’’صَبَا شَرْمَنْدِہْ مِےْ گَرْدَدْ بِرُوْئے گُلْ نِگِہْ کَرْدَن‘‘کیا ہے ایک جھونکے نے گُلِ نازِک برہنہ تَن سرِ گلشن کیا مجبور اس کو ساتھ کلیوں کےجو پتّوں نے بھی اس کے ناچنے کو چھیڑ دی راگن نگاہیں روز حسنِ یار کا دیدار کرتی ہیںمگر پھر بھی جھلکتا ہے نظر میں صاف تشنہ پن یہ اس کی قوّت قدسی کا ہی اعجاز ہے واللہکہ اجلا ہوگیا ظاہر، مِرا من بھی ہوا روشن مِرے دل کی زمیں پر اس کی رحمت اس طرح برسیکلی ہر کِھل گئی دل کی، مہکنے لگ گیا آنگن یوں آیا موسمِ ساون ہر اک ٹہنی پہ بار آیالدا اثمار کلیوں اور پھولوں سے مرا گلشن کرے گا نورِ قرآں دُور میری قبر کی وحشتہر اِک آیت بنے گی ان اندھیروں میں نیا روزن خدایا اَور کیا مانگوں، فقط اتنی تمنّا ہےدرودِ پاک بن جائے بروزِ حشر پیراہن تیرے در کی گدائی میں عجب تاثیر رکھی ہےلگائیں لَو اگر تجھ سے کہیں لگتا نہیں ہے من ظفؔر عاصی کے عصیاں جس نے سارے ڈھانپ رکھے ہیںخدائے مہرباں ہے وہ، ہے جس کی ذات ذوالمنن