دیکھ کر دُنیا کی حالت ہو گیا زار و نزاراِس تباہی سے خدایا ہے مِرا سینہ فگارپھیر دے دُنیا کی جانب رحمتوں فضلوں کی دھار’’اے خدا اے کار ساز و عیب پوش و کردگاراے مرے پیارے مرے محسن مرے پروردِگار‘‘ اِس قدر اَموات ہیں جن کی کوئی گنتی نہیںحکمرانوں کی بھی اِس کے سامنے چلتی نہیںاِک بھیانک آگ ہے گویا کہ جو بجھتی نہیں’’کس طرح نپٹیں کوئی تدبیر کچھ بنتی نہیںبے طرح پھیلی ہیں یہ آفات ہر سُو ہر کنار‘‘ ’’اے خدا اے چارہ سازِ درد‘‘ اے مشکل کُشاان مصائب سے کریما اَب ہمیں جلدی بچاتیرے بندے ہیں مرے مولیٰ نہ دے ہم کو سزا’’اے خدا کمزور ہیں ہم اپنے ہاتھوں سے اُٹھاناتواں ہم ہیں ہمارا خود اُٹھا لے سارا بار‘‘ اے خدا تیری رضا ہر دم مِرا مقصود ہوتیری درگہ ہی ہمیشہ اے خدا مسجود ہوتیری رحمت کا نہ ہم پر در کوئی مسدود ہو’’اے میرے پیارے بتا تو کس طرح خوشنود ہونیک دن ہوگا وہی جب تجھ پر ہوویں ہم نثار‘‘ تیرے بن اُٹھتی نہیں ہے اب کسی جانب نگہبخش دے اپنے کرم سے اپنے بندوں کے گنہبھیج دے اپنے فرشتوں کی خدایا اب سپہ’’اے مرے یارِ یگانہ اے مری جاں کی پنہبس ہے تو میرے لیے مجھ کو نہیں تجھ بن بَکار‘‘ (تنویر احمد ناصر۔ قادیان)