خطبہ عید

خطبہ عیدالفطر سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ۲۲؍ اپریل ۲۰۲۳ء

اللہ تعالیٰ یہ عید ہم سب کے لیے مبارک فرمائے۔ آپ سب کو اس عید کی مبارک ہو

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص محض للہ دونوں عیدوں کی راتوں میں عبادت کرے گا

تو اس کا دل ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیا جائے گا اور اس کا دل اس وقت بھی نہیں مرے گا جب سب دنیا کے دل مر جائیں گے

اللہ تعالیٰ کرے کہ آج کے دن جب ہم اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق عید منا رہے ہیں تو سال کے باقی دنوں میں بھی اپنی اس حالت کو جاری رکھنے کا عہد کریں اور اپنی عبادتوں کے معیاروں کو بھی اس طرح قائم کرنے کی کوشش کریں

جس طرح اللہ تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے اور جس کی تعلیم ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے دی قربانی کر کے، اپنا خرچ کم کر کے دوسروں کی مدد کرنا یقیناً اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرتا ہے

جماعت میں ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنے والی مدات یتامیٰ فنڈ، شادی فنڈ،امداد مریضان و دیگر میں ادائیگی کرنے کی تحریک

عید کے پُر مسرّت موقع پر حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کی تلقین

آیاتِ قرآنیہ، آنحضرتﷺ اور حضرت مسیح موعودؑ کے ارشادات کی روشنی میں والدین، رحمی رشتہ داروں اور قریبیوں، یتامیٰ، ہمسایوں اور اپنے ساتھیوں کے حقوق ادا کرنے اور ان سے احسان کا سلوک روا رکھنے کی نصیحت

عمومی طور پر تمام انسانیت، خصوصاًسوڈان کے فاقہ زدہ عوام، عالمگیر جماعتِ احمدیہ، اسیرانِ راہِ مولیٰ، شہدائے احمدیت کے خاندانوں، بیماروں، مریضوں، ضرورت مندوں، دنیا سے ہر قسم کی بے حیائی اور شرک کے ختم ہونے نیز عالمِ اسلام کے لیے دعاؤں کی تحریک

جب عالم اسلام ایک ہو جائے گا تو یہی ہماری حقیقی عید ہو گی، یہی عالم اسلام کی حقیقی عید ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ یہ نظارہ ہم دیکھنے والے ہوں

اللہ تعالیٰ خدائے واحد و یگانہ کی حکومت دنیامیں قائم کرے کیونکہ یہی ایک ذریعہ ہے جس سے دنیا کو خوشیاں نصیب ہو سکتی ہیں

خطبہ عیدالفطر سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ۲۲؍ اپریل ۲۰۲۳ء بمطابق ۲۲؍ شہادت ۱۴۰۲ ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

وَاعۡبُدُوا اللّٰہَ وَلَا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّبِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّبِذِی الۡقُرۡبٰی وَالۡیَتٰمٰی وَالۡمَسٰکِیۡنِ وَالۡجَارِ ذِی الۡقُرۡبٰی وَالۡجَارِ الۡجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالۡجَنۡۢبِ وَابۡنِ السَّبِیۡلِ ۙ وَمَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرًا (النساء:37)اللہ تعالیٰ کا شکر اور احسان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک اَور رمضان سے گزرنے کی توفیق دی۔ بہت سے ایسے ہوں گے جن کو اللہ تعالیٰ نے بہتر رنگ میں عبادت کی بھی توفیق دی ہو گی۔ بہت سے ایسے ہوں گے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے افضال کے نظارے دیکھے ہوں گے۔ پس اللہ تعالیٰ کا بہت احسان ہے کہ ہم میں سے بہتوں کو ان تیس دنوں میں اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی بہتر رنگ میں توفیق ملی۔

اللہ تعالیٰ کرے کہ آج کے دن جب ہم اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق عید منا رہے ہیں تو سال کے باقی دنوں میں بھی اپنی اس حالت کو جاری رکھنے کا عہد کریں اور اپنی عبادتوں کے معیاروں کو بھی اس طرح قائم کرنے کی کوشش کریں جس طرح اللہ تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے اور جس کی تعلیم ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے دی

جس کا ذکر میں نے کل کے خطبہ میں بھی کیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں حقوق العباد کے ان معیاروں کو بھی حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جس کے بارے میں قرآن کریم نے ہمیں توجہ دلائی اور تلقین کی گئی ہے۔ اگر ہم اس طرح اپنی زندگی گزارنے والے بن جائیں گے تو وہی ہماری حقیقی عید ہو گی۔

اللہ تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ ایک دوسرے کے حق ادا کرنے والا معاشرہ ہی وہ معاشرہ ہے، وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے ہیں

اور جب یہ ہو تو پھر یہ معاشرہ جنت نظیر بن جاتا ہے اور حقیقی خوشی کا سامان پیدا کرتا ہے۔ پس ہم میں سے ہر ایک کو اس سوچ کے ساتھ اور اپنے عملوں میں یہ تبدیلی پیدا کرتے ہوئے اپنی زندگیاں گزارنے کی کوشش کرنی چاہیے تا کہ عید کی برکات ہمیں ہر لمحہ اور سارا سال پہنچتی رہیں۔

جیسا کہ میں نے کہا کہ نمازوں اور عبادت کے بارے میں کل کافی تفصیل سے میں نے بتایا تھا

آج اللہ تعالیٰ کے دوسرے حکم یعنی حقوق العباد کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق بعض باتیں کروں گا۔

لیکن ایک بات عبادت کے حوالے سے پہلے کرنا چاہتا ہوں، کل نہیں کر سکا ،جس کا عید کی رات کے ساتھ خاص تعلق ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص محض للہ دونوں عیدوں کی راتوں میں عبادت کرے گا تو اس کا دل ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیا جائے گا اور اس کا دل اس وقت بھی نہیں مرے گا جب سب دنیا کے دل مر جائیں گے۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الصیام باب فیمن قام لیلتی العیدین حدیث 1782)

پس یہ بات ہمیں ہمیشہ سامنے رکھنی چاہیے کہ عید کی خوشیاں اور پروگرام ہمیں اس حد تک اپنے اندر نہ ڈبو لیں کہ ہم بھول جائیں کہ اللہ تعالیٰ کا حق بھی ہم نے ادا کرنا ہے۔ اپنی عاقبت کی بھی ہم نے فکر کرنی ہے۔

یہ دنیا ہی صرف ہمارا مطلوب و مقصود نہیں ہے بلکہ عید کے دن آنے والی رات بھی اور بعد کی راتیں بھی ہمیں اللہ تعالیٰ کی عبادت سے غافل نہیں کریں گی۔

اور جب اس پر ہم عمل کریں گے تو ہمارے دلوں کو وہ حقیقی زندگی ملے گی جو ہمیشہ کی زندگی ہے، جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہونے سے ملتی ہے، جس سے اس دنیا میں بھی ہمیشہ یہ خوشیاں حاصل کر کے ہماری زندگی جنت بن جاتی ہے اور اگلے جہان میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بناتے ہوئے جنت میں لے جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں آج کی رات بھی اور ہمیشہ ہی اپنی عبادت کا حق ادا کرنے اور دلوں کو زندہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

حقوق العباد ادا کرنے کی ہدایت

دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے جو ہدایات ایک جگہ فرمائی ہیں ان کے آخر میں فرمایا کہ اگر یہ حق ادا نہیں کر رہے تو تم متکبر اور شیخی بگھارنے والے ہو جنہیں اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔ یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ احسان کرو اور قریبی رشتہ داروں سے بھی اور یتیموں سے بھی اور مسکین لوگوں سے بھی اور رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور غیر رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور اپنے ہم جلیسوں سے بھی اور مسافروں سے بھی اور ان سے بھی جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے۔ یقیناً اللہ اس کو پسند نہیں کرتا جو متکبر اور شیخی بگھارنے والا ہے۔

پس جو آپس کے حقوق ہیں، خاندان کے حقوق ہیں، رشتوں کے حقوق ہیں، معاشرے کے حقوق ہیں ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ تفصیل فرما دی ہے۔ ان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

شرک سے بچنے اور عبادت کا حق ادا کرنے کے بعد جو سب سے اوّل حق تم نے ادا کرنا ہے وہ والدین کا ہے۔

اور پھر درجہ بدرجہ باقی تعلقات کے حق ہیں۔ والدین سے احسان کے سلوک سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ ان کی خدمت ان پر احسان ہے۔ احسان کا ایک مطلب بہترین طریق سے حق ادا کرنا بھی ہے اور اس بہترین طریق پر حق ادا کرنے کا دوسری جگہ اس طرح بیان فرمایا ہے کہ ان کی ایسی باتیں سن کر جو تمہیں پسند نہ آئیں پھر بھی تم نے انہیں اُف نہیں کہنا۔ فرمایا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَآ اُفٍّ(بنی اسرائیل: 24) یعنی کبھی بھی انہیں اُف نہیں کہنا۔ پس جب یہ کہا کہ تم والدین سے احسان کا سلوک کرو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی طرح بھی ان پر احسان کرنے والے ہو بلکہ ان کے تم پر احسان ہیں جنہوں نے تمہیں پال پوس کر بڑا کیا۔ پس تمہارا فرض ہے کہ ان کی ہر بات برداشت کرو۔ ہاں جب دین کے خلاف کوئی بات کریں یا خدا تعالیٰ کے خلاف کوئی بات کریں پھر ان کی بات نہیں ماننی باقی تمام دنیاوی حقوق ان کے ادا کرنے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنے ماں باپ کا احسان تو کبھی اتار ہی نہیں سکتے۔(ماخوذ از صحیح مسلم کتاب العتق باب فضل العتق الوالد حدیث 3799)اور ماں باپ کے احسانوں کا شکر گزار ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ ان کے حق میں ہمیں یہ دعا کرنے کی بھی تلقین فرماتا ہے کہ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيٰنِيْ صَغِيْرًا(بنی اسرائیل: 25) کہ اے میرے رب! ان پر مہربانی فرما کیونکہ انہوں نے بچپن کی حالت میں میری پرورش کی تھی۔ پس جب اس طرح انسان دعا کر رہا ہو گا تو ماں باپ کے احسان بھی اسے یاد آتے رہیں گے۔

یہاں یہ بھی واضح کروں کہ جس طرح مرد کو اپنے ماں باپ سے حسنِ سلوک اور خدمت کا حکم ہے اسی طرح عورت کو بھی ہے۔ بعض مرد شاید اپنی بیویوں کو ان کے اپنے ماں باپ کی خدمت سے روکتے ہیں یا حق ادا کرنے سے منع کرتے ہیں یا عورتوں کو خود خیال آ جاتا ہے کہ جب ہماری شادی ہو گئی تو پھر شاید ہمارے لئے اپنے گھر کو سنبھالنا زیادہ ضروری ہے۔ بےشک یہ فرض بھی ان کا ہے کہ اپنے خاوند کے گھر کو سنبھالیں لیکن عورت کو بھی اسی طرح حکم ہے کہ اپنے ماں باپ کی خدمت کرے اور مردوں کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ انہیں اس خدمت سےروکیں ۔ اگر عورت کا یہ فرض ہے کہ اپنے ساس سسر کی خدمت کرے تو اس کا یہ بھی فرض ہے کہ اپنے ماں باپ کی خدمت کرے اور اس طرح خاوند کا بھی فرض ہے کہ اپنی بیوی کے ماں باپ سے بھی حسن سلوک کرے اور اس کا حکم اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے بلکہ

تمام رحمی رشتوں کو ایک دوسرے کا خیال رکھنا چاہیے اور تقویٰ پر چلتے ہوئے ان فرائض کو ادا کرنے کا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔

جو نکاح میں آیات پڑھی جاتی ہیں ان میں اس کا ذکر ہے۔ پس یہاں

عورت مرد جب برابری سے ایک دوسرے کے ماں باپ اور رحمی رشتوں کا حق ادا کریں گے تو پھر امن قائم ہو گا، حقیقی امن قائم ہو گا۔ خوشیاں ملیں گی، آپس میں پیار اور محبت کی فضا پیدا ہو گی۔

پس یہاں میں ان خاوندوں کو بھی واضح کر دوں جو اپنی بیویوں کو ماں باپ سے تعلق رکھنے سے روکتے ہیں۔ بہت ساری ایسی شکایتیں آتی ہیں اور ان عورتوں پر بھی جو اپنے خاوندوں کو اپنے ماں باپ کی خدمت سے روکتی ہیں۔ دونوں کو اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔

پھر حقوق العباد کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنے قریبی رشتہ داروں سے شفقت اور احسان کا سلوک کرو۔

رشتہ داروں سے حسن سلوک کی اہمیت اور اس حسن سلوک کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا اظہار کس طرح ہوتا ہے

اس بات کو بیان فرماتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ جو شخص رزق کی فراخی چاہتا ہے۔ اب رزق کی فراخی تو ہر کوئی چاہتا ہے۔ ہر کوئی چاہتا ہے میرے پاس پیسہ آئے اور میرا ہاتھ کھلے اور میری مالی مشکلات دُور ہوں۔ تو فرمایا جو شخص رزق کی فراخی چاہتا ہے یا خواہش رکھتا ہے کہ اس کی عمر زیادہ ہو۔ یہ بھی ایک قدرتی خواہش ہے یا یہ خواہش رکھتا ہے کہ اس کا ذکر خیر زیادہ ہو۔ اس کی اچھی باتیں لوگ یاد رکھیں، اس کو لوگ پسند کریں تو فرمایا کہ اسے صلہ رحمی کا خُلق اختیار کرنا چاہیے۔(صحیح البخاری کتاب البیوع باب من احب البسط فی الرزق حدیث 2067) پھر اس کا یہ کام ہے کہ صلہ رحمی کا خُلق اختیار کرے۔ رشتوں کے حق ادا کرے۔ ان کی عزت و احترام کرے۔ اس میں ہر ایک رشتہ آ جاتا ہے۔ پس

عمر و صحت اور رزق میں فراخی اور لوگوں کا اچھے الفاظ میں کسی کے بارے میں ذکر کرنا، اس کا راز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتا دیا کہ اپنے رشتہ داروں اور قریبیوں سے اعلیٰ اخلاق سے پیش آؤ اور ان کے حق ادا کرو۔

اور اس حق ادا کرنے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک تلقین فرمائی کہ ایک دفعہ ایک صحابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ میں اپنے رشتہ داروں سے بنا کر رکھوں ،حسن سلوک کروں تب بھی وہ تعلق توڑتے ہیں اور بدسلوکی سے پیش آتے ہیں۔ آج بھی بہت ساری مثالیں ایسی ہیں۔ نرمی کروں تو جہالت سے پیش آتے ہیں۔ ان حالات میں کیا کرنا چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اگر جو تم کہہ رہے ہو سچ ہے تو ان پر تیرا احسان ہے ۔ پھر تم ان پر احسان کر رہے ہو اور جب تک تم اس حالت میں ہو کہ یہ احسان تمہارا جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے خلاف تمہاری مدد کرتا رہے گا۔(ماخوذ از صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ باب صلۃ الرحم و تحریم قطیعتھا حدیث 6525)پس یہ تو بڑا سستا سودا ہے۔

اگر اللہ تعالیٰ کی مدد پہنچتی رہے تو انسانوں کی طرف سے نقصان پہنچانے کی کوئی کارروائی کامیاب نہیں ہو سکتی اور پھر یہ بھی ممکن ہے کہ تمہارے اس حسن سلوک کی وجہ سے ان لوگوں کی اصلاح بھی کسی وقت ہو جائے۔

پھر فرمایا

یتیموں سے بھی احسان کا سلوک کرو۔ انہیں نہ بھولو، ان کے حق ادا کرو۔ اپنے معاشرے کا بہترین حصہ انہیں بناؤ۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یتیم کی پرورش کی اس قدر تلقین فرمائی ہے کہ فرمایا کہ میں اور یتیم کی پرورش کرنے والے جنت میں ساتھ ہوں گے بلکہ اپنی دونوں انگلیاں جوڑ کر دکھایا کہ اس طرح ساتھ ہوں گے۔

(صحیح البخاری کتاب الادب باب فضل من یعول یتیماً حدیث 6005)

پس یہ ہے یتیم کی پرورش کرنے والے کا مقام۔ اسی طرح قرآن کریم میں بھی یتیم کی پرورش کی بہت تلقین کی گئی ہے۔ انہیں کھانا کھلانے اور ان کی بہتر تربیت کی تلقین فرمائی ہے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں بھی یتامیٰ کی پرورش کا نظام رائج ہے۔ یتامیٰ فنڈ کے نام سے مدّ بھی ہے

اور رمضان میں تو لوگ غریبوں اور یتیموں کی امداد کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ انفرادی طور پر بھی دیتے ہیں اور جماعتی طور پر بھی دیتے ہیں لیکن

عید کی خوشی کے موقع پر بھی اس میں خرچ کرنا چاہیے۔ ان کو اپنی خوشیوں میں شامل کرنا چاہیے اور سارا سال ہی اس طرف پھر توجہ بھی رہنی چاہیے۔

گو بعض لوگ بڑی باقاعدگی سے اس مدّ میں چندہ دیتے ہیں اور پھر جتنا دیتے ہیں اس سے بھی زیادہ وقتاً فوقتاً لوگ دیتے رہتے ہیں لیکن پھر بھی اخراجات اس آمد سے بہت زیادہ ہیں جو جماعتی رنگ میں یتیموں پر خرچ کیا جاتا ہے لیکن بہرحال جماعت حسبِ توفیق ان اخراجات کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد ان کی پرورش اور خیال رکھنے کے بارے میں اس طرح ہے کہ فرمایا

اگر تو چاہتا ہے کہ تیرا دل نرم ہو جائے تو مساکین کو کھانا کھلا اور یتیم کے سر پر ہاتھ رکھ۔

(مسند امام احمد بن حنبل جلد 3 صفحہ 98 مسند ابی ہریرۃؓحدیث 7566 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)

پس اپنی اصلاح کے لیے بھی یہ بہت ضروری ہے کہ انسان یتیموں اور مسکینوں کا خیال رکھے اور

یہ نیکیاں بہرحال قربانی کر کے ہی کرنی پڑتی ہیں۔

یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی کہے کہ میرے پاس کشائش نہیں اس لیے میں نہیں کر سکتا اور آج کل جبکہ دنیا میں ہر جگہ مہنگائی کی وجہ سے اخراجات بہت بڑھ گئے ہیں اپنا خرچ کم کر کے خیال رکھنا، اپنا خرچ کم کر کے دوسروں کی مدد کرنا یقیناً اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرتا ہے۔

پس مخیر لوگوں کو تو خاص طور پر اس نیکی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔

ان کو تو اپنے اخراجات کم کیے بغیر بھی اس کی توفیق مل سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس بارے میں فرماتا ہے کہ وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِيْنًا وَّ يَتِيْمًا وَّ اَسِيْرًا (الدھر:9) اور وہ کھانے کو اس کی چاہت ہوتے ہوئے بھی مسکینوں اور یتیموں اور اسیروں کو کھلاتے ہیں۔ پس یتیموں اور مسکینوں کو کھانا کھلانا اور ان کا خیال رکھنا بہت بڑی نیکی ہے اور یہی فرمایا کہ کشائش زیادہ نہیں بھی ہے تب بھی چاہت رکھتے ہوئے اپنی قربانی کرتے ہوئے یہ خرچ کرتے ہیں۔ اور یہ خیال رکھنا معاشرے سے بےچینیوں کو دُور کرتا ہے اور جو نیکی خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر کی جا رہی ہو تو پھر اس کا ثواب بھی اس کے ساتھ ملتا ہے۔

پھر جماعت میں ضرورتمندوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے اَور مدّات بھی ہیں۔ شادی فنڈ ہے اس سے ضرورتمندوں کی کسی حد تک مدد کی جاتی ہے۔

گو مہنگائی کے اس دور میں بڑا مشکل ہے کہ مکمل ضروریات کا یا مناسب ضروریات کا بھی خیال رکھا جائے لیکن پھر بھی کوشش کی جاتی ہے کہ کچھ حد تک غریب خاندانوں کی شادی کی ضروریات پوری کی جائیں۔ اس کے لیے بھی افراد جماعت کو خاص کوشش کرنی چاہیے اور جو صاحبِ حیثیت ہیں انہیں تو ایک سے زیادہ غریب جوڑوں کی شادی کا انتظام کرنا چاہیے۔

حقیقی خوشی تو یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے رزق سے خرچ کیا جائے

یہ عید کی خوشیاں تو عارضی ہیں جو صرف خود عید پر اچھے کپڑے پہن کر اور اچھے کھانے کھا کر کر لی جائیں۔ پھر

غریب مریضوں کے علاج کے اخراجات ہیں۔ اس کی بھی مدّ ہے۔ اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام غریبوں، یتیموں کا خیال رکھنے اور ان سے ہمدردی کرنے کے بارے میں فرماتے ہیں:’’تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو یاد رکھو کہ تم ہر شخص سے خواہ وہ کسی مذہب کا ہو ہمدردی کرو اور بلا تمیز ہرایک سے نیکی کروکیونکہ یہی قرآنِ شریف کی تعلیم ہے۔ وَ يُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِيْنًا وَّ يَتِيْمًا وَّ اَسِيْرًا (الدھر:9)‘‘

(ملفوظات جلد 7 صفحہ 285 ایڈیشن 1984ء)

پھر یہ توجہ دلاتے ہوئے کہ

یہ نیکیاں جو تم کرتے ہو کسی قسم کی بڑائی اور تکبر کا خیال تمہارے دل میں نہ لائیں۔

فرماتے ہیں کہ ’’حقیقی نیکی کرنے والوں کی یہ خصلت ہے کہ وہ محض خدا کی محبت کے لئے وہ کھانے جو آپ پسند کرتے ہیں مسکینوں اور یتیموں اور قیدیوں کو کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تم پر کوئی احسان نہیں کرتے بلکہ یہ کام صرف اس بات کے لئے کرتے ہیں کہ خدا ہم سے راضی ہو اور اس کے منہ کے لئے یہ خدمت ہے۔ ہم تم سے نہ تو کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ یہ چاہتے ہیں کہ تم ہمارا شکر کرتے پھرو۔‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 357)

پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

ہمسایوں سے نیک سلوک کرو چاہے تم انہیں جانتے ہو یانہیں جانتے۔

پس عید کے دن ہمسایوں کو تحفہ دینے یا ان سے اچھی طرح ملنے سے بھی ایک ایسا معاشرہ قائم ہوتا ہے جو امن و سلامتی کا معاشرہ ہے اور خاص طور پر غیر مسلم معاشرے میں جب ہم اس طرح ہمسایوں سے تعلقات بڑھائیں گے تو تبلیغ کے بھی راستے کھلیں گے۔ اسلام کی خوبصورت تعلیم کا بھی دوسروں کو پتا چلے گا۔ اسلام کے خلاف جو اعتراضات ہیں وہ دُور ہوں گے۔ بعض شدت پسندوں نے اپنے عمل سے جو غلط تاثر اسلام کی تعلیم کا دے دیا ہے وہ بھی دُور ہو گا بلکہ

ایک نیکی جو ہم کر رہے ہوں گے وہ صرف ذاتی نیکی ہی نہیں رہے گی بلکہ جماعتی اور معاشرے کی نیکی بن جائے گی

اور جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمسائے کی وسعت قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں فرمائی ہے وہ ایک حسین معاشرے کو جنم دینے والی بن جائے گی۔ فتنوں اور فسادوں کو دُور کرنے والی بن جائے گی۔ آپؑ نے فرمایا سو کوس تک بھی تمہارے ہمسائے ہیں۔(ماخوذ از ملفوظات جلد 7 صفحہ 280 ایڈیشن 1984ء)سو سو میل تک بھی تمہارے ہمسائے ہیں اور اس تعریف کی رو سے تو پھر کبھی کسی کو کسی احمدی سے شر پہنچ ہی نہیں سکتا یا وہ بے فیض رہ ہی نہیں سکتا۔ نا ممکن ہے کہ کسی احمدی سے کوئی بھی فیض نہ پہنچے۔ اس اصول پر چل کر ہم آپس میں بھی محبت، پیار اور بھائی چارے کو فروغ دے رہے ہوں گے اور غیروں میں بھی تعلقات میں وسعت پیدا کر رہے ہوں گے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اچھے ہمسائے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ساتھیوں میں سے وہ ساتھی اچھا ہے جو اپنے ساتھیوں کے لیے اچھا ہے اور پڑوسیوں میں سے وہ پڑوسی اچھا ہے جو اپنے پڑوسی سے اچھا سلوک کرے۔

(سنن الترمذی کتاب البر والصلۃ باب ما جاء فی حق الجوار حدیث 1944)

کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ مجھے کس طرح پتا چلے کہ میں اچھا ہمسایہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

اگر تمہارا ہمسایہ تمہاری تعریف کرے تو تم اچھے پڑوسی ہو اور اگر تمہاری برائی کرے تو تم بُرے پڑوسی ہو۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب الثناء الحسن حدیث 4223)

پس اگر ہمارے مرد، عورتیں، بچے اس اصول پر عمل کرنے لگ جائیں تو ہم غیر مسلم ممالک میں خاص طور پر تبلیغ کے نئے راستے کھولنے والے ہوں گے۔

سب سے اچھی تبلیغ اپنے عمل سے ہوتی ہے۔

پھر اللہ تعالیٰ ان تعلقات کو مزید وسعت دے کر دوسروں پر احسان کرنے اور ان کا حق ادا کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرماتا ہے۔

اپنے ساتھیوں سے بھی احسان کا سلوک کرو

اور ساتھیوں کی تعریف یہ ہے جن کا کسی بھی طرح تمہارے سے میل جول ہے۔ دفتر میں ہیں ۔کام کرنے والے ہیں، کاروبار میں تعلق رکھنے والے ہیں، جو سفر میں تمہارے ساتھ ہیں ان سب سے نیک سلوک کا حکم ہے۔ اتنی وسعت حقوق العباد کی ادائیگی میں اسلام کی تعلیم میں ہے جو کسی اَور تعلیم میں نہیں ہے۔ اور جب ہم غیر مسلموں کو اس تعلیم کی خوبصورتی دکھاتے ہیں تو ان کے تحفظات دُور ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ وہ ہمارے حق میں دوسروں کو بتانے لگ جاتے ہیں۔ بہت سے لوگ اپنے ایسے تجربات لکھتے ہیں ۔

پس ہمیں حقیقی خوشیاں تو تب ملیں گی جب ہم خود بھی اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں گے اور غیروں کے دل سے بھی اسلام کے خلاف بغض و کینہ نکال کر، غلط سوچیں نکال کر انہیں حقیقی اسلامی تعلیم سے آگاہ کریں گے۔

جیساکہ میں نے کہا کہ اپنے اندر بھی یہ پاک تبدیلیاں رائج کرنا ہوں گی۔ آپس کے تعلقات میںبھی ہمیں ایک حسین معاشرہ بنانا ہو گا۔ آپس کے کاروباری تعلقات میں بھی اور گھریلو تعلقات میں بھی میاں، بیوی، ساس، بہو، نند، بھابھی سب کو ایک دوسرے کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنی ہو گی اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ایک دوسرے کے ساتھ رشتوں کے تعلقات نبھانے ہوں گے۔ اچھا ساتھی بننا ہو گا ورنہ تو غیروں کو ہم اسلامی تعلیم کی خوبیاں بتانے کا حق نہیں رکھتے۔

پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

جو تمہارے زیر نگین ہیں، تمہارے ملازم ہیں ان کا بھی خیال رکھنا اور ان کا حق ادا کرنا بھی تمہارا فرض ہے۔

کسی بھی قسم کے تکبر کا اظہار تمہاری طرف سے ان کے لیے نہیں ہونا چاہیے۔ یعنی ہر لحاظ سے اعلیٰ اخلاق کی ایک مومن کو تلقین کی گئی ہے۔ پس

اللہ تعالیٰ کے حقیقی عابد اور ہر قسم کے شرک سے پاک وہی لوگ ہیں جو حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد بھی ادا کرنے والے ہوں

اکثر لوگوں کو عادت ہوتی ہے کہ صرف اپنے حقوق کے لیے بہت لڑائی کرتے ہیںتو وہ صرف اپنے حقوق کے لیے لڑنے والے نہ ہوں بلکہ دوسروں کے حق دینے کا جذبہ بھی رکھتے ہوں اور اس پر عمل کرنے والے بھی ہوں۔ اگر ہم میں سے ہر ایک اللہ تعالیٰ کی اس تعلیم پر عمل کرنے والا بن جائے تو ہم حقیقت میں اپنی زندگیوں کو خوشگوار بنانے والے ہوں گے۔ ہماری عیدیں عارضی اور وقتی عیدیں نہیں ہوں گی بلکہ ہر روز ہمارے لیے روز عید ہو گا۔ پس ایک حقیقی احمدی کو اس طرف خاص توجہ کرنے کی ضرورت ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے نیچے ہم آ جائیں گے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو جو یہ حق ادا نہیں کرتے متکبر اور شیخی بگھارنے والا کہا ہے اور ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی اصلاح کی طرف ہمیشہ متوجہ رکھے اور ہم ہمیشہ ایک دوسرے کے حقوق اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق ادا کرنےو الے ہوں،

اپنی تمام رنجشوں کو بھول کر صلح کی بنیاد ڈالنے والے ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کا حق ادا کرکے اپنی زندگی کے ہر لمحہ کو حقیقی عید کی خوشی میں ڈھالنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

اللہ تعالیٰ یہ عید ہم سب کے لیے مبارک فرمائے۔ آپ سب کو اس عید کی مبارک ہو۔ اب ہم دعا کریں گے۔

دعا میں عمومی طور پر تمام انسانیت کو یاد رکھیں خاص طور پر ان بھوکے فاقہ زدہ بلکہ پانی کی ایک بوند سے بھی محروم لوگوں کو جو سوڈان میں آج کل وہاں کے فسادوں کی نظر ہوئے ہوئے ہیں ان کو یاد رکھیں۔

جو باوجود مسلمان ہونے کے آج نہ صرف عید کی خوشیوں سے محروم ہیں بلکہ اپنے مسلمانوں کے ہاتھوں ہی ظلم کا شکار ہو رہے ہیں۔ لیڈروں اور اختیار کی ہوس رکھنے والوں کے ہاتھوں اپنے پیاروں اور بچوں ،معصوموں کو سسکتے ہوئے مرتا دیکھ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عقل دے۔ ان محروموں کے لیے بھی آسانیاں پیدا کرے۔ ہمارے پاس مادی وسائل تو نہیں ہیں کہ ان کی مدد کے لیے پہنچیں لیکن کم از کم دعا سے ان کی مدد کی جا سکتی ہے۔

عالمگیر جماعت احمدیہ کو بھی عمومی طور پر دعا میں یاد رکھیں۔ اللہ تعالیٰ جماعت پر فضل فرمائے اور جہاں بھی احمدی کسی بھی رنگ میں ظلم کا شکار ہیں اللہ تعالیٰ انہیں محفوظ رکھے اور ظالموں کی پکڑ فرمائے۔

احمدیوں پر بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے نام پر ظلم ہو رہے ہیں۔ دعاؤں سے ہی ان ظلموں سے نجات مل سکتی ہے۔

اسیران راہ مولیٰ کے لیے دعا کریں۔

اللہ تعالیٰ جلد ان کی رہائی کے سامان پیدا فرمائے۔ صرف اس لیے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں کہ انہوں نے زمانے کے امام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے مانا ہے۔

شہدائے احمدیت کے خاندانوں کے لیے دعا کریں

اللہ تعالیٰ ہمیشہ ان کو اپنی حفاظت میں رکھے اور ان کے ایمان و ایقان میں اضافہ فرماتا رہے۔ ان کو اپنی نعمتوں سے نوازتا رہے۔

بیماروں، مریضوں، ضرورتمندوں کے لیے دعا کریں۔ دنیا سے ہر قسم کی بےحیائی اور شرک کے ختم ہونے کے لیے دعا کریں۔ عالَمِ اسلام کے لیے دعا کریں

اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقل دے۔ وہ آپس میں ایک ہوں اور جن جن اختلافات کی وجہ سے اسلام مخالف دنیا فائدہ اٹھا رہی ہے اور مسلمانوں کو مزید کمزور کرتی چلی جا رہی ہے ان اختلافات کو وہ ختم کریں اور ان کے سینے کھولے کہ یہ زمانے کے امام کو بھی ماننے والے بنیں کیونکہ یہی ایک ذریعہ ہے ان کی نجات کا اور اختلافات ختم کرنے کا۔ پس

جب عالم اسلام ایک ہو جائے گا تو یہی ہماری حقیقی عید ہو گی۔ یہی عالم اسلام کی حقیقی عید ہو گی۔

اللہ تعالیٰ کرے کہ یہ نظارہ ہم دیکھنے والے ہوں۔

اللہ تعالیٰ خدائے واحد و یگانہ کی حکومت دنیامیں قائم کرے کیونکہ یہی ایک ذریعہ ہے جس سے دنیا کو خوشیاں نصیب ہو سکتی ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک ارشاد اور دعا پیش کرتا ہوں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ

’’انسان کا کیا حرج ہے اگر وہ فسق و فجور کو چھوڑ دے۔ کون سا اس میں اس کا نقصان ہے اگر وہ مخلوق پرستی نہ کرے۔‘‘ فرمایا ’’آگ لگ چکی ہے۔ اٹھو اور اس آگ کو اپنے آنسوؤں سے بجھاؤ۔‘‘

(تذکرہ صفحہ 450 ایڈیشن چہارم 2004ء)

اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button