکن ساتھ ہی ہم یہ بھی عہد کرتے ہیں کہ اس مہینے کی تربیت کی وجہ سے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی طرف ہم آئندہ بھی توجہ دیتے رہیں گے۔

پس یہ بات ہم میں سے ہر ایک کے ذہن میں اچھی طرح رہنی چاہئے کہ سال میں صرف ایک مہینہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر چلنے اور اس کا حق ادا کرنے سے ہماری زندگی کا مقصد پورا نہیں ہو گیا اور نہ ہی صرف ایک مہینہ حقوق العباد ادا کرنے سے ہمارا مقصد پورا ہو گیا بلکہ مقصد تب پورا ہو گا جب ہم ان باتوں کو دائمی کریں گے، ہمیشہ کے لئے کریں گے۔ اور جو سستیاں رمضان کے مہینے کی وجہ سے دور ہوئی ہیں ان کو اب ہمیشہ دور رکھیں گے۔ جن نیکیوں کے کرنے کی ہمیں توفیق ملی ہے انہیں ہم ہمیشہ کرتے چلے جائیں گے تا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں اور ہر دن ہمارے لئے عید کا دن بن جائے۔ ہر دن جو ہم پر طلوع ہو اللہ تعالیٰ کی رضا کا مورد بناتے ہوئے طلوع ہو۔ پس اگر ہم چاہتے ہیں تو ہمیں تقویٰ پر چلتے ہوئے ہمیشہ اپنی عبادتوں میں طاق اور باقاعدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ حقوق العباد کی طرف توجہ دیتے ہوئے غریبوں کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ رشتہ داروں اور قریبیوں سے حسن سلوک کی ضرورت ہے۔ اپنے دلوں کو انانیت سے پاک کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمدردیٔ خلق کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ میں آج ہمدردیٔ خلق اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف خاص طور پر اس عید کے حوالے سے توجہ دلانی چاہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے بندوں کا حق ادا کرنا بھی ایک عبادت ہے اور عبادت کے زمرے میں ہی آ جاتا ہے اور اس بات کا ادراک ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بڑا واضح کر کے دیا۔ پس آج ہم عید منا رہے ہیں۔ خاص طور پر ان ترقی یافتہ ملکوں میں رہنے والے احمدی اور اچھے حالات میں رہنے والے احمدی اس بات کا خیال رکھیں کہ دنیا میں بیشمار لوگ بہت برے حالات میں رہ رہے ہیں یہاں تک کہ ایک اندازے کے مطابق آٹھ سو پندرہ ملین لوگ بھوکے رہتے ہیں، ان کو کھانا نہیں ملتا۔ روزانہ ہر نو میں سے ایک شخص بھوکا سوتا ہے، بغیر کھانا کھائے سارا دن فاقے سے سوتا ہے۔ ہر تیسرا شخص خاص طور پر بچے خوراک کی کمی کا شکار ہیں یا مناسب غذا نہیں مل رہی۔ بلکہ یہ اعداد و شمار جو دئے جاتے ہیں میرے خیال میں صحیح نہیں ہیں اس سے بہت زیادہ لوگ بھوک کا شکار ہیں اور اب یہ عراق اور شام اور یمن لیبیا وغیرہ میں جنگ کی وجہ سے کئی لوگ خاص طور پر بچے خوراک اور علاج سے محروم ہیں اور یہ تعداد وہاں بڑھ رہی ہے۔ گزشتہ دنوں میں سوشل میڈیا پر ایک تصویر چل رہی تھی جس پر یہ لکھا ہوا تھا کہ ایک ڈاکٹر کسی بچے کو روٹی دے رہا ہے اور وہ بچہ ڈاکٹر کو کہہ رہا ہے کہ کیا کوئی ایسی دوائی تمہارے پاس ہے جس سے مجھے کبھی بھوک محسوس نہ ہو اور ڈاکٹر اس بچے کی یہ بات سن کر رو پڑا۔ تو یہ تصویر صحیح ہے یا غلط لیکن یہ حقیقت ہے کہ بھوک سے دنیا میں بچوں کا یہ حال ہے۔ لیکن جنگ کے جنونیوں کو اس کا کوئی خیال نہیں کہ بچوں کا کیا حال ہورہا ہے۔ بچے اپنے ماں باپ سے محروم کئے جا رہے ہیں اور نہ صرف محروم کئے جارہے ہیں بلکہ اس وجہ سے پھر فاقوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔

تو بہرحال ان حالات میں ہم پیٹ بھر کر کھانے والوں اور آج عید کے دن اچھا کھانے والوں کو یہ احساس بڑھ کر پیدا ہونا چاہئے کہ ہم ان لوگوں کا بھی خیال رکھیں۔ کھانا تو بڑی بات ہے دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کو پانی بھی وافر مقدار میں اور کھل کر پینے کے لئے نہیں ملتا اور جو ملتا ہے وہ اس قدر گندا ہوتا ہے کہ شاید ہم میں سے اکثر اسے دیکھنا بھی پسند نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اسی طرف توجہ دلاتے ہوئے اور مومنوں کی نشانی بتاتے ہوئے قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا۔ اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللہِ لَا نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآءً وَّلَا شُکُوْرًا۔(الدھر9-10)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کا تشریحی ترجمہ اس طرح فرمایا ہے کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ ’’حقیقی نیکی کرنے والوں کی یہ خصلت ہے کہ وہ محض خدا کی محبت کے لئے وہ کھانے جو آپ پسند کرتے ہیں مسکینوں اور یتیموں اور قیدیوں کو کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تم پر کوئی احسان نہیں کرتے بلکہ یہ کام صرف اس بات کے لئے کرتے ہیں کہ خدا ہم سے راضی ہو اور اس کے منہ کے لئے یہ خدمت ہے۔ ہم تم سے نہ تو کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ یہ چاہتے ہیں کہ تم ہمارا شکر کرتے پھرو۔‘‘
(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 357)

آپ نے اس بات کو بھی واضح فرمایا کہ پسندیدہ چیز کو خرچ کرنا نیکی ہے۔ بیکار اور نکمی چیز کا خرچ کرنے سے کوئی نیکی کرنے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ پس اپنی پسندیدہ چیز کو دینا، اپنے آپ کو تھوڑی سی تکلیف میں ڈال کر دوسرے کا خیال رکھنا یہ اصل نیکی ہے۔ پس قربانی کر کے غریبوں کا خیال رکھنا اور ان کی ضرورتیں پوری کرنا اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے، اس کے منہ کے صدقے، یہ بات پھر اللہ تعالیٰ کا قرب دلاتی ہے اور یہ عبادت بن جاتی ہے۔ یہ خدمت خلق جو ہے یہ عبادت بھی بن گئی اس طرح اگر اللہ کی خاطر کی جائے۔ لوگوں کو رمضان میں اپنی اپنی توفیق کے مطابق صدقات اور مدد کرنے کا خیال آتا ہے۔ یہ خیال سارا سال رہنا چاہئے صرف وقتی نہ ہو اور جب سارا سال یہ سوچ ہو اور غریبوں کا خیال اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہو تو پھر ہر روز عید کا دن بن کر خوشی پہنچاتا ہے۔ دنیا دار، دنیاوی حکومتیں، تنظیمیں جب اپنے منصوبے پر غریب ملکوں میں اپنے زعم میں، اپنے خیال میں ان کی مدد کے لئے اور ان کی بھوک مٹانے کے لئے کرتی ہیں تو جو لوگ خرچ کرتے ہیں اس کا تقریباً ستر یا اسی فیصد واپس اپنے اخراجات کے لئے لے لیتے ہیں۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے منہ کو وہ یہ کام نہیں کر رہے، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کام نہیں کر رہے۔ ان کے کام ان لوگوں کو اپنے زیر احسان رکھنے کے لئے ہوتے ہیں۔ پس یہ مومنوں کا ہی کام ہے کہ عبادت کے رنگ میں اسے بجا لاتے ہیں اور خوشیوں کے دن انہیں اس وقت حقیقی خوشی مہیا ہوتی ہے جب وہ دوسروں کا خیال رکھ رہے ہوں۔ جماعت کے نظام کے تحت غریب ملکوں میں یتیموں کے اخراجات، انہیں کھانا، کپڑا، تعلیم مہیا کرنے کا انتظام ہے۔ اچھے حالات میں رہنے والوں کو ان کا خیال رکھنا چاہئے اور ہر خوشی کے موقع پر غریبوں کا بھی حصہ نکالنا چاہئے۔

پھر مریضوں کا مفت علاج ہے اس پر جماعت خرچ کرتی ہے۔ پانی اور خوراک ضرورت مندوں کو مہیا کرنے کے لئے جماعت کا انتظام ہے۔ غریب طالب علموں کے اخراجات کے لئے انتظام ہے۔ پس اس کے لئے جہاں اپنے طور پر لوگ خرچ کرتے ہیں، ضرورت مندوں کو دیتے ہیں وہاں جماعتی نظام کے تحت بھی جو امداد طلباء یا امداد مریضان یا یتامیٰ فنڈ وغیرہ ہیں ان میں اپنی توفیق کے مطابق کچھ نہ کچھ ضرور دینا چاہئے۔ اسی طرح بعض ذیلی تنظیمیں کہہ لیں یا ذیلی طور پر جماعت کے تحت نظام چل رہا ہے، ایسوسی ایشنز ہیں، جن میں IAAAE کے نام سے انجینئرز ایسوسی ایشن ہے، یہ پانی وغیرہ مہیا کرتی ہیں۔ افریقہ کے بہت سے ملکوں میں انہوں نے نلکے لگائے، سولر پمپ وغیرہ لگائے، ہینڈ پمپ لگائے۔ جب گندہ پانی پینے والوں کو صاف پینے کا پانی ملتا ہے اور ان کے گھروں کے سامنے ملتا ہے تو ان کی خوشی دیکھنے والی ہوتی ہے۔ہم میں سے بہت سے ہیں اپنے بچوں کو کوئی پسند کا کپڑا یا کھلونا لے کر دیتے ہیں تو جو خوشی ان بچوں کے چہروں پر ہوتی ہے اس سے کہیں زیادہ خوشی میں نے ان دور دراز رہنے والے غریب بچوں کے چہروں پر دیکھی ہے جنہیں اپنے گھر کے دروازے کے قریب پینے کا صاف پانی مل گیا۔

اسی طرح ہیومینٹی فرسٹ بھی مختلف قسم کے خدمت خلق کے کام کر رہی ہے جن میں خوراک، پانی، تعلیم، علاج اور دوسرے کام یا زلزلوں اور طوفانوں وغیرہ میں ہنگامی کام کرنا شامل ہے۔ ہیومینٹی فرسٹ میں بھی جماعت کے افراد ایک جذبے سے کام کرتے ہیں اور وہی کام جو دوسری تنظیمیں لاکھوں خرچ کر کے کرتی ہیں یہ ہزاروں میں کر دیتے ہیں۔ ہمارے والنٹیئرز وہاں جاتے ہیں۔ پس جماعت کا ایک حصہ مالی لحاظ سے بھی اور افرادی قوت کے لحاظ سے بھی رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کر کے یہ کام کرتا ہے۔ دوسروں کو بھی چاہئے، بہت سے ایسے ہیں جو اس کار خیر میں حصہ نہیں لیتے ان کو بھی چاہئے کہ جیسا کہ میں نے کہا اپنی خوشی کے موقع پر نیک کاموں میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے حصہ لیں اور حقیقت میں اس سے جو خوشی آپ کو اس کی عادت پڑ جانے کے بعد ہو گی وہ ان عارضی خوشیوں سے کہیں زیادہ ہو گی۔ اسی طرح اپنے بچوں میں بھی یہ عادت ڈالیں کہ جو اُن کے بڑے انہیں عید کے روز عیدی دیتے ہیں اس میں سے کچھ نہ کچھ دنیا کے غریب بچوںکے لئے بھی دیں۔ یہ ابھی سے بچوں کو عادت ڈالیں گے تو یہ عادت مستقبل میں ان کو جہاں خدمت خلق اور خرچ کرنے والا بنائے گی، لوگوں سے ہمدردی کرنے والا بنائے گی وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل کا حامل بناتے ہوئے ان کی زندگی کی مشکلات میں ان مشکلات سے بچانے والا بھی بنائے گی۔ نیکیوں پر قائم رہنے والے ہوں گے۔ پس یہ جاگ اگلی نسلوں میںبھی لگتی چلی جانی چاہئے اور یہی عید کی حقیقی خوشیاں ہیں۔ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بار بار اس طرف توجہ دلائی ہے کہ حقوق العباد اور ایک دوسرے کے لئے نیک جذبات رکھنا کس قدر ضروری ہے چنانچہ ایک موقع پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

’’شریعت کے دو ہی بڑے حصّے اور پہلو ہیں جن کی حفاظت انسان کو ضروری ہے۔ ایک حق اللہ، دوسرے حق العباد۔ حق اللہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت، اس کی اطاعت، عبادت، توحید، ذات اور صفات میں کسی دوسری ہستی کو شریک نہ کرنا۔‘‘ یہ تو حق اللہ ہو گیا کہ اس کی عبادت کی جائے، اللہ تعالیٰ سے محبت کی جائے، اس کی توحید کا اقرار کیا جائے اور نہ صرف اقرار کیا جائے بلکہ ہمارے ہر عمل سے اس کی توحید کا اظہار ہو رہا ہو اور اس کی ذات میں جتنی صفات ہیں یہ یقین رکھا جائے کہ کوئی اس کا شریک نہیں ہو سکتا اور دوسری بات فرمایا ’’اور حق العباد یہ ہے کہ اپنے بھائیوں سے تکبر، خیانت اور ظلم کسی نوع کا نہ کیا جاوے۔ گو یا اخلاقی حصہ میں کسی قسم کا فتور نہ ہو۔‘‘ آپ فرماتے ہیں کہ ’’سننے میں تو یہ دو ہی فقرے ہیں لیکن عمل کرنے میں بہت ہی مشکل ہیں۔‘‘

فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ کا بڑا ہی فضل انسان پر ہو تو وہ ان دونوں پہلوئوں پر قائم ہو سکتاہے‘‘۔ پس اللہ تعالیٰ کا فضل ہمیں تلاش کرنا چاہئے اور کوئی اس سے محروم نہ ہو۔ فرماتے ہیں کہ دنیا میں ہم کیا دیکھتے ہیں کہ ’’کسی میں قوتِ غضبی بڑھی ہوئی ہوتی ہے۔‘‘ غصہ بڑی جلدی اس کو آجاتا ہے، ’’جب وہ جوش مارتی ہے تو نہ اس کا دل پاک رہ سکتا ہے اور نہ زبان۔ دل سے اپنے بھائی کے خلاف ناپاک منصوبے کرتا ہے اور زبان سے گالی دیتا ہے۔‘‘

آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’…پس دن رات یہی کوشش ہونی چاہئے کہ بعد اس کے جو انسان سچا موحد ہو اپنے اخلاق کو درست کرے۔‘‘ توحید پر قائم رہنے کے بعدضروری ہے کہ اپنے اخلاق درست کرو۔

آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’…میں دیکھتا ہوں کہ بہت سے ہیں جن میں اپنے بھائیوں کے لئے کچھ بھی ہمدردی نہیں۔ اگر ایک بھائی بھوکا مرتا ہو تو دوسرا توجہ نہیں کرتا اور اس کی خبر گیری کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ یا اگر وہ کسی اَور قسم کی مشکلات میں ہے تو اتنا نہیں کرتے کہ اس کے لئے اپنے مال کا کوئی حصہ خرچ کریں۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’حدیث شریف میں ہمسایہ کی خبرگیری اور اس کے ساتھ ہمدردی کا حکم آیا ہے۔ بلکہ یہاں تک بھی ہے کہ اگر تم گوشت پکاؤ تو شوربا زیادہ کر لو تا کہ اُسے بھی دے سکو۔ اب کیا ہوتا ہے اپنا ہی پیٹ پالتے ہیں۔ لیکن اس کی کچھ پروا نہیں۔ یہ مت سمجھو کہ ہمسایہ سے اتنا ہی مطلب ہے جو گھر کے پاس رہتا ہو۔ بلکہ جو تمہارے بھائی ہیں وہ بھی ہمسایہ ہی ہیں خواہ وہ سو کوس کے فاصلے پر بھی ہوں۔‘‘ تو یہ معیار ہیں ایک مومن کے کہ کس طرح اس کو ہمدردی کرنی چاہئے، کس طرح اس کو دوسروں کو کھانا کھلانے کے لئے ایک کوشش اور توجہ کرنی چاہئے۔

پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’ہر شخص کو ہر روز اپنا مطالعہ کرنا چاہئے کہ وہ کہاں تک ان امور کی پروا کرتا ہے اور کہاں تک وہ اپنے بھائیوں سے ہمدردی اور سلوک کرتا ہے۔ اس کا بڑا بھاری مطالبہ انسان کے ذمہ ہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’حدیث صحیح میں آیا ہے کہ قیامت کے روز خدا تعالیٰ کہے گا کہ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا نہ کھلایا۔ میں پیاسا تھا اور تُو نے مجھے پانی نہ دیا۔ مَیں بیمار تھا۔ تم نے میری عیادت نہ کی۔ جن لوگوں سے یہ سوال ہو گا وہ کہیں گے کہ اے ہمارے ربّ تو کب بھوکا تھا جو ہم نے کھانا نہ دیا۔ تو کب پیاسا تھا جو پانی نہ دیا اور تو کب بیمار تھا جو تیری عیادت نہ کی۔ پھر خدا تعالیٰ فرمائے گا کہ میرا فلاں بندہ جو ہے وہ ان باتوں کا محتاج تھا مگر تم نے اس کی کوئی ہمدردی نہ کی۔ اس کی ہمدردی میری ہی ہمدردی تھی۔ ایسا ہی ایک اَور جماعت کو کہے گا کہ شاباش! تم نے میری ہمدردی کی۔ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا۔ میں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی پلایا وغیرہ۔ وہ جماعت عرض کرے گی کہ اے ہمارے خدا ہم نے کب تیرے ساتھ ایسا کیا؟ تب اللہ تعالیٰ جواب دے گا کہ میرے فلاں بندہ کے ساتھ جو تم نے ہمدردی کی وہ میری ہی ہمدردی تھی۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’دراصل خدا تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی کرنا بہت ہی بڑی بات ہے اور خدا تعالیٰ اس کو بہت پسند کرتا ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا کہ وہ اس سے اپنی ہمدردی…‘‘ یعنی اپنے بندے سے ہمدردی یا غریب سے ہمدردی ’’…اپنی ہمدردی ظاہر کرتا ہے۔‘‘ یعنی ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی نے اللہ تعالیٰ سے ہمدردی کی۔ ایک مثال دیتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ ’’عام طور پر دنیا میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص کا خادم کسی اس کے دوست کے پاس جاوے اور وہ شخص اس کی خبر بھی نہ لے تو کیا وہ آقا جس کا کہ وہ خادم ہے اس اپنے دوست سے خوش ہو گا؟‘‘ کوئی شخص یہاں تک کہ اگر کوئی مالک کا نوکر بھی کسی دوسرے کے پاس جاتا ہے جو اس کا دوست ہے اور وہ دوست اس نوکر کی خبر نہ لے تو اس نوکر کی وجہ سے بھی نوکر کا مالک جو ہے وہ اپنے دوست سے خوش نہیں ہوتا۔ تو کہتے ہیں کبھی خوش ہو گا وہ؟ ’’کبھی نہیں۔ حالانکہ اس کو تو کوئی تکلیف اس نے نہیں دی۔ مگر نہیں۔ اس نوکر کی خدمت اور اس کے ساتھ حسن سلوک گویا مالک کے ساتھ حسن سلوک ہے۔ خداتعالیٰ کو بھی اس طرح پر اس بات کی چِڑ ہے کہ کوئی اس کی مخلوق سے سردمہری برتے۔‘‘ اللہ تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی اس کی مخلوق سے سردمہری برتے، ان کا خیال نہ رکھے، ان کی ضرورت کے وقت ان کے کام نہ آئے فرمایا ’’کیونکہ اس کو اپنی مخلوق بہت پیاری ہے۔ پس جو شخص خدا تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی کرتا ہے وہ گویا اپنے خدا کو راضی کرتا ہے‘‘۔

پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’غرض اخلاق ہی ساری ترقیات کا زینہ ہے۔ میری دانست میں یہی پہلو حقوق العباد کا ہے جو حقوق اللہ کے پہلو کو تقویت دیتا ہے۔‘‘ ہمدردی کا، حقوق العباد کا یہ پہلو جو ہے یہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے حق کو بھی مضبوط کرتا ہے۔ اللہ کے بندوں سے مضبوط تعلق پیدا کرو گے تو پھر اللہ تعالیٰ سے بھی مضبوط تعلق پیدا ہو جائے گا۔ فرماتے ہیں ’’جو شخص نوع انسان کے ساتھ اخلاق سے پیش آتا ہے خدا تعالیٰ اس کے ایمان کو ضائع نہیں کرتا۔ جب انسان خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ایک کام کرتا ہے اور اپنے ضعیف بھائی کی ہمدردی کرتا ہے تو اس اخلاص سے اس کا ایمان قوی ہو جاتا ہے۔ مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ نمائش اور نمود کے لئے جو اخلاق برتے جائیں وہ اخلاق خدا تعالیٰ کے لئے نہیں ہوتے اور ان میں اخلاص کے نہ ہونے کی وجہ سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ ‘‘

پس قربانیاں بھی چندے بھی خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے دینے چاہئیں۔ ہمارے ہاں رواج ہے رمضان میں دعا کے لئے لسٹیں بنتی ہیں، دعا حاصل کرنے کے لئے بیشک یہ ہوں لیکن نام کے اظہار کے لئے نہ ہوں۔ آپ فرماتے ہیں ’’اس طرح پر تو بہت سے لوگ سرائیں وغیرہ بنادیتے ہیں۔ ان کی اصل غرض شہرت ہوتی ہے۔‘‘ مسافروں کے لئے سرائے بناتے ہیں، رہنے کی جگہ بناتے ہیں، مفت رہائش کا انتظام کر دیتے ہیں ان کے پاس پیسہ ہوتا ہے، پانی وغیرہ مہیا کرنے کا انتظام کر دیتے ہیں لیکن ان کی غرض کیا ہوتی ہے؟ فرمایا کہ ’’شہرت ہوتی ہے…‘‘ خدا کے منہ کو نہیں کرتے جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ اکثر امیر ملک اپنی اغراض کے لئے غریبوں کی مدد کر رہے ہوتے ہیں۔ پھرآپ فرماتے ہیں کہ ’’…اگر انسان خدا تعالیٰ کے لئے کوئی فعل کرے تو خواہ وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو اللہ تعالیٰ اسے ضائع نہیں کرتا اور اس کا بدلہ دیتا ہے۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’مَیں نے تذکرۃ الاولیاء میں پڑھا ہے کہ ایک ولی اللہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ بارش ہوئی اور کئی روز تک رہی۔ ان بارش کے دنوں میں مَیں نے دیکھا کہ ایک اسّی برس کا بوڑھا گبّر (آتش پرست انسان) ہے جو کوٹھے پر چڑیوں کے لئے دانے ڈال رہا ہے۔ مَیں نے اس خیال سے کہ (یہ کافر ہے اور) کافر کے اعمال حبط ہو جاتے ہیں (ختم ہو جاتے ہیں) اس سے کہا کہ کیا تیرے اس عمل سے تجھے کچھ ثواب ہو گا؟‘‘ ان ولی اللہ نے اس کافر سے، آتش پرست سے پوچھا۔ ’’اس گبر نے جواب دیا کہ ہاں ضرور ہو گا۔ پھر وہی ولی اللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ جو مَیں حج کو گیا تو دیکھا کہ وہی گبر طواف کر رہا ہے۔ اس گبر نے مجھے پہچان لیا اور کہا کہ دیکھو ان دانوں کا مجھے ثواب مل گیا یا نہیں؟ یعنی وہی دانے (جو میں پرندوں کو ڈالا کرتا تھا) میرے اسلام تک لانے کاموجب ہو گئے‘‘۔ اس آتش پرست نے اس نیکی کو دنیا کے فائدے کا ذریعہ نہیں سمجھا بلکہ اس بات پر خوش ہوا کہ اس کی وہ نیکی اسے اسلام قبول کرنے کا اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ بنانے والی بنی۔

مسجد بیت الفتوح مورڈن۔ یو کے میں عید الفطرکا اجتماع (16؍ جون 2018ء)

پھر آپ فرماتے ہیںکہ ’’حدیث میں بھی ذکر آیا ہے کہ ایک صحابیؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ایام جاہلیت میں مَیں نے بہت خرچ کیا تھا۔‘‘ میں خرچ کیا کرتا تھا، بے نفس ہو کر خرچ کیا کرتا تھا، ہمدردی خلق کے لئے۔ ’’کیا اس کا ثواب بھی مجھے ہو گا؟۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جواب دیا کہ یہ اسی صدقہ و خیرات کا ثمرہ تو ہے کہ تو مسلمان ہو گیا ہے۔‘‘ وہی پھل تو تم کھا رہے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اس نیکی کو قبول کرتے ہوئے تمہیں مسلمان ہونے کی توفیق دی۔ فرماتے ہیں کہ ’’اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کسی کے ادنیٰ فعل اخلاص کو بھی ضائع نہیں کرتا۔ اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مخلوق کی ہمدردی اور خبر گیری حقوق اللہ کی حفاظت کا باعث ہوجاتی ہے۔‘‘ یہ سوچ ہونی چاہئے کہ ہم نے نیکی دنیاوی فائدے کے لئے نہیں کرنی بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کرنی ہے اور پھر یہ اللہ تعالیٰ کے حق کی حفاظت کا بھی ذریعہ بن جاتی ہے۔

پس فرماتے ہیں کہ ’’پس مخلوق کی ہمدردی ایک ایسی شَےہے کہ اگر انسان اُسے چھوڑ دے اور اس سے دور ہوتا جاوے تو رفتہ رفتہ پھر وہ درندہ ہو جاتا ہے۔ انسان کی انسانیت کا یہی تقاضا ہے اور وہ اسی وقت تک انسان ہے جب تک اپنے دوسرے بھائی کے ساتھ مروّت، سلوک اور احسان سے کام لیتا ہے اور اس میں کسی قسم کی تفریق نہیں ہے۔ جیسا کہ سعدی نے کہا ہے : ؎

بنی آدم اعضائے یک دیگراند‘‘

کہ بنی آدم ایک دوسرے کے اعضاء ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’یاد رکھو ہمدردی کا دائرہ میرے نزدیک بہت وسیع ہے۔ کسی قوم اور فرد کو الگ نہ کرے‘‘۔ یہ نہیں ہے کہ کسی خاص قوم کے لئے ہمدردی کرنی ہے بلکہ ہر ایک سے ہمدردی کرنی ہے کسی کو الگ نہیں کرنا۔ ’’مَیں آج کل کے جاہلوں کی طرح یہ نہیں کہنا چاہتا کہ تم اپنی ہمدردی کو صرف مسلمانوں سے ہی مخصوص کرو ۔ نہیں۔ مَیں کہتا ہوں کہ تم خدا تعالیٰ کی ساری مخلوق سے ہمدردی کرو خواہ وہ کوئی ہو۔ ہندو ہو یا مسلمان یا کوئی اَور۔ میں کبھی ایسے لوگوں کی باتیں پسند نہیں کرتا جو ہمدردی کو صرف اپنی ہی قوم سے مخصوص کرنا چاہتے ہیں۔ان میں بعض اس قسم کے خیالات بھی رکھتے ہیں‘‘ یعنی کہ آپ ایسے لوگوںکی مثال دے رہے ہیں کہ بعض لوگ ایسے ہیں، ایسے خیالات رکھتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں ’’کہ اگر ایک شیرے کے مٹکے میں‘‘ جو چینی کا گاڑھا سیرپ ہے اس کے مٹکے میں ہاتھ ڈالو اور پھر اس کو تِلوں کی بوری میں ڈالو تو جس قدر تل لگ جائیں اس قدر دھوکا اور فریب دوسرے لوگوں کو دے سکتے ہیں یعنی کہ یہ غیروں نے اپنی ایک مثال بنائی ہوئی ہے جھوٹ بھولنے کے لئے اور دھوکہ دینے کے لئے اپنی justification رکھی ہوئی ہے کہ اتنی حد تک اجازت ہے کہ شیرے میں ہاتھ ڈالو اس کے بعد تِلوں میں ہاتھ ڈالو، جتنے تِل لگ جائیں اور وہ بیشمار لگ جائیں گے اتنا تم دھوکہ دوسروں کو دے سکتے ہو۔ تو یہ ان لوگوں کا حال ہے جنہوں نے اسلام کی تعلیم کو بگاڑ دیا ہے۔ ہم پر اللہ تعالیٰ کا کتنا احسان ہے کہ حقیقی اسلام کی طرف ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے رہنمائی ملی ہے۔

فرماتے ہیں کہ ’’ان کی ایسی بیہودہ اور خیالی باتوں نے بہت بڑا نقصان پہنچایا ہے اور اُن کو قریباً وحشی اور درندہ بنا دیا ہے۔ مگر مَیں تمہیں بار بار یہی نصیحت کرتا ہوں کہ تم ہرگز ہرگز اپنی ہمدردی کے دائرہ کو محدود نہ کرو۔ اور ہمدردی کے لئے اس تعلیم کی پیروی کرو جو اللہ تعالیٰ نے دی ہے یعنی اِنَّ اللہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَأِیْتَایِٔ ذِی الْقُرْبیٰ۔ یعنی اوّل نیکی کرنے میں تم عدل کو ملحوظ رکھو۔ جو شخص تم سے نیکی کرے تم بھی اس کے ساتھ نیکی کرو۔

اور پھر دوسرا درجہ یہ ہے کہ تم اس سے بھی بڑھ کر اس سے سلوک کرو۔ یہ احسان ہے۔ احسان کا درجہ اگرچہ عدل سے بڑھا ہوا ہے اور یہ بڑی بھاری نیکی ہے لیکن کبھی نہ کبھی ممکن ہے احسان والا اپنا احسان جتلاوے مگر ان سب سے بڑھ کر ایک درجہ ہے کہ انسان ایسے طور پر نیکی کرے جو محبت ذاتی کے رنگ میں ہو‘‘ وہ ایسی نیکی ہو جس سے ذاتی محبت کا اظہار ہوتا ہو ’’جس میں احسان نمائی کا بھی کوئی حصہ نہیں ہوتا ہے‘‘ کوئی احسان جتانا نہیں ’’جیسے ماں اپنے بچہ کی پرورش کرتی ہے وہ اس پرورش میں کسی اجر اور صلے کی خواستگار نہیں ہوتی بلکہ ایک طبعی جوش ہوتا ہے جو بچے کے لئے اپنے سارے سُکھ اور آرام قربان کر دیتی ہے۔‘‘ بے نفس ہو کے ماں بچے کی خدمت کرتی ہے۔ اب یہ تیسرے درجہ کی جو نیکی ہے کہ ایسی خدمت کرنا جو ایتاء ذی القربی ہے اور سب سے زیادہ اس کی بڑی مثال ماں کی ہے جو بچے کے لئے کرتی ہے، ایک دنیا دار میں یہ نیکی پیدا ہو ہی نہیں سکتی۔ یہ احسان تک تو رہتے ہیں اور احسان تک بھی جب رہتے ہیں تو پھر احسان جتاتے بھی ہیں۔ اگر غریب حکومتیں ان کے مقاصد پورے نہ کریں یا غریب ملکوں کی حکومتیں مقاصد پورے نہ کریں تو جو منصوبے انہوں نے اُن ملکوں میں غریبوں کی بہتری کے لئے شروع کئے ہوتے ہیں اُن سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں بلکہ ان کی جان کے درپَے ہو جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بعض مسلمان ممالک بمباری کا نشانہ بنائے جارہے ہیں۔ بلکہ بڑی اسلامی مملکتیں بھی یہی کام کر رہی ہیں اور یمن اسی بات سے نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ ایک بڑے اسلامی ملک سعودی عرب کی پالیسیوں کی انہوں نے پوری طرح اطاعت نہیں کی، اس لئے ان کے غریبوں کو بھی مارو ان کے معصوم بچوں کو بھی مارو، ان کی عورتوں کو بھی مارو، ان کے بوڑھوں کو بھی مارو اور ہر شہری کو جو امن پسند ہے اس کو مار دو۔ تو جب یہ سوچ ہوتی ہے تو پھر خدا نہیں ملتا۔ یہ کام نہ اللہ تعالیٰ کی نہ رضا کے لئے ہوتا ہے نہ اس سے اللہ تعالیٰ ملتا ہے۔ پس آج احمدی ہیں جن کو ایک تو بے نفس ہو کر کام کرنا چاہئے دوسرے یہ دعا بھی کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان ظالموں کے ہاتھوں کو بھی روکے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ ’’…پس اس طریق پر نیکی ہو کہ اسے طبعی مرتبہ تک پہنچایا جاوے کیونکہ جب کوئی شَے ترقی کرتے کرتے اپنے طبعی کمال تک پہنچ جاتی ہے اس وقت وہ کامل ہوتی ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد 7 صفحہ 278تا 284۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

اس کی مزید وضاحت یہ بھی دوسری جگہ کہ ’’طبعی جوش سے نوع انسان کی ہمدردی کا نام ایتاء ذی القربیٰ ہے اور اس ترتیب سے خدا تعالیٰ کا یہ منشا ہے کہ اگر تم پورا نیک بننا چاہتے ہو تو اپنی نیکی کو ایتاءِ ذی القربیٰ یعنی طبعی درجہ تک پہنچاؤ۔ جب تک کوئی شے ترقی کرتی کرتی اپنے اس طبعی مرکز تک نہیں پہنچتی تب تک وہ کمال کا درجہ حاصل نہیں کرتی‘‘۔

(ملفوظات جلد 7 صفحہ 283 حاشیہ۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ نیکی کو بہت پسند کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اس کی مخلوق سے ہمدردی کی جاوے۔ اگر وہ بدی کو پسند کرتا تو بدی کی تاکید کرتا مگر اللہ تعالیٰ کی شان اس سے پاک ہے۔ (سبحانہ تعالیٰ شانہ (‘‘

(ملفوظات جلد 7 صفحہ 284۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اعلیٰ معیار اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتے ہوئے نیکیاں بجا لانے والے ہوں۔ بندوں کے حق ادا کرنے والے ہوں۔ انسانیت کی خدمت کرنے والے ہوں تا کہ عید کی حقیقی خوشیاں ہمیں ہمیشہ حاصل ہوتی رہیں۔

اب ہم دعا کریں گے۔ دعا میں اپنے غریب، ضرورت مند، لاچار بھائیوں کو یاد رکھیں۔ جو لوگ بے نفس ہوکر حقوق العباد کی ادائیگی کر رہے ہیں انہیں بھی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ تمام واقفین زندگی کو دعا میں یاد رکھیں۔ جماعت کی خدمت کرنے والوں کو کسی بھی رنگ میں جو خدمت کر رہے ہیں ان کو دعا میں یاد رکھیں۔ جماعت کے کام کو وسعت دینے کے لئے مالی قربانیاں کرنے والوں کو دعا میں یاد رکھیں۔ امت مسلمہ کے لئے بہت دعا کریں کہ آپس میں ایک دوسرے کے خون کرنے سے اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھ روکے۔ رمضان میں بھی بمباری کر کے، انہوں نے پچھلے دنوں یمن میں کئی بچوں کو یتیم کر دیا، کئی عورتوں کو بیوہ کر دیا، کئی لوگوں کو اپاہج بنادیا۔ بلاامتیاز ظالمانہ طور پر عورتوں بچوں اور بوڑھوں کی زندگیوں کا خاتمہ کر دیا۔ اللہ تعالیٰ ان ظالموں کے ہاتھوں کو روکے۔ پاکستان کے احمدیوں کے لئے بھی دعا کریں ان پر ہر روز زمین تنگ کی جا رہی ہے۔ انڈونیشیا کے احمدیوں کے لئے دعا کریں ان میں بھی بعض علاقوں میں پچھلے دنوں میں ظلم ہوئے ہیں۔ اسی طرح الجزائر کے احمدیوں کے لئے دعا کریں ان پر بھی حکومت کی طرف سے مقدمے بنائے جا رہے ہیں اور پھر سزائیں بھی دی جارہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو ان لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے اور ان کے لئے عید بھی حقیقی عید ہو، حقیقی خوشیاں ان کو پہنچیں ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button