خطاب حضور انور

اپنے عہد کی پاسداری کرو (مجلس خدام الاحمدیہ یوکے کے سالانہ اجتماع ۲۰۲۲ء کے موقع پر امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا اختتامی خطاب (اردو ترجمہ)

پنجوقتہ نمازوں کی ادائیگی، جھوٹ سے اجتناب اور تبلیغ کے ذریعہ اسلام احمدیت کو پھیلانے کی تلقین

(مجلس خدام الاحمدیہ یوکے کے سالانہ اجتماع ۲۰۲۲ء کے موقع پر امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا اختتامی خطاب(اردو ترجمہ)

فرمودہ ۱۱؍ستمبر۲۰۲۲ء بمقام Old Park Farm، واقع Sickles Lane, Kingsley

(خطاب کا یہ ترجمہ ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے اِس weekend پر مجلس خدام الاحمدیہ یوکےکواپنا سالانہ اجتماع کورونا وبا کے بعدپہلی مرتبہ بھرپور طریق پر وسیع پیمانے پر منعقد کرنے کی توفیق مل رہی ہے۔

پہلے پہل مجلس خدام الاحمدیہ نے کھیلوں کےمقابلوں کو بھی اجتماع کے پروگرام میں شامل کیا تھا تاہم ملکہ معظّمہ الزبتھ دوم کی افسوس ناک وفات کی وجہ سے مَیں نے صدر صاحب کو ہدایت کی کہ احتراماً اس موقعے پر کھیلوں کاانعقاد نہ کیاجائے۔ یہ مَیں نےا س لیے ضروری خیال کیا کیونکہ ملکہ معظّمہ بڑے طویل عرصے سے ہماری ریاست کی سربراہ چلی آرہی تھیں اور انہوں نے بڑے وقار اور انصاف کے ساتھ ستّر برس سے زائد عرصہ اس قوم کی قیادت کی۔

ملکہ معظّمہ کے عہدِ سلطنت میں برطانیہ مذہبی آزادی کے حوالے سے دنیابھر میں ایک روشن مثال بنا رہا۔

کئی مواقع پرحقیقی مذہبی آزادی اور بین المذاہب ہم آہنگی کےلیے ملکہ معظّمہ ازخود ضامن ثابت ہوئیں۔پس ہم شکر گزار ہیں کہ ہم مہربان فرماں رواکے دَور میں رہے۔ اسی طرح احمدی مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں اس بات کو بھی بالخصوص قدر کی نگاہ سے دیکھناچاہیے کہ

حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کی ہجرت کے بعد ملکہ الزبتھ ہی کے عہد میں جماعت کو اپنا عالَم گِیر مرکز یہاں برطانیہ میں قائم کرنے کاموقع ملا، جہاں آزادی کے ساتھ اپنے دین یعنی اسلام پر عمل پیرا ہونے اور اپنے عقائد کی تبلیغ ا ور ترویج کی ہمیں توفیق ملی۔ اس کےلیے ہم ہمیشہ ملکہ الزبتھ، حکومتِ برطانیہ اور اس قوم کے شکر گزار رہیں گے۔

علاوہ ازیں ہم دعا کرتے ہیں کہ ہماری ریاست کے نئے سربراہ شاہ چارلس سوم بھی مذہبی آزادی اور عام انصاف پسندی کی اس روایت کو، جو اس قوم کی امتیازی شان ہے جاری رکھیں اور رعایاکے حقوق کی پاسداری کا سلسلہ جاری رہے۔

بہر حال مَیں دعا کرتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ اجتماع میں شامل تمام حاضرین نے یہاں منعقد ہونے والے علمی اور دیگر تمام پروگراموں سے بھرپور استفادہ کیا ہوگا۔

آج اس اختتامی اجلاس میں مَیں مجلس خدام الاحمدیہ کے ممبران کی بعض بنیادی ذمہ داریوں اور فرائض کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔

سب سے پہلے تو یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ وہ حقیقی مقصد جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا وہ اس کی عبادت ہے اور اس حوالے سے عبادت کی سب سے بنیادی شکل پنجوقتہ نماز کی ادائیگی ہے۔

ہر ایک شخص جوخود کومسلمان کہتا ہے اس کا فرض ہے کہ پوری توجہ کے ساتھ اپنی عبادتوں کی حفاظت کرے اور اس کے لیے سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ وہ پورے اخلاص کے ساتھ باقاعدگی سے نماز کی ادائیگی کا پابند ہو۔ نماز کو اللہ تعالیٰ نے اس وجہ سے فرض قرار دیا ہے کیونکہ اِس کے بغیر انسان روحانی طور پر زندہ نہیں رہ سکتا۔ دوسرے لفظوں میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ

نماز انسان کی روحانی زندگی کےلیےایسی ناگزیر شے ہے کہ جس کے بغیر اُس کاایمان اور روحانیت سلامت نہیں رہ سکتے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سے احمدی نوجوان نماز کی ادائیگی میں بڑےمستعد ہیں اور ان کا خدا تعالیٰ کے ساتھ گہرا اور مضبوط تعلق ہے۔ مَیں نے احمدی نوجوانوں سے ملاقاتوں کے دوران اُن میں عبادت کی یہ روح مشاہدہ کی ہے۔ اِسی طرح اُن کے خطوط سے بھی یہی بات عیاں ہوتی ہے۔تاہم اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنے کےحوالے سے مطمئن ہوکر بیٹھ جانے کی ہرگز گنجائش نہیں۔ ہم نے کبھی بھی اپنی عبادتوں کے معیار کو گرنے نہیں دینا۔ ہم نے اپنے خالق خدا کے ساتھ تعلق کو مسلسل مضبوط اور مستحکم بناتے چلے جانا ہے۔ جس طرح ہمارے مادی جسموں کو زندہ رہنےکے لیے خوراک اور ہوا کی ضرورت ہے اسی طرح ہماری روحوں کو بھی روحانی غذاکی مسلسل ضرورت ہے۔

اکثر لوگ اپنی پریشانیوں اور ضرورتوں کے وقت تو بڑے جوش اور عاجزی و انکساری کےساتھ خداتعالیٰ کے حضور جھکتےہیں مگر جیسے ہی اُن کی مشکلات دُور ہوجاتی ہیں اُن کا روحانی جوش اور ذوق و شوق یک دم ماند پڑ جاتاہےاور وہ سست ہوکر نمازوں سے غافل ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی روحانی حالت موسم کی طرح بدلتی رہتی ہے۔ کبھی گرمی ہوتی ہے تو کبھی سردی، کبھی ہواایک سمت کوچل پڑتی ہے توکبھی دوسری سمت کو، کبھی گرم موسم کےبعد موسلادھار بارش یا ٹھنڈی ہوا چل پڑتی ہے جس سے عارضی سکون اور آرام تو میسر آجاتا ہے مگر یہ کیفیت دائمی یادیرپا نہیں ہوا کرتی۔ پس

زندہ رہنےکےلیے جیسے ایک آدمی دائمی طورپر پانی، ہوااورغذاکا محتاج ہے ویسے ہی اگروہ روحانی زندگی کا طلب گار ہے تو اسے چاہیے کہ لازماً نماز کے ذریعے مسلسل اپنی روح کی نشوونما کرتا رہے۔ لہٰذا نماز ساری زندگی کےلیے آپ کی ایک ایسی مستقل ساتھی ہونی چاہیے جسے کبھی بھی آپ خود سے دُور نہ ہونے دیں۔

پھر مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ وہ اکٹھے ہوکر باجماعت نماز ادا کیا کریں۔

گذشتہ چند برسوں میں کورونا وبا کی وجہ سے ہماری مساجد یا تو بند رہیں یا اُن میں محدود حاضری کی پابندی تھی اور احبابِ جماعت کو ہدایت تھی کہ وہ اپنے گھروں میں نماز باجماعت کا انتظام کریں۔ خدا کا شکر ہے کہ اب صورتِ حال بہتر ہے اور ہم ایک دفعہ پھر جلسہ، اجتماع ا وراپنی دیگر تقاریب وغیرہ کا انعقاد کر رہے ہیں۔ حکومتی پابندیاں ختم ہوگئی ہیں اور لوگوں نے پہلےکی طرح بڑی حدتک اپنی روزمرہ سرگرمیوں کا دوبارہ آغاز کردیاہے۔ تاہم بعض لوگوں کو گھر پر نماز کی ادائیگی کی ایسی عادت پڑ گئی ہے کہ وہ ابھی تک مساجدیا نماز سینٹرز میں آنے کی بجائے گھر پر نماز کی ادائیگی کے معمول کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایسے لوگوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ جیسے کسی مریض کے سانس لینے میں مددکےلیے آکسیجن کا انتظام کیا جاتا ہے ویسے ہی گھروں پر نماز کی ادائیگی وبا کے عروج کے دَور میں ایک عارضی حل تھا۔ اب الحمدللہ صورتِ حال بہت بہتر ہے لہٰذا یہ ضروری ہے کہ اپنی روحانی بقا اور کامیابی کےلیے اُن ذرائع کی طرف باقاعدہ لوٹا جائے جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں جن کے تحت

ہر مسلمان مرد پر واجب ہے کہ جہاں تک ممکن ہو وہ مساجد یا نماز سینٹر میں حاضرہوکر باجماعت نماز کی ادائیگی کو یقینی بنائے۔

ہمیشہ یاد رکھیں کہ نماز انسان کی اخلاقی زندگی کا بنیادی جزو ہے۔ یہ انسان کو برائیوں اور ناپسندیدہ باتوں سے روکتی اور نیکیوں اور اچھے اعمال کی طرف راہ نمائی کرتی ہے۔ یہ ہمیں خداتعالیٰ کے فضلوں اور انعاموں کا وارث بنانے والی اور ہمارے مقصدِ پیدائش کو حاصل کرنے کا اوّلین ذریعہ ہے۔ نماز اور عبادت پرکاربند ہوئے بغیر امامِ وقت کو ماننے اور ایک راست باز جماعت کا حصّہ ہونے اور ایمان پر مضبوطی کےساتھ قائم ہونے کے ہمارے تمام تر دعوےمحض بےمعنی اور کھوکھلے ہیں۔

جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اللہ کی عبادت بالخصوص نماز کی پابندی ہمیں نیکی کی طرف اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف لے کر جاتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا خاص فضل ہے کہ اُس نے ہماری جماعت کو ہر عمر کے مخلص احباب عطا فرمائے ہیں، جو ہرلمحہ ہر قسم کی ڈیوٹی، خدمات اور قربانیوں کے لیے مستعد رہتے ہیں۔ انہیں جب بھی بلایا جاتا ہے تو وہ فوراً ’لبیک‘ کہتے ہوئے جواب دیتے ہیں اور ایمان کے تقاضے کے مطابق ہر قسم کی خدمات اور قربانیوں کےلیے خود کو پیش کردیتے ہیں۔ مثلاً ابھی جلسہ سالانہ برطانیہ کے موقعے پر ہزاروں مردوں، عورتوں اوربچوں نے اپنے روزمرہ کاموں اور معمولات کا ہرج کرکےخود کو جماعت کی خاطرڈیوٹی کے لیے پیش کیا، اور اسی طرح کسی حد تک اس اجتماع کی تیاری کے سلسلے میں بھی ایساہی ہوا۔ خدمت انجام دینے والے بہت سے لوگ کئی کئی دنوں بلکہ ہفتوں تک صحیح طرح سو نہیں سکے مگر اس کے باوجود انہوں نے کبھی اپنی ذمہ داریوں سے غفلت نہیں برتی نہ ہی کسی قسم کی بے چینی اور تھکاوٹ کا اظہار کیا۔

اسی طرح جب اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے کا معاملہ آتا ہے تو دنیا بھر میں بےشماراحمدی ایسے ہیں کہ جیسے ہی کسی مالی تحریک کا اعلان ہو وہ بڑی فراخ دلی کے ساتھ اس میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے ہیںاور اسلام کی اشاعت کی خاطر بڑی بڑی قربانیاں پیش کرکے اپناکردار ادا کرتے ہیں۔ یہاں یہ اہم بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ محض عارضی قربانیاں پیش کرنایا چند روز کے لیے نیکی کے ساتھ زندگی گزارنا کافی نہیں، اللہ تعالیٰ تو اپنے بندوں میں ایک مستقل نیک تبدیلی چاہتاہے اور جیساکہ مَیں نے پہلے بیان کیا ہے کہ اس کےحصول کےلیے بنیادی شرط نماز ہے۔ اس حوالے سے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ

اَقِمِ الصَّلٰوۃَ ؕ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَالۡمُنۡکَرِ(العنکبوت:۴۶) نماز کو قائم کرو۔ یقیناً نماز بےحیائی اور ناپسندیدہ باتوں سے روکتی ہے۔ اور اللہ کاذکر سب (ذکروں) سے بڑا ہے۔

اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو نماز قائم کرنے کا حکم دیتےہوئے فرماتاہے کہ نماز بےحیائی اور بری باتوں سےبچانے کا ذریعہ ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کو ناپسند تمام باتوں سےروکتی ہے۔ پس چاہیےکہ

برائی سے نجات اور اخلاقی زندگی کے حصول کے لیے انسان پورے خشوع و خضوع اور خلوصِ دل کے ساتھ نماز کو بروقت ادا کرے۔اَقِمِ الصَّلٰوۃَیعنی ’نماز قائم کرو‘ اس کے معنی یہی ہیں کہ انسان پوری توجہ اور خدا کے حضور کامل عاجزی کے ساتھ نماز کی ادائیگی میں باقاعدہ ہو۔

اس زمانے میں برائیاں بڑی کثرت کے ساتھ معاشرے میں پھیلی ہوئی ہیں۔ گناہوں پر اکسانےوالی باتیں معاشرے کی بنیادوں کو تباہ و برباد کرنے کے لیے قدم قدم پر بکھری پڑی ہیں۔

ایک بڑی برائی جس سےمَیں آپ سب کو خبردار کرنا چاہتا ہوں وہ جھوٹ ہے۔ معاشرے کی ہر سطح پر جھوٹ اس قدر سرایت کر چکاہے کہ بہت سے لوگ اس برائی کو معمولی خیال کرتے ہوئے، دنیاوی خواہشات اور لالچوں کے پیچھے بنا سوچے سمجھے جھوٹ بولےچلے جاتے ہیں جبکہ اللہ اور اس کےرسولﷺ نے دروغ گوئی اور کذب بیانی کو انتہائی سنگین گناہ قرار دیاہے اور فردِ واحد اور معاشرے دونوں کے لیے اسے نقصان دہ بتایا ہے۔

ایک حدیث میں آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ چار عادات اور خصلتیں ایسی ہیں جو منافق میں پائی جاتی ہیں۔ سب سے پہلی اور سب سے اہم علامت جو آنحضورﷺ نے بیان فرمائی وہ دھوکا دہی اور جھوٹ کی عادت ہے۔ یعنی جب کوئی شخص اپنےذاتی فائدے کے لیے جھوٹ بولتا یا جھوٹی گواہی دیتا ہے۔ پھر منافق کی دوسری اور تیسری علامت جو حدیث میں بیان ہوئی وہ یہ ہے کہ وہ اپنے عہدوں اور وعدوں کوپورانہیں کرتا اور اگر اس پراعتماد کیا جائے تو وہ اس کا پاس نہیں رکھتا۔ آج کی اس دنیا میں خواہ انسان کی ذاتی زندگی ہو یا پیشہ ورانہ اور کاروباری لین دین، غرض معاشرے کی ہر سطح پر قواعد و ضوابط اورمعاہدوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ مگر انتہائی افسوس کامقام ہے کہ چاہے انفرادی معاملات ہوں یا اداروں اور تنظیموں کے معاملات یا قوموں اور ممالک کے درمیان ہونے والے معاہدے،سمجھوتے یا اعلامیے انہیں بآسانی توڑ دیا جاتا ہے۔ اسلام میں وعدوں اور معاہدوں میں چھوٹے بڑے کا سوال ہی نہیں ہے۔ خواہ کوئی معاہدہ کتنا ہی چھوٹا اور معمولی ہی کیوں نہ ہو انسان کافرض یہ ہے کہ وہ اس معاہدے اور وعدے کی مکمل پاسداری کرے۔ وگرنہ اس حدیث کے مطابق وہ نفاق کا مرتکب قرار پائے گا۔

چوتھی علامت جو ایک منافق کی اس حدیث میں بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ انسان گندی اور ناپاک زبان کا استعمال کرے اور بحث و تکرار میں گالم گلوچ سے کام لے۔ ایک مومن کےلیے ہرگزمناسب نہیں کہ وہ گندی اور اشتعال انگیز زبان کا استعمال کرے بلکہ مومن کو ہمیشہ عمدہ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے تہذیب اور شائستگی کے اعلیٰ معیار قائم کرنے چاہئیں۔ پس ایک مسلما ن ہونے کے ناطے ہمارا فرض ہے کہ ہم ہر طرح کی منافقت سے اپنے آپ کو بچائیں اور ہمیشہ اپنے عہدوں کی پاسداری کریں۔

ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہم نے حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کے غلامِ صادق امام الزمان حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو ماننے اور قبول کرنے کادعویٰ کیا ہے اور اس کے نتیجے میں ہم نے یہ عہد کیا ہے کہ ہم ہمیشہ دین کو دنیا پرمقدّم رکھیں گے۔

ابھی کچھ دیر پہلے ہی آپ سب نے کھڑے ہوکر دین کو دنیاپر مقدّم رکھنے کا عہد دہرایا ہے۔ یہ عہد ہم باقاعدگی کےساتھ اپنے اجلاسات اور تقاریب میں اکثر دہراتے ہیں لیکن اگر ان الفاظ کے ساتھ عمل شامل نہیں تو پھر یہ الفاظ محض بےکار اور بےفائدہ ہیں۔

شاید آپ سوچ رہے ہوں کہ دین کو دنیا پر مقدّم رکھنے کےکیا معنی ہیں۔ اس کا آسان مطلب یہ ہے کہ جب بھی نماز کا وقت ہو تو آپ اپنے دیگر تمام کاموں کو ایک طرف رکھ کر اللہ کی عبادت کےلیے حاضر ہوجائیں۔ پس اُن استثنائی حالات کےعلاوہ کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے نماز جمع کرنے یا تاخیر سے پڑھنے کی اجازت دی ہے تمام خدّام کوچاہیے کہ وہ اپنی نمازیں بروقت اور جہاں تک ممکن ہو باجماعت ادا کریں۔ اسی طرح خواہ کیسے ہی حالات کیوں نہ ہوں آپ ہرگز جھوٹ سے کام نہ لیں۔ اپنے عہدوں اور معاہدوں کو کبھی نہ توڑیں، کبھی نامناسب اور غلط زبان کا استعمال نہ کریں۔ دوسروں کے ساتھ معاملات میں کبھی بھی اخلاقیات اور ادب آداب کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں۔یہ وہ بنیادی عناصر اور امتیازی خصوصیات ہیں جو ایک روادار اور ہم آہنگی پر مبنی معاشرے کےقیام کےلیے ضروری ہیں۔ اگر آپ اپنی زندگیاں اس انداز سے گزاریں گے توآپ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے ذریعے جہاں ایک طرف اُس کے ساتھ حقیقی اور مستحکم تعلق بنانے والے ہوں گے وہیں دوسری طرف معاشرے میں سچائی کے عَلم بردار اور انسانیت کے لیے روشنی کا مینار بن کر ابھریں گے۔

جہاں تک سچائی پر قائم رہنے کا تعلق ہےتو ایسے خدام جو مختلف پیشوں یا کاروبارسے منسلک ہیں وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ کبھی بھی کسی بھی ایسے معاملے میں ملوث نہیں ہوں گے جس میں دھوکا دہی کا معمولی سا بھی شائبہ ہو۔ مثلاً ٹیکس گوشوارے جمع کراتے وقت پوری ایمان داری کے ساتھ اپنی درست آمدنی ظاہر کرتے ہوئے حکومت کو جو بھی واجب الادا رقم ہے وہ ادا کریں۔ پھر نجی یا پیشہ ورانہ زندگی میں جو بھی سرکاری کاغذات یادستاویزات ہوں ان میں قولِ سدید سے کام لیتےہوئے بالکل درست معلومات ظاہر کریں۔ اسی طرح چندوں کی ادائیگی میں بھی ایک خادم کو غلط بیانی اور جھوٹ سے ہمیشہ دُور رہنا چاہیے۔ اگر کوئی شخص پوری شرح کے مطابق ادائیگی نہیں کرسکتا تو وہ باقاعدہ اجازت لے سکتا ہے مگر اپنی مالی حیثیت کے متعلق غلط بیانی سے کام لینا مناسب نہیں، کیونکہ بےایمانی سے کام لےکربہرحال خدا تعالیٰ کے فضلوں کاوارث بننا نا ممکن ہے۔

ایک اَور بات جو مَیں سکول میں پڑھنے والے اطفال اور نَوجوان طالبِ عِلْم خدّام سے کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ انہیں اپنےساتھیوں اور اٹھنے بیٹھنے والے لوگوں کےحوالے سے احتیاط سے کام لینا چاہیے۔

آپ کی عمر میں آپ کے دوست اور ساتھی جن کے ساتھ آپ وقت گزارتے ہیں بآسانی آپ پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ جیسا کہ دیکھا گیا ہے کہ اگر آپ بری صحبت اختیار کریں گےتوسچائی، نرم دلی اورعمومی ہمدردی کی جگہ جھوٹ، بلا وجہ الجھنا حتیٰ کہ لڑائی جھگڑے جیسی بری عادات کے عادی ہوجائیں گے۔ لہٰذا نَوجوان خدّام اور اطفال کو اس بات کا بہت خیال رکھنا چاہیے کہ وہ کن لوگوں میں اٹھ بیٹھ رہے ہیں۔

ایسے لوگوں کے ساتھ دوستی کریں جو مخلص اور دیانت دارہوں، جو کسی قسم کی غیراخلاقی اور بے مقصد سرگرمیوں میں ملوث نہ ہوں۔ پس جیسے جیسے آپ کی عمر بڑھ رہی ہے اور آپ خودمختار ہورہے ہیں توایسے میں کسی قسم کی کمزوری نہ دکھائیں۔ اپنے ایمان پرمضبوطی سے قائم رہیں، اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ لڑائی جھگڑے ، گالم گلوچ،فحش کلامی اور اشتعال انگیز زبان کے استعمال سے ہمیشہ مجتنب رہنے والے ہوں۔

بڑی عمر کے خدّام کو بھی چاہیے کہ وہ بھی ان باتوں کا خیال رکھیں ورنہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو ماننے اورحضورؑ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کے دعوے کے باوجود آپ ان تعلیمات سے رُوگردانی کرنے والے بن رہے ہوں گےکہ جن کے قیام کے لیے آپؑ تشریف لائے تھے۔

یاد رکھیں کہ حضرت مسیح موعودؑ نےجو بھی تعلیمات ہمیں دی ہیں وہ تمام تر قرآن کریم اور رسول اللہﷺ کے فرمودات کےعین مطابق ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے جھوٹ اور دروغ گوئی کو سنگین گناہ اور تمام برائیوں کی جڑ قرار دیاہےکہ جو بےشمار خرابیوں اور اخلاقی پستی کی طرف لے جاتی ہے۔

جھوٹ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:’’حقیقت میں جب تک انسان جھوٹ ترک نہیں کرتا وہ مطہر نہیں ہوسکتا۔ نابکار دنیا دار کہہ سکتے ہیں کہ جھوٹ کے بغیر گذارہ نہیں ہوتا۔ یہ ایک بیہودہ گوئی ہے۔‘‘ حضرت مسیح موعودؑ مزید فرماتے ہیںکہ ’’اگر سچ سے گذارہ نہیں ہوسکتا۔ تو پھر جھوٹ سے ہرگز گذارہ نہیں ہوسکتا۔‘‘ حضورؑ فرماتے ہیں کہ’’افسوس کہ یہ بدبخت لوگ خداتعالیٰ کی قدر نہیں کرتے۔ وہ نہیں جانتے کہ خداتعالیٰ کے فضل کے بدوں گذارہ نہیں ہوسکتا۔ وہ اپنا معبود اور مشکل کشا جھوٹ کی نجاست کو ہی سمجھتے ہیں۔‘‘ آپؑ نے فرمایا:’’اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں جھوٹ کو بتوں کی نجاست کے ساتھ وابستہ کرکے بیان فرمایا ہے۔‘‘ حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جس جگہ بت پرستی سے اپنی نفرت کا اظہار فرمایا ہے وہیں اُس نے جھوٹ سے بھی کراہت اور ناپسندیدگی کا ذکر کیا ہے اور اس طرح خداتعالیٰ نے ان دونوں کو آپس میں جوڑا ہے۔ حضورؑ مزید فرماتے ہیں:’’یقیناً سمجھو کہ ہم ایک قدم کیا ایک سانس بھی خداتعالیٰ کے فضل کے بغیر نہیں لےسکتے۔‘‘(ملفوظات جلد اول صفحہ ۳۶۷ ایڈیشن ۱۹۸۴ء) جب ہم خدا کی مدد اور اس کے فضل کے بغیر ایک قدم بلکہ ایک سانس بھی نہیں لے سکتے تو پھر کوئی بھی سمجھ دارشخص جھوٹ پر انحصار کیونکر کرے گا۔

پس آج احمدی نَوجوانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر قسم کے جھوٹ اور فریب کے خلاف باقاعدہ تحریک اورمہم چلائیں، اوراس سلسلے میں اپنے ذاتی نمونے قائم کریں۔ ہر خادم اور طفل کو یہ عہد کرنا چاہیے کہ وہ کبھی بھی جھوٹ سے کام نہیں لے گاکیونکہ جھوٹ شرک کا مترادف ہے۔ ایک جانب تو ہم فخر کے ساتھ اعلان کرتے ہیں کہ ہم اخلاص کے ساتھ خدا کے حضور جھکنے والے، اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کی جماعت ہیں جبکہ دوسری جانب ہمارے درمیان ایسے لوگ بھی موجود ہیں کہ جو اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات اور ادنیٰ مقاصد کے لیے جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں۔یہ بات خوب اچھی طرح واضح ہوجانی چاہیے کہ جو لوگ جھوٹ پر انحصار جاری رکھے ہوئے ہیں وہ خدا تعالیٰ سے مددکی امید نہ رکھیں کیونکہ وہ ان کی دعاؤں کو ہرگز قبول نہیں کرے گا۔ جیساکہ مَیں نے کہا کہ

اب وقت آچکا ہے کہ ہر خادم اور ہر طفل یہ عہد کرے کہ وہ کبھی جھوٹ نہیں بولے گا۔ اب وہ وقت ہےکہ آپ سچائی کے قیام کےلیے باقاعدہ تحریک چلائیں اور اللہ تعالیٰ کی بہترین رنگ میں عبادت کرنے والے اور اخلاق کے بلند معیار قائم کرنے والے بن جائیں۔

اگر ہمارے نَوجوان ہر قسم کے جھوٹ کو ترک کرنے والے اور سچائی پر قائم ہونے والے بن جائیں توباقی تمام عمدہ اخلاق از خود ان میں پیدا ہوجائیں گے۔مثلاً اگر کوئی شخص جھوٹ کو چھوڑ دیتا ہے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ دھوکا دہی کا مرتکب ہوسکے۔اسی طرح نہ وہ اپنے عہدوں کو توڑنے والے ہوسکتے ہیں اور نہ ہی وہ لعن طعن کرنے والے اورناپاک زبان کااستعمال کرنے والے ہو سکتے ہیں۔ بلکہ ایسے مرد یا ایسی عورتیں تو اُن اچھے اخلاق کو اپنانے والے ہوں گے کہ جو ایک روادار اور پُرامن معاشرے کے قیام کے لیے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔بےشک آج کے معاشرے میں، خواہ چھوٹے پیمانے پر گھریلو ماحول میں یا پھر وسیع تر سطح پر عمومی معاشرے میں پھیلی ہوئی حد درجہ ناانصافی اور بدنظمی کی بنیادی وجوہات یہی عہد شکنی اور جھوٹ ہیں۔ پس آپ کویہ بات یقینی بنانا ہوگی کہ آپ جھوٹ سے کام نہ لیں بلکہ کبھی بھی سچ سے ذرّہ برابر بھی انحراف نہ کریں۔ اگر ہم نیکی اور تقویٰ کے ان معیاروں کو حاصل کرنے والے ہوں جو ہمیں نفاق کی زنجیروں سے آزادی دلانے والے ہیں تو تب ہی ہم دین کو دنیاپر مقدّم رکھنے کے اپنے عہدوں کو پورا کرنے والے بن سکتے ہیں۔

اگر تمام احمدی نَوجوان اِن بلند معیاروں کو حاصل کرنےوالےبن جائیں تو وہ معاشرے میں وسیع ترپاک تبدیلی پیدا کرنےوالے اور ایک خادم سےوابستہ اُن توقعات کو پورا کرنے والے بن جائیں گے جو حضرت مصلح موعودؓ نے گہرےغورو فکر کےبعد قائم فرمائی تھیں یعنی ’’قوموں کی اصلاح نَوجوانوں کی اصلاح کے بغیر نہیں ہوسکتی۔‘‘

ہمیشہ یاد رکھیں! کہ حضرت مصلح موعودؓ کے یہ سنہری الفاظ محض خدام الاحمدیہ کے اجتماعات وغیرہ کےموقعے پر بینرز (banners)پر آویزاں کرنے کے لیے نہیں ہیں۔ چند سال پہلے مَیں نے مجلس خدام الاحمدیہ کو اس نصب العین کے بیجز (Badges) تیار کروانے کی ہدایت کی تھی، اس کا مقصد بھی یہی تھا کہ اس طرح حضرت مصلح موعودؓ کے یہ زرّیں الفاظ ہمیشہ خدّام کے پیشِ نظر رہیں۔

لیکن جب تک ہمارے نَوجوان پختہ ارادے اور پورے استقلال کے ساتھ اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرکے قوم کی اصلاح کا بیڑہ نہیں اٹھاتے تب تک ہم جتنے مرضی بینراور بیجز بنالیں یہ سب بےمعنی اور بےمقصد رہیں گے۔ پس ہر خادم اور ہر طفل کو پوری جاں فشانی کے ساتھ اپنی اصلاح اور پاک تبدیلی کے لیے یہ سوچتے ہوئےکوشش کرنا ہوگی کہ یہ اُس کی ذاتی ذمہ داری اور مشن ہے کہ وہ اپنی قوم اور لوگوں کی راہنمائی اور اصلاح کے لیے نمونہ قائم کرے۔

ہر احمدی کا یہ فرض اور ذمہ داری ہے کہ وہ تبلیغ کےذریعے حقیقی اسلام کے پیغام کو پھیلائے۔

پس آپ سب کو خدا تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے مشن کی تکمیل کے لیے پورے زور کے ساتھ اپنے روحانی اور اخلاقی معیاروں کو بلند کرنا ہوگا۔ آپ کے قول و عمل میں ہلکا سا بھی تضاد نہ ہو۔ آپ جس چیز کی تبلیغ کرتے ہیں اس پر عمل بھی کریں ورنہ آپ جھوٹ کے مرتکب ہورہے ہوں گے جسے رسول اللہﷺ نے منافق کی علامت قرار دیا ہے۔ اسی طرح ہر خادم، طفل اورہر عہدے دار بلکہ ہر احمدی کو سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کےان الفاظ پر مسلسل غور کرتے رہنا چاہیے۔ آپ کو یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ یہ بیش بہا اور نادر الفاظ محض فقرہ یا نعرہ نہیں بلکہ ایک مسلسل دعوتِ عمل اور احمدی نَوجوانوں کے اخلاقی معیار کا مظہر ہیں۔ یہ الفاظ ہر خادم کے لیے ایک مطمح نظر اور مقصد کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ الفاظ آپ کو اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی اور دنیا میں پاک تبدیلی کے لیےکوشش پر آمادہ کرنے والے ہونے چاہئیں۔آپ کا ہر قدم آپ کو نیکی میں بڑھانے والا ہو کیونکہ آپ کی روحانی ترقی اور اصلاح جماعت کی کامیابی اور ترقی کی ضامن ہے۔

وہ نَوجوان جنہوں نے ابھی خدام الاحمدیہ میں قدم رکھا ہے مَیں ان سے بھی یہ کہنا چاہتاہوں کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ ابھی ان کے کھیل کُود اور تفریح کے دن ہیں۔ آپ اپنی اُس عمر کو پہنچ چکے ہیں کہ جہاں آپ کی سوچ اور عمل دونوں میں روزانہ کی بنیاد پر پختگی پیدا ہونی چاہیے۔

گذشتہ کچھ عرصےسے مَیں اپنے جمعہ کے خُطبات میں اسلام کے ابتدائی دَور کی تاریخ بیان کر رہا ہوں اور اِس دوران مَیں نے اُس عہد کے بہت سے نَوجوانوں کے واقعات بھی بیان کیے ہیں جو آپ کےہی ہم عمر تھے اور جنہوں نے اسلام کی خاطر بڑی غیرمعمولی قربانیاں دےکر عظیم الشان کامیابیاں سمیٹیں۔

یہ سب اس لیے ہوسکا کیونکہ وہ اپنے مقصد اور اس راہ میں حائل رکاوٹوں سے خوب اچھی طرح واقف تھے۔ وہ جانتے تھے کہ ہرموقعے پرعمدہ اخلاق کا مظاہرہ کرنا اور اپنے مقصدِ حیات کواللہ تعالیٰ کی عبادت کے ذریعے حاصل کرنے کا انحصار خود اُن پر ہے اوریہ اُن کی ذمہ داری ہے۔ وہ اپنے مقصدِ پیدائش کو سمجھنے والے اور بطور نَوعمر مسلمان اپنی قدرو قیمت اور اہمیت سے خوب اچھی طرح واقف تھے۔

یہی وجہ ہےکہ انہوں نے بےحیائی اور جہالت کے لیے مشہور اُس معاشرے میں پاک تبدیلی پیدا کرنےمیں غیرمعمولی کردار اداکرکے اُسےایسے نیک اور پاکیزہ معاشرے میں تبدیل کردیا کہ جس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی اور جو رہتی دنیا تک انسانیت کےلیے مشعلِ راہ بنی رہے گی۔

آج کے دَور میں رسول اللہﷺ کے دعوے کی صداقت پر کامل ایمان کے باعث اب یہ آپ سب کا فرض ہے کہ زندگی کے ہرمیدان میں خواہ آپ کے ذاتی معاملات ہوں یا آپ کے وعدے، عہد یا دعوے، غرض ہر ایک معاملے میں سچائی اور قولِ سدید آپ کا اوڑھنا بچھونا ہو۔

آپ ہمیشہ اپنی زبان کو بےحیائی اور بدکلامی سے پاک رکھنےوالے ہوں، بلکہ آپ کی زبان ہمیشہ خداتعالیٰ کی حمدو ثنا اور اس کے ذکر سے معطّر رہے۔

آج کے دن سے آپ کی سوچ میں سنجیدگی اور عمل میں پختگی آجانی چاہیے اور آپ کو اپنے مقام اور اپنی بھاری ذمہ داریوں کا احساس ہوجانا چاہیے۔ مَیں نے پہلے ذکر کیا کہ کس طرح آپ نے دین کو دنیاکی ہرایک چیز پر مقدّم رکھنےکا عہد کیا ہے اور یہ کوئی ایسی بات نہیں کہ جسے آپ معمولی خیال کریں۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ وَاَوۡفُوۡا بِالۡعَہۡدِ ۚ اِنَّ الۡعَہۡدَ کَانَ مَسۡـُٔوۡلًا (بنی اسرائیل:35) یعنی عہد کو پورا کرو یقیناً عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے بڑی وضاحت کے ساتھ فرمایا ہے کہ ہر ایک شخص اپنے عہدوں اور وعدوں کے بارے میں جواب دہ ہوگا۔ پس اس غلط فہمی کا شکار نہ ہوں کہ یہاں کھڑے ہوکر خدام الاحمدیہ کا عہد یا بیعت کے الفاظ دہرا لینا کافی ہے۔ نہیں! بلکہ آپ کو اس عہد کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے جو آپ نے سرِ عام دنیا کے سامنے اور خلیفۂ وقت کے روبرو باندھا ہے یہ جانتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ دین کو دنیا پر مقدّم رکھنے کے اس عہد کےبارےمیں، جو آپ نے اعلانیہ طور پر کیا ہے ایک روز آپ سے باز پرس کرے گا؛ ہرلمحہ اور ہر آن اس عہد کی پاس داری کےلیےآپ کو کوشاں رہنا چاہیے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی جماعت اور خلیفۂ وقت کی کامل اطاعت اور وفاداری کےعہد کے متعلق بھی آپ سے سوال کرے گا۔ پس

اپنے ایمان اور ملک و قوم کی خاطر کیے گئےاس عہد کونبھانےکےلیے اپنا پورا زور لگادیں،اپنے اندر پاک تبدیلی اور اچھی نیک عادات پیدا کرتے ہوئے، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی اور اعلیٰ اخلاق پر ہمیشہ کاربند رہتے ہوئےمسلسل اپنے اس عہد کو نبھاتے چلے جائیں۔ یہ ہر ایک خادم کی ذمہ داری اور اس کا فرض ہے۔

اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے کہ آپ اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے والے اور بہترین اخلاق اور نیکیوں کا مظاہرہ کرنے والے ہوں۔ خداکرے کہ آپ سچائی پر قائم رہنے والے اور ہر ایک طرح کے جھوٹ سے نفرت کرنے والے ہوں۔ خدا کرے کہ آپ اپنے عہدوں اوروعدوں کوخواہ وہ کتنے ہی معمولی کیوں نہ ہوں پورا کرنے والے بنیں۔ خدا کرے کہ آپ پوری کوشش اور مضبوط عزم و ہمت کےساتھ نیکیوں میں قدم آگے سے آگے بڑھاتے چلے جائیں۔

خدا کرے کہ آپ اسلام کی تبلیغ اور اس کے پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے اپنے عہد کو نبھانے والےہوں۔ خداکرےکہ محمد رسول اللہﷺ اور حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی تعلیمات کا جھنڈا دنیا کے گوشے گوشے میں لہرانے کی خواہش اور پُرخلوص جذبہ آپ میں پیدا ہو۔

خدا کرے کہ آپ ہمیشہ نرم اور پاک زبان کااستعمال کرنے والےہوں، آپ کے اعمال بلند ترین معیار کے حامل ہوں تاکہ آپ سچائی اور صداقت اور اخلاص اور نیکی کی وہ اعلیٰ مثال بن جائیں جو تمام بنی نوع انسان کےلیے مشعلِ راہ ہو۔ یقیناً جب آپ ان معیاروں کوحاصل کرنے والے ہوں گے تو آپ معاشرے میں اخلاقی انقلاب برپا کرنے والے بن رہےہوں گے۔ آپ وہ مشعل بردار ہوں گے جو اس دائمی صداقت کی شمع سے ساری دنیا کو منوّر کرنے والے اور دنیا کوظلمت کے اندھیروں سے نکالنے والے ہوں گے۔

جیساکہ

مَیں نے کہا کہ اسلام کی ابتدائی تاریخ اس امر پر شاہد ہے کہ وہ نَو عمر نَوجوان ہی تھے جنہوں نے عظیم الشان اور ناقابلِ فراموش کامیابیاں حاصل کیں۔

پس آپ خود کوہرگز کمزور گمان نہ کریں نہ ہی یہ سوچیں کہ آپ اپنی کم عمری کی وجہ سے معاشرےمیں روحانی اور اخلاقی انقلاب برپا نہیں کرسکتے۔ خواہ آپ پندرہ سال کے ہوں یا بیس یا تیس یا چالیس سال کے، یا کسی بھی اَور عمر کے ہوں خدمتِ اسلام کے ہر موقعے کو اِک نعمتِ عظمیٰ سمجھیں گویا یہ آپ کا آخری موقع ہے۔ بےشک ہر خادم اپنی عمر، علم اور تجربےکے مطابق حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی اور سچائی پر کاربند ہوکر اور اسی طرح اپنے عہدوں اور وعدوں کی پاس داری کرنے کے ذریعے اسلام اور سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے مشن کی تکمیل میں اپنا حصّہ ڈال سکتاہے۔

اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو آسمانِ احمدیت کا درخشندہ ستارہ بنادے اور آپ اپنے مقصدِ پیدائش کو حاصل کرنے والے بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ مجلس خدّام الاحمدیہ پر ہر لحاظ سے اپنا فضل فرماتا چلا جائے۔ آمین

اب میرے ساتھ دعا میں شامل ہوجائیں۔(دعا)

دعاکے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

یہ ایک اعلان ہے کہ شعبہ

اشاعت مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ کومشعلِ راہ جلد اوّل کے پہلے نصف حصہ کو (انگریزی میں) ترجمہ کرکے شائع کرنے کی سعادت مل رہی ہے۔

یہ کتاب1938ء میں مجلس خدام الاحمدیہ کے قیام کے موقعےپر سیّدنا حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کے تاریخی خطاب سے لےکر مجلس خدام الاحمدیہ کے ابتدائی برسوں کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ انگریزی ترجمہ چھبیس خطابات اور بارہ نظموں پر مشتمل ہے۔

مَیں نے اس کا نام Beacon for the Youth رکھا ہے۔

اللہ کرے کہ یہ مجموعہ نَوجوانوں کی تعلیم و تربیت میں ممد و معاون ثابت ہو۔ آمین

اسی طرح Salat Hubموبائل ایپلیکیشن کے متعلق بھی ایک اعلان ہے۔ یہ Salat Hub موبائل ایپلیکیشن مجلس اطفال الاحمدیہ برطانیہ نے بنائی ہے۔ Salat Hubویب سائٹ کا گذشتہ برس آغاز ہوا تھا اور اب یہ موبائل ایپلیکیشن متعارف کروائی جارہی ہے جو جدید طریقوں کےذریعےنماز اور اس کا ترجمہ سیکھنے میں مدد کرے گی۔ اس ایپلیکیشن میں بہت سی دلچسپ سرگرمیاں ہیں۔ ایپ استعمال کرنے والا نئے سے نئے لیول کو Unlockکرکے اپنی پیش رفت کا جائزہ بھی لےسکتا ہے۔ بچے نماز سیکھنے کے مراحل میں badgesبھی حاصل کرسکتے ہیں اور یہ تمام badges قرآن کریم میں مذکور عربی الفاظ پر مشتمل ہیں جن کے ساتھ اِن الفاظ کی مختصر وضاحت بھی دی گئی ہے۔ ہر عمر کے افرادِ جماعت اس ایپلیکیشن سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ فی الوقت یہ ایپلیکیشن iOS ایپ سٹور پر دستیاب ہے۔ ان شاء اللہ جلد ہی یہ Android پر بھی میسر ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ یہ ایپلیکیشن نماز کو سیکھنے اور سمجھنے کا مفید ذریعہ ثابت ہو۔ آمین

خدّام اور اطفال کو اس ایپ سے استفادہ کرنا چاہیے۔

السلام علیکم ورحمة اللہ

(ترجمہ: ’نون۔الف۔ خان‘)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button